بدھ، 14 فروری، 2024

حرام خوری

 

حرام خوری

اللہ تعالی نے ایک دوسرے کا مال نا حق طریقے سے کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : اور ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھائو ۔ (سورۃ البقرۃ ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک جو شخص اللہ تعالی کے مال میں ناحق دخل اندازی کرتے ہیں ، ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہو گی ۔ ( بخاری شریف) ۔ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے پر گرد و غبار ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر پکارتا ہے ، اے میرے اللہ ! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پینا حرام اور اس کا لباس حرام مال سے خریدا ہوا ہے اسے حرام مال سے غذا حاصل ہوئی تو اس کی دعا کیسے قبول ہو گی ۔ ( مسلم شریف ) 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ آپ اللہ تعالی سے دعا فرمائیں کہ میری ہر دعا قبول ہو جائے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انس اپنے کسب کو حلال رکھو ، تمہاری دعا قبول ہو گی ۔ ایک شخص حرام کا لقمہ منہ میں لے جاتا ہے تو چالیس دن تک اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ ( مسلم ) 
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دنیا میٹھی سر سبز ہے جو اس سے حلال مال حاصل کرتا ہے پھر اس کو اس کے حق میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ثواب عطا کرتا ہے اور جنت کا وارث بنا دیتا ہے اور جو شخص اس سے حرام طریقے سے مال کماتا ہے اور ناحق جگہ خرچ کرتا ہے اللہ تعالی اسے ذلت والی جگہ داخل کرے گا اور کئی لوگ اپنے نفس کی خواہش کے مطابق حرام میں پڑتے ہیں قیامت کے دن ان کے لیے آگ ہو گی ۔ ( الترغیب الترہیب) 
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ہم حرام میں پڑنے کے خوف سے حلال مال کے دس میں سے نو حصے چھوڑ دیتے تھے ۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں جو شخص نیکی کے کام میں حرام مال خرچ کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو پیشاب کے ذریعے کپڑے کو پاک کرنا چاہتا ہے اور کپڑے کو صرف پانی پاک کرتا ہے ۔ اسی طرح گناہ کو صرف حلال مال دور کرتا ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے لیے منہ میں حرام لقمہ ڈالنے سے بہتر ہے منہ میں مٹی ڈالنا ہے ۔ ( کنزالعمال ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں