جمعرات، 29 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 75-76 Part-02.کیا ہم مادہ پرست لوگ ہیں

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 75-76 part-01.کیا ہم دین اسلام کو س...

Allah TAllah ki riza ki aehmiat

صحبت کے اثرات(2)

 

صحبت کے اثرات(2)

معاشرے میں رہتے ہوئے دوستی کرنا انسان کا فطری تقاضا ہے ۔ معاملات کو حل کرنے اور مشاورت کرنے کے لیے انسان کسی نہ کسی کو دوست ضرور بناتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ صحبت اثر کرنے والی ہے ۔ 
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے ۔ مشک بیچنے واکے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے ۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور پا لو گے ۔ لیکن لوہار کی بھٹی یاتمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بد بو تو تم اس سے ضرور پا لو گے ۔ (مسلم)
بعض اوقات بندہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے کسی بھی بری صحبت سے کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ میں مضبوط ہو ں ۔ ہاںاگر اتنا با اثر ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت ملتی ہے اور اس پر اس کو یقین بھی ہے پھر تو ٹھیک ہے وگرنہ بری صحبت میں بیٹھنے سے نیک لوگ بھی پھسل جاتے ہیں اور شیطان غالب آجاتا ہے ۔ 
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو ساتھی مقرر کیے گئے ہیں جو اس کے ساتھ رہتے ہیں ایک جن اور دوسرا فرشتہ۔لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ یہ دونوں آپ کے ساتھ بھی ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی ہیں لیکن شر کی قوت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے اس لیے میں اس کے فریب سے محفوظ ہوں۔اس لیے جن کا زور نہیں چلتا تو وہ جن بھی مجھے بھلائی کا ہی مشورہ دیتا ہے ۔ فرشتے پاک جگہ پر رہتا ہے اور شیطان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نیکی اور بدی ہر جگہ انسان کے ساتھ رہتا ہے۔جب انسان کسی بری صحبت میں بیٹھتا ہے تو فرشتے اس سے الگ ہو جاتے ہیں تو شیطان اس پر مکمل غلبہ پا لیتا ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان بری صحبت میں بیٹھ کر برا ہو جاتا ہے ۔ بری صحبت جلد اثر کر جاتی ہے سوائے اس کے جس پر اللہ تعالی کی خاص رحمت ہو ۔ 
اچھی صحبت وہ ہے جس میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہو ، خرافات سے بچا جائے ،فرائض کا خیال رکھا جائے ، سنن کی پابندی کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کا خیال رکھا جائے اور حسن اخلاق سے پیش آئے ، برے اخلاق سے بچا جائے ، صلہ رحمی کی جائے اور والدین سے حسن سلوک کی تربیت دی جائے۔دوست برد بار ، عاجز اور لوگوں کے کام آنے والا ہو اورلوگوں کو اذیت دینے سے دور رہنے والا ہو ۔ 

بدھ، 28 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 73 Part-03.کیا ہماری زندگی حکم خداو...

صحبت او ر اس کے اثرات(۱)

 

صحبت او ر اس کے اثرات(۱)

صحبت کسی بھی انسان کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑتی ہے ۔ اگر کوئی نیک شخص بری صحبت میں بیٹھے گا تو اس کی اچھائیاںچھپ جائیں گی اور اگر برا شخص کسی اچھی صحبت میں بیٹھے گا تو اس صحبت کی وجہ سے اس کی برائیا ں چھپ جائیں گی ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین پر چکر لگاتے رہتے ہیں ۔ وہ ایسی مجلسیں تلاش کرتے ہیں جہاں اللہ تعالی کا ذکر ہو رہا ہو ۔ جب وہ کسی ایسی مجلس میں جاتے ہیں تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں ۔وہ ایک دوسرے کو اپنے پروں سے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ اپنے اور دنیا کے آسمان کے درمیان کی وسعت کو بھر دیتے ہیں ۔ جب مجلس ختم ہو جاتی ہے اور لوگ چلے جاتے ہیں تو فرشتے آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ تو اللہ تعالی ان سے پوچھتا ہے حالانکہ اللہ تعالی اس کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والا ہے : تم کہاں سے آئے ہو ؟ وہ کہتے ہیں ہم زمین میں تیرے بندوں کی طرف سے آئے ہیں جو تیری پاکی بیان کر رہے تھے ۔ تیری بڑائی بیان کر رہے تھے اور صرف اور صرف تیرے ہی معبود ہونے کا اقرار کر رہے تھے اور تیری حمد و ثنا ء کر رہے تھے اور تجھی سے مد د مانگ رہے تھے ۔ 
اللہ فرماتا ہے :وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا وہ آپ سے آپ کی جنت مانگ رہے تھے ، فرمایا انہوںنے میری جنت دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا پروردگار نہیں دیکھی ۔ اللہ فرماتا ہے اگر انہوں نے میری جنت دیکھی ہوتی تو کیا ہوتا ؟ فرشتے کہتے ہیں اور وہ تیری پناہ مانگ رہے تھے ، اللہ فرماتا ہے وہ کس چیز سے میری پناہ مانگ رہے تھے انہوں نے کہا تیری آگ سے اے رب۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے ، فرشتے کہتے ہیں اے اللہ نہیں دیکھی ۔ اللہ فرماتا ہے اگر وہ میری جہنم دیکھ لیتے تو ان کا کیا حال ہوتا ۔ فرشتے کہتے ہیں وہ تجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ رہے تھے تو اللہ فرماتا ہے میں نے ان کے گناہ بخش دیے اور جو کچھ انہوں نے مانگاہے انہیں عطا کر دیا اور انہوں نے جس سے پنا ہ مانگی اس سے پناہ دی ۔ تو فرشتے عرض کریں گے اے اللہ ان میں کچھ لوگ بہت گناہ گار ہیں جو وہاں سے گزر رہے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں اللہ فرمائے گا اس کو بخش دیا ۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھ جانے والے بھی محروم نہیں رہتے ۔ 

منگل، 27 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 73 Part-02. عبادت کیا ہے

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 73 Part-01.کیا صرف اللہ تعالی ہی ہم...

دوستی کے آداب

 

دوستی کے آداب

اگر دوستی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہ کی جائے محض اس لیے کی جائے کہ اس سے آپ کا مزاج ملتا ہے تو اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ دوستی کی بنیاد گناہ نہیں ہو ناچاہیے ۔ مل بیٹھ کر غلط کام کرنا اور اپنی ہوس پرستی کو محبت اور دوستی کا نام دینا ایک گھٹیا پن ہے ۔ ایسی دوستی زیادہ دیر نہیں چلتی اور بہت جلد ختم ہوجاتی ہے ۔ اور انسان طرح طرح کی مشکلات میں گھر جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری کسی کے ساتھ دوستی دیر پا رہے اور اس سے ہمارے قلب و جاں کو راحت ملے تو ہمیں دوستی کے رشتہ کو گناہوں سے آلودہ ہونے سے بچانا ہو گا ۔
دوستی اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہو نی چاہیے ۔ اور اگر ہمارا دوست کوئی بھی غلط کا م کرے تو دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اس گناہ سے روکا جائے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا سب سے اچھا دوست وہ ہے جو مجھے میرے عیب بتاتا ہے ۔ ( کنزالعمال ) 
ایمان اور اعمال صالحہ کے بعد اہل ایمان کی یہی نشانی بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اوروہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں “۔ ( سورة العصر)
دوستی کا تقاضا یہ نہیں کہ ہر اچھے اور برے کام میں دوست کا ساتھ دیں بلکہ جب وہ اچھا کام کرے تو اس کاساتھ دیں اور جب کوئی برائی کرے تو اسے اس سے منع کیا جائے ۔ اپنی رائے کو حرف آخر سمجھنا بھی دوستی کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے ۔ ہمیں اپنے دوستوں کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہیے ۔ دوستوں کی رائے کو اہمیت دینا یا پھر شائستگی سے ان کے ساتھ اختلاف رائے رکھنا بھی دوستی کے رشتے کو مزید مستحکم کرتا ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دوست ہماری رائے کا احترام کریں اور ہمارے احساسات و جذبات کو سمجھیں تو ہمیں بھی ان کی خواہش اور احساسات وجذبات کا احترام کرنا ہو گا ۔
مخلص دوست اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اور اسے ضائع کرنا نعمت سے انکار کرنا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا ۔ ممکن ہے کہ ہمارے دوست میں کوئی کمی کوتاہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے اندر بھی کوئی کمی کوتاہی موجود ہو ۔ ہمیں ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کر دینا چاہیے اس طرح دوستی کا رشتہ مزید پروان چڑھتا ہے ۔ ایک عرب شاعر لکھتا ہے : (ترجمہ) تو اکیلا رہے یا اپنے بھائی سے صلہ رحمی کیا کر۔ کیونکہ وہ کبھی کسی غلطی کا ارتکاب کرے گااور کبھی اس سے بچے گا۔

پیر، 26 فروری، 2024

Shortvideo - Kya humain taqwa ki koi zaroorat hay?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 72.کیا ہم غیر اللہ کے سامنے جھک گئے...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 70-71.کیا ہم اللہ تعالی کی نعمتوں ک...

دوستی کے آداب(۱)

 

دوستی کے آداب(۱)

ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ نیکی کاحکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃادا کرتے ہیں ، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں یہی ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالیٰ عنقریب رحم فرمائے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے ۔( سورۃ التوبہ)
اچھے دوست مل جانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ ایسا آدمی بڑا خوش نصیب ہے جس کو مخلص اور وفادار دوست مل جائیں ۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ غریب وہ نہیں جس کے پاس ما ل و دولت نہیں بلکہ غریب وہ ہے جس کے پاس اچھے اور مخلص دوست نہیں ۔اچھے اور مخلص دوست قسمت سے ملتے ہیں اور ان کی قدرکرنی چاہیے ۔ کسی بات پر اختلاف رائے کی وجہ سے انھیں ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔
 حقیقی دوستی وہ ہے جس کی بنیاد محبت الٰہی اور اطاعت رسولﷺ ہو، یعنی کہ دوست اسے نہ بنایا جائے جس کے ساتھ کوئی اپنا مفادوابستہ ہو بلکہ دوست اسے بنایا جائے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہو ۔ اپنے ذاتی مفاد سے ہٹ کر جس دوستی کی بنیاد محبت الٰہی پر رکھی جائے ایسی دوستی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی اپنے کسی بھائی کو ملنے کے لیے کسی بستی میں گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں کسی فرشتے کو بٹھا دیا ۔ جب وہ بندہ اس فرشتے کے پاس پہنچا تو فرشتے نے اس سے کہا، کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا، اس بستی میں میرا ایک بھائی رہتا ہے اسے ملنے جا رہا ہو ں ۔ فرشتے نے کہا کہ اس نے تم پر کوئی احسان کیا ہے جس کا تو اسے بدلہ دینے جا رہا ہے؟ اس نے کہا، نہیں، میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس سے محبت کرتا ہو ں تو فرشتے نے کہا: میں تیری طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا گیا قاصد ہو ںکہ جیسے تو اللہ تعالیٰ کے لیے اس سے محبت کرتا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے محبت کرتا ہے ۔( مسند احمد ) 
دوستی اور محبت کی یہی وہ بنیاد ہے جس کے متعلق حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے جلال کی وجہ سے ایک دوسرے کے لیے محبت کرنے والوںکے لیے نور کے ایسے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہدا بھی رشک کریں گے ۔ (ترمذی) اس سے مراد یہ ہی ہے کہ بندہ ذاتی مفاد سے ہٹ کر صرف اللہ کی رضا کے لیے دوستی کرے ۔ 

اتوار، 25 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayt 68-69 pt-1.کیا ہم اسفل السافلین جانے...

شعبان المعظم

 

شعبان المعظم

ماہ شعبان المعظم بہت زیادہ فضیلت والا مہینہ ہے ۔ شعبان المعظم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا شعبان میرا مہینہ ہے ۔ اس مبار ک مہینے میں جو ایک نیکی کرتا ہے اللہ تعالی اسے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے خوشنودی حاصل کرنے کے لیے امتی کو چاہیے کہ وہ اس ماہ مبارک میں کثرت سے عبادت کرے اور روزے رکھے اور گناہوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے ۔ 
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے شعبان کفارہ کرنے والا ہے اور رمضان پاک کرنے والا ہے ۔ 
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کی بارگاہ اقدس میں عرض کی : یا رسول اللہﷺ، میں آپ کو جس قدر روزے شعبان کے مہینہ میں رکھتے دیکھتا ہو ں اس قدر تو ہم رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینہ میں نہیں رکھتے ۔ نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے لوگ اس میں غفلت کرتے ہیں ۔ اس میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں اس لیے میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزہ کی حالت میں ہو ں ۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، نبی کریمﷺ کی بارگاہ ناز میں عرض کی گئی سب سے افضل روزے کون سے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا، شعبان کے روزے رمضان المبارک کی تعظیم کے لیے ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا، ماہ رمضان کے لیے تم اپنے بدنوں کو شعبان کے روزوں سے پاک کر لیا کرو کیونکہ جو شعبان کے تین روزے رکھتا ہے اور پھر افطاری سے پہلے مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ بخش دیتا ہے اور اس کی روزی میں برکت فرماتا ہے ۔ اورمجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ماہ مقدس میں رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شعبان میں ایک روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو حضرت ایوب اور حضرت دائود علیہم السلام کا سا ثواب عطا فرماتا ہے اور اگر اس نے پورا مہینہ روزے رکھے تو اللہ تعالی موت کی سختیوں کوآسان فرما دے گا اور قبر کی تاریکی ، منکر نکیر کی دہشت اس سے دور رکھے گا اور قیامت کے دن اس کے عیبوں پر بھی پردہ ڈالے گا ۔

ہفتہ، 24 فروری، 2024

Mohabat-e-elahi kyoon aur kaisay?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 67.کیا ہمیں اللہ تعالی نے عقل نہیں ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 66.کیا ہم باطل کو مقصود بنا کر زندگ...

شب برات

 

شب برات

شعبا ن المعظم کے مہینے میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جو بہت زیادہ برکت اور فضیلت والی ہے ۔ اس رات کو شب برات کی رات کہا جاتا ہے جو کہ چاند کی پندرہ تاریخ کو آتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہر حکمت والا کام ۔(سورة الدخان )
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی روزی مانگنے والا میں اسے رزق عطا کر دوں ۔ ہے کوئی اولاد مانگنے والا میں اسے اولاد عطا کر دوں ۔ ہے کوئی مشکلات میں گھرا ہوا میں اسے عافیت دوں ۔ ہے کوئی ایسا اور ہے کوئی ایسا اللہ تعالیٰ صبح صادق ہونے تک فرماتا رہتا ہے ۔ 
حدیث شریف میں آتا ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشا د فرمایا کہ شب برات کی عزت کرو اس رات جو شخص اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے آزاد فرما دیتا ہے اور جو تم میں سے پندرھویں شعبان کے دن روزہ رکھے تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ۔ 
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : شعبان کی پندرھویں رات اللہ تعالیٰ پورے سال کا حساب کتاب کرتا ہے کہ کون سا بچہ پیدا ہو گا ، کون مرے گا ۔ اس رات بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں پیش کیے جاتے ہیں اور رزق کی تقسیم بھی اسی رات کو ہی کی جاتی ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: نصف شعبان کی رات حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ، اپنا سر اقدس آسمان کی طرف اٹھائیں۔ میں نے پوچھا یہ کیسی رات ہے تو جبرائیل امین نے عرض کی یہ ایک ایسی رات ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور مشرک کے سوا سب کو بخش دیتا ہے اور ساحر،کاہن اور زانیوں کو نہیں بخشتا۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا ہے سوائے مشرک اور اس شخص کے جو اپنے مسلمان بھائی سے بغض رکھے اسے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس با برکت اور فضیلت والی رات میں ہمیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کریں، ذکر واذکارکریں اور نبی کریمﷺکی ذات اقدس پر کثرت سے درود پاک پڑھیں اور اپنی بخشش کا سامان جمع کریں۔

جمعہ، 23 فروری، 2024

Shortvideo - Allah Tallah say mohabat ki kya zaroorat hay?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 65 Part-03.کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں

Surah An-Nahl Ayt 65 Pt-2.کیا ہم اللہ تعالی کی بات دل کے کانوں سے سننے ...

دین راہبر ہے

 

دین راہبر ہے

دین انسان کے لیے راہبر ہے ، مقتدا ہے اور امام ہے ۔ دین کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان دل وجان سے دین کو اپنا راہبر و مقتدا بنائے اور ہرمعاملے میں دین سے راہنمائی حاصل کرے ۔مثال کے طور پر ایک شخص کوئی کام کرنا چاہتا ہے اور اس کام کو کرنے کے لیے اس کے پاس مکمل مواقع اور اسباب موجود ہیں مگر دین اسے اس کام سے منع کرتا ہے تو وہ اپنے جذبات اور احساسات کو دین پر قربان کر دیتا ہے اور اس کام کو کرنے کا ارادہ ترک کردیتا ہے ۔اگر ایک شخص دین کے اس حصہ کو مکمل طور پر چھوڑ دے جس پر عمل کرنے سے اسے اپنے مفادات اور خواہشات کی قربانی دینا پڑے لیکن اس حصہ کو اپنا لے جس سے اس کا اپنا مفاد وابستہ ہو ایسا شخص دین پر عمل کرنے والانہیں ہوتا بلکہ اپنے مفادات کے لیے دین کو بطور سیڑھی استعمال کرتا ہے ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے : کیا تم کتاب کے بعض حصہ پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا کفر کرتے ہو ؟ پس تم میں سے جو لوگ یہ کام کریں ان کی سزا اس کے سوا اورکیا ہو گی کہ وہ دنیا کی زندگی میں رسوا ہوں گے اور قیامت کے دن اس سے بھی شدید عذاب کی طرف لوٹا دئیے جائے ۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے میں خرید لیا ۔ سو نہ ان سے عذاب کم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی ۔ ( سورة البقرة ) 
یعنی جس بندے نے دین کے ساتھ صرف ایسا تعلق جوڑا ہو کہ اس نے دین کو اپنا راہبر نہ بنایا ہو اور دین کے لیے سب کچھ لٹانے کے جذبوں سے محروم ہو تو ایسا شخص دراصل اپنی آخرت تباہ کر کے دنیا کو بچانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ۔ 
قرآن مجید میں یہود کے جن جرائم کی وجہ سے ان کو سزائیں دی گئیں ان میں سے ان کا ایک جرم یہ بھی تھاکہ وہ دین کے ایک حصہ کو مانتے تھے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہوتا تھا اور اس حصے کو چھوڑ دیتے تھے جس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہوتا تھا ۔مذہبی عقیدتیں بہت گہری اور نازک ہوتی ہیں جو شخص ان عقیدتوں کو کسی بھی طرح اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے وہی عذاب الہی کاحق دار ٹھہرتا ہے ۔ دین انسان کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ مکمل ضابطہ حیات ہے جسے مکمل طور پر اپنانے سے انسان دین اور دنیا کی سعادتیں حاصل کر سکتا ہے ۔

جمعرات، 22 فروری، 2024

Tazkya-e-nafs kaisay hoo ga?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 65 Part-01.کیا ہمارے دلوں پر مہر لگ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 64.کیا ہم قرآن پاک سے ہدایت لینے کے...

عقل اور اس کی زکوۃ

 

   عقل اور اس کی زکوۃ

زکوۃ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکرانہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو مال و اسباب عطا فرمائے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت عقل و دانش بھی ہے۔ عقل سلیم ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا سبب بنتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر انسان کو غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ اپنی عقل و دانش سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے جلووں کا مشاہدہ کرے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقل کی زکوۃ کیسے ادا کی جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور عقل کی زکوٰۃ بیوقوفوں کی باتوں پر تحمل کا اظہار کرنا ہے۔ یعنی عقل کی زکوٰۃ یہ ہے کہ انسان بیو قوفوں کی باتوں کو برداشت کرے۔ ان کی احمقانہ باتوں کا جواب نہ دے اور تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرے۔ اس کی یہ عجز و انکساری اس کے بڑے پن کی علامت ہو گی۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تیری راہ میں کانٹا رکھے اور تو بھی اس کے جواب میں کانٹا رکھ دے تو ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہو جائیں گے۔ عام لوگوں کا دستور یہ ہے کہ وہ نیک کے ساتھ نیک اور بد کے ساتھ بد ہوتے ہیں مگر درویشوں کا یہ دستور نہیں۔ یہاں نیک و بد دونوں کے ساتھ نیک ہونا چاہیے۔ اگر احمق کی بات کا جواب اسی طرح ہی دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا شکرانہ ادا نہیں ہوتا۔ بڑا پن یہ نہیں کہ احمق کی باتوں کا جواب ترکی بہ ترکی دیا جائے بلکہ بڑا پن یہ ہے کہ عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ اور جاہل ان سے مخاطب ہوں تو کہتے ہیں بس سلام ‘‘۔(سورۃالفرقان ) 
حضرت نعمان بن مقرن مزنی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریمﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو برا بھلا کہا۔ جسے برا بھلا کہا گیا تھا اس نے کہا اور تم پر سلامتی ہو تو رسول خداﷺ نے فرمایا: کہ تمارے درمیان ایک فرشتہ متعین تھا جو تمہارا دفاع کر رہاتھا۔ جب وہ شخص تمہیں شب و ستم کر رہا تھا تو فرشتہ اسے کہہ رہا تھا کہ ایسا تو ہی ہے اور تو ہی اس کا زیادہ مستحق ہے۔ اور جب تو نے اسے کہا کہ تم پر سلامتی ہو تو فرشتے نے کہا نہیں بلکہ تم پر سلامتی ہو اور تم ہی اس شرف کے زیادہ مستحق ہو۔

بدھ، 21 فروری، 2024

Toheed ki aehmiat

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 63 Part-02.کیا شیطان ہی ہمارا سرپرس...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 63 Part-01.کیا ہم ایک سرکش قوم ہیں

نیت کی اصلاح

 

نیت کی اصلاح

ارشاد باری تعالی ہے : اور تمہارے رب نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی عبادت کرو اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو ۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اورانہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا ۔ ( سورة بنی اسرائیل ) یعنی جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان سے ایسی بات نہ کہو جس سے وہ پریشان ہو جائیں اور ان کی خدمت اس طرح کرو جس طرح انہوں نے تمہاری پرورش کی ۔ 
سورة بنی اسرائیل میں ہی اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : اور ان کے لیے نرمی کا پہلو جھکاﺅ اور یوں کہو: اے میرے رب !ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ۔سورة لقمان میں ارشاد باری تعالی ہے : یہ کہ میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو اور میری ہی طرف لوٹ کر آناہے ۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ تعالی کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ۔ ( الترغیب التر ہیب ) حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے کبیرہ گناہ کی خبر نہ دو ں وہ یہ کہ کسی کو اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے ۔ (صحیح بخاری ) 
حضرت کعب احبار رحمة اللہ رعلیہ سے پوچھا گیا کہ والدین کی نافرمانی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کے ماں باپ اس کے حوالے سے قسم کھائیں تو وہ ان کی قسم کو پورا نہ کرے اور جب اسے کسی بات کا حکم دیں تو ان کی نافرمانی کرے اور اگر وہ اس سے کچھ مانگیں تو ان کو نہ دے اور جب وہ اس کے پاس امانت رکھیں تو اس میں خیانت کرے۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : چار قسم کے بندے ہیں جو اس بات کے مستحق ہیں جس کو اللہ تعالی جنت میں بھی داخل نہ کرے اور نہ ہی ان کو جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز فرمائے جب تک وہ توبہ نہ کر لیں : شرابی ، سود خور ، یتیم کا مال کھانے والا اور والدین کا نا فرمان۔ ( المستدرک الحاکم) ۔
حضرت ابو دردا ءرضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : 
باپ جنت کے درمیان والا دروازہ ہے پس اگر تم چاہو تو اسے ضائع کر دو یا اس کی حفاظت کرو ۔ (جامع ترمذی ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: والدین کا نا فرمان ، احسان جتانے والا اور شراب کا عادی جنت میں نہیں جائیں گے ۔ ( مشکوٰة شریف ) 

منگل، 20 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 62.کیا ہم سب سے پہلے دوزخ میں ڈالے ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 61.کیا ہماری سمجھ الٹی ہو گئی ہے

جنت کے انعامات

 

جنت کے انعامات

جنت اللہ تبارک وتعالی کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ جو جنت میں داخل ہو گا وہ ہمیشہ اس میں رہے گا ۔ وہ کبھی بھی تنگدست نہیں ہو گا ۔اسے کبھی بھی موت نہیں آئے گی ۔ اس کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہو ں گے ۔اور نہ ہی کبھی اس کا شباب اور حسن ختم ہو گا ۔ جنت میں انسان کو ایسی نعمتیں ملیں گی جو کسی انسان نے نہ پہلے کبھی دیکھی ہوں گی اور نہ کبھی سنی ہوں گی ۔ارشاد باری تعالی ہے : کوئی نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے بدلے میں ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کون کون سی چیزیں پوشیدہ رکھی گئیں ہیں۔ ( سورة سجدہ ) 
جنت کے ارد گرد مصیبتوں ، پریشانیوں اور تکلیفوں کی باڑ ھ لگا دی گئی ہے ۔ جنت میں کسی بھی قسم کی مصیبت برداشت نہیں کرنی پڑے گی ۔ جنت کا محل سونے چاندی کی اینٹوں اور کستوری کے گارے سے بنا ہوا ہے۔جنت میں ہیرے اور جواہرات کی کنکریاں ہوں گی ۔ جنت کی مٹی زعفران کی ہوگی ۔ حسد و کینہ اور بغض جیسی فضول چیزیں دل سے نکل جائیں گی ۔ اہل جنت کے چہرے بڑے حسین و جمیل ہوں گے ، ان کی صحت قابل رشک ہو گی ۔ ان کے دل بڑے مطمئن ہوں گے اور وہ بہت زیادہ خوش ہوں گے ۔ انھیں کبھی کسی قسم کی تنگی اور تنگ دستی نہیں ہو گی ۔ آسائش ان کے قدم چومے گی ۔ اہل جنت سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں گے ۔ خوش ذائقہ پھلوں کی ڈالیاں ان کے ارد گرد جھوم رہی ہوں گی ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ان کے لیے جاری چشمے سے شراب طہور کے بھرے جام گردش کر رہے ہوں گے ۔ نہایت سفید رنگ پینے والوں کے لیے لذت والی ، نہ اس سے سر چکرائے گا اور نہ اس سے مدہوش ہوں گے ۔ ( سورة لصفت)
جنت کے خادموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : اور ان کی خدمت میں سدا نو خیز رہنے والے لڑکے پھرتے ہوں گے جب انہیں دیکھیں گے تو انہیں بکھرے ہوئے موتی سمجھیں گے۔ (سورة الدھر) ۔ وہاں تھوک اور پیشاب پاخانے کا تصور تک نہ ہو گا ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( سورة البقرة)
جنت کی حوروں کی صفات بیان کرتے ہو ئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ان میں جھکی جھکی نظروں والی (حوریں)ہوں گی ۔ ان سے پہلے انہیں کسی انسان اور جن نے ہاتھ بھی نہیں لگایا ہو گا ۔ ( سورة الرحمن) 
ارشاد باری تعالی ہے : ان کے لیے بالا خانے ہیں ، ان کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں جب کہ ان کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ ( سورة الزمر) 
جنت میں سب سے بڑا انعام یہ ہو گا اللہ تعالی اپنی ذات اقدس سے پردے ہٹا دے گا اور اہل جنت اللہ تعالی کا جمال بے مثال دیکھیں گے ۔

پیر، 19 فروری، 2024

Mushrik koon?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 56-60 .کیا ہم عملی طور پر توحید رسا...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 53-55 Part-02. کیا ہمارے لئے دوگنا ...

نیت کی اصلاح

 

نیت کی اصلاح

امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ہی کے لیے ہے اورجس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ ( صحیح بخاری شریف ) 
نیت کی درستگی سے مراد یہ ہے کہ نیک کام محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے ، کسی کے خوف سے یا کسی کی خوشنودی کے لیے نہ ہو اور اس میں لوگوں میں شہرت ، نیک نامی یا دنیاوی لالچ بھی نہ ہو۔ اور اگر کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے کسی شخص کی خوشنودی یا لوگوں میں شہرت اور نام کمانے کے لیے کیا جائے یا پھر دنیاوی مقصد کے لیے کیا جائے تو اس میں خرابی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ اسے تو تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔(سورۃالحج)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشا د فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ تمھاری شکل و صورت اور ما ل و دولت کو نہیں دیکھتابلکہ وہ تو تمھارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے ۔ ( مسلم شریف) 
 کسی بھی عمل کے لیے نیت کا خالص ہونا بہت ضروری ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی نیک عمل کرنے کاارادہ کرے تو اسے ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے ۔ اور اگر نیت کے بعد اس عمل کو کر بھی لے تو اسے کم از کم دس گناثواب ملتا ہے اور بعض صورتوں میں سات گنا تک ثواب ملتا ہے ۔ (بخاری )
اوس بن حذیفہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشا د فرمایا : جو شخص رات کو سوتے وقت تہجد کی نیت کر لے لیکن وہ بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس عمل کا ثواب مل جاتا ہے جس کی اس نے نیت کی اور نیند اس پر اس کے رب کی طرف سے صدقہ ہے ۔ (سنن  نسائی ) 
اگر کوئی عمل اللہ تعالی کی رضا کے لیے نہ کیا جائے بلکہ دکھلاوے کے لیے جا ئے تو وہ اللہ تعالی کے نزدیک شرک قرار پاتا ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص لوگوں کے دکھلاوے کی خاطر نماز پڑھے،روزے رکھے یا صدقہ کرے تو وہ شرک کا مرتکب ہے ۔ ( مسند احمد ) 

اتوار، 18 فروری، 2024

Kamyabi ka Raaz

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 53-55 Part-01.کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 48-52.کیا ہماری گردن میں لوہے کی سل...

ریاء کاری

 

ریاء کاری

 ارشاد باری تعالی ہے : پس ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو اپنی نماز میں سستی کرتے ہیں وہ جو ( اپنا عمل)دکھاتے ہیں اور معمولی چیزیں بھی ( ایک دوسرے کو ) نہیں دیتے ۔ ( سورۃ  الماعون) ۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالی ہے: لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ تعالی کا ذکر بہت کم کرتے ہیں ۔ 
ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتاتے ہوئے اور تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے ۔ ( سورۃا لبقر)
سورۃ الکہف میں ارشاد باری تعالی ہے : پس جو شخص اللہ تعالی سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ۔(یعنی کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے عبادت نہ کرے ) ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ تعالی اسے شہرت دیتا ہے اورجو شخص دکھاوا کرے اللہ تعالی اسے دکھا دیتا ہے۔ ( مسند احمد) ۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تھوڑا ریاء بھی شرک ہے ۔ ( مشکوۃ شریف) 
مشکوۃ شریف میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مجھے تم پر سب سے زیادہ شرک اصغر کا خوف ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وہ ریاکاری ہے ۔ اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا بندوں کو ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ۔ تم ان لوگوں کے پاس جائو جن کو تم اپنے اعمال دکھاتے تھے پس دیکھو کیا ان کے پاس بدلہ پاتے ہو۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ریا ء کار کی تین علامات ہیں : جب تنہا ہو تو سستی اختیار کرتاہے اور لوگوں کے سامنے چست و چالاک ہوتا ہے ، جب اس کی تعریف کی جائے زیادہ کام کرتا ہے ۔اور جب اس کی مذمت کی جائے تو عمل میں کمی کرتا ہے ۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنی گردن جھکائی ہوئی تھی ۔ آپ نے فرمایا اے گردن جھکانے والے اپنی گردن کو اٹھا ئو خشوع گردن میں نہیں بلکہ خشوع دل میں ہے ۔ 
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگوں کے لیے عمل کو چھوڑنا ریا ہے اور لوگوں کی خاطرعمل کرنا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالی تمہیں دونوں باتوں سے بچائے ۔ریا کارکو قیامت کے دن تین ناموں سے پکار ا جائے گا اے دھوکے باز ، اے نا فرمان، اے نقصان اٹھانے والے جا ئو اور اس سے اپنا اجر وصول کرو جس کے لیے تم نے عمل کیا ہمارے پاس تمہارے لیے کوئی اجر نہیں ۔

ہفتہ، 17 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 45-47.ہم نے کیا ہدایت خداوندی سے من...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 43-44 .کیا قرآن اللہ تعالی نے ہمارے...

نیکی کرنا بھی صدقہ ہے

 

نیکی کرنا بھی صدقہ ہے

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان پر ہر جوڑ کی طرف سے روزانہ صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے۔ سواری کے بارے میں کسی سے تعاون کرنا یعنی سواری پر سوار کرنا یا کسی کا سامان لاد کر اس کی مدد کرناصدقہ ہے۔ اچھی بات صدقہ ہے ۔ جو قدم نماز کے لیے اٹھے گا صدقہ ہے۔ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ ( صحیح بخاری )
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نیکیوں کے حریص تھے اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ایک مرتبہ مالی لحاظ سے کمزور صحابہ کرام حضور نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہﷺ ،اہل ثروت درجات اور نیکیوں میں ہم سے سبقت لے جاتے ہیں۔ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں ہم بھی نماز پڑھتے ہیں۔ وہ بھی روزے رکھتے ہیں ہم بھی روزے رکھتے ہیں۔ البتہ مال دار ہونے کی وجہ سے وہ عبادات کے ساتھ ساتھ مالی صدقہ بھی کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے ۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: تمہیں ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے پر صدقے کا ثواب ملے گا، اللہ اکبر کہنے پر صدقے کا ثواب ملے گا، الحمد اللہ کہنے پر صدقے کا ثواب ملے گا۔ لا الہ الااللہ کہنے پر صدقے کا ثواب ملے گا اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے پر بھی صدقے کا ثواب ملے گا، یعنی جو بھی کام اچھی نیت کے ساتھ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے ۔
حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: تیرا مسلمان بھائی سے خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا صدقہ ہے ۔ تو امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کرے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ 
کسی بھولے ہو ئے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے۔ راستے سے پتھر ، کانٹے اور ہڈی وغیرہ اٹھا دینا بھی صدقہ ہے۔ تمہارا اپنے ڈول سے کسی بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔ (ترمذی)
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔ (ترمذی)
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارا اپنی ضرورت سے زائد خوراک سے کسی کمزور کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے۔ (مسند احمد ) 
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: مسلمان جو چیز بھی کاشت کرے اس میں سے جو کچھ بھی کھایا جائے یا چوری ہو جائے یا اس میں سے درندے اور پرندے کھا جائیں یا اس کی وجہ سے اسے جو بھی تکلیف آئے وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ (بخاری شریف) 

جمعہ، 16 فروری، 2024

Hum main khauf-e-khuda paida kaisay ho ga?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 41-42 Part-03. کیا ہمارا رخ زندگی د...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 41-42 Part-02.اس وقت کیا ہمارے چہرے...

Khauf--e-khuda ki zaroorat

ناپ تول میں کمی کرنا

 

