پیر، 29 جولائی، 2024

رضا کی حقیقت (۲)


 

رضا کی حقیقت (۲)


 اگر معرفت بندے کے لیے حجاب اور قید کا باعث بن جائے تو وہ معرفت جہالت ،وہ نعمت زحمت اور عطا پردہ بن جاتی ہے ۔ نعمت حقیقت میں وہ ہوتی ہے جو نعمت دینے والے کی دلیل بنے۔ اگر منعم سے حجاب ہے تو وہ نعمت بلا ہے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی آزمائش پر راضی ہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جو آزمائش میں آزمائش میں ڈالنے والے کا نظارہ کرتے ہیں اور اس آزمائش و مصیبت کی تکلیف و مشقت ، جمالِ دوست کے مشاہدے کی مستی اٹھاتے ہیں اور جمالِ یار کے مشاہدے کی خوشی میں ان کو آزمائش کے رنج رنج نظر نہیں آتے ۔ ان کے دل مخلوق کے خیال سے خالی اور یہ خود مقامات و احوال کی قید سے آزاد اور اللہ کی دوستی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور خود اپنی جانوں کے بھلے برے کے مالک نہیں اور نہ مرنے کا اختیار نہ جینے کا نہ اٹھنے کا ۔ ( سورۃ فرقان)
غیر اللہ کے ساتھ راضی ہونا خسران و ہلاکت کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا مسرت و نعمت کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا بادشاہی اور موجب عافیت ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کی تقدیر پر راضی نہیں ہوتا اس کا دل اپنے نصیب اور اسباب اور اس کا جسم ان چیزوں کے حصول کی مشقت و مصیبت میں مبتلاہو جاتاہے ۔ 
روایات میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی، اے اللہ، مجھے ایسے کام کی رہنمائی فرما جسے کرنے میں تیری رضا حاصل کر لوں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا، اے موسیٰ، میری رضا اس میں ہے کہ تو میری تقدیر پر راضی رہے، یعنی جب بندہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے ۔ 
حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، رضا زہد سے افضل ہے اس لیے کہ صاحبِ رضا کی آخری تمنا یہی ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اس کے دل میں کوئی خواہش نہیں ہوتی جبکہ زاہد مقام رضا کا متمنی ہوتا ہے ۔ 
حضور نبی کریمﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے، اے اللہ، مجھے اپنی قضا و قدر پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما، یعنی مجھے وہ مقام عطا فرما جب تیری قضا و قدر مجھ پر وارد ہو تو توں مجھے اپنے رضا پر راضی پائے ۔ 
ابو العباس بن عطا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، رضا بندے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ازلی اختیار کی روشنی میں اپنے دل کی نگہداشت کا نام ہے اور انسان اس بات کا پابندہے اسے جو بھی تکلیف پہنچے تو وہ پریشان و مضطرب نہ ہو خندہ روخوش دل رہے اور یہ سمجھے کہ یہ حکم مقدر کا نتیجہ ہے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں