بدھ، 31 جولائی، 2024

حقیقی کامیابی

 

حقیقی کامیابی

آج کے اس معاشرے میں کامیاب اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جس کے پاس بہت زیادہ دولت ہو ، بڑا بنگلہ ہو نوکر چاکرہوں یا پھر وہ کسی بہت بڑے عہدے پر فائز ہو۔ یاپھر وہ نوجوان جو امتحان میں اچھے نمبر حاصل کر لے۔ یہ ساری کامیابیاں دنیوی طور پر تو ٹھیک ہیں لیکن کیا یہ ہمیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو کر یں گی۔ دنیا فانی ہے سب کچھ ایک دن ختم ہوجانا ہے۔ اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہو گی۔ حقیقی کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضاکو حاصل کرنا ہے اور قیامت کے دن جنت کو پالینا ہے۔ اگرہم نے دنیا میں بڑے بڑے بنگلے بنا لیے ہیں ، بہت سارا بینک بیلنس جمع کر لیا یا پھر بہت بڑے عہدے پر پہنچ گئے ہیں لیکن یہ سب کچھ ہمیں آخرت میں کامیاب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو ہم نے حقیقی کامیابی حاصل نہیں کی۔
 آج معاشرے میں دیکھا جائے تو دولت مند افراد مالی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود پریشانی اور بے چینی کا شکار نظر آتے ہیں اور ایک غریب آدمی تنگدستی اور فاقہ کشی کی حالت میں بھی پر سکون نظر آتا ہے۔ 
اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ دلوں کو سکون صرف اور صرف اللہ کی یاد سے ہی حاصل ہوتا ہے اور حقیقی کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت حاصل کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے “( سورة آل عمران )۔ 
حقیقی کامیابی ما ل و دولت کو جمع کرنا نہیں بلکہ حقیقی طور پر وہی شخص کامیاب ہے جس نے خود کو جہنم کی آگ سے بچا لیا اور جنت میں داخل ہو گیا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے خالص اور باطنی بیماریوں سے محفوط کر لیا ، اپنی زبان کو سچا اور نفس کو تقدیر الٰہی پر راضی کر لیا ، اپنی فطرت کو درست رکھا ، اپنے کان کو سننے والا اور آنکھ کو دیکھنے والا بنالیا۔ بیشک کان وہی سنتے ہیں اور آنکھ اسی سے ہی سکون پاتی ہے جس کا دل ارادہ کرتا ہے اور وہ شخص کامیاب ہو گیا جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ کردیا۔ (مسند امام احمد )۔
حضرت امام عبد اللہ بن عمر بیضاوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں جو بندہ اللہ تعالیٰ اور رسول خدا کی فرمانبرداری کرے گا دنیا میں اس کی تعریفیں ہوں گی اور آخرت میں وہ سعادت مندی سے سرفراز ہو گا۔ 
حضرت ابو محمد حبیب عجمی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں بندے کے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ جب وہ مرے تو اس کے ساتھ اس کے گناہ بھی مر جائیں۔ ( حلیة الاولیائ)۔
حضرت عبد اللہ بن عبد العزیز فرماتے ہیں وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے آپ کو مسائل میں الجھنے ، غصہ کرنے اور حرص سے دور رکھا۔ (حلیة الالیائ)۔

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 35 part-01.Kya zindagi ka imt...

منگل، 30 جولائی، 2024

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 34.Zindagi ki haqeeqat kya hay?

ذکر الٰہی سے دوری اور تنگ زندگانی

 

ذکر الٰہی سے دوری اور تنگ زندگانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے :” اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگانی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔ کہے گا اے میرے رب مجھے تو نے اندھا کیوں اٹھایا میں تو دیکھتا تھا “۔ ( سورة طٰہٰ)۔
اس آیت مبارکہ میں ذکر سے مراد دین الہی ، کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنا ہے ایک قول کے مطابق ذکرسے مراد یہ ہے کہ اسلام کے دین حق ہونے پر جو دلائل نازل کیے گئے ہیں اور اس سے مراد ذکر مصطفی بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ذکرآپ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ 
”ضنکا“ ضنک کا مطلب ہے تنگی ہے۔ اور حضرت ابو عبیدہ فرماتے ہیں اس سے مراد تنگی میں بسر ہونے والی زندگی ہے۔ ہر زندگی جو تنگی میں بسر ہو یا تنگ جگہ ہو یا تنگ منزل ہو اسے ”ضنک“ کہتے ہیں۔ یعنی جو بندہ ذکر الہی کرنا چھوڑ دیتا ہے اس کی زندگی سے خوشحالی ختم ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن بھی اسے اندھا اٹھایا جائے گا۔
دنیا میں تنگی : دنیا کی تنگی یہ ہے کہ بندہ ہدایت کی پیروی نہ کرے ، برے عمل اور حرام کاموں کی طرف راغب ہو ، قناعت سے محروم ہو کر حرص میں مبتلا ہو جائے اور مال کی کثرت کے باوجود کنجوسی کرے اور سکون میسر نہ ہو۔ دل ہر چیز کی طلب اور حرص میں مبتلاہو جائے، حال تاریک اور وقت خراب رہے اورتوکل کرنے والے مومن کی طرح اس کو سکون میسر نہ ہو۔
قبر میں تنگی : قبر کی تنگی یہ ہے کہ قبر میں عذاب دیا جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ معیشت ضنک کیا ہے ؟ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ ہی زیادہ جانتے ہیں ہمیں بتائیں یہ کیا ہوتی ہے۔ یہ قبر میں کافر کا عذاب ہے اور اس ذات کی قسم جس کے بضہ قدرت میں میری جان ہے کافر پر ننانوے تنین مسلط کیے جائیں گے۔ کیا تم جانتے ہو یہ تنین کیا ہے ؟ وہ ننانوے سانپ ہیں اور ہر سانپ کے پانچ پھن ہیں وہ اس کے جسم میں پھونکیں ماریں گے اور قیامت تک اس کو ڈستے اور نوچتے رہیں گے۔ 
آخرت میں تنگی : آخرت میں تنگ زندگی جہنم کے عذاب میں مبتلا ہونا ہے جہاں جہنمیوں کو کھولتا پانی اور خون اور ان کی پیپ کھانے کو دی جائے گی۔ 
دین میں تنگی : اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ دین سے دور ہو جائے اور آدمی حرام کمانے میں مبتلا ہو جائے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں بندے کو تھوڑا ملے یا زیادہ اگر اس میں خوف خدا نہیں تو اس میں کچھ بھلائی نہیں اور یہ تنگ زندگی ہے۔

Naiki kab shuru hote hay?

Surah Al-Anbiya Ayat 30-33 part-02.کیا ہم اللہ تعالی کی یاد سے غافل ہو ...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 30-33 Part-01.کیا ہماری روش م...

پیر، 29 جولائی، 2024

رضا کی حقیقت (۲)


 

رضا کی حقیقت (۲)


 اگر معرفت بندے کے لیے حجاب اور قید کا باعث بن جائے تو وہ معرفت جہالت ،وہ نعمت زحمت اور عطا پردہ بن جاتی ہے ۔ نعمت حقیقت میں وہ ہوتی ہے جو نعمت دینے والے کی دلیل بنے۔ اگر منعم سے حجاب ہے تو وہ نعمت بلا ہے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر راضی ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جو آزمائش میں آزمائش میں ڈالنے والے کا نظارہ کرتے ہیں اور اس آزمائش و مصیبت کی تکلیف و مشقت ، جمالِ دوست کے مشاہدے کی مستی اٹھاتے ہیں اور جمالِ یار کے مشاہدے کی خوشی میں ان کو آزمائش کے رنج رنج نظر نہیں آتے ۔ ان کے دل مخلوق کے خیال سے خالی اور یہ خود مقامات و احوال کی قید سے آزاد اور اللہ کی دوستی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور خود اپنی جانوں کے بھلے برے کے مالک نہیں اور نہ مرنے کا اختیار نہ جینے کا نہ اٹھنے کا ۔ ( سورۃ فرقان)
غیر اللہ کے ساتھ راضی ہونا خسران و ہلاکت کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا مسرت و نعمت کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا بادشاہی اور موجب عافیت ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کی تقدیر پر راضی نہیں ہوتا اس کا دل اپنے نصیب اور اسباب اور اس کا جسم ان چیزوں کے حصول کی مشقت و مصیبت میں مبتلاہو جاتاہے ۔ 
روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی، اے اللہ، مجھے ایسے کام کی رہنمائی فرما جسے کرنے میں تیری رضا حاصل کر لوں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا، اے موسیٰ، میری رضا اس میں ہے کہ تو میری تقدیر پر راضی رہے، یعنی جب بندہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے ۔ 
حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، رضا زہد سے افضل ہے اس لیے کہ صاحبِ رضا کی آخری تمنا یہی ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اس کے دل میں کوئی خواہش نہیں ہوتی جبکہ زاہد مقام رضا کا متمنی ہوتا ہے ۔ 
حضور نبی کریمﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے، اے اللہ، مجھے اپنی قضا و قدر پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما، یعنی مجھے وہ مقام عطا فرما جب تیری قضا و قدر مجھ پر وارد ہو تو توں مجھے اپنے رضا پر راضی پائے ۔ 
ابو العباس بن عطا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، رضا بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ازلی اختیار کی روشنی میں اپنے دل کی نگہداشت کا نام ہے اور انسان اس بات کا پابندہے اسے جو بھی تکلیف پہنچے تو وہ پریشان و مضطرب نہ ہو خندہ روخوش دل رہے اور یہ سمجھے کہ یہ حکم مقدر کا نتیجہ ہے ۔ 

Naiki kya hay?

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 26-29.کیا ہم نے اپنی خواہشات ...

اتوار، 28 جولائی، 2024

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 25 Part-02.کیا ہم شیطان کی عب...

رضا کی حقیقت (۱)

 

رضا کی حقیقت (۱)

سورۃ الا نعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے ‘‘۔( آیت :۱۱۹)۔ سورۃ الفتح میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے ‘‘۔(آیت:۱۸)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان کا حقیقی ذائقہ اس نے چکھا جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا ‘‘۔ 
رضا کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے سے راضی ہو جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ اس کی رضا پر راضی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ثواب ، نعمت اور کرامت عطا فرمائے۔ اور بندے کا راضی ہو نا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے اپنا سر جھکا لے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا بندے کی رضا سے افضل ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ توفیق نہ دے تب تک بندہ نہ ہی اس کی اطاعت کر سکے گا اور نہ ہی اس کی رضا پر قائم رہ سکے گا۔ 
بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے چاہے وہ عطا و بخشش ہو یا پھر رنج و تکلیف میں مبتلا ہو۔ بندہ مختلف احوال و کیفیات کے ورود میں مستقل مزاج رہے۔ چاہے وہ آتش ہیبت یا جلال حق سے جل رہا ہو یا پھر نور لطف وجمال سے بہرہ ور ہو رہا ہو۔ یہ دونوں صورتیں اس کے لیے ایک جیسی ہوں کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی طرف سے جو کچھ بھی ہے وہ درست ہے شرط یہ ہے کہ بندہ سچے دل سے اس پر راضی رہے۔ 
امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے حسن اختیار کے راز سے آگاہی حاصل ہو جائے وہ اس چیز کے علاوہ کسی چیز کی تمنا نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پسند کی ہے۔ 
جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے تو ہر غم و اندوہ سے نجات مل جاتی ہے اور وہ غفلت کے پنجے سے آزاد ہو جاتاہے اس کے دل سے غیر کی فکر ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ رضا نجات کا سبب اور ذریعہ ہے جو شخص عطا کرنے والے سے عطا کو دیکھتا ہے اور اس کو جان سے قبول کرتا ہے تو اس کے دل سے مشقت اور تکالیف دورہو جاتی ہیں اور جو شخص عطیہ سے عطا کرنے والے پر نظر کرتا ہے وہ عطا میں رک جاتا ہے اور تکلف سے رضا کی راہ پر چلتا ہے اور تکلف میں تکالیف اور مشقت ہوتی  ہے۔ بندے کو حقیقی معرفت اس وقت نصیب ہو تی ہے جب بندہ معرفت میں صاحب کشف ہو جاتا ہے۔

ہفتہ، 27 جولائی، 2024

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 25 Part-01.کیا ہم کلمہ طیبہ ک...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 24 Part-03.کیا ہم نے حق سے من...

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۳)

 

 حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۳)

”وہ قحط سالی کے دوران باران رحمت ہیں اور خوف و مصیبت کے وقت جنگل کے شیر ہیں “۔ یہ وہ گھرانا ہے جس کی محبت دین اور جس سے عداوت کفر ہے اور ان کا قرب امن و نجات کی پناہ گاہ ہے “۔ ”اگر متقی لوگوں کا ذکر آئے تو یہ ان کے امام ہیں اور اگر پوچھا جائے کہ روئے زمین پر سب سے افضل کون ہیں ؟ تو اس کے جواب میں ان ہی کی طرف اشارہ ہوتا ہے “۔
فرزوق نے حضرت امام زین العابدین ؓاور آپ کے خاندان کی شان و عظمت میں جب یہ قصیدہ پڑھا تو ہشام کو بالکل بھی اچھانہ لگا اور وہ بھڑک اٹھا۔ اس نے فرزدق کو قید کر دیا۔ 
جب حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سارے واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے فرزدق کے پاس بارہ ہزار درہم بھجوائے اور پیغام بھیجا کہ اے ابو فراس ہمیں معذور رکھنا کیونکہ اس وقت ہم امتحان و ابتلا ءمیں ہیں اور ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کچھ موجود نہیں۔ 
فرزدق نے یہ رقم واپس کر دی اور کہا کہ اے فرزند رسول میں نے سیم و زر کی خاطر بہت اشعار کہے ہیں میں نے یہ اشعار اپنے ان جھوٹے قصائد کے کفارے اور اللہ اور اس کے رسول اور فرزندان رسول سے عقیدت و محبت میں کہے ہیں۔
جب یہ پیغام حضرت امام زین العابدین کو ملا تو انہوں نے کہا کہ یہ رقم واپس اس کے پاس لے جاﺅ اور اس سے کہو کہ اے ابوفراس اگر تجھے ہم سے محبت ہے تو جو چیز ہم ایک مرتبہ کسی کو دے دیں تو اسے ہم اپنی ملک سے نکال چکے ہیں ہمیں واپس لینے پر مجبور نہ کرو اس پیغام کے بعد فرزدق نے یہ رقم قبول کر لی۔ 
حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ خوف خدا میں بہت زیادہ رویا کرتے تھے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وضو فرماتے تو خوف الہی کی وجہ سے آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا۔ گھر والوں نے دریافت کیا کہ وضو کرتے وقت آپ کو کیا ہو جاتا ہے ؟ تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تمہیں معلوم ہے میں کس کے سامنے کھڑا ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ ( احیاءالعلوم )
حضرت سیدنا اما م زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت زیادہ سخی تھے۔آپ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال اللہ تعالی کی راہ میں خیرات کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اہل مدینہ میں بہت سے غرباءکے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ رقم یا خیرات کہاں سے آ رہی ہے۔ ( سیر اعلام النبلائ)۔

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 24 Part-02.کیا ہم غیر اللہ کو...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 24 part-01.کیا ہم نے جھوٹ کو ...

جمعہ، 26 جولائی، 2024

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۲)

 

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۲)

وہاں ایک معروف شاعر فرزدق موجود تھا۔ اس نے کہا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں لوگوں نے کہا ہمیں اس خوبصورت اور اس قدر شان و شوکت والے نوجوان کے بارے میں بتاﺅ ۔ فرزدق نے آپ کے تعارف میں ایک خوبصورت قصیدہ پڑھا ۔
ترجمہ:” یہ وہ شخص ہے کہ مکہ معظمہ جس کے نقش قدم سے شناسا ہے اسے بہت اللہ والے اور باقی سب جانتے ہیں “۔ 
” یہ تمام مخلوق میں سب سے اعلی و افضل ہستی کے جگر گوشہ ہیں اور خود بھی متقی ، پاکباز اور صدق و صفا کا پیکر ہیں “۔ 
فرزدق نے ہشام کو مخاطب کرکے کہا:” اگر تو اسے نہیں جانتا تو جان لے یہ سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ ؓ کے لخت جگر ہیں اوریہ وہ ہیں جن کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا “۔ 
” جس وقت آؓ پ پر قریش کی نگاہ پڑھتی ہے تو ان میں سے ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ اوصاف حمیدہ ان پر ختم ہیں “۔ ”وہ عزت کی ان بلندیوں پر فائز ہیں جن تک پہنچنے سے تمام مسلمان جو عرب و عجم میں رہتے ہیں سب قا صر ہیں “۔ ”ان کے جد امجد وہ ہیں جن کے اندر تمام انبیاءکرام علیہم السلام کی فضیلتیں جمع ہو گئی ہیں اور آپﷺ کی امت میں تمام امت کے فضائل اکٹھے ہو گئے ہیں “۔ 
”ان کی پیشانی کے نور سے اندھیرے اس طرح منور ہو گئے ہیں جس طرح آفتاب کی آمد سے تاریکیاں ختم ہو جاتی ہیں “۔
”حجر اسود نے آپؓ کو آپؓ کی خوشبو کی وجہ سے پہچان لیا ہے تا کہ وہ اسے بوسہ دینے آئیں تو حجر اسود خود ہاتھ چوم لے “۔ 
”ان کی آنکھیں حیا کی وجہ سے جھکی ہیں مگر لوگوں نے ان کی ہیبت کی وجہ سے آپنی آنکھیں جھکا رکھی ہیں ، ہیبت کی وجہ سے کسی کو بات کرنے کی جرات ہی نہیں ہوتی سوائے اس وقت کے جب آپؓ متبسم ہو ں “۔ 
”آپؓ کے ہاتھ میں بیدمشک کی چھڑی ہے جسن کی خوشبو انتہائی دلکش ہے اس کی ہتھیلی سے خوشبو مہک رہی ہے اور وہ نہایت بلند مرتبہ سردار ہیں “۔ ”آپؓ کے اوساف آپؓ کو رسول خدا ﷺ کے اوصاف سے عطا ہو ئے ہیں آپؓ کا ضمیر اور عادات و خصائل سب پاک ہیں “۔ 
” آپؓ کے دست کرم کی موسلا دھار بارش کا فیض عام ہے ، وہ ہمیشہ بخشش و عطا میں مصروف رہتے ہیں اور مال کا نہ ہو نا ان کو کبھی اس بخشش سے خالی نہیں کرتا “۔ ” مخلوق پر آپ کے احسان عام ہیں اور آپ کی وجہ سے مخلوق نے گمراہی ، تنگدستی اور ظلم سے نجات پائی “۔ ” کوشخص سخاوت و بخشش میں آپؓ کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کوئی قوم اس بارے میں ان کی ہمسری کر سکتی ہے چاہے اس کے افراد کتنے ہی صاحب بخشش ہوں “۔ 

کیا رضائے الٰہی کی ہمارے لئے بہت اہمیت ہے؟

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 19-23.کیا ہمارا معبود اللہ تع...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 16-18 Pt-02.کیا ہم زندگی کی ح...

جمعرات، 25 جولائی، 2024

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۱)

 

  حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(۱)

وارث نبوت ، چراغ امت ، سید مظلوم حضرت سیدنا امام زین العابدین بن حسین رضی اللہ تعالی عنھما آپ اپنے زمانے کے بہت بڑے عابد اور سب سے معزز تھے۔ آپؓ واقعہ کربلا کے وقت امام عالی مقام امام حسینؓ کے ساتھ تھے لیکن بیمار ہونے کی وجہ سے خیمے میں رہے۔ آپؓ حقائق کے بیان اور وقائق کے انکشاف و اظہار کے لیے مشہور تھے۔ آپؓ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ دنیا و آخرت میں سے زیادہ نیک بخت شخص کون ہو گا ؟ آپؓ نے فرمایا وہ جو راضی ہو تو باطل کی طرف نہ بھٹکے اور ناراض ہوتو حق کو نہ چھوڑے۔اور یہ صفت انہی لوگوں میں ہوتی ہے جو کمال کی استقامت رکھتے ہوں۔ کیونکہ باطل پر راضی ہونا بھی باطل ہے اور اسی طرح غصے کی حالت میں حق کو چھوڑ دینا بھی باطل ہے اور مومن تو کسی صورت بھی باطل کو اختیار نہیں کرے گا۔ جب آپؓ کو قیدی بناکر یزید کے سامنے لایا گیا تو کسی نے آپؓ سے پوچھا ’’اے علی اور رحمت کے گھرانے والو! آپ لوگوں کی صبح کیسی ہوئی۔ آپؓ نے فرمایا : ’’ہماری صبح یزید کے جو رو جفا سے اسی طرح ہوئی ہے جس طرح موسی علیہ السلام کی قوم کی صبح فرعون کے ظلم سے ہوئی تھی۔ اِنہوں نے ہمارے بھائی بیٹوں کو شہید کر دیا اور عورتوں کو رہنے دیا ہمیں نہ اپنی صبح کی خبر ہے اور نہ ہی شام کی یہ ہمارے امتحان کی حقیقت ہے ‘‘۔ اور ہم ہر حال میں اللہ تعالی کی نعمتوں پر اس کا شکر اداکرتے ہیں اور اس کی آزمائش پر اس کی حمدو ثناء بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہشام بن عبدالمالک بن مروان حج کے لیے آیا خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس نے حجر اسود کو چومنے کی کوشش کی لیکن بہت زیادہ مجمعے کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکا اور پیچھے ہٹ گیا اور منبر پر چڑھ کر خطبہ دینے لگا۔ حضرت امام زین العابدینؓ جب تشریف لائے آپؓ کا چہرہ انور چاند کی طرح روشن تھا۔ انہوں نے پہلے طواف کیا اور جب حجر اسود کو بوسہ دینے لگے تو لوگوں نے راستہ چھوڑ دیا اور آپؓ نے حجر اسودکو بوسہ دیا۔ اہل شام میں سے ایک شخص نے ہشام سے کہا کہ تم بادشاہ ہو لیکن لوگوں نے تمہارے لیے راستہ خالی نہیں چھوڑا لیکن جیسے ہی یہ خوبصورت نوجوان آگے بڑھا تو لوگ ان کے لیے پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ ہشام نے کہا کہ میں تو انہیں  نہیں جانتا۔ہشام نے یہ اس لیے کہا کہ کہیں لوگ آپؓ کو پہچان کر آپؓکے گرودیدہ نہ ہو جائیں اور میری حکومت کے لیے خطرے کا باعث نہ بن جائیں۔

کیا ہم زندگی آخرت کی کامیابی کے لیے گزار رہے ہیں؟ - Shortvideo

بدھ، 24 جولائی، 2024

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 10-15 Part-02.کیا ہم صرف اپنے...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 10-11 Part-01.کیا ہم دنیا کے ...

احسان جتلانے پر وعید(۲)

 

 احسان جتلانے پر وعید(۲)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : احسان جتانے والا ، ماں باپ کا نا فرمان، شراب کا عادی ، جادو پر ایمان رکھنے والا اور کاہن جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ( شعب الایمان )۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس کے نیچے دریا بہہ رہے ہوں اس کے لیے اس باغ میں ہر قسم کے پھل ہوں اور اس کو بڑھاپا آجائے اوراس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو (اچانک)اس باغ میں گرم ہوا کا ایک بگولہ آئے جس میں آگ ہو اور وہ باغ جل جائے۔ اللہ تمہارے لیے اسی طرح آیتیں بیان فرماتا ہے 
تا کہ تم غور و فکر کرو۔ ( سورة البقرة : ۶۶۲)۔
احسان جتانے والے کو مزید یہ مثال دے کر بتایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس حسین اور پھل دار باغ ہوں اور اس کو بڑھاپا آچکا ہو اور کمانے سے قاصر ہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں جن کی پرورش اس کے ذمہ ہو اور اس کا سارا دارومدار اسی باغ پرہو اور اچانک وہ باغ جل جائے تو اس کے نقصان اور محرومی کا کیا عالم ہو گا۔ یہی مثال ایسے شخص کی ہے جو غرباءو مساکین کو صدقہ وخیرات دے کر پھر ان کر احسان جتلائے اور ان کو ایذا دے تو اس شخص کے تمام صدقات و خیرات ضائع ہو جائیں گے تو ایسے شخص کی قیامت کے دن محرومی کا کیا عالم ہو گا جب کسی اور جگہ سے نیکی ملنے کی کوئی امید نہ ہو گی اور اسے نیکیوں کی سخت ضرورت ہو گی۔ 
حافظ اما م سیوطی فرماتے ہیں حضرت عمر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا اے امیر المومنین اللہ نے یہ مثال بیان کی ہے کہ کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ ساری عمر نیک اور صالح عمل کرے اور جب وہ بوڑھا ہو جائے اس کی موت قریب آ لگے اور وہ کمزور ہو چکا ہو اور اسے اس بات کی زیادہ ضرورت ہو کہ اس کے اعمال کا خاتمہ نیکیوں پر ہو اور اس وقت وہ دوزخیوں کے سے برے کام کرنا شروع کر دے ایسے برے کام جن سے اس کے سابقہ سارے نیک اعمال ضائع ہو جائیں اور اس کی زندگی کے سارے نیک کاموں کا باغ اس آخری برائی سے جل کر راکھ ہو جائے۔ یعنی صدقہ و خیرات کرنے والا ساری عمر لوگوں کی مدد کرتا رہے اور پھر ان کو احسان بھی جتلائے اور طعنے دے کر ایذاپہنچائے تو اس کے نامہ اعمال میں کچھ بھی نیکی نہ بچے گی۔

دین اسلام کی حقیقت - Shortvideo

منگل، 23 جولائی، 2024

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 07-09 Part-02.کیا ہم حد سے بڑ...

Surah Al-Anbiya Ayat 07-09 Part-01.کیا آج ہم اپنے دل سے دنیا کی محبت نک...

احسان جتلانے پر وعید(۱)

 

احسان جتلانے پر وعید(۱)

ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اے ایمان والو! احسان جتلا کر اپنے صدقات ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال ریاکاری کے لیے خرچ کرتا ہے اور وہ اللہ پراور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال اس چکنے پتھر کی طرح ہے جس پر کچھ مٹی ہو پھر اس پر زور کی بارش ہوئی جس نے اس پتھر کو بالکل صاف کر دیا وہ اپنی کمائی سے کسی چیز پر قدرت نہیں پائیں گے اور اللہ کا فروں کو ہدایت نہیں دیتا۔( سورۃ البقرۃ : ۲۶۴) 

قرآن مجید میں کافی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے صدقہ کی فضیلت اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب کا ذکر فرمایا ہے۔ صدقہ وخیرات کرنے سے دولت گردش میں رہتی ہے معاشرے میں موجود غرباء مساکین ، یتیموں اور بیوائوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم فرمایا ہے اور ساتھ میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی کو مال دے کر یا کسی کی مدد کر کے بعد میں اسے شرمندہ نہیں کریں۔ اگر کوئی شخص صدقہ دینے کے بعد اسے طعنہ دے کر اذیت پہنچائے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ اس شخص کی مدد نہ کرے اور اس سے معذرت کر لے اور کسی اور صاحب حیثیت کی طرف بھیج دے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ صدقہ دینے والا صدقہ دینے کے بعد اس کی دل آزاری کرے۔ اور پھر فرمایا کہ صدقہ و خیرات کرنے والا اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی رضا کی خاطر صدقہ کرے نہ کہ لوگوں کو دکھانے اور سنانے کے لیے۔ 
ریاکاری اور دکھلاواکرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی چکنے پتھر پر مٹی جمی ہو اور بارش نے اس کو بالکل صاف کر دیا۔احسان جتانے والے ، ایذا پہنچانے والے اور منافق کو چکنے پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یعنی جو شخص ریاکاری اور دکھلاوا کرنے اور لوگوں سے اپنی تعریف سننے کے لیے صدقہ و خیرات کرے گا قیامت کے دن اس کے نامہ اعمال میں سے سب کچھ دھل کر صاف ہو جائے گا اس کے نامہ اعمال میں ایک بھی نیکی نہیں بچے گی۔ 
امام ابن ابی حاتم نے حسن روایت نقل کی ہے کہ کچھ لوگ کسی آدمی کو اللہ کی راہ میں بھیجتے ہیں یاکسی آدمی پر خرچ کرتے ہیں ، پھر اس پر احسان جتاتے ہیں اوراس کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں میں نے اللہ کی راہ میں اتنااتنا خرچ کیا، اللہ کے نزدیک اس عمل کا شمار نہیں ہو گا اور جو لوگ کسی کو دے کر یہ کہتے ہیں کہ کیا میں نے تم کو فلاں فلاں چیز نہیں دی تھی وہ اس کو ایذا پہنچاتے ہیں۔

عقیدہ توحید کی کیا ضرورت ہے ؟ - Shortvideo

پیر، 22 جولائی، 2024

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 01-06 Part-02.کیا ہم نے قرآن ...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 01-02 Part-01.کیا ہم کھیل کود...

ورفعنا لک ذکرک(۲)

 

ورفعنا لک ذکرک(۲)

حضور نبی کریم ﷺ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نام کی طرف حضور نبی کریم ﷺ  کے نام کی نسبت کی ہے اور آپؐ کو جب بھی پکارا نبوت و رسالت کے وصف کے ساتھ پکارا جبکہ باقی انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ان کے اسماء کے ساتھ کیا ہے۔ اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے یہ عہد لیا کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ پر ایمان لائیں گے۔
رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا 
مرغ فردوس پس از حمد خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں
اما م فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں سب نے حضور نبی کریمﷺ کاذکر کیا ہے اور آپؐ کے نام کی شہرت تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور آپ ؐ کا نام اقدس عرش پر لکھا ہوا ہے۔ کلمہ شہادت اور تشہد میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا نام ہے۔ سابقہ آسمانی کتابوں میں آپؐ کا ذکر ہے تمام آفاق میں آپ کا ذکر پھیلا ہوا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نام کے ساتھ آپ ؐ کا ذکر کیا ہے۔’’واللہ و رسولہ احق ان یرضو ہ ‘‘(سورۃ التوبہ)
’’ اطیعواللہ واطیعو الرسول ‘‘(سورۃ النور) اور ’’من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ‘‘(سورۃ النساء) اللہ تعالی آپ کو نبی اور رسول کے عنوان سے ندا فرماتا ہے جبکہ باقی انبیاء کو اللہ تعالیٰ ان کے ناموں سے ندا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی ہے اور آپ سے محبت کرنے والے آپ ؐ کی نعت پڑھتے ہیں اور آپ ؐ کے فضائل بیان کرتے ہیں آپؐ پر درود پرھتے ہیں اور آپؐ  کی سنتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ 
اللہ تعالی نے رسول کریم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور آپ ؐ کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیا ہے۔
 ارشاد باری تعالی ہے :’’ بیشک جو لوگ آپؐ  کی بیعت کر رہے ہیں حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی بیعت کر رہے ہیں ‘‘۔ (سورۃ الفتح:۱۰)۔
کئی بے دینوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی شان و اقدس میں گستاخیاں کیں۔ آپ کے ذکر کو مٹانے کی کوشش کی مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور آپ ؐ کی خوبی روز بروز بڑھتی گئی اور بڑھتی رہے گی۔ 
ورفعنا لک ذکر ک کا ہے سایہ تجھ پر 
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا 
مٹ گئے مٹتے ہیں مت جائیں گے اعدا تیرے 
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا 
تو گھٹانے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے 
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالی تیرا

اتوار، 21 جولائی، 2024

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 133-135 Part-03.کیا ہم ایمان باللہ کا مط...

ورفعنا لک ذکرک(۱)

 

ورفعنا لک ذکرک(۱)

اللہ تعالی نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے۔ سارے انبیاء کرام بہت زیادہ شان و عظمت والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب درجوں پر بلند کیا ‘‘۔(سورۃ البقرۃ :۲۵۳)
تمام انبیاء کرام میں سب سے اعلی اور بلند شان و مرتبہ پر فائز نبی کریم رئوف الرحیم کی ذات مبارکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہم السلام کو صفی اللہ بنایا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ بنایا ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو روح اللہ بنایا ، حضرت موسیٰ علیہم السلام کو کلیم اللہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ بنا کر بھیجا۔ لیکن جب باری آئی امام الانبیاء خطیب الانبیاء نبی آخرالزماںؐکی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا حبیب بنا کر بھیجا اور یہ اعلان فرمایا کہ ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کر دیا ہے ‘‘( سورۃ الم نشرح : ۴)۔
حضور نبی کریم ﷺکی ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ  پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کر نا مخلوق پر لازم قرار دیا۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اقرار کرتا ہے لیکن اس کی عبادت اس وقت تک قبول نہیں جب تک وہ حضور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس پر ایمان نہ لے آئے اور آپ کی اطاعت نہ کرے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جس نے رسول کی اطاعت کی بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘‘۔ ( سورۃ النساء: ۸۰)
حضور نبی کریم رؤف الرحیم  کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ ؐکا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اذان ، اقامت ، نماز ، خطبے اور بہت ساری جگہوں پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر فرمایا ہے۔ 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اس آیت مبارکہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب بھی میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کابھی  ذ کر کیا جائے گا۔(جامع البیان)
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا ، ہر خطیب اور ہر تشہد پڑھنے والا ’’اشھدان الاالہ الا اللہ ‘‘ کے ساتھ اشھد ان محمد رسول اللہ ‘‘ پکارتا ہے

توحید کیا اور کیوں؟ - Shortvideo

ہفتہ، 20 جولائی، 2024

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 133-135 Part-02.کیا آج کا مسلمان برائے ن...

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 133-135 Part-01.کیا ہمارے دل دنیا کی محب...

ارشادات امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

 

ارشادات امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار تاریخ اسلام کے عظیم رہبروں اور رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ہو بھی کیوں نہ۔ آپکی تربیت اس گھرانے میں ہوئی جس جیسا گھرانہ پوری کائنات میں نہ تھا نہ ہے اور نہ ہی ہوگا۔ آپ کے نانا جان امام الانبیاء ہیں ، آپ کے والد گرامی امام الا لیاء ہیں ، آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ کائنات ہیں۔ جو ایسے عظیم گھرانے میں پلے بڑھے ہوں اور جن کی تربیت ان عظیم ہستیوں نے کی ہو تو ایسی ہستی کی سیرت و کردار قیامت تک کے آنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ اور بہترین نمونہ ہی ہو گی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے چند اقوال جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔آپ فرماتے ہیں۔ 
۱: جس کام کو پورا کرنے کی طاقت نہ ہو اسے اپنے ذمہ مت لو۔ ۲: اپنے فائدے اور اپنی ضروریات کے مطابق خرچ کرو اور اپنے کام سے زیادہ بدلے اور اجر کی کبھی توقع نہ رکھو۔ ۳: جس چیز کو تم نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ حاصل کر سکتے ہو اس کے درپَے پہ نہ ہو۔۴: مْروت یہ ہے کہ تم اپنے وعدے کو پورا کرو۔ ۵:جلد بازی حماقت ہے اور یہ انسان کی بد ترین کمزوری ہے۔ صلہ رحمی ایک بڑی نعمت ہے جس میں یہ نہ ہو وہ انسان نہیں۔ ۷: بہترین سکون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر خوش رہو۔ ۸: تین آدمی اللہ تعالی کے پڑوسی ہیں اول وہ جس کو فارغ وقت ملا ہو اور اس نے دو رکعت نفل پڑھے اور اپنے رب سے دعا کا طالب ہوا۔ دوسرا وہ جس نے مفلس ہونے کے باوجود  اپنی کمائی میں کوشش کی اور اپنے عیال کو خرچ بہم پہنچایا اسے رسول کریم ﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی اور تیسرا وہ جس نے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے دین اسلام قبول کیا اور آخری دم تک اس پر قائم رہا اسے جنت ملے گی۔ ۹: بردباری اور حلم انسان کی سیرت کو آراستہ کرتے ہیں۔ ۱۰: ذلیل اور بری ذہنیت کے لوگوں کی صحبت برائی کا مرکز ہے اور فاسق و فاجر لوگوں کی صحبت خود تمہاری سیرت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ ۱۱: بخیل ہمیشہ ذلیل ہوتا ہے۔ ۱۲: سب سے افضل صلہ رحمی یہ ہے کہ قطع تعلق کرنے والوں سے بھی صلہ رحمی کی جائے۔ ۱۳: امام اس وقت تک امام نہیں جب تک وہ آسمانی کتاب پر عمل نہ کرے۔ سختی کے ساتھ عدل نہ کرے اور انصاف کو دیانت داری کے ساتھ نہ برتے۔ ۱۴: سب سے زیادہ فیاض وہ ہے جو ایسے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے جن سے اسے کوئی امید یا آسرا نہ ہو۔ ۱۵: بہترین مال وہ ہے جس سے عزت اور آبرو کو محفوظ رکھا جا سکے۔۱۶:تقوٰی اور نیکی سب سے بہتر زاد راہ ہیں۔ (خطبات امام حسین از ابن اثیر)۔

Shortvideo - توحید اور شرک

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 130-132 Part-05.کیا ہمارے لئے تقوی کی زن...

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 130-132 Part-04.کیا ہمیں اپنے رب کے خصوص...

جمعہ، 19 جولائی، 2024

یزیدیوں کا انجام

 

  یزیدیوں کا انجام

بعض اوقات انسان دنیا کی نعمتوں اور مقام و منصب کی لالچ میں آ کر اپنی دنیا و آخرت دونوں تباہ کر لیتا ہے اس کے ہاتھ میں دنیا بھی نہیں رہتی اور آخرت میں بھی اسے سخت عذاب ملے گا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ ( جامع صغیر)۔
سیدہ زینب ؓ نے جب یزید کے دربار میں خطبہ دیا تو کہا ’’حسین کے خون سے تم نے جس سلطنت کو پانی دیا ہے اس پر تیری اولاد بھی تھوکے گی‘‘۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ انتالیس برس کی عمر میں یزید ہاتھ پائوں مارتا اور سر پٹختا درد قولنج میں اس طرح مبتلا ہوا کہ اگر ایک قطرہ پانی کا بھی حلق میں جاتا تو تیر بن کر اترتا۔ یزید بھوکا پیاسا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ 
اس کے بعد اس کے بیٹے نے بھی جلد ہی حکمرانی کو ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد مختار ثقفی نے کوفہ کا اقتدار سنبھالا اور حکم دیا کہ قاتلان اہل بیت کو پکڑ کر لائو تا کہ امام حسین ؓ اور اس کے ساتھیوں کا بدلہ لیا جائے۔ جب سب کو پکڑ کر لایا گیا تو مختار نے غصے سے کہا تما م کوفیو ں کو بھی مار دوں پھر بھی امام حسینؓ کے خون کے ایک قطرے کی قیمت ادا نہیں ہو سکتی۔ 
عمرو سعد کو لایا گیا۔ اس نے ساری ذمہ داری یزید پر ڈال دی۔ عمرو اور اس کے دونوں بیٹوں کو مار دیا گیا۔ شمر کو پکڑ کر لایا گیا۔اس نے پیاس کی شدت میں پانی مانگا لیکن اسے کہا گیا وہ قبضہ فرات یاد کر جب تو نے اہل بیعت تک پانی نہیں پہنچنے دیا۔ پھر اس کی گردن بھی اڑا دی گئی۔ جس نے شہزادہ علی اصغر کو تیر مارا تھا اس پر تیروں کی بارش کر دی گئی۔ خولی کی بیوی نے اسے پکڑوایا اس کے دونوں ہاتھ اور پائوں کاٹ دیے گئے اور اس کا دھڑ پھینک دیا گیا۔ ابن زیاد کو بھی عبرت ناک موت دی گئی۔ تقریبا مختار ثقفی نے چھ ہزار کوفیوں کو قتل کیا۔ سنان بن انس نخعی نے ایک بارلوگوں میں کہا کہ میں نے امام حسینؓ کو قتل کیا ہے۔جب وہ گھر گیا اچانک اس کی زبان بند ہو گئی عقل ختم ہو گئی جہاں کھاتا تھا وہیں پیشاب و پاخانہ کر دیتا اور اسی حالت میں مر گیا۔ (طبقات ابن سعد )۔
عمارہ بن عمیر سے مروی ہے جب عبید اللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لا کر رکھے گئے تو ان کے پاس لوگ کہہ رہے تھے آ گیا آگیا۔ اچانک دیکھا ایک سانپ آیا وہ سب کے سروں کے درمیان سے نکلتا ہوا ابن زیاد کے نتھنوں میں میں داخل ہو گیا تھوڑی دیر بعد چلا گیا۔ پھر شور ہوا آگیا آگیا۔ دو یا تین مرتبہ اسی طرح ہوا۔ (ترمذی باب مناقب امام حسن و حسینؓ)۔

کیا آج کا مسلمان حقیقت سے غافل ہے؟ - Shortvideo

جمعرات، 18 جولائی، 2024

بدھ، 17 جولائی، 2024

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۴)

 

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۴)

اما م عالی مقام امام حسینؓ شہزادہ علی اصغر کو گود میں لیے پیار کر رہے تھے کہ ایک یزیدی لعین نے تیر پھینکا جو ننھے شہزادے کے گلے میں لگا۔ چھ ماہ کا ننھا علی اصغر بھی شہید ہو گیا۔ اس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ میدان میں نکلے۔ آپ کمال بہادری کے ساتھ یزیدیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے شیروں کی طرح کوفیوں پر جھپٹتے اور ان کی صفحوں کو اپنے زور دار حملے سے الٹ پلٹ کر دیتے۔ اور فرماتے :تم لوگ میرے ہی قتل کے لیے جمع ہوئے ہو اللہ کی قسم مجھے قتل کرنے سے اللہ تم سے سخت ناراض ہو گا۔ اور تم پر اللہ تعالی کا عذاب نازل ہو گا۔ (ابن خلدون)

جب امام عالی مقام امام حسینؓ کوفیوں کی صفحوں کو الٹ پلٹ کر رہے تھے شمر یہ دیکھ کر بولا لعنت ہو تم پر۔ سب مل کر حملہ کرو۔ پھر ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع ہو گئی۔ امام عالی مقام امام حسینؓ زخمی ہو گئے اور گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے۔ ایک یزیدی آپ کے سینہ مبارک پر سوا ر ہو گیا آپ نے اسے کہا نیچے اترو مجھے نماز پڑھنے دو۔ 
امام عالی مقام امام حسین پاک رضی اللہ تعالی عنہ نے سر سجدے میں رکھا تو یزیدی لعین نے تلوار سے آپ کا سر انور دھڑ سے جدا کردیا۔دس محرم الحرام جمعہ کے دن امام عالی مقام امام حسین ؓ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو گئے۔ آپ کے جسم اقدس پر تیروں کے زخموں کے تینتیس اور تلواروں کے زخموں کے تینتالیس نشان تھے۔ 
حضرت سلمیٰ فرماتی ہیں میں حضرت ام سلمیؓ کی خدمت میں حاضر ہو ئی وہ رو رہی تھیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا میں نے حضور کو خواب میں دیکھا ہے آپ کی داڑھی مبارک اور سر انور پر گرد تھی۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا ہوا ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے حسین کو شہید کر دیا گیا ہے میں ابھی وہاں سے آیا ہو ں۔ امام عالی مقام امام حسین کہ عظیم شہادت کی خبر اللہ تعالی نے آپ کی زندگی میں ہی حضور نبی کریم ﷺ کو دے دی تھی۔ حضرت جبریل علیہ السلام مٹی لے کر حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ یہ اس جگہ کی مٹی ہے جہاں امام عالی مقام امام حسینؓ کو شہید کیا جائے گا۔ آپ نے وہ مٹی حضرت ام سلمیٰ کو دی اور کہا جب اس مٹی کا رنگ سرخ ہو جائے توسمجھ لینا حضرت حسینؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ حضرت ام سلمیٰ نے جب وہ مٹی دیکھی تو اس کا رنگ سرخ ہو چکا تھا۔ 
شاہ است حسین بادشاہ است 
دین است حسین دین پناہ است حسین 
سرداد نہ داد دست در دست یزید 
حقا کہ بنائے لاالہ است حسین

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۳)

 

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۳)

امام عالی مقام امام حسین ؓ اور آپ کے ساتھیوں نے ساری رات عبادت اور اللہ تعالی سے دعا میں گزاری۔ صبح ہوئی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز فجر ادا کی یہ دس محرم اور جمعہ کا دن تھا۔ اس کے بعد آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر یزیدی لشکر کی طرف چلے گئے اور ان سے خطاب فرمایا۔ 
آپ نے حمدو ثناءکے بعد دورد پاک پڑھا اور یزیدیوں سے کہا میرے نسب پر غور کرو دیکھو میں کون ہو ں۔ کیا میرا قتل کرنا اور میری آبرو ریزی کرنا تم پر جائز ہے ؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ نہیں ہوں؟کیا تم کو یہ اطلاع نہیں پہنچی کہ رسول کریمﷺ نے میرے اور میرے بھائی حسن ؓ کے حق میں فرمایا کہ تم دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہو۔ جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اس کی تصدیق کرو۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن آپ کے خطاب کا یزیدی لشکر پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب حر کو اس بات کا علم ہوا کہ یزید امام حسین ؓ کو شہید کرنے کا ارادہ کر چکا ہے تو آپ یزیدی لشکر سے الگ ہو کر امام حسین ؓ کے پاس تشریف لائے اور عرض کی میں ہی ہوں جس نے آپ کو واپس نہیں جانے دیا میں آپ سے معافی چاہتا ہو ں اور توبہ کرتا ہوں۔اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی مدد کرنا اور آپ پر جان قربان کرنا چاہتا ہوں۔ امام حسین ؓ نے فرمایااللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول فرمائے اور لغزشوں کو معاف فرمائے۔ آپ نے حر کو معاف کر دیا۔ اسکے بعد حر نے جنگ میں شامل ہونے اور یزیدی لشکر کے سامنے جانے کی اجازت مانگی امام حسینؓ نے اجازت دی۔ حر نے کوفیوں کو مخاطب کر کے کہا افسوس ہے کہ تم خود امام حسینؓ کو بلا کر اب شہید کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہو۔ تم نے ان پر پانی بند کر دیا ہے تم نے اہل بیت کے ساتھ کیسا سلوک کر رکھا ہے۔ کوفیوں نے جواب دینے کی بجائے تیر برسا دیے۔اس کے بعد عمرو بن سعد نے تیر چلایا اور کہنے لگا لوگو گواہ رہنا۔ سب سے پہلا تیر میں نے چلایا تھا۔ اس طرح جنگ شروع ہوئی امام عالی مقام امام حسین ؓ کے ساتھی بہادری کے ساتھ میدان میں اترتے اور کوفیوں کو قتل کرتے آگے بڑھتے گئے۔ اہل بیت میں سب سے پہلے حضرت علی اکبر ؓ میدان میں اترے اور بہادری کے ساتھ کوفیوں کا مقابلہ کرتے رہے ایک کوفی نے آپ کو نیزہ مارا جس سے آپ زمین پر آ گرے اور کوفیوں نے آپ کو شہید کر دیا۔ حضرت عباس ، عبید اللہ بن عمیر، عون بن عبدا للہ ، محمد بن عبداللہ،عبدالرحمن بن عقیل ، حضرت قاسم ،ابو بکر بن حسین سب کوفیوں کا مقابلہ کرتے شہید ہو گئے۔

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 128.کیا ہم اپنی منزل بھٹک گئے ہیں

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 122-127 Part-05.کیا ہم صرف دنیا دار لوگ ہیں

منگل، 16 جولائی، 2024

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۲)

 

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۲)

جب امام حسینؓ نے کوفہ روانہ ہونے کا ارادہ کیا توحضرت عبداللہ بن عباسؓ نے آپؓ کو روکا کہ آپ وہاں نہ جائیں مجھے ڈر ہے کہ وہاں کے لوگ آپ کو دھوکہ دیں گے آپ کو جھٹلائیں گے اور آپ کی مخالفت کریںگے۔ اگر انہوں نے حملہ کیا تو وہ سخت تر ہو گا۔ آپ نے فرمایا میں خدا سے خیر کا طالب ہوں۔ آپ سفر پر روانہ ہوئے تو راستے میں بھی آپ کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن آپ نے فرمایا‘ میرے ناناکے دین کو میری ضرورت ہے اور کوفہ کے لوگ مجھے پکار رہے ہیں لہذا میں اپنا سفر ترک نہیں کر سکتا۔ راستے میں صفاح کے مقام پر فرزدق بن غالب شاعر ملا جو عراق سے آیا تھا۔ آپ نے اس سے وہاں کے حالات کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا لوگوں کے دل آپؓ کی طرف اور تلواریں بنو امیہ کی طرف ہیں اور حکم خدا کے ہاتھ میں ہے ۔
چلتے چلتے آپ کا قافلہ ایک مقام پر پہنچا وہاں آپ نے ڈیرے لگائے آپ نے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے۔ بتایا گیا اس جگہ کا نام کربلا ہے۔ آپؓ نے فرمایا یہ زمین کرب و بلا کی ہے۔ (ابن خلدون ) 
ابن زیاد نے عمرو بن سعد بن وقاص کو فوج کا سپہ سالار بنا کر امام عالی مقام ؓ کے پیچھے بھیجا۔ ابن زیاد نے سعد بن عمرو کو خط لکھا کہ امام عالی مقام ؓاور آپ کے رفقاء یزید کے ہاتھ پر بیعت کریں تو پھر ہم جیسے مناسب سمجھیں گے کریں گے ۔ ساتھ ہی ابن زیاد نے لکھا کہ امام حسین ؓ پر پانی بند کر دیا جائے تھوڑا سا پانی بھی آپؓ کے پاس نہ پہنچ سکے۔ آپؓ کی شہادت سے تین دن پہلے آپ ؓ پر پانی بند کیا گیا ۔ 
نو محرم کو نماز عصر کے بعد ابن سعد نے امام عالی مقام امام حسین ؓ پر چڑھائی کر دی۔ اس وقت آپ اپنے خیمے میں بیٹھے تھے۔ آپ نے ابن سعد کو پیغام بھیجا کہ ہمیں آج کی رات مہلت دو ہم اپنے رب کے حضور استغفار اور دعا کر لیں‘ نماز پڑھ لیں اور تلاوت قرآن پاک کر لیں۔ صبح وہ ہو گا جو ہونے والا ہے ۔ (ابن خلدون ) ۔ 
اما م عالی مقام امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں کو خطبہ دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کو سب سے بہترین سمجھتا ہوں۔ میرے اہل بیت سے زیادہ کوئی نیک نہیں اور نہ ہی ان سے زیادہ رشتوں کا پاس رکھنے والے ہیں۔ مجھے یقین ہے یہ لوگ صبح مجھے شہید کر دیں گے۔ یہ سب صرف میرے خون کے پیاسے ہیں۔ میں تمہیں بخوشی اجازت دیتا ہوں تم سب واپس لوٹ جائو اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ لیکن آپ کے رفقاء نے آپ کو تنہا چھوڑ کر جانے سے انکار کر دیا۔ 

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 122-127 Part-04.ڈپریشن کاآسان علاج

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 122-127 Pt-03.کیا ہم نے اپنے رب سے بے وف...

پیر، 15 جولائی، 2024

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۱)

 

واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۱)

یزید نے اپنے والد کی وفات کے بعد جب منصب سنبھالا تو سب سے پہلے اس نے بیعت لینے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کے لیے اس نے مدینہ منورہ کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابو سفیان کو بھی خط لکھا کہ وہ مدینہ منورہ کے لوگوں سے بیعت لے۔ خاص طور پر حضرت امام حسین ؓ ، عبداللہ بن زبیر ؓ اور عبد اللہ بن عمر ؓ سے ضرور بیعت لے اور ان کو مہلت نہ دے۔
ولید بن عتبہ نے حضرت امام حسین ؓ اور عبد اللہ بن زبیر ؓ  کو بلایا ۔ امام عالی مقام امام حسین ؓ اپنے رشتے داروںاور خادموں کو ساتھ لیکر گئے اور سب کو باہر چھوڑ کر خود اندر گئے ۔ گورنر نے یزید کا خط پڑھ کر امام حسینؓ کو سنایا اور امیر معاویہؓ کے مرنے کی خبر دی ۔ حضرت امام حسین ؓ نے فرمایا ۔میں پوشیدہ طور پر بیعت نہیں کروں گا جب مجمع میں آکر تم سب سے بیعت لو تو مجھے بھی بیعت کے لیے کہنا۔ آپؓنے بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور وہاں سے چلے گئے ۔ (طبری)
حضرت عبد اللہ بن زبیر نے رات کی مہلت مانگی تو آپ رات کو مکہ معظمہ کی طرف چلے گئے ۔ جب حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ  کو بیعت کے لیے بلایا گیا تو آپ نے فرمایا ‘جلدی کیا ہے جس ہاتھ پر سب مسلمان بیعت کریں گے میں بھی کر لو ں گا خواہ وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو ۔(ابن خلدون)
دوسری رات حضرت امام حسین ؓ اپنے بیٹوں ، بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب کوفیوں کو اس بات کا علم ہوا کہ آپ مکہ تشریف لے گئے ہیں تو انہوں نے آپ  ؓ کو خط لکھے کہ آپ یہاں تشریف لائیں ہم نے نعمان بن بشیر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور نہ ہی ان کے ساتھ جمعہ اور عید میں شریک ہوئے ۔(ابن خلدون ) 
خطوط ملنے کے بعد اما م عالی مقام اما م حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو سفیر بنا کر کوفہ روانہ کیا اور وہاںکی صورتحال سے آگاہ کرنے کو کہا ۔ حضرت مسلم بن عقیل جب وہاں پہنچے تو کوفہ کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا شروع کردی۔ تقریبا بارہ ہزار لوگوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت کی ۔حضرت مسلم بن عقیلؓ نے امام عالی مقام کو خط لکھا کہ وہ کوفہ تشریف لے آئیں‘ کوفہ کے لوگ آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں ۔ جب ابن زیاد کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر حضرت مسلم بن عقیلؓ سے دور رہنے کو کہا اور آپ کو پناہ دینے والے حضرت ہانی کو گرفتار کر لیا اور بعد میں حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بھی گرفتار کر کے دونوں کو شہید کر دیا ۔ 

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 122-127 Part-2. کیا آسمانی ہدایت کی ہمار...

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 122-124 Part-01.ہدایت کی ضرورت اور وضاحت

اتوار، 14 جولائی، 2024

شان و عظمت و فضائل اہل بیت(۲)

 

شان و عظمت و فضائل اہل بیت(۲)

مولا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ :حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ جس نے حضرت علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اللہ تعالی اس سے محبت فرمائے گا۔ اور جس نے حضرت علیؓ کے ساتھ بغض رکھا اس نے میرے ساتھ بغض رکھا اور جس نے میرے ساتھ بغض رکھا اس پر اللہ تعالی کا غضب ہوگا۔ (طبرانی)۔
حضرت زر بن جیش ؓ سے مروی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔بیشک نبی مکرم ﷺ نے مجھ سے یہ عہد کیا ہے کہ مومن مجھ سے محبت رکھے گا اور منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔ ( مسلم، ترمذی )۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں جس کا محبوب ہوں علی ؓ اس کے محبوب ہیں۔ (ترمذی)۔
سیدہ کائنات فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا :حضور نبی کریم ﷺ کو جہاں بھر سے سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہؓ سے تھی۔ آپ جب حضور نبی کریم ﷺ کی باگاہ میں حاضر ہوتیں تو نبی کریم ﷺ کھڑے ہو کر آپ کا استقبال کرتے۔آپ نے فرمایا مجھے ابنی بیٹی سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ایک موقع پر حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے ناراض کیااس نے مجھے ناراض کیا۔(بخاری ، مسلم )۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : فاطمہؓ میرے جسم کا حصہ ہے جس نے اسے غضب ناک کیا اس نے مجھے غضب ناک کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ ( بخاری ، مسلم )۔
حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عہہم :سرور کائنات حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے دونوں نواسوں سے بہت زیادہ محبت و الفت تھی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی آپ کو اہل بیت میں سب سے زیادہ کس سے پیار ہے۔ آپ نے فرمایا حسن ؓ اور حسینؓ سے مجھے بہت زیادہ پیار ہے۔ حضرت فاطمہ ؓسے حضور نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے میرے بیٹوں کو میرے پاس لائے۔ آپ دونوں شہزادوں کو سینہ مبارک پر بٹھا لیتے تھے اور جسم کو سونگتے تھے۔ (ترمذی )۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا : بیشک حسن ؓ اور حسین ؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔( مشکوٰہ شریف)۔

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 120-121.کیا ہم اپنے رب کے نافرمان ہیں

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 116-119 Part-02.میرا سچا دشمن کون

ہفتہ، 13 جولائی، 2024

شان و عظمت و فضائل اہل بیت(۱)

 

شان و عظمت و فضائل اہل بیت(۱)

ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے نبی (ﷺ) کے گھر والو! بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے دور کر دے نا پاکی کو اور تمہیں پوری طرح پاک صاف کر دے۔ (سورة الاحزاب )۔
حضرت جابر ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم حج کے دوران عرفہ کے دن اپنی اونٹنی قصوا پر بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اے لوگو میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر تم ان سے وابستہ رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید اور دوسری میرے اہل بیت۔ ( سنن ترمذی )۔
حضرت ابو ذر ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میرے اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہو گیا وہ بچ گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ ہلاک ہو گیا۔ ( المعجم الکبیر )۔ارشاد باری تعالی ہے : اے محبوب (ﷺ) آپ ان سے فرما دیجیے کہ آﺅ ہم بلا لائیں اپنے اپنے بیٹوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور اپنی اپنی جانوں کو۔ پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔ ( سورة آل عمرآن : ۱۶)۔
یہ آیت مباہلہ اس وقت نازل ہوئی جب نجران کے عیسائیوں کا وفد حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں مناظرہ کی غرض سے حاضر ہوا لیکن مناظرہ میں لا جواب ہو گیا اور لڑائی جھگڑے پر اتر آیا۔ تو اللہ تعالی نے حضور نبی کریم ﷺ کو ان سے مباہلہ کر نے کا حکم فرمایا کہ ان سے کہیں اپنے بیٹو ں اور عورتوں کو لے کر کھلے میدان میں آجاﺅ اور اللہ سے دعا کریں گے۔ جو جھوٹا ہو گا اللہ اسے تباہ کر دے گا۔ 
مقررہ دن عیسائی بڑے بڑے پادریوں کو لے کر میدان میں آ گئے۔ حضور نبی کریم ﷺ اس شان و عظمت کے ساتھ تشریف لائے کہ گود میں سیدنا امام حسین ؓ، دائیں طرف ہاتھ پکڑے ہوئے سیدنا امام حسن مجتبی ؓاور سیدہ کائنات فاطمة الزہراہ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی ؓپیچھے پیچھے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ ان سے فرما رہے تھے جب میں دعا کروں تو تم سب نے آمین کہنا ہے اورپھر اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ( مشکوٰة شریف)۔
جب عیسائیوں کے بڑے پادری نے نورانی چہروں کو دیکھا تو کہنے لگا اے عیسائیو میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں اگر یہ اللہ تعالی سے سوال کریں تو اللہ تعالی پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دے۔ خدا کے لیے ان سے مقابلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاﺅ گے اور زمین پرقیامت تک کوئی نجرانی عیسائی باقی نہیں رہے گا۔ یہ سن کر عسائیوں نے جزیہ دینا منظور کر لیا اور مقابلہ نہ کیا۔ ا سکے بعد حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا خدا کی قسم اللہ کا عذاب ان کے قریب آچکا تھا اگر مجھ سے مقابلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کر دیے جاتے۔

جمعہ، 12 جولائی، 2024

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 116-117 Part-01.کیا ہم نے شیطان سے دوستی...

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 114-115.کیا ہم نے قرآن سے اپنا رخ پھیر ل...

محبت اہل بیت

 

محبت اہل بیت

  محبت رسولﷺ نہ صرف کامل ایمان کی دلیل ہے بلکہ اتحاد امت کا واحد ذریعہ بھی ہے۔حضور نبی کریم ﷺ سے محبت کا حقیقی اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ سے جڑے ہر رشتے اور ہرشئے سے محبت کریں۔ حضور نبی کریم ﷺ سے کامل محبت یہ ہی ہے کہ ہم اہل بیت اطہار ، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی محبت و عقیدت رکھیں اور دل و جان سے ان کی عزت کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :(اے محبوب ؐ) آپ فرما دیجیے کہ میں اس ( تبلیغ رسالت ) پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوائے قرابت کی محبت کے۔ ( سورۃ الشورٰی :۲۳)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نہ اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ تمام قریش میں رسول اللہ ؐ کی قرابت تھی ، جب قریش نے آپ کی رسالت کی تکذیب کی اور آپ کی اتباع کرنے سے انکار کر دیا تو آپ نے فرمایا : اے میری قوم !جب تم نے میری اتباع کرنے سے انکار کر دیا ہے تو تمہارے اندر جو میری قرابت ہے اس کی حفاظت کرو یعنی اس قرابت کی وجہ سے مجھے اذیت نہ دو اور مجھے نقصان نہ پہنچائواور تمہارے علاوہ دوسرے عرب قبائل میری حفاظت کرنے میں اور میری مدد کرنے میں زیادہ راجح نہیں ہیں۔(المعجم الکبیر )۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو مسلمانوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی اے اللہ کے محبوب  آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں جن سے محبت کرنا ہم پر واجب ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا علی رضی اللہ عنہ  اور انکے دونوں بیٹے حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہم۔(المعجم الکبیر ) 
حضرت ابن عباس سے مروی ہے حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی سے محبت رکھو کیونکہ وہ اپنی نعمتوں سے تم کو غذا دیتا ہے اور اللہ سے محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت رکھو۔ ( سنن ترمذی ) 
حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے حضور نبی کریم ؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا : جو ان سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا اور جو ان سے صلح رکھے گا میں اس سے صلح رکھوں گا۔ (ترمذی ، ابن ماجہ ) 
حضرت عبد المطلب بن ربیعہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوتا مگر اہل بیت کی محبت کے ساتھ۔ ( ترمذی )۔حضرت بو سعیدخدری ؓسے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد  فرمایا :جس کسی نے اہل بیت سے بغض رکھا اللہ نے اسے جہنم میں ڈالا۔ ( مستدرک زرقانی )۔