منگل، 31 جنوری، 2023

shortvideo - ہم عبادت کیوں کریں؟

جذبہءمحبت

 

 جذبہءمحبت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (اپنا چشم دیدواقعہ بیان کرتے ہوئے)کہتے ہیں کہ انصار کا ایک (مخلص محب اور جاں نثار)آدمی بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا تو (آقا علیہ السلام کی رنگت دیکھ کر)اس نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا وجہ ہے کہ میں جناب کے رنگ میں تبدیلی محسوس کررہا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(رنگت میں تبدیلی کی بڑی وجہ ہے)بھوک۔یہ معلوم کرکے وہ انصاری اپنی قیام گاہ (گھر)پر آیا، مگر اپنے گھرمیں بھی اس نے کوئی چیز نہ پائی(جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوک کا سامان کرکے دلی مسرت وسکون حاصل کرتا) چنانچہ وہ کھانے پینے کی کسی چیز کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑا ہوا ، تو اس دوران اس نے دیکھا کہ ایک یہودی اپنے باغ کو (کنویں سے ڈول نکال نکال کر)پانی دے رہا ہے۔مذکور صحابی نے پوچھا کیا میں تمہارے باغ کو سینچ (پانی لگا)دوں ؟اس نے کہا ہاں۔انصاری نے کہا تو سن لو ایک ڈول کے بدلے ایک کھجور ہوگی۔علاوہ ازیں اس نے یہ شرط بھی لگائی کہ وہ معاوضے میں نہ اندرسے سیاہ (خراب )کھجورلے گا نہ خشک کھجوراورنہ گری پڑی کھجور بلکہ وہ اس سینچائی کے بدلے میں موٹی تازی کھجور وصول کرے گا۔ اس معاہدہ کے مطابق اس نے تقریباً وہ ساع کھجور کے برابر۔ یہودی کے باغ کی سینچائی کی (پانی لگایا)اورمزدوری سے حاصل شدہ کھجور وں کایہ نذرانہ بارگاہِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش کردیا۔ (ابن ماجہ)
 بعض روایات میں ا س پر یہ اضافہ ہے کہ جب اس نے کھجوریں لاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھیں اور عرض کیا کہ تناول فرمائیے ۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:تم یہ کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟اس نے سارا واقعہ بتایاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرا خیال ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہو۔اس نے عرض کیا:ہاں!بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میرے نزدیک میری جان،میری اولاد، میرے اہل وعیال اورمیرے مال سے بھی زیادہ محبوب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قیمت بتاتے ہوئے ) فرمایا:اگر یہ بات ہے تو پھر فقروفاقہ پر صبر کرنا اورآزمائشوں کے لیے اپنی کمر کس لینا ۔اس ذات کی قسم !جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے، جو شخص میرے ساتھ (سچی محبت رکھتا ہے تو یہ دونوں مذکور ہ چیزیں(فقروفاقہ اورآزمائشیں )اس کی طرف اس پانی سے بھی زیادہ تیز دوڑ کر آتی ہیں جو پہاڑکی چوٹی سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔(الاصابہ، مجمع الزوائد: بحوالہ ،حب رسول اورصحابہ کرام)

پیر، 30 جنوری، 2023

Shortvideo - عبادت کا اصل مطلب

خدادادقوت

 

خدادادقوت

رکانہ، عرب کا ایک نامور پہلوان تھا ،جس کی جسمانی طاقت کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ مشہور تھا کہ وہ اکیلا دوسو آدمیوں کا مقابلہ کرکے انہیں پچھاڑ سکتا ہے۔ سنن ترمذی میں ہے:ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے کسی کوہستانی علاقہ سے گزررہے تھے کہ رکانہ سے ملاقات ہوگئی ۔سرور عالم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جو شخص بھی ملاقات کرتا حضور اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت اپنے من موہنے انداز میں ضروردیتے۔چنانچہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کوبھی دعوت دی کہ تم بت پرستی سے توبہ کرو اوراللہ تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر ایمان لے آﺅ۔اس نے کہا:میں ایک شرط پر آپ کی اس دعوت کو قبول کرنے کو تیار ہوں، اگرآپ مجھے پچھاڑدیں تو میں ایمان لے آﺅں گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے دن اکثر فاقہ کشی سے گزرتے تھے۔کئی کئی ماہ تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ رحمت میں چولہے میں آگ تک نہیں جلائی جاتی تھی، گاہے کھجور کا ایک دانہ منہ میں ڈال کر پانی پی لیا اورشب وروز گزارلئے ، رکانہ توہر روز معلوم نہیں کتنی مقدار گوشت گھی اوردودھ کی استعمال کرتا ہوگا، بایں ہمہ حضورپر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیل تن پہلوان کی اس شرط کو قبول کیا، فرمایا: اے رکانہ! اگر تم اس شرط پر ایمان لانے کا وعدہ کرتے ہوتو میں وہ شرط پوری کرنے کو تیار ہوں۔

چنانچہ رکانہ لنگوٹہ کس کر میدان میں آکھڑا ہوا۔سرور انبیاءعلیہ التحیہ والثناءبھی اکھاڑے میں تشریف لائے۔اس کا بازو پکڑااورایک جھٹکے میں اسے چاروں شانے چت گرادیا۔وہ حیران ومبہوت ہوکر رہ گیا لیکن پھر اٹھااورکہنے لگا کہ میں ابھی سنبھلانہیں تھا، بے دھیانی میں آپ نے مجھ پر غلبہ حاصل کرلیا ہے، ایک مرتبہ پھر آپ مجھے گرادیں تومیں ایمان لے آﺅں گا۔اس داعی برحق نے اس کے اس چیلنج کو قبول کیا، حضور اکھاڑے میں تشریف لائے ، اس کا بازو پکڑکر اسے جھٹکا دیا اورزمین پر پٹخ دیا۔اسے سان وگمان بھی نہ تھا کہ اس کو یوں گرادیا جائے گا۔ سراسیمہ ہوکر پھر اٹھا اورتیسری بار پھر کشتی کی دعوت دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ نہیں کہاکہ دومرتبہ میں نے تمہاری شرط پوری کردی اب تم ایمان نہیں لاتے تو تمہاری قسمت بلکہ حریص علیکم کی جو شان تھی اس کا اظہار فرماتے ہوئے تیسری باربھی فرمایا:تمہارا چیلنج قبول کرتا ہوں۔ پھر اس کو اس طرح جھٹکا دیاکہ وہ چشم زون میں زمین پر آپڑا۔اب اسے یارائے انکار نہ رہا اس نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا اوراعلان کیا کہ یہ جسمانی قوت نہیں۔آپ نے مجھے اپنی روحانی قوت سے تین بارپٹخا ہے۔یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔(ضیاءالنبی )


اتوار، 29 جنوری، 2023

Shortvideo - کیا ہم قلب سلیم کے مالک ہیں؟

طیب وطاہر وجود

 

طیب وطاہر وجود

قاضی عیاض مالکی تحریر کرتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی نظافت بطن اقدس اور اسکے سینے کی خوشبو اوراس کا ہر قسم کی آلودگی اورعیوبات جسمانیہ سے پاک صاف ہونا یہ ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپکو وہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپکے سوا کسی میں پائی ہی نہیں جاتی۔ مزید براں یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو شرعی نفاست وپاکیزگی اوردس فطری خصلتوں سے بھی مزین فرمایا ہے،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دین کی بنیاد پاکیزگی پر ہے۔ (ترمذی)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سی خوشبو سے بڑھ کر کسی عنبر ،کستوری اورکسی بھی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔(صحیح مسلم)

حضرت جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رخسار کو چُھواتو میں نے آپ کے دست اقدس کو ایسا ٹھنڈا اورمعطر پایا کہ گویا ابھی آپ نے عطارکے صندوقچے سے اپنے دست مبارک کو باہر نکالاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ خواہ آپ نے خوشبو لگائی ہوتی یا نہیں لیکن آپ جس شخص سے بھی مصافحہ فرماتے تو وہ ساران دن اُسکی خوشبو سے معطر رہتا ،اگر آپ کسی بچے کے سر پر اپنا دست شفقت پھیردیتے تو وہ بچہ خوشبو کی وجہ سے پہچانا جاتا۔(صحیح مسلم)

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے گھر میں قیام فرمایا، آپ کو پسینہ آگیاحضرت انس کی والدہ ایک شیشی لے آئیں اورآپکے پسینے کو جمع کرنے لگیں، آپ نے وجہ دریافت فرمائی توعرض کیا میں اس کو اپنی خوشبو میں رکھوں گی یہ سب سے عمدہ اورطیب خوشبو ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس کوچہ وبازار سے گزرفرماتے اسکے بعد کوئی شخص اس طر ف سے گزرتا تو وہ خوشبو سے محسوس کرلیتا کہ آپ ادھر سے گزرے ہیں۔(بخاری فی التاریخ) اسحاق بن لاہویہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ خوشبو نہ بھی استعمال فرماتے تو آپکے جسم سے خوشبو پھوٹتی تھی۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں ایک دفعہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو چومنے کا موقع ملا تواس میں سے کستوری کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔(ابن عساکر)حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک ﷺ کوآخری غسل دیا تو میں نے دیکھا کہ آپکے وجود اقدس میں سے کوئی ایسی چیز نہیں نکلی جو میت میں سے نکلتی ہے۔ تومیں نے بے ساختہ کہا: آپ زندگی میں بھی طیب وطاہر ہیں اور وصال کے بعد بھی پاک صاف ہیں۔ فرماتے ہیں کہ آپکے بطن اقدس سے ایسی خوشبو نکلی کہ میں نے اس سے قبل کبھی نہیں محسوس کی تھی ۔(سنن ابن ماجہ)


ہفتہ، 28 جنوری، 2023

سراپاحُسن و رعنائی

 

سراپاحُسن و رعنائی

قاضی ابوالفضل عیاض المالکی تحریر کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارکہ اوراسکا جمال اورآپ کے اعضاء وقویٰ کے متناسب ہونے کے بارے میں بہت سی صحیح اورمشہورحدیثیں منقول ہیں۔ ان احادیث میں سے ایک حدیث جسے حضرت علی حضرت انس بن مالک ، حضرت ابوہریرہ، حضرت براء بن عازب ، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت ابن ابی ہالہ ، حضرت ابن ابی حجیفہ ، حضرت جابر ابن سمرۃ ، حضرت ام معبد ، حضرت ابن عباس ، حضرت معرض بن معیقی رضوان اللہ علیہم اجمعین اوربہت سے صحابہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ مبارک (گندم گوں)گورا، سیاہ اور کشادہ آنکھیں، سرخ ڈورے والی، لمبی پلکیں ،روشن چہرہ ،باریک ابرو، اونچی بینی ، دندان مبارک چوڑے، گول چہرہ فراخ پیشانی، ریش مبارک جو سینے کو ڈھانپ لے ، شکم وسینہ ہموار سینہ مبارک کشادہ، بڑے کاندھے ، بھری ہوئی ہڈی، بازوپُر گوشت ،کلائیاں ،پنڈلیاں، ہتھیلیاں فراخ، قدم چوڑے ، ہاتھ پائوں دراز، بدن خوب چمکتا ہوا، سینہ سے ناف تک بالوں کی باریک لکیر، میانہ قد نہ زیادہ طویل ، نہ زیادہ قصیر اسکے باوجود جو شخص سب سے زیادہ دراز قد ہوتا اگر آپ کے برابر کھڑا ہوتا تو آپ اس سے بلند معلوم ہوتے ۔یہ آپ کا معجزہ تھا۔آپ کے گیسو مبارک بالکل سیدھے تھے اورنہ مکمل گھنگھریالے جب آپ تبسم فرماتے تو دندان مبارک بجلی کی طرح چمکتے اوربارش کے اولے کی طرح سفید وشفاف دکھائی دیتے۔جب آپ گفتگو فرماتے توایسا معلوم ہوتاکہ نور کی جھڑیاں آپ کے دندان مبارک سے نکل رہی ہیں ۔گردن نہایت خوبصورت ،نہ آپ کا چہرہ بہت بھرا ہوا تھانہ بہت لاغر بلکہ بدن کی مناسبت سے ہلکا گوشت تھا۔ (دلائل النبوۃ)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی بالوں والے کوکہ اس کے بال کاندھوں تک دراز ہوں۔سرخ پوشاک میں حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔(بخاری ومسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ کسی کو حسین وجمیل نہیں دیکھا گویاآپ کے رخسارمیں سورج تیررہا ہے۔ جب آپ مسکراتے تھے تو دیواروں پر اس کی چمک پڑتی تھی۔(شمائل ترمذی، ابن حبان ،احمد)حضرت جابر بن سمرۃ سے کسی نے پوچھا کیا آپ کا چہرہ تلوار کی طرح چمکتا تھا۔ انہوں نے کہا نہیں بلکہ آفتاب وماہتاب کی طرح روشن اورگول تھا۔(صحیح مسلم)


Shortvideo - دل پر زنگ کیسے لگ جاتا ہے؟

جمعہ، 27 جنوری، 2023

حضور علیہ الصلوٰة والسلام کافہم وذکائ

 

حضور علیہ الصلوٰة والسلام کافہم وذکائ

ہادی انس وجان صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قوم کی ہدایت اورراہنمائی کیلئے مبعوث فرمایا گیا وہ حلم وبردباری کے نام سے بھی واقف نہ تھی۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلواریں بے نیام ہوجاتیں،خون کے دریا بہنے لگتے اور کشتوں کے پشتے لگ جاتے اورقتل وغارت کا یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہ لیتا ۔ایسی تیز مزاج قوم کو حضور پر نور نے حلم وبردباری کا علمبردار بنادیا۔

نیز وہ قوم جو اخلاقی لحاظ سے پستی کی انتہاءمیں گرچکی تھی ، فسق وفجور کی دلدل میں تابدوش غرق تھی، پیشہ ورعورتیں اپنے گھروں پر جھنڈے نصب کرکے لوگوں کو دعوت گناہ دے رہی ہوتی تھیں، بڑے بڑے شرفاءوہاں جاکر اپنا منہ کالا کرتے لیکن نہ ان کو کسی سے شرم محسوس ہوتی اورنہ انہیں کوئی برا بھلاکہتا ،وہ قوم شراب جس کی گھٹی میں تھی، وہ قوم جو گاڑھے پسینے کی کمائی ہوئی دولت کو شراب خوری اورقماربازی میں پانی کی طرح بہادینے کے دعادی تھے، اوراس کو وہ باعث عزوافتخار سمجھتے تھے ایسی قوم کو انتہائی دانشمندی سے رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قعرمذلت سے نکالااورعفت وپاکدامنی کا خوگر بنایا۔

وہ قوم جو کسی کی اطاعت کیلئے تیار نہیں تھی ، جس کی انانیت کسی قانون اوردستور کی پابند نہ تھی، جن کے ہاں لوٹ مار اورڈاکہ زنی کوئی عیب شمار نہ ہوتا تھا،اس قوم کو سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حکیمانہ کلمات اور دلنشین مواعظ سے جس طرح قانون وآئین کی پابندی کا خوگر بنادیا وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ وہ قوم جو متعدد قبائل میں بٹی ہوئی تھی، ایک دوسرے کی جان ومال کو نقصان پہنچانا ہر طاقتور اپنا حق سمجھتا تھا، ان بکھرے ہوئے قبائل کو خدا کے مقدس رسول نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح یکجا ن کیا اورعدل وانصاف کے ضابطوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا عادی بنادیا۔یہ ہمہ پہلو انقلاب جو عرب کے اجڈ بدﺅں میں برپا ہوا یہ سب امور حضورکی دانش وخردمندی کی ناقابل تردید دلیلیں ہیں۔سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے ظاہر کوہی نہیں بدلا بلکہ اس کے باطن کو بھی صدق وصفا، عفت وتقویٰ ، تواضع وانکساری اورجذبہ اطاعت امیر سے مزین کردیا۔جب سے اولاد آدم اس کرہ ارضی پر آباد ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک کوئی فاتح عالم ، کوئی سلطان ہفت اقلیم ، کوئی سیاسی مدبر ،ایسا جامع انقلاب برپا نہ کر سکاجس طرح اللہ کے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلیل ترین وقت میں برپاکیا۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی عقل کی برتری ثابت کرنے کیلئے اس سے بڑھ کر اورکسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ سرورانبیاءعلیہ الصلوٰة والسلام نے بڑے حکیمانہ انداز سے ہر قسم کے لوگوں کو اسلام کے سانچے میں اس طرح ڈھالاکہ ان کے مزاج ، اوران کی فطرت، بدل کر رکھ دی۔(ضیاءالنبی)


Shortvideo - دل کب کالا ہونا شروع ہوتا ہے؟

جمعرات، 26 جنوری، 2023

اللہ اوراُسکے رسول (ﷺ)کی اطاعت

 

اللہ اوراُسکے رسول (ﷺ)کی اطاعت

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادہے :۔

٭اے ایمان والو!اطاعت کرواللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اوران کی جو تم میں سے صاحب اختیارہیں،پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کروتو اسے رجوع کرو اللہ کی طرف اوررسول کی طرف،اگر تمہیں اللہ اورقیامت کے دن پر ایمان ہے،یہ بہت بہتر ہے اورانجام کے اعتبار سے سب سے اچھا ہے۔(النساء:59)٭آپ ان لوگوں سے فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ کی محبت کے دعویدار ہو تو میری اتباع کرو،اللہ تمہیں محبوب رکھے گااور تمہارے گناہ بخش دیگا اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(آل عمران)

٭آپ فرمادیجئے کہ حکم مانواللہ کا اورحکم مانو رسول اللہ کا ،پھر اگر تم روگردانی کرو تو رسول کی ذمہ داری وہی ہے جو اس پھر لازم کیاگیا ہے اورتم پر وہ ہے جس کا بارتم پر رکھا گیا ہے،اگر رسول کی فرمانبراری کروگے،راستہ پالوگئے اوررسول کے ذمہ نہیں مگر واضح طورپر بات پہنچا دینا ۔(النور:54)

٭اورجو اللہ اوررسول کی اطاعت کرتا ہے اللہ اسے (ان)باغوں میں لے جائیگا جن کے نیچے نہریں رواں دواں ہیں اورجو(اس اطاعت سے) روگردانی کرئے گا (اللہ )اسے دردناک عذاب دےگا۔ (الفتح:17)٭اورنہ کسی مسلمان مرد اورنہ مسلمان عورت کو حق پہنچتا ہے کہ جب اللہ اوررسول کچھ حکم فرمادیں توانہیں اپنے معاملے کا کچھ اختیار ہے اورجو اللہ اوراسکے رسول کا حکم نہ مانے بے شک وہ کھلی گمراہی میں ہے پڑگیا ۔(احزاب:36)

٭اوریہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں اورجو اللہ اوراس کے رسول کاحکم مانتا ہے اللہ اسے(ان )باغوں میں لے جائے گاجن کے نیچے نہریں رواں ہیں اوریہی بڑی کامیابی ہے۔(النسائ:13.14)

٭اوراطاعت کرواللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اورمتنبہ رہو پھر اگر تم روگردانی کرلو تو(اچھی طرح)آگاہ ہوجاﺅ کہ ہمارے رسول کے ذمہ توحکم کا واضح طورپر ابلاغ ہے۔(المائدہ :92)

٭اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کروپھر اگرتم روگردانی کروتو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف واضح طورپر پہنچادینا ہے۔اللہ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں اورایمان والے اللہ پر بھروسہ کریں۔(التغابن :12,13) ٭اے ایمان والو !اللہ کی اطاعت کرواوررسول کی اطاعت کرواوراپنے اعمال باطل نہ کرو۔ (محمد:33)٭اورنماز قائم کرواورزکوٰة اداکرو اوررسول کی اطاعت تاکہ تم پر رحم کیاجائے۔ (النور:26)٭اے ایمان والو!اللہ اوراسکے رسول کی اطاعت کرواورروگردانی نہ کروحالانکہ تم سنتے ہواوران جیسے نہ ہوجانا جنہوں نے کہاہم نے سن لیا لیکن وہ نہیں سنتے ۔(الانفال:20)


Shortvideo - ہمیں دل کے نورانی ہونے کا پتہ کیسے چلے گا؟

بدھ، 25 جنوری، 2023

Shortvideo - کامیابی کا راز

برکت

 

برکت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضوراکرم ﷺانکے گھر تشریف لائے،انکی والدہ محترمہ حضرت اُم سُلَیْم ؓنے آپکی خدمت اقدس میں گھی اورکھجوریں پیش کیں مگر آپ نے فرمایا:تم یہ گھی اورکھجوریں انکے برتنوں میں واپس رکھ دو کیونکہ میں روزہ سے ہوں پھر آپکے ایک گوشہ میں تشریف لے گئے، اور نوافل اداکرنے کے بعد حضرت اُم سُلیمؓ اورانکے اہل خانہ کیلئے دعافرمائی۔حضرت اُم سُلیم نے گزارش کی یارسول اللہ ﷺ!میرا ایک اورلاڈلہ بھی تو ہے اسکے لیے بھی دعافرمائیں۔آپ نے پوچھا: کون ہے؟ انہوں نے عرض کی، آپ کا خادم انس ، نبی کریم ﷺنے ان کیلئے خصوصی طور پر دعاکرتے ہوئے دنیا وآخرت کی کوئی بھلائی نہیں چھوڑی جس کی ان کیلئے دعانہ فرمائی ہو۔آپ نے اللہ کی بارگاہ میں گزارش کی ،اے اللہ تعالیٰ اسکو مال واولاد عطا فرمااوراسے برکت عطافرما۔ (حضرت انس کہتے ہیں)کہ دعائے نبوی کی برکت سے آج میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور مجھ سے میری بیٹی امینہ نے بیان کیا ہے کہ حجاج کے بصرہ آنے تک میری جَبلّی اولاد میں سے ایک سوبیس سے زیادہ افراد کا انتقال ہوچکا تھا ۔(بخاری)
حضرت اُم اوس البہزیہ ؓنے ایک مرتبہ گھی صاف کرکے ایک برتن میں ڈالا پھر اسے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں ہدیہ کے طورپر بھجوایا ۔حضور انور ﷺ ازراہِ محبت وشفقت اس پُر خلوص ہدیہ کو قبول فرمالیا اور ڈبے میں موجود گھی کو اپنے پاس رکھ لیا۔حضرت اُم اوس کیلئے برکت کی دعافرمائی اورگھی کا برتن واپس بھجوادیا۔جب یہ برتن انکے پاس پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعاکی وجہ سے گھی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ حضرت اُم اوس کو یہ گمان ہوا کہ شاید نبی کریم ﷺنے اُنکا ہدیہ قبول ہی نہیں فرمایا، وہ بہت پریشان ہوئیں،فوراً بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئیں اوراپنا پُرخلوص ہدیہ قبول نہ ہونے کے گمان میں زاروقطار رورہی تھیں ،حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے اپنی اس خادمہ کی بے قراری و پریشانی کو دیکھا تو حاضرین سے فرمایاکہ اس خاتون کو تسلی دو اوراصل واقعہ سے آگاہ کرو۔حاضری نے انہیں بتایاکہ نبی کریم ﷺنے آپ کا ہدیہ قبول فرمالیا اوراس گھی کو دوسرے برتن میں انڈیل دیا گیا تھا۔ پھر تمہارے لئے برکت کی دعاکی گئی تھی جس کی وجہ سے تمہارے برتن کے کناروں پر بچا ہوا گھی معجزانہ طور پر اس قدر بڑھ گیا۔ جب وہ واقعہ سے آگاہ ہوئیں تو مطمئن ہوکر گھر واپس آگئیں۔حضرت موسیٰ بن عمران رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺکی دعاکی بدولت اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس گھی میں اتنی برکت ڈال دی کہ حضرت اُم اوسؓ اس برتن میں سے نہ صرف حضوراکرم ﷺکی بقیہ حیاتِ مبارکہ میں گھی استعمال کرتی رہیں بلکہO خلفاء راشدین اور حضرت امیر معاویہ ؓکے زمانے تک بھی وہی گھی استعمال کرتی رہیں۔(اسد الغابہ فی معارفۃ الصحابہ ابن اسیر)

منگل، 24 جنوری، 2023

Shortvideo - توحید کیا ہے؟

کمالِ وابستگی (۴)

 

 کمالِ وابستگی (۴)

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نکلے، حضور علیہ الصلوٰة والتسلیم نے ہمارے اونٹوں کے کجاوﺅں پر ایسی چادریں ملاحظہ فرمائیں جن میں اون کے سرخ دھاگے تھے ، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی ناپسندیدگی سے ارشادفرمایا:کیا میں یہ نہیں دیکھ رہا کہ تمہارے اوپر سرخی غالب آگئی ہے(ہم سمجھ گئے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو کجاوﺅں کی یہ سرخ چادریں ناگوار گزریں ہیں) آپ کے اس ارشادپر ہم لوگ بڑی تیزی سے اُٹھے حتیٰ کہ ہماری تیزی کی وجہ سے ہمارے بعض اونٹ بھی بھاگ کھڑے ہوئے، ہم نے ان چادروں کو کجاوﺅں سے کھینچ لیا۔(ابوداﺅد)
 قبیلہ بنی اسد کی ایک خاتون صحابیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میں، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہاکے پاس حاضر ہوئی ، ہم نے اُم المومنین کے کپڑوں کو گیرو سے رنگنا شروع کیا اسی دوران میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے مگر جب آپ نے ہمیں گیرو سے کپڑے رنگتے ہوئے دیکھا تو واپس تشریف لے گئے ۔حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے یہ بات دیکھی تو وہ سمجھ گئیں کہ حضور علیہ الصلوٰة والتسلیم نے اس امر کو ناپسند فرمایا ہے تو انھوں نے وہ کپڑے پکڑے اورانھیں اچھی طرح دھو کر ان پر سے رنگت اتار دی اس کے علاوہ ہر قسم کی سرخی کو چھپادیا ، کچھ دیر کے بعد حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اورگھر میں جھانک کردیکھا جب کوئی رنگدار چیز نظر نہ آئی تو اندر تشریف لے آئے۔(ابوداﺅد)
  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی ملاحظہ فرمائی تواسے اتار کر پھینک دیا ، اورارشادفرمایا کیا تم میں سے ایک سونے کی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہن کر جہنم کا انگارہ بننا چاہتا ہے، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے تو لوگوں نے اسے کہا:اپنی انگوٹھی اٹھا لو اوراس سے نفع حاصل کرو یعنی کسی دوسرے مصرف میں لے آﺅ مگر اس شخص نے کہا ”نہیں !واللہ، میں اس انگوٹھی کو کبھی نہیں اٹھاﺅں گا جسے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پھینک دیا ہے۔(صحیح مسلم)

پیر، 23 جنوری، 2023

Shortvideo - مُشرک کون

کمالِ وابستگی(۳)

 

کمالِ وابستگی(۳)

اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ انھوں نے ایک ایسا تکیہ خرید لیا،اس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کاشانہ اقدس کی طرف تشریف لائے اورآپ کی نظر اس تکیہ پر پڑی تو دروازے پر ہی کھڑے ہوگئے اوراندر قدم رنجہ نہ فرمایا میں نے آپ کے مزاج ہمایوں کو فوراً بھانپ لیااور عرض کی یارسول اللہ مجھ سے جو بھی غلطی سرزد ہوگئی ہے میں اس پر اللہ اوراس کے رسول کی طرف توبہ کرتے ہوئے رجوع کرتی ہوں، آ پ نے استفسارفرمایا: یہ تکیہ کیسا ہے اورکہاں سے آیا ہے؟میں نے گزارش کی کہ یہ تکیہ میں نے آپ کی ذات والا تبار کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر جلوہ افروز ہوں (آرام محسوس کریں)اورٹیک لگایا کریں ۔آپ نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن تصاویر والوں کو عذاب دیا جائے گااوران سے کہاجائے گا کہ تم نے جو تصویریں بنائی ہیں اب ان میں جان بھی ڈالو، مزید فرمایا: جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔(بخاری ، مسلم)
حضرت ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے انھوں نے یمن کے دو (ریشمی )حلّے زیب تن کیے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے استفسار فرمایا: اے ضمرہ!کیا تم اس قسم کے کپڑے پہن کر جنت میں داخل ہونا چاہتے ہو ، انھوں نے گزارش کی یارسول اللہ!آپ میرے لیے اللہ کی بارگاہ میں استغفار فرمائیں اورمجھے تھوڑی مہلت عطاکریں تو میں ان کو ابھی اتارکر آتا ہوں ۔آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی: اے اللہ !ضمرہ کی اس کوتاہی کو معاف فرما دے۔ حضرت ضمرہ رضی اللہ عنہ تیزی سے گھر گئے اور ان کپڑوں کو اتارکر دوسرے کپڑے پہن لیے۔ (الاصابہ ابن حجر)
حضرت ثعلبہ بن عنمہ الانصاری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، انھوں نے اپنی انگلی میں سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی، جب انھوں نے آپ کی خدمت اقدس میں سلام عرض کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہ دیا ، انھوںنے دوبارہ سلام عرض کیا تو آپ نے پھر بھی جواب نہ دیا، تیسری بار بھی ایساہی ہوا۔حاضرین میں سے کسی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! ثعلبہ نے تین بار آپ سے سلام عرض کیا،لیکن آپ نے جواب عنایت نہیں کیا۔ آپ نے ارشادفرمایا:کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اس کے ہاتھ میں موجود انگارے کی گرمی کی وجہ سے میرے چہرے پر پسینہ آگیا ہے ، حضرت ثعلبہ نے اسی وقت سونے کی وہ انگوٹھی اتارکر پھینک دی ۔ (مستدرک امام حاکم)

اتوار، 22 جنوری، 2023

کمالِ وابستگی(۲)

 

کمالِ وابستگی(۲)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی سفر اختیار فرماتے تو جس شخصیت کو سب سے آخر میں ملتے اورالوداع فرماتے وہ آپ کی پیار ی لخت جگر حضرت سیدة النساءخاتون جنت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہوتی اورجب سفر سے واپس تشریف فرما ہوتے تو بھی سب سے پہلے حضرت خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے گھر میں قدم رنجہ فرماتے ۔(بخاری،ابوداﺅد )

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، (کہ ایک مرتبہ سفر سے واپسی پر )حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے دروازے پر تشریف لائے ،وہاں آپ نے ایک پردہ آویزہ دیکھا جس پر کچھ تصاویر بنیں ہوئیں تھیں، آپ گھر میں داخل نہ ہوئے اورباہر سے ہی واپس تشریف لے گئے ، آپ کا چونکہ معمول یہی تھا کہ آپ سب سے پہلے اپنی لخت جگر کے گھر میں تشریف فرماہوتے ۔اس بار آپ نے اس کا التزام نہ فرمایاتو اس سے حضرت سیدہ رضی اللہ عنہابڑی افسردہ ہوئیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم گھر میں تشریف لائے اورسیدہ کو مغموم دیکھا تواستفسار فرمایا:آپ کو کیا ہوا؟فرمانے لگیں کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے مگر اندر داخل نہیں ہوئے اس بات نے مجھے بہت رنجیدہ کردیا ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ(صلی اللہ علیک وسلم)!آنجناب کے دروازے پر تشریف فرماہونے لیکن گھر میں داخل نہ ہونے کا سیدہ فاطمہ کو بڑا قلق ہے۔آپ نے ارشادفرمایا:میرا اوردنیاوی زیب وزینت اورنقش ونگار کا آپس میں کیا جوڑ ہوسکتا ہے ، اس دنیوی تکلف سے مجھے کیا سروکار؟حضرت علی رضی اللہ عنہ واپس تشریف لائے اورحضرت سیدہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل نہ ہونے کی وجہ بتائی ، انھوں نے فرمایا:کہ واپس جاکر حضور علیہ الصلوٰة والسلام سے پوچھیے کہ اس پردے کے بارے میں کیا حکم ہے؟آپ نے ارشادفرمایا: اس کپڑے کو فلاں قبیلے کے نادار لوگوں کی طرف بھیج دو۔(بخاری ، ابوداﺅد)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو تانبے کی انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا تو( ناپسندیدگی سے) فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں تم سے بتوں کی بُو محسوس کررہا ہوں اُنھوں نے فوراً وہ انگوٹھی اتارکر پھینک دی ، دوبارہ حاضر خدمت ہوئے تو لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ، حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے دیکھا تو ارشادفرمایا:کیا بات ہے میں تم پر اہل جہنم کا لباس دیکھ رہا ہوں ، انھوں نے وہ انگوٹھی بھی فوراً اتار کر پھینک دی اوراستفسارکیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم !میں کس چیز کی انگوٹھی بنواﺅں؟آپ نے ارشادفرمایا:چاندی کی، مگر وہ بھی وزن میں ایک مثقال سے کم ہو۔ (ابوداﺅد،مشکوة شریف)

Shortvideo - مومنانہ کردار

ہفتہ، 21 جنوری، 2023

کمالِ وابستگی(۱)

 

کمالِ وابستگی(۱)

حضور نبی رحمت ﷺکے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آنجناب کے احکامات کی بجاآوری اورفوری تعمیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے، آپکی ذات والا صفات سے ان کی غیر مشروط وابستگی کا یہ عالم تھا کہ وہ آنجناب کے روئے سخن کا بھی خیال رکھتے اورچہرہ مبارک کے آثار سے آکی پسند اورناپسند کو بھانپ کر فوراًاسکے مطابق عمل پیرا ہوجاتے۔

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بیان فرماتے ہیں،حضور اکرم ﷺنے مجھے ایک ریشمی حلّہ بطور ہدیہ مرحمت فرمایا، میں نے اسے خود زیب تن کرلیالیکن میں نے دیکھا کہ آقانامدار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رُخ انور پر میرے اس عمل سے ناپسندیدگی کے آثارہیں تو میں نے وہ کپڑا فوراً اتار دیااوراسے ٹکڑے کرکے اپنے (خاندان کی ) خواتین میں تقسیم کردیا۔(صحیح بخاری)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کاشانہ اقدس سے باہر نکلے تو راستے میں آپکی نظر ایک بلند چبوترے پر پڑی،آپ نے بڑی ناپسندیدگی سے استفسار فرمایا:یہ قبہ کس کا ہے ؟ صحابہ کرام نے ایک انصاری کا نام لیا۔آنحضور ﷺخاموش ہوگئے ، اپنی ناراضگی یا خفگی کو الفاظ سے بیان نہیں فرمایا، اس بلند منزلہ مکان کے مالک جب حضور اکرم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورآپکی خدمت عالیہ میں سلام عرض کیا تو آپ نے انکی جانب سے رُخ انورکوپھیر لیا، انھوں نے متعدد بار سلام عرض کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے التفات نہ فرمایا،وہ صحابی اپنے آقا کریم کی ناراضگی سے بڑے پریشان ہوئے ،انھوں نے اپنے دوستوں سے آپکی عدم توجہ کا ذکر کیااورکہاکہ آج میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ عجیب معاملہ دیکھا ہے۔انکے رفقاء نے بتایاکہ حضورانور ﷺنے تمہارے اس گنبد نماچبوترے کو دیکھا تھا اوراس پر ناراض محسوس ہوئے تھے۔جب انھیں آپ کے عدم التفات کی وجہ معلوم ہوئی تو وہ بلاتاخیر اپنے گھر پہنچے ،کدال پکڑی اوراس مکان کو گرا کر زمین کے برابر کردیا،لیکن خود حاضر خدمت ہوکر یہ بات بتائی نہیں۔ کچھ دنوں کے بعد نبی کریم ﷺ کا اس راستے سے دوبارہ گزر ہوااورآپ نے اس قبہ کو موجود نہ دیکھا تو استفسارفرمایاکہ اس گنبد کا کیا ہوا؟صحابہ کرام نے عرض کی،کہ ہمارے اس ساتھی نے ہم سے پوچھا تھاکہ حضور محترم ﷺنے مجھ سے کیوں اعراض فرمایاہے؟ توہم نے اسے آپ کی ناپسندیدگی کے بارے میں مطلع کردیا تھا، انھوں نے یہ سنتے ہی اس مکان کو مسمار کردیا۔آپ نے ارشادفرمایا:ہر ایک تعمیر اپنے بانی کے حق میں وبال ہے سوائے اس تعمیر کے جو بہت ضروری اورناگزیر ہو، یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے قبہ کو بلاتاخیر مسمار کردینے والے صحابی کو دعا دیتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا: رحمہ اللہ ،رحمہ اللہ ،اللہ اس پر رحم فرمائے ،اللہ اس پر رحم فرمائے ۔(ابن ماجہ)


جمعہ، 20 جنوری، 2023

Shortvideo - زندگی کیسے گزاریں؟

احساس

 

احساس

سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں نے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔ 

ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوں نے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔

 لوگوں نے جب ایک سوار کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کی : یارسول اللہ !کوئی شتر سوار ہماری طرف آرہا ہے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اللہ کرے ، کہ یہ سوار ابوخثیمہ ہی ہو۔جب یہ قریب آئے توصحابہ کرام نے عرض کی:واللہ !یہ سوار تو ابوخثیمہ ہی ہے،انھوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا اوربارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے ابو خثیمہ !تمہیں مبارک ہو، حضرت ابو خثیمہ اپنے تمام احوال گوش گزار کرنے کے لیے بیتاب تھے، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا تمام ماجراخود ہی بیان فرمادیااوران کے لیے دعائے خیرفرمائی ۔(زاد المعاد،ابن قیم، سیرت حلبیہ)


جمعرات، 19 جنوری، 2023

Shortvideo - یقینی جنت میں جانا کیسے ممکن ہوگا؟

Shortvideo - عبادت کا مطلب

اللہ کے حضورجوابدہی!

 

اللہ کے حضورجوابدہی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ نے فرمایا: کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟صحابہ نے کہا:نہیں، آپ نے فرمایا:چودھویں رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا چاند کودیکھنے سے تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟صحابہ نے کہا:نہیں ، آپ نے فرمایا:اس ذات کی قسم !جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تمہیں اپنے رب کو دیکھنے میں صرف اتنی تکلیف ہوگی جتنی تکلیف تم کو سورج یا چاند کو دیکھنے سے ہوتی ہے، آپ نے فرمایا:پھر اللہ تعالیٰ بندے سے ملاقات کرے گا اوراس سے فرمائے گا:اے فلاں !کیا میں نے تجھ کو عزت اورسرداری نہیں دی، کیا میں نے تجھے زوجہ نہیں دی اورکیا میں نے تیرے لیے گھوڑے اوراونٹ مسخر نہیں کیے اورکیا میں نے تجھ کو ریاست اورآرام کی حالت میں نہیں چھوڑا ؟وہ بندہ کہے گا، کیوں نہیں !اللہ تعالیٰ فرمائے گا:کیا تویہ گما ن کرتا تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے؟وہ کہے گا:نہیں ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے بھی تجھ کو اسی طرح بھلادیا ہے، جس طرح تونے مجھے بھلا دیا تھا۔ 

پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے ملاقات کرے گااورفرمائے گا کیا میں نے تجھ کو عزت اورسیادت نہیں دی، کیا میں نے تجھے زوجہ نہین دی، کیا میں نے تیر ے لیے گھوڑے اوراونٹ مسخر نہیں کیے اورکیا میں نے تجھ کو ریاست اورآرام کی حالت میں نہیں چھوڑا ؟ وہ شخص کہے گا:کیوں نہیں ! اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تو یہ گما ن کرتا تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے؟وہ کہتے گا نہیں ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بھی تجھ کواسی طرح بھلا دیا جس طرح تو نے مجھے بھلادیا تھا۔

پھر اللہ تعالیٰ تیسرے بندے کو بلاکر اسی سے اسی طرح فرمائے گا ،وہ کہے گا: اے میرے رب !میں تجھ پر ، تیری کتاب پر اورتیرے رسولوں پر ایمان لایا میں نے نماز پڑھی، روزہ رکھا اورصدقہ دیا اوراپنی استطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے گا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ابھی پتا چل جائے گا،پھر اس سے کہاجائے گا ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں ، وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا ، میرے خلاف کون گواہی دے گا! پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی، اوراس کی ران، اس کے گوشت اوراس کی ہڈیوں سے کہاجائے گا ، تم بولو! پھر اس کی ران ، اس کا گوشت اوراس کی ہڈیاں اس کے اعمال کا بیان کریں گی، اوریہ اس لیے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات میں اس کے خلاف حجت ہو، یہ وہ منافق ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا۔(شرح صحیح مسلم)

بدھ، 18 جنوری، 2023

حضرت عتبہ بن غزوان کا ایک خطبہ

 

حضرت عتبہ بن غزوان کا ایک خطبہ

خالد بن عمیر عدوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہمیں حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اوراللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنے کے بعد کہا:دنیا نے اپنے اختتام کی خبردے دی ہے اوربہت جلد پیٹھ موڑنے والی ہے اوراب دنیا صرف اتنی رہ گئی جتنا برتن میں کچھ بچا ہوا پانی رہ جاتا ہے اوراب تم دنیا سے اس جہان کی طرف منتقل ہونے والے ہو جو لازوال ہوگا، سو! تم اپنے ساتھ بہترین ماحضر لے کر منتقل ہو، کیونکہ ہم سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک پتھر کو جہنم کے کنارے سے گرایا جائے گا وہ ستر سال تک اس کی گہرائی میں گرتا رہے گا پھر بھی اس کی تہہ کو نہیں پاسکے گا، اورخد ا کی قسم جہنم بھر جائے گی اور بے شک ہم سے یہ بیان کیاگیا ہے کہ جنت کے دروازے کے ایک پٹ سے لے کردوسرے پٹ تک چالیس سال کی مسافت ہے اورجنت میں ضرور ایک ایسا دن آئے گا جب وہ لوگوں کے رش سے بھری ہوئی ہوگی، اورتم کو معلوم ہے کہ میں ان سات صحابہ میں سے ساتواں تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اورہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوا اورکوئی کھانے کی چیز نہیں تھی، حتیٰ کہ ہماری باچھیں چھل گئیں۔ مجھے ایک چادر مل گئی تو میں نے اپنے اورحضرت سعد بن مالک کے درمیان اس کے دوحصے کیئے ، نصف چادر کا میں نے تہبند بنایا اور نصف کا حضرت سعد بن مالک نے ، اورآج ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی شہرکا امیر ہے ،اورمیں اس چیز سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اوربے شک خلافتِ نبوت ختم ہوگئی اورآخر میں ہر خلافت ملوکیت سے بدل گئی اورتم ہمارے بعد آنے والے حاکموں کا حال بھی دیکھ لو گے اورتم کو ان کا تجربہ بھی ہوجائے گا۔

خالد بن عمیر نے زمانہ جاہلیت پایاتھا وہ کہتے ہیں کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے خطبہ دیا، وہ اس وقت بصرہ کے امیر تھے۔(شرح صحیح مسلم)

حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ اولین صحابہ کرام میں سے ہیں، دوسری ہجرت حبشہ میں شریک ہوئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس چلے آئے ۔ ہجرت مدینہ کی سعادت حاصل کی اور حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کیساتھ مواخات قائم کی، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔تیر اندازی کے لحاظ سے ان کا شمار اپنے فن کے کاملین میں ہوتا تھا۔اصحاب صفہ میں شامل تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کئی مہمات کی کامیاب قیادت کی۔ تقویٰ ، زہد، جفاکشی اورعاجزی وانکساری کے اوصاف سے مزین تھے۔ تکبر اورغرور سے دور کا بھی علاقہ نہیں تھا۔فرمایا کرتے تھے میں خدا سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ انسانوں کی نظروں میں حقیر رہنے کے باوجود اپنے آپ کو بڑا سمجھوں۔(اسد الغابہ)


Shortvideo - یقین کے درجات

منگل، 17 جنوری، 2023

کثرتِ دنیا سے اندیشہ (۵)

 

کثرتِ دنیا سے اندیشہ (۵)

حضرت نوفل ایاس ہذلی رحمة اللہ بیان کرتے ہیں ، حضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمارے ہم جلیس تھے اور وہ بڑے ہی اچھے ہم مجلس تھے۔ایک دن ہمیں اپنے گھر لے گئے ، ہمیں بیٹھک میں بٹھا کر گھر کے اندر گئے،غسل کرکے باہر تشریف لائے اورہمارے ساتھ بیٹھ گئے ، تھوڑی دیر بعد اند ر سے ایک پیالہ آیا جس میں روٹی اورگوشت کا سالن تھا، جب وہ پیالہ ہمارے سامنے رکھا گیا توحضرت عبدالرحمن بن عوف رو پڑے۔ہم نے ان سے پو چھا : اے ابو محمد!آپ کیوں رو رہے ہیں؟انھوںنے فرمایا:ہمارے آقا کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم اس حال میں دنیا سے تشریف لے گئے کہ آپ نے اورآپ کے اہل خانہ نے کبھی جَو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اس لیے میرے خیال میں یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ نے آپ کے بعد ہمیں جو دنیا میں زندہ رکھا ہے اوردنیا کی وسعت عطافرمائی ہے ہماری یہ حالت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت سے بہتر ہواورہمارے لیے اس میں زیادہ خیر ہو۔(ترمذی، ابونعیم)
حضرت ابراہیم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روزے سے تھے ، ان کے پاس افطار کیلئے کھانا لایا گیا تو اسے دیکھ کر فرمایا:حضرت معصب بن عمیر ؓمجھ سے بہتر تھے،انھیں شہید کردیا گیا ،انھیں ایک ایسی چادرمیں کفن دیا گیا جو اتنی چھوٹی تھی کہ اگر انکا سر ڈھانپ دیا جاتا تو اُن کے پاﺅں کھل جاتے اوراگر پاﺅں ڈھانپ دیے جاتے تو ان کاسر کھل جاتا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی مجھ سے بہتر تھے ، ان کو بھی شہید کردیا گیا ۔پھر اسکے بعد ہم پر دنیا کی بہت وسعت ہوگئی اورہمیں اللہ کی طرف سے دنیا کی فراوانی کردی گئی،اب ہمیں ڈر ہے کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی تو نہیں دے دیا گیا یہ کہہ کر آپ نے رونا شروع کردیا ۔(صحیح بخاری)
حضرت طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں ،حضور اکرم ﷺ کے صحابی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ شدید علیل ہوگئے اور انکی وصال کے آثار نمایاں ہوگئے ، چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی عیادت کیلئے تشریف لائے ، انھوں نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے کہا :اے ابو عبداللہ ! آپ کو خوشخبری ہو کہ آپ اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ جائینگے ۔یہ سن کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ رو پڑے اور ارشادفرمایا: مجھے موت سے کوئی گھبراہٹ نہیں ہے لیکن تم نے میرے بھائیوں کا نام لےکر مجھے ان کی یاد تازہ کرادی ہے جو اپنے اعمال صالحہ کا سارا اجر و ثواب ساتھ لے کر آگے چلے گئے اورمجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ انکے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو مال ودولت ہمیں دنیا میں عطاکردی ہے کہیں وہ ہمارے ان اعمال کا بدلہ نہ ہوجن کا تم تذکرہ کررہے ہو۔(ابونعیم ، ابن سعد )

Shortvideo - اللہ تعالٰی کے سفر کی شروعات

پیر، 16 جنوری، 2023

کثرتِ دنیا سے اندیشہ(۴)

 

کثرتِ دنیا سے اندیشہ(۴)

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک دن امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے طلب فرمایا، میں ان کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، جب میں دروازے کے قریب پہنچا تو میں نے اندر سے زارو قطار رونے کی آواز سنی ، میں نے گھبراکے کہا :انا للہ وانا الیہ راجعون ، واللہ ! امیرالمومنین کو کوئی بڑا حادثہ پیش آگیاہے ، میں نے گھر میں داخل ہوکر ان کا کندھا پکڑ لیا اورکہا :اے امیر المومنین! پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ، انھوں نے فرمایا:نہیں ! پریشان ہونے کی بہت بڑی بات ہے، وہ میرا ہاتھ پکڑکر مجھے دروازے کے اندر لے گئے ، میں نے دیکھا کہ اوپر نیچے بہت سے تھیلے رکھے ہوئے ہیں، انھوں نے فرمایا:اب خطاب کی اولاد کی اللہ کے ہاں کوئی قدروقیمت نہیں رہی ۔اگر اللہ تبارک وتعالیٰ چاہتے ، میرے دونوں رفقاءیعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کو بھی یہ مال اسی طرح فراوانی سے عطافرماتے اوروہ دونوں اسے جس طریقے سے صرف کرتے میں بھی وہی طریقہ اختیار کرتا ۔میں نے کہا :اے امیر المومنین !آئیے بیٹھ کے سوچتے ہیں کہ اسے کیسے خرچ کریں ، چنانچہ ہم لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لیے چار چار ہزار ، مہاجرین کے لیے چار چار ہزار اور باقی لوگوں کے لیے دو ہزار دوہزار درہم تجویز کیے اوریوں سارا مال فوری طور پر تقسیم کردیا ۔(کنزالعمال)
ابوسنان دوئلی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں امیر المومنین حضرت سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ، آپ کے پاس مہاجرین اولین کی ایک جماعت بھی تشریف فرما تھی ، آپ نے ایک شخص کو بھیجا کہ وہ اندر پڑا ہوا تھیلہ اٹھا لائے ، وہ تھیلہ ٹوکری کی طرح تھا ۔یہ عراق کے ایک مفتوحہ قلعہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا گیا تھا ، اس تھیلے میں ایک انگوٹھی بھی تھی جسے آپ کے ایک بچے نے لے کر اپنے منہ میں ڈال لیا۔ آپ نے اس سے وہ انگوٹھی واپس لی اور پھر رونے لگ گئے ، حاضرین نے آپ سے استفسار کیا:آپ کیوںرو رہے ہیں؟اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اتنی فتوحات عطاکردی ہیں ،آپ کو دشمن پر غالب کردیا اورآپ کی آنکھیں ٹھنڈی کردی ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا:میں نے حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے :”جن لوگوں پر دنیا کی فتوحات ہونے لگتی ہیں اورانھیں دنیا بہت مل جاتی ہے تو ان کے درمیان ایسی بغض وعداوت پیدا ہوجاتی ہے جو قیامت تک چلتی رہتی ہے“۔مال و اسباب کی اس فراوانی نے مجھے اسی خدشے میں مبتلا کردیا ہے۔(بزار ، ابویعلی، الترغیب والترہیب)

Shortvideo - ایمان کے درجات

اتوار، 15 جنوری، 2023

کثرتِ دنیا سے اندیشہ (۳)

 

کثرتِ دنیا سے اندیشہ (۳)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب روم اور فارس تمہارے ہاتھوں سے فتح ہوجائیں گے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کی:(یا رسول اللہ ﷺ) ہم اللہ رب العزت کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں گے ، جناب رسالت مآب ﷺ نے ارشادفرمایا: (نہیں) بلکہ اسکے برعکس ہوگا،(کثرتِ دنیا کی وجہ سے )تم اس میں رغبت کرو گے پھر آپس میں حسد کرو گے، ایک دوسرے کی دشمنی میں مبتلا ءہوجاﺅ گے اوردلوں میں بغض رکھو گے یا اسی طرح کے اوربیماریوں میں مبتلا ءہوجاﺅ گے، پھر تم مہاجرین کے گھروں میں جاﺅ گے اوربعض کو بعض کی گردنوں پر سوار کردوگے۔(مسلم)
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ( غزوہ خندق کے موقع پر جب صحابہ کرام تھکن سے چُور ہوگئے اوران میں سے اکثر فاقہ کی حالت میں بھی تھے )حضور اکرم ﷺنے انکی حالت زار کو ملاحظہ فرماکر ارشادفرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے سواءکوئی عبادت کے لائق نہیں اگر میرے پاس روٹی اورگوشت ہوتا تو میں تمہیں ضرور کھلاتا،( لیکن) اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی جب تم رنگ برنگے کھانوں سے سیر ہوجاﺅ گے؟لوگوں نے عرض کی : کیا ایسا ہوگا؟ارشادفرمایا: ہاں،تم ایسے ایک شخص کو پالوگے یا تم میں سے کوئی اسے دیکھ لے گا اس وقت کیسا حال ہوگا جب تمہارا ایک شخص صبح ایک جوڑے میں یا شام دوسرے جوڑے میں کرے گا؟لوگوں نے عرض کی کیا یہ بھی ہوگا؟آپ نے فرمایا: گویا کہ تم نے اسے پالیا یا تم میں سے کوئی اسے پالے گا۔ تمہارا اس وقت کیا حال ہوگاجب تم اپنے گھروں کو پردوں سے اسی طرح مزین کرو گے جیسے بیت اللہ کو کیاجاتا ہے۔لوگوں نے عرض کی:کیا ایسا بیت اللہ سے بے رغبتی کی بنا ءپر ہوگا ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ یہ اس ضرورت سے زیادہ مال ودولت کی وجہ سے ہوگاجو تم حاصل کروگے ۔

لوگوں نے عرض کی :یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! کیا ہم اس دن بہتر ہوں گے یا آج بہتر حالت میں ہیں؟ آپ نے فرمایا:(نہیں)بلکہ تم آج بہتر ہو،(اس لیے کہ)آج تم آپس میں بھائی بھائی ہو اورباہم محبت کرنے والے ہو اوراس دن تم ایک دوسرے سے بغض وعداوت رکھ کر ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے والے ہوجاﺅگے۔(بخاری، مسلم، حاکم)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: میں تم لوگوں کے بارے میں کسی درندے سے بھی زیادہ ایک درندے کا خوف رکھتا ہوں (اوروہ یہ ہے کہ) جب دنیا تم پر پوری طرح انڈیل دی جائے گی ، کاش اس وقت میری امت سونا نہ پہنتی ۔(طبرانی،کنزالعمال)


Shortvideo - زندگی ایک آزمائش

ہفتہ، 14 جنوری، 2023

کثر تِ دنیا سے اندیشہ(۲)

 

کثر تِ دنیا سے اندیشہ(۲)

حضرت عامر بن عوف انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ ابن جراح کو بحرین کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ وہاں سے جزیہ لے کر آئیں، وہ بحرین گئے اوروہاں سے بہت سا مال واسباب لے کر واپس لوٹے۔ انصارِ مدینہ نے جب حضرت ابوعبید ہ رضی اللہ عنہ کے واپس آنے کی خبر سنی تو انھوں نے فجر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد ان کی جانب متوجہ ہوئے تو یہ سب حضرات بھی آپ کے سامنے اکٹھے ہوکر بیٹھ گئے ، آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے اورفرمایا:میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ خبر ہوگئی ہے کہ ابو عبیدہ بحرین سے کچھ لے کر آئیں ہیں انھوں نے عرض کی : جی ہاں !یار سول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ، بات اسی طرح ہے ، آپ نے فرمایا: میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں اورتم خوشی حاصل ہونے کی امید رکھو (یعنی تمہارا حصہ ضرور ادا کیا جائے گا) پھر ارشادفرمایا:اللہ کی قسم !مجھے تم پر فقر و فاقہ کا کوئی ڈر نہیں بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر اسی طرح پھیلا دی جائے گی جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کردی گئی تھی اور تم بھی اس کے حصول میں اسی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے جیسا کہ پہلے لوگوں نے کیا تھا، پھر یہ دنیا تمہیں اسی طرح ہلاک کردے گی جس طرح اس نے ان لوگوں کو ہلاک کیا تھا ۔(بخاری ، مسلم)

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ میں کھڑے ہوکر فرمایا تم فقر و فاقہ سے ڈرتے ہو یا تمہیں دنیا کا فکر وغم لگا ہوا ہے ؟اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں فارس اورروم پر فتح عطافرمائے گااور تم پر دنیا کی بہت زیادہ فراوانی ہوگی اور اس دنیا کی وجہ سے ہی تم لوگ صحیح راستے سے ہٹ جائو گے ۔ (ابویعلی، الترغیب والترہیب، بزار)

حضرت ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضر ت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس کسریٰ کے خزانے آئے تو حضرت عبد اللہ بن ارقم زہری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : آپ اسے بیت المال میں کیوں نہیں رکھ دیتے ؟حضرت عمر نے ارشاد فرمایا: نہیں ، ہم اسے بیت المال میں نہیں رکھیں گے بلکہ لوگوں کے درمیان تقسیم کردیں گے ، یہ کہہ کر حضرت عمر رو پڑے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا : اے امیر المومنین ! آپ کیوں رو رہے ہیں؟اللہ کی قسم !یہ تو اللہ کا شکر اداکرنے اورفرحت ومسرت کا دن ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو بھی یہ مال دیا ، اس مال نے ان کے درمیان بغض وعداوت بھی ضرور پیدا کی ہے ۔(بیہقی ، کنزالعمال)


Shortvideo - مومن متقی کی صفات

Darsulquran surah al-araf ayat 170. کیا ہم فسادی لوگ ہیں

جمعہ، 13 جنوری، 2023

کثر تِ دنیا سے اندیشہ(۱)

 

کثر تِ دنیا سے اندیشہ(۱)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ، حضور اکرم ﷺنے آٹھ سال کے بعد شہدائے احد پر نماز جنازہ پڑھی گویا کہ آپ زندہ اوررحلت شدہ لوگوں کو رخصت فرمارہے ہیں(یعنی آپ کو اندازہ تھا کہ آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کا وقت قریب ہے اس لیے زندہ لوگوں کو خاص خاص باتوں کو وصیت فرمارہے تھے اورضروری امور کی تاکید کررہے تھے اور دنیا سے گزر جانے والے اصحاب کیلئے بڑے اہتمام سے دعاو استغفار فرمارہے تھے )۔نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اورارشادفرمایا:”میں تم لوگوں سے پہلے آگے جارہا ہوں اورمیں تمہارے حق میں گواہ بنوں گا اورتم سے میرا وعدہ ہے کہ حوضِ کوثر پر ملاقات ہوگی اورمیں اپنے اس مقام سے اس وقت حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں (بخاری کی دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں اورمجھے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں )، مجھے تمہارے بارے میں اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ تم شرک کرنے لگو ،بلکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے کے شوق میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگو گے “۔حضرت عقبہ کہتے ہیں کہ میرے لیے اپنے زندگی میں حضور اکرم ﷺ کی زیارت کا یہ آخری موقع تھا ۔(صحیح بخاری)
حضرت ابوزر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺاپنے ارشادات سے نواز رہے تھے کہ مجلس میں ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوگیا اس کی طبیعت میں اجڈ پن کے آثار نمایاں تھے، کہنے لگا :یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! ہمیں تو قحط نے مارڈالا ہے ۔یہ سن کر آپ نے ارشادفرمایا: مجھے تم پر قحط کااتنا ڈر نہیں ہے جتنا اس بات کا ہے کہ دنیا تم پر خوب فراخ کردی جائے گی، کاش ! میری امت سونا نہ پہنتی ۔(احمد بزار،الترغیب والترہیب) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جناب رسالت مآب ﷺ ایک مرتبہ منبر پر تشریف فرماہوئے ، ہم لوگ بھی آپ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئے ۔آپ نے ارشادفرمایا:مجھے جن باتوں کا تم لوگوں سے اندیشہ ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے لیے دنیا کی زیب وزینت سر سبزی وشادابی کو کشادہ کردیں گے (اوراس کی وجہ سے تم فتنوں میں مبتلاءہوجاﺅ گے)۔(بخاری ، مسلم، الترغیب والترہیب)
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: مجھے تم پر فقر و فاقہ اورغربت کی آزمائش سے زیادہ اندیشہ فراوانی اور آسودہ حالی کی آزمائش کا ہے۔اللہ تعالیٰ تم کو فقر و فاقہ اور غربت کے ذریعے آزما چکے ہیں اس میں تم نے صبر سے کام لیا (اورسرخرو ہوئے )۔دنیا شیریں وشاداب ہے پتا نہیں اس آزمائش میں تم کامیاب ہوتے ہو یا نہیں ۔(الترغیب والترہیب، ابویعلی، بزار)

Shortvideo - ہمارے لئے متقی بننا کیوں مشکل ہے؟

Darsulquran surah al-falaq ayat 01-05 part-02.کیا ہم دنیا دار ہیں

Darsulquran surah al-araf ayat 169 part-03.کیا ہم بہت بڑی غلط فہمی کا شک...