ناپ تول میں کمی کرنا

کم تولنے والوں کی خرابی ہے کہ وہ جب دوسروں سے ماپ لیں تو پورا لیں اور جب انہیں ماپ تو کر دیں تو کم کر دیں ۔ ( سورۃ المطففین)۔ 
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : پانچ کام پانچ کاموں کا بدلہ ہیں ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ﷺ وہ پانچ کام کیا ہیں ۔
 آپ ﷺ نے فرمایا : جو قوم عہد توڑتی ہے اللہ تعالی ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے ۔ جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام کے بغیر فیصلہ کرتے ہیں ان میں محتاجی پھیل جاتی ہے ۔ جس قوم میں بے حیائی پھیل جائے اللہ تعالی ان پر طاعون نازل فرماتا ہے ۔ اور جب ناپ تول میں کمی کریں تو وہ سبزیوں سے محروم ہو کر قحط سالی کا شکا ر ہو جاتے ہیں اور جب زکوۃ ادا نہیں کرتے تو ان سے بارش روک دی جاتی ہے ۔ ( المعجم الکبیر ) 
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں میرا ایک پڑوسی میرے پاس آیا اور اس کی موت قریب آچکی تھی ۔ وہ کہہ رہا تھا آگ کے دو پہاڑ آگ کے دو پہاڑ ۔ فرماتے ہیں میں نے پوچھا تم کیاکہتے ہو ۔ اس نے کہا اے ابو یحییٰ میں نے دو پتھر رکھے ہوئے تھے ایک کے ساتھ اپنے لیے ماپتا تھا اور دوسرے کے ساتھ لوگوں کے لیے ماپتا تھا۔ 
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں میں اٹھااور پتھر ایک دوسرے کے ساتھ مارنے لگاتو اس نے کہا ۔ اے ابو یحیٰ جب تم ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ مارتے ہو تو میری تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ اسی بیماری میں ہی مر گیا ۔ 
حضرت نافع رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کسی بیچنے والے کے پاس سے گزرتے تو فرماتے ناپ تول پورا پورا رکھو کیونکہ تم تولنے والوں کو کھڑا کیا جائے گا حتی کہ پسینہ ان کو ان کے کانوں کے نصف تک لگام ڈال دے گا ۔ اسی طرح جب تاجر بیچتے وقت اپنے ہاتھ کو گز کے ساتھ سخت کر دے گا اور خریدتے وقت ڈھیلا چھوڑ دے تو وہ بھی سزا کا مستحق ہے ۔ 
ایک بزرگ کا قول ہے کہ اس شخص کے لیے خرابی ہے جو ایک دانہ کم کر کے اس جنت کا سودا کر لیتا ہے جس کی چوڑائی تمام آسمان و زمین ہیں ۔ اور اس کے لیے بھی خرابی ہے جو ایک دانہ زیادہ لیتا ہے ۔  

جمعرات، 15 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 38-40 Part-03.کیا ہمیں دنیا کا پکا ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 38-39 Part-02.کیا ہم نافرمان قوم ہیں

امانت میں خیانت کرنا

 

   امانت میں خیانت کرنا

اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم جانتے ہو۔ ( سورۃ الانفال )۔ سورۃ یوسف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : بیشک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے مکر کو راہ نہیں دیتا۔(سورۃ یوسف) مطلب یہ ہے کہ وہ ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے اور ذلیل و رسوا ہو گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : امانتوں سے مراد وہ اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بطور امانت ہم پر لازم کیے ہیں اور وہ فرائض ہیں ، پس ان کو نہ توڑو۔ کلبی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے خیانت کا مطلب احکام کی نا فرمانی ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے،جب وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔ (مسلم شریف) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مومن کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کے علاوہ ہر چیز ہو سکتی ہے۔ ( الدر منثور)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں دو شریکوں کا تیسرا ہوں۔ جب تک ان میں سے ایک دوسرے سے خیانت نہ کرے۔ یعنی جب دو آدمی مل کر کام کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے خیانت نہ کریں۔ ( السنن الکبری للبہیقی) حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : خیانت سے بچو یہ بری عادت ہے۔ ( مجمع الزوائد ) 
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قیامت کے دن اس امانت دار کو لایا جائے گا جس نے اس میں خیانت کی ہو گی اور اسے کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کرو۔ وہ کہے گا اے اللہ کہاں سے دوں دنیا تو چلی گئی۔ تو اسے جہنم کی گہرائی میں وہی صورت دکھائی جائے گی جو اس کے لینے کے دن تھی۔ پھر کہا جائے گا کہ اتر جائو اسے نکال کر لائو۔ آپ فرماتے ہیں وہ اس کی طرف اترے گا اور اسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے گا تو یہ اس پر پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہو گی۔ حتی کہ جب وہ خیال کرے گا کہ وہ نجات پا گیا تو وہ گر جائے گی اور وہ بھی اس کے پیچھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا۔ 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نماز امانت ہے ، وضو امانت ہے ، غسل امانت ہے ، وزن کرنا امانت ہے ، ناپنا امانت ہے اور سب بڑی امانت ودیعت رکھے ہوئے مال ہیں۔

بدھ، 14 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 38-39 Part-02.کیا ہم نافرمان قوم ہیں

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 38-39 Part-01.کیا ہم نے جھوٹ پر یقی...

حرام خوری

 

حرام خوری

اللہ تعالی نے ایک دوسرے کا مال نا حق طریقے سے کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : اور ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھائو ۔ (سورۃ البقرۃ ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک جو شخص اللہ تعالی کے مال میں ناحق دخل اندازی کرتے ہیں ، ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہو گی ۔ ( بخاری شریف) ۔ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے پر گرد و غبار ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر پکارتا ہے ، اے میرے اللہ ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پینا حرام اور اس کا لباس حرام مال سے خریدا ہوا ہے اسے حرام مال سے غذا حاصل ہوئی تو اس کی دعا کیسے قبول ہو گی ۔ ( مسلم شریف ) 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ آپ اللہ تعالی سے دعا فرمائیں کہ میری ہر دعا قبول ہو جائے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انس اپنے کسب کو حلال رکھو ، تمہاری دعا قبول ہو گی ۔ ایک شخص حرام کا لقمہ منہ میں لے جاتا ہے تو چالیس دن تک اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ ( مسلم ) 
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دنیا میٹھی سر سبز ہے جو اس سے حلال مال حاصل کرتا ہے پھر اس کو اس کے حق میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ثواب عطا کرتا ہے اور جنت کا وارث بنا دیتا ہے اور جو شخص اس سے حرام طریقے سے مال کماتا ہے اور ناحق جگہ خرچ کرتا ہے اللہ تعالی اسے ذلت والی جگہ داخل کرے گا اور کئی لوگ اپنے نفس کی خواہش کے مطابق حرام میں پڑتے ہیں قیامت کے دن ان کے لیے آگ ہو گی ۔ ( الترغیب الترہیب) 
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ہم حرام میں پڑنے کے خوف سے حلال مال کے دس میں سے نو حصے چھوڑ دیتے تھے ۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں جو شخص نیکی کے کام میں حرام مال خرچ کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو پیشاب کے ذریعے کپڑے کو پاک کرنا چاہتا ہے اور کپڑے کو صرف پانی پاک کرتا ہے ۔ اسی طرح گناہ کو صرف حلال مال دور کرتا ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے لیے منہ میں حرام لقمہ ڈالنے سے بہتر ہے منہ میں مٹی ڈالنا ہے ۔ ( کنزالعمال ) 

Kya humari paidaish fazool hay?

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 36-37 Part-04.کیا ہم اپنی منزل سے ب...

منگل، 13 فروری، 2024

بری عادات

 

بری عادات 

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ٹوہ نہ کرو ، جاسوسی نہ کرو ، دنیا کی چیزوں میں بڑھ بڑھ کر رغبت نہ کرو،آپس میں حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو۔ ( صحیح  بخاری) 
ٹوہ نہ کرو مطلب جب دو لوگ آپس میں بات کر رہے ہوں تو چھپ کر ان کی باتیں نہ سنو۔ ایک دوسر ے کی جاسوسی نہ کرو مطلب کہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے میں نہ لگے رہو اور نہ ہی ان کو کریدو۔ 
ایک دوسر ے سے حسد نہ کرو ۔ حسد کا مطلب ہے کسی پر انعامات کی بارش دیکھ کر خود کو اچھا نہ لگنا اور اس سے یہ سب چھن جانے کی تمنا کرنا ۔ بلکہ اس کے برعکس جب دیکھیں کہ اللہ تعالی نے کسی شخص کو بہت زیادہ نوازاہے تو اس پر رشک کریں ۔رشک کرنا جائز ہے ۔ اس کا مطلب ہے کسی کو خوش حال دیکھ کر خوش ہونا اور اپنے لیے بھی اللہ تعالی سے ایسے ہی انعام و اکرام کی دعا کرنا ۔ 
بغض کامطلب ہے کسی سے دشمنی اور کینہ رکھنا ہے ۔ اگریہ دین کی بنیاد پر ہو جیسے اللہ تعالی کے نافرمانوں سے ان کی نافرمانی کی وجہ سے نفرت رکھنا تو یہ ایمان کا تقاضا ہے جو نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری بھی ہے ۔ اگر یہ بغض صرف ذاتی معاملات یا خاندان و قبیلے یا اور کسی دنیوی غرض و مفاد کی وجہ سے ہو تو یہ نہ صرف نا جائز ہے بلکہ ایک نا پسندیدہ عمل بھی ہے ۔ 
مسلم شریف میں ایک جگہ ’’ لاتناجشو ا‘‘  اور  لا تھجرو ا‘‘اور بخاری شریف میں’’ولا تدابروا‘‘
کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ ولا تنا جشو ا کے معنی ہیں نجش نہ کرو ۔ یعنی کسی بھی سودے کی بڑھ چڑھ کر تعریف کرنا تا کہ خریدنے والا اس کوخرید لے حالانکہ کہ وہ سودا اس قابل نہ ہو جتنی اس کی تعریف کی گئی ہو ۔ یا پھر کسی بھی چیز کی بہت زیادہ بولی لگائی جائے حالانکہ کہ وہ چیز خود نہ خریدنی ہو بلکہ اس کا صرف یہ مقصد ہو کہ مال زیادہ قیمت پر بک جائے ۔ولا تھجرواکا معنی ہے بے ہودہ باتیں کرنا ، فحش گوئی کرنا ، مومن کو چاہیے کہ وہ فحش گوئی نہ کرے کیونکہ مومن کی زبان سے نکلنے والا کلمہ یا تو کسی کی خیر خواہی کے لیے ہوتا ہے یا وہ اس کے ذریعے کسی کو نیکی کی دعوت دیتا ہے یا پھر اس کی زبان ہمیشہ اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول رہتی ہے یا پھر وہ خاموش رہتا ہے ۔ ولا تدابروا کا مطلب ہے ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھائو۔ یعنی کہ ایک دوسرے سے دشمنی مت کرو اور آپس میں صلہ رحمی رکھو ۔

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 36-37 Part-03.کیا ہم حرام اور حلال ...

پیر، 12 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 36-37 Part-02.کیا ہم طاغوت کے بندے ہیں

سود کی مذمت

 

سود کی مذمت

ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! دو گنا در دو گنا سود نہ کھائو اور اللہ تعالی سے ڈرو تا کہ تم کامیابی پائو۔( سورۃ آل عمران )۔
 سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انھو ں نے کہا بیع بھی تو سودہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود کو ۔ جو جسے اس کے رب کے پا س سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو و ہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے ۔ انھوں نے اس چیز کو حلا ل کہا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا ۔ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تو وہ تیز تیز چلیں گے ۔ لیکن سود کھانے والوں کی یہ حالت ہو گی کہ وہ گریں گے پھر اٹھے گے کیونکہ ان لوگوں نے دنیا میں سود کھایا تھا جو حرام ہے اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں کو بڑھا دے گا ۔وہ بھاری ہو جائیں گے اور جب وہ اٹھنے کا ارادہ کریں گے تو گر جائیں گے ۔ 
حضرت قتادہ ؓسے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: سود خور قیامت کے د ن پاگل کی صورت میں اٹھایا جائے گا اور یہ سود خوروں کی علامت ہو گی جس سے میدان محشر میں ان کی پہچان ہو گی ۔ 
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: 
جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ ان کے ہاتھوں کے سامنے تھے ۔ ان میں ہر شخص کا پیٹ بہت بڑے مکان کی طرح تھا ۔ ان کے پیٹو ں نے انھیں جھکایا ہوا تھا ۔ وہ آل فرعو ن کے راستے پر جمع ہوئے اور آل فرعون صبح شام جہنم پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ وہ بھاگنے والے اونٹوں کی طرح آگے بڑھتے تھے نہ کچھ سنتے تھے نہ کچھ سمجھتے تھے ۔ جب ان کو احسا س ہوا تو وہ کھڑے ہوئے تو ان کے پیٹوں نے ان کو جھکا دیا اور وہ وہاں سے ہل نہ سکے اور آل فرعون نے ان کو گھیر لیا ۔ وہ ان کو آگے پیچھے پھینکتے ہیں ۔ یہ دنیا اورآخرت کے درمیان برزخ میں ان کاعذاب ہے ۔ میں نے جبرائیل امین سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ دنیا میں سود کھاتے تھے ۔ 

اتوار، 11 فروری، 2024

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 33-35 Part-2.کیا ہم صرف ظاہری کامیا...

رشتہ داروں سے قطع تعلقی

 

 رشتہ داروں سے قطع تعلقی

   ارشاد باری تعالی ہے : اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتہ داروں کا خیال رکھو ۔ (سورۃ النساء ) ۔ سورۃ محمد میں ارشاد باری تعالی ہے : 
پس قریب ہے کہ اگر تم منہ پھیر لو تو تم زمین میں فساد پھیلائو اور رشتہ داروں سے تعلق توڑ دو ایسے لوگوں پر اللہ تعالی نے لعنت فرمائی ، پس ان کو بہرہ اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے : وہ لوگ جو اللہ تعالی کے وعدے کو پورا کرتے ہیں اور پکا کیا ہوا وعدہ نہیں توڑتے اوروہ لوگ جو حکم خدا وندی کے مطابق صلہ رحمی کرتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور بڑے حساب کا خوف رکھتے ہیں ۔ (سورۃ الرعد ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ (بخاری ) 
جو اپنے کمزور رشتہ داروں سے تعلق توڑے اور ان کو چھوڑ دے ، ان پر تکبر کرے اور ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی والا رویہ نہ رکھے حالانکہ وہ امیر ہے اور جو اس کے رشتہ دار ہیں وہ غریب ہیں تو وہ اس سزا کا مستحق ہو گا اور اگر وہ اللہ تعالی سے توبہ کر لے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اللہ پاک بخشنے والا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے رشتہ دار کمزور ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے بلکہ اپنا صدقہ دوسروں کو دے اللہ تعالی نہ تو اس کا صدقہ قبول کرے گا اور نہ ہو قیامت کے دن اس کی طرف نظر فرمائے گا ۔ 
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ حضور نبی کریم ﷺ کی حدیث سنانے بیٹھے تو فرمایا :میں ہر اس شخص کو جو رشتہ داروں سے تعلق توڑتا ہے مجبور کرتا ہوں وہ ہمارے پاس سے اٹھ جائے ۔ ایک نوجوان اٹھا اور اپنی پھوپھی کے پاس گیا جس کے ساتھ کافی سالوں سے بول چال نہیں تھی اس سے صلح کر لی ۔ پھوپھی نے پوچھا تجھے کس بات نے تعلق جوڑنے پر مجبور کیا ۔ تو اس نوجوان نے کہا کہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں ہر قطع تعلق کرنے والے سے کہتا ہو ں کہ وہ میر ی مجلس میں سے اٹھ جائے ۔ پھوپھی نے کہا جا کے ا ن سے پوچھو کہ انہوں نے یہ بات کیوں کی ۔ جب حضرت ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک ان لوگوں پر رحمت نازل نہیں ہوتی جن میں کوئی رشتہ داروں سے قطع تعلق رکھنے والا ہو۔  (الترغیب الترہیب ) 

