اتوار، 28 نومبر، 2021

Shortclip-توبہ کا طریقہ

قرآن میں شفاء ہے!

 

قرآن میں شفاء ہے

اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن حکیم کے متعلق فرماتا ہے کہ قرآن شفاء ہے۔ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: ’’اوراگر ہم اسے عجمی (عربی زبان کے علاوہ کسی) زبان کا قرآن بناتے تو وہ کافر لوگ کہتے کہ اسکی آیتیں کیوں واضح کی گئیں ،یہ کیا کہ عجمی کتاب اورآپ عربی رسول؟ اے نبی! ان سے کہہ دو: وہ تو مومنوں کیلئے شفاء اور ہدایت ہے۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: اور یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کیلئے تو سراسر شفاء اور رحمت ہے‘‘۔

اس آیت میں لفظ ’’مِنْ ‘‘ آیا ہے یہ ’’مِنْ‘‘ بیانِ جنس کیلئے ہے یعنی جنسِ قرآن شفاء اور رحمت ہے۔ یہ ’’من‘‘ تبعیضیہ نہیں ہے کیونکہ قرآن حکیم سب کا سب شفاء اور رحمت ہے جیسا کہ ماسبق آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ یقینا قرآنِ حکیم ہر حالت‘ ہر شک وشبہ اور ہر زیب وتردد سے قلوب کو شفاء دیتا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے ازالہ امراض کیلئے قرآن حکیم سے زیادہ عام‘ نفع بخش اورعظیم ترین اورزیادہ بہتر کوئی دوا نہیں پیدا کی۔

سورۂ فاتحہ ایک ایسی آسان اورسہل ترین دوا ہے کہ اسکے مثل سہل وآسان اور بہترین دوا ممکن نہیں اگر کوئی اللہ کا بندہ اچھے طریقہ سے سورۂ فاتحہ کے ذریعہ علاج معالجہ کرے تو شفاء امراض کیلئے سورۂ فاتحہ کے اندر عجیب وغریب تاثیر پائے گا۔ چنانچہ ایک مدت مدید تک میں ’’مکہ معظمہ‘‘ میں رہا اور اس اثنا میں بہت سی بیماریاں مجھ پر مسلط ہوتی ہیں مجھے یہاں نہ کوئی طبیب میسر آیا نہ دوا، میں صرف سورۂ فاتحہ سے اپنا علاج کرتا رہا اور اسکے اندر میں نے عجیب وغریب تاثیر دیکھی۔ میں اکثر مریضوں کو سورۂ فاتحہ سے علاج کرنے کی ترغیب دیتا تھا اور لوگ اکثر اس سے صحت یاب ہوجاتے تھے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ جو اذکار‘ آیات‘ دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور جن سے شفاء مطلوب ہوتی ہے یقینا نافع اور شفاء بخش ہوتی ہیں لیکن اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ محل اسکی قبولیت کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور فاعل وعامل کی قوت وہمت اور اسکی تاثیر بھی قبولیت محل کی مقتضی ہو۔ جو تم دیکھو کہ اذکا ‘ آیات اور دعائوں میں شفاء نہیں ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ پڑھنے اور دعاء کرنیوالے کی تاثیر وتوجہ کمزور ہے یااثر قبول کرنیوالے میں قبولِ تاثیر کی صلاحیت نہیں ہے یا کوئی اور ایسی شدید وسخت رکاوٹ موجود ہے جو دوا کی تاثیر کو روک رہی ہے‘ جس طرح کہ عموما ظاہری اور حسی امراض میں دوائوں کا حال ہوا کرتا ہے اور کبھی ایسا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ دوا کے اقتضا اور تاثیر کے درمیان کوئی قوی رکاوٹ مزاحم ہوجاتی ہے ۔جب طبیعت کسی دوا کو کامل طور پر قبول کرلیتی ہے تو جس درجہ طبیعت دواء کو قبول کریگی اسی درجہ بدن اور جسم کو نفع پہنچے گا۔ (دوائے شافی، ترجمہ الجواب الکافی: محمد ابن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1911 ( Surah Al-Hashr Ayat 20 ) درس قرآن سُو...

جمعہ، 26 نومبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم دنیا دار لوگ ہیں

Shortclip - مومن کون ہے؟

جہالت کا علاج

 

جہالت کا علاج

صحیح بخاریؔ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا مرض نہیں پیدا کیا جس کے لیے شفاء نہ پیدا کی ہو۔‘‘صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ’’ہر مرض کی دوا ہے جب کسی مرض کی صحیح طریقہ پر دوا کی جاتی ہے تواللہ تعالیٰ کے حکم سے مریض اچھا ہوجاتاہے۔ ‘‘مسند امام احمد میں سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کیلیے دواا ور شفاء اتاری ہے۔ جاننے والا اسے جانتا ہے اورجو نہیں جانتا وہ نہیں جانتا۔‘‘اور ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ مروی ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے سوائے ایک مرض کے تمام بیماریوں کی شفاء یا دوا پیدا کی ہے۔ ‘‘

صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :وہ ایک مرض کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بڑھاپا‘‘

امام ابو عیسیٰ ترمذی ؒ اس حدیث کی توثیق اس طرح کرتے ہیں :’’یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘یہ حدیث امراضِ قلب وروح ‘امراض اجسام وابدان اوراس کے علاج ودواء پر مشتمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جہالت بیماری ہے اورعلماء سے دریافت کرنا اس کی دواء اور علاج ہے جیسا کہ امام ابودائود ؒ اپنی سنن ‘میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں:ایک مرتبہ ہم سفر میں تھے‘ہم میں سے ایک شخص کو پتھر سے چوٹ لگ گئی اوراس کا سرزخمی ہوگیا‘اس کے بعد ایک باراسے بد خوابی ہوگی‘تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا: کیا اس حالت میں مجھے تیمم کرنے کی اجازت ہے؟ساتھیوں نے کہا:تمہیں پانی پر قدرت حاصل ہے اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ تمہیں تیمم کرنے کی رخصت واجازت ہے۔ چنانچہ اس شخص نے غسل کرلیا جس سے وہ شخص مرگیا ۔جب ہم لوگ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ان لوگوں نے اس کو مارڈالا ۔اللہ ان کو موت دے جب وہ خود مسئلہ نہیں جانتے تھے تو کسی دوسرے سے کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پریشان حال کی شفاء یہ ہے کہ دوسرے سے پوچھ لے‘ اس کیلئے صرف یہ کافی تھا کہ وہ تیمم کرلیتا اوراپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اوراس پر مسح کرلیتا اور بقیہ جسم کو دھولیتا ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ واضح کردیا ہے کہ جہالت ایک بیماری ہے اورپوچھ لینا اس کا علاج ہے۔ (دوائے شافی ،ترجمہ ،الجواب الکافی:محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ)

جمعرات، 25 نومبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم منافق ہیں