جمعرات، 12 جنوری، 2023

جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

 

جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پر ایک زمانہ ایسا آیا کہ ہم لوگ بہت محتاج ہوگئے ، یہاں تک کہ میں نے ایک دن بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا تھا ۔میرے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضور انور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر کچھ مانگ لوں ، فلاں شخص نے بھی حضو رکی خدمت میں درخواست پیش کی تھی ، آپ نے اسے بہت کچھ عطافرمادیا تھا۔ چنانچہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ۔میں نے سنا کہ حضور علیہ الصلوٰ ة والسلام وہاں پر موجود اصحاب سے فرمارہے ہیں ”جو اللہ سے غنا طلب کریگا ،اللہ رب العزت اُسے غنی بنادینگے اورجو ہم سے کوئی چیز طلب کریگا اگر وہ چیز ہمارے پاس موجود ہوئی تو ہم اسے اپنے لیے بچا کر نہیں رکھیں گے بلکہ ہم اسے وہ چیز دے دیں گے، لیکن جو شخص ہم سے غنا برتتا ہے اورہم سے نہیں مانگتا ہے وہ ہمیں مانگنے والے سے زیادہ محبوب ہے“۔یہ سن کر (میں سمجھ گیا کہ حضور اکرم ﷺمیری کیا تربیت فرمانا چاہتے ہیں) میں نے آپ سے کوئی سوال نہیں کیا اور واپس آگیا ۔(آپکے ارشادپر عمل کرنے کی برکت یوں ہوئی کہ )اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں عطا فرماتا رہا یہاں تک کہ اب میرے علم کے مطابق انصار میں کوئی گھرانہ بھی ایسا نہیں جو ہم سے زیادہ مالدار ہو ۔ ( کنز ا لعما ل )

حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓبیان فرماتے ہیں حضور رحمت عالم ﷺنے مجھ سے کچھ وعدہ فرمارکھا تھا ۔ جب بنو قریظہ کا علاقہ فتح ہوگیا تو میں آپکی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تا کہ آپ اپنے وعدے کیمطابق مجھے عطا فرمائیں ۔میں نے سنا کہ آپ ارشادفرمارہے ہیں ”جو اللہ سے غنا طلب کرےگااللہ اسے غنی فرمائے گا اورجو قناعت اختیار کرےگا اللہ تعالیٰ اسے قناعت عطافرمادے گا“جب میں نے یہ سنا تو میں نے اپنے دل میں کہا میں اب آپ سے (طلب دنیا کا )کوئی سوال نہیں کروں گا۔(بزار ، الترغیب والترہیب)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگے گا، میں اس کیلئے جنت کا ضامن بنتا ہوں ۔میں نے عرض کی : میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں، راوی کہتے ہیں کہ حضر ت ثوبان اسکے بعد کبھی بھی کسی سے کچھ نہیں مانگا کرتے تھے۔(ابوداﺅد، نسائی ،ابن ماجہ)ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺنے حضرت ثوبان سے فرمایا لوگوں سے کچھ نہ مانگا کرو، سو! آپ کا معمول یہ ہوگیا کہ جب سواری پر سوار ہوتے ہیں اوران کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے نہ کہتے بلکہ خود سواری سے اتر کر اسے اٹھاتے ۔ابوامامہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انھیں کوڑا اٹھا کر دینا بھی چاہتا تو وہ نہ لیتے بلکہ خود ہی نیچے اترتے ۔(نسائی،طبرانی)


Shortvideo - ہم متقی کیسے بنیں؟

Darsulquran surah al-ikhlas ayat 01-04 part-06. بندگی صرف اللہ کی آخر کیوں

Darsulquran surah al-araf ayat 169 part-02. کیا ہم اللہ تعالی کے خلیفہ ب...

بدھ، 11 جنوری، 2023

Darsulquran surah al-ikhlas ayat 01-04 part-05.کیا ہم غیر اللہ کے سامنے ...

دوسروں کے کام آنا

 

دوسروں کے کام آنا

٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمامسجد نبوی میں معتکف تھے ،ایک شخص آپ کے پاس آیااورسلام کرنے کے بعد خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔حضرت عبداللہ بن عباس نے اُس شخص سے استفسار فرمایا :میں تمہیں آزردہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں، کیا معاملہ ہے؟اس نے کہا : اے ابن عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!بے شک میں بہت پریشان ہوں کیونکہ مجھ پر فلاں شخص کا قرض ہے ۔ اس کے بعد اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی طرف اشارہ کرکے کہا:اس تربت والے کی عزت کی قسم میں اس کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں ۔حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا : اچھا ، کیا میں اس سے تمہاری سفارش نہ کردوں ؟اس نے عرض کیا:اگر آپ مناسب سمجھیں تو ضرور مہربانی فرمادیں۔یہ بات سن کر آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور جوتا پہن کر چلنے کے لیے تیار ہوگئے ، اس شخص نے حیرت سے پوچھا :کیا آپ اپنا اعتکاف بھول گئے ہیں ؟آپ نے ارشادفرمایا:نہیں ! مجھے یا د ہے ، بات یہ ہے کہ میں نے اس تربت انور کے مکین سے بذاتِ خود سنا ہے اور یہ بات سنے ہوئے ابھی کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا،یہ الفاظ کہتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرمارہے تھے کہ ”جو شخص اپنے بھائی کے کام کے لیے چلے اور اس کام میں کامیاب بھی ہوجائے تو اس کے لیے یہ کوشش دس سال کے اعتکاف سے زیادہ افضل ہے اورجو شخص اللہ رب العزت کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف بھی کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اورجہنم کے درمیان تین ایسی خندقیں حائل فرمادیتا ہے جن کی مسافت آسمان اورزمین کی مسافت سے بھی زیادہ ہے ۔(طبرانی ،بیہقی،الترغیب والترہیب، مستدرک امام حاکم)
٭ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم ارشادفرماتے ہیں :مجھے نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے ان دو نعمتوں میں سے کون سی نعمت نواز کر مجھ پر احسان عظیم کیا ہے ۔ایک یہ کہ ایک شخص بڑی امید باندھ کر میری طرف پرخلوص چہرے سے دیکھتا ہے ۔اس اعتماد کے ساتھ کہ میں اس کی ضرورت ضرور پوری کروں گا۔اوردوسری یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرمادیتا ہے کہ اس کی ضرورت میرے ذریعے سے پوری بھی ہوجاتی ہے ۔(یعنی میں یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ اس شخص کا مجھ سے اپنی امید وابستہ کرنا بڑی نعمت ہے یا میرا اس کی احتیاج کو پورا کردینا بڑی نعمت ہے)۔(اور اللہ کی توفیق سے )اگر میں کسی مسلمان بھائی کی کوئی ایک ضرورت پوری کردوں تو یہ بات مجھے ساری زمین کو بھر دینے والے سونا اورچاندی میسر آجانے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔(کنزالعمال)

Shortvideo - تقوی کیسے حاصل کریں؟

منگل، 10 جنوری، 2023

جن کیلئے فرشتے دعا کرتے ہیں(۲)

 

جن کیلئے فرشتے دعا کرتے ہیں(۲)

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنے والا جہاد فی سبیل اللہ کے ایسے شہسوار کی طرح ہے جسے گھوڑا اپنی پشت پر لے کر شدید ہوگیا ہو۔ایسے نماز ی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرشتے رحمت کی دعا کرتے ہیں،جب تک کہ وہ بے وضو نہ ہوجائے یا اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا نہ ہوجائے اور وہ رباط اکبر میں ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل ، الترغیب والترہیب)

٭ حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ پہلی صف میں نماز پڑھنے والوں پر رحمت بھیجتا ہے اورملائکہ اُن کے لیے دعا کرتے ہیں ۔(ابوداﺅد،مستدرک ، امام حاکم،صحیح ابن حبان)

٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ اُن لوگوں پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اورفرشتے ان کے لیے دعاکرتے ہیں جو نماز کی صف میں دائیں جانب کھڑے ہوتے ہیں۔(ابوداﺅد ، ابن ماجہ)

٭ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اوراس کے فرشتے ان کے لیے رحمت کی دعاکرتے ہیں ۔ (مسند امام احمدبن حنبل ، طبرانی،صحیح ابن حبان)

٭ عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بندہ مجھ پر درودپڑھتا ہے ، تو اس کے درود پڑھنے کے دورانیے میں ملائکہ اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اب بندے کی مرضی ہے کہ وہ مجھ پر درود پاک کم پڑھے یا زیادہ ۔(ابن ماجہ، الترغیب والترہیب)

٭ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اپنے ان جسموں کو پاک کرو تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ بھی تمہیں پاک کرے کیونکہ جب بھی کوئی بندہ رات پاکیزگی میں گزارتا ہے اوروضو کی حالت میں سوتا ہے تو اسکے ساتھ ایک فرشتہ اس کے بالوں میں رات بسر کرتا ہے۔جب بھی وہ بندہ رات کے کسی حصے میں اپنا پہلو بدلتا ہے تو وہ فرشتہ اسکے لیے یوں د عا  مانگتا ہے”اے اللہ !اپنے اس بندے کی مغفرت فرماکیونکہ یہ رات کو باوضو ہوکر سویا ہے “۔ (الترغیب والترہیب، مجمع الزوائد، الجامع الصغیر )