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 33-35 Part-01.کیا ہم اللہ تعالی کے ...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 30-32 Part-04.کیا ہم متقی لوگ ہیں

ہفتہ، 10 فروری، 2024

جھوٹی قسم کی مذمت

 

جھوٹی قسم کی مذمت

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم ﷺ سے سنا ہے : جو شخص کسی مسلمان کے مال پر ناحق قسم کھائے وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس سے ناراض ہو گا ۔ آپ ؓ فرماتے ہیں پھر حضور نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ۔ 
ارشادباری تعالی ہے : بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالی کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑا مال لیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالی قیامت کے دن ان سے نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔(سورۃ آل عمران ) 
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جو شخص کسی مسلمان کا حق قسم کے ذریعے ہتھیالے ، اللہ تعالی نے اس کے لیے جہنم واجب کی اوراس پر جنت کو حرام کیا ۔ 
ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ اگرچہ تھوڑا ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگرچہ وہ پیلو کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو ۔(مسند امام احمد ) 
حضرت ابو ذر ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین قسم کے آدمی وہ ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔ آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ لوگ کون ہیں ؟ یہ تو ناکام و نا مرادہوئے ، آپ ﷺ نے فرمایا : تکبر سے کپڑ ا لٹکانے والا،بہت زیادہ احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ذریعے سامان بیچنے والا ۔( صحیح مسلم ) 
حضرت ابن عمر ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالی نے انہیں باپ داد ا کے نام کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے پس جس کے لیے قسم کھانا ضروری ہو وہ اللہ تعالی کے نام کی قسم کھائے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری ) 
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص امانت کی قسم کھائے ، وہ ہم میں سے نہیں ۔ ( ابی دائود) 
حضرت بریدہ ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : 
جو شخص قسم کھاتے ہوئے قسم کھائے کہ میں اسلام سے بری ہو ں پس اگر وہ جھوٹا ہے تو اسی طرح ہے جیسے اس نے کہا اور اگر سچا ہے تو اسلام کی طرف صحیح سالم واپس نہیں آئے گا ۔ ( سنن ابی دائود ) 

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 30-32 Part-02.دنیا میں کامیابی کی ض...

جمعہ، 9 فروری، 2024

عورت کے ساتھ حسن معاشرت

 

عورت کے ساتھ حسن معاشرت

ارشاد باری تعالی ہے : اور انکے بھی حقوق ہیں (مردوں پر ) جیسے مردوں کے حقوق ہیں ان پر دستور کے مطابق ۔( سورۃ البقرۃ ) ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا عورت کا مرد پر کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم خود کھائو اسے بھی کھلائو ، جب تم عمدہ لباس پہنو اسے بھی پہنائو اسکے چہرے پر نہ مارو اسے برا بھلا مت کہو اور گھر سے باہر اس سے اونچی آواز میں نہ بولو ۔ ( ابودائود ، ابن ماجہ ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے جوانوں کے گروہ تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کر لے بے شک یہ نگاہ کو جھکا دیتا ہے ، شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے بے شک روزہ اسکی شہوت کو کم کریگا ۔ ( بخاری و مسلم ) ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا : دنیا میں میرے لیے خوشبو اور عورت محبوب بنائی گئی ہے جبکہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ ( نسائی ) میاں اور بیوی دونوں کو اچھے انداز سے اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قول ہے کہ مجھے اپنی عورت کیلئے ویسے ہی بننا سنورنا پسند ہے جیسے اس کا میرے لیے زیب و آرائش کرنا مجھے اچھا لگتا ہے ۔ بہت سے مرد حضرات اپنی بیوی سے ہنسی مذاق سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے گھر میں ان کا رعب ختم ہو جائیگا ۔لیکن یہ بات بالکل غلط ہے اگر ایسا ہو تا تو حضور نبی کریم ﷺ ضرور ایسا طریقہ اپناتے ۔ مگر حضور نبی کریم ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرتے اور ان سے دل بستگی بھی کرتے ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفر پر جا رہی تھیں تو آپ ﷺ نے انکے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا ۔ آپ فرماتی ہیں کہ ایک بار میں ان سے آگے نکل گئی اور ایک مرتبہ آپ ﷺ آگے نکل گئے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مسلمانوں کیلئے تمام کھیل کود باطل ہیں سوائے تیر انداز ی کے اور گھڑ سواری کے اور اپنے اہل  وعیال کے ساتھ کھیل کود کے بے شک یہ سب ٹھیک ہیں ۔ (ترمذی) حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک عورت ٹیڑھی پسلی سے تخلیق کی گئی ہے اور سب سے زیادہ ٹیڑھی پسلی سب سے اوپر والی ہوتی ہے ۔ اگر تم اسے سختی سے سیدھا کرو گے تو اسے توڑ دو گے اور اسے ایسے ہی چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہو جائیگی ۔ پس عورتوں کو اچھی طرح نصیحت کرو ۔ ( بخاری ) 

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 30-32 Part-01.ڈپریشن سے چھٹکارا کیس...

Surah An-Nahl (سُوۡرَةُ النّحل) Ayat 27-29.کیا ہم اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں

جمعرات، 8 فروری، 2024

ہمسائیوں کے حقوق

 

 ہمسائیوں کے حقوق

ارشاد باری تعالی ہے : ’’اور عبادت کرو اللہ کی اور نہ شریک ٹھہرائو اس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرو نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پڑوسی جو رشتہ دار ہے اور وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ‘‘۔(سورۃ النساء) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جبرائیل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ مجھے لگا کہ اسے وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا جائے گا ۔ ( بخاری شریف ) ۔
ایسا پڑوسی جو رشتہ دار ہو اور پڑوس میں رہتا ہو اس کے دو حقوق ہیں۔ ایک قرابت کی وجہ سے اور دوسرا پڑوسی ہونے کی حیثیت سے ۔ جبکہ اجنبی یا غیر رشتہ دار کا ایک حق ہوتا ہے اور وہ پڑوس کا حق ہے۔ لیکن پڑوسی رشتہ دار ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں پڑوسی کی عزت و تکریم ، باہمی خیر خواہی اور حسن سلوک کرنا ضروری ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور   ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے دوستوں کے حق میں بہتر ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے
 جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہے ۔ ( ترمذی ) 
گھر کے بالکل ساتھ والے پڑوسی کا حق زیادہ ہے اس پڑوسی کی نسبت جو دور رہتا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا یارسول اللہ ﷺ میرے پڑوس میں دو عورتیں رہتی ہیں ان دونوں میں سے میں کس کو کوئی چیز بطور ہدیہ بھیجا کرو ں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا دروازہ آپ کے گھر کے نزدیک ہے ۔ ( بخاری شریف ) کسی بھی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچائے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے پڑوسی کو ایذا یا تکلیف دینے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے ۔ ( بخاری شریف ) 
حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم وہ شخص ایمان والا نہیں ! اللہ کی قسم وہ شخص ایمان والا نہیں ! آپ ﷺ سے عرض کی گئی یا رسو ل اللہ ﷺ کو سا شخص؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ۔ (بخاری شریف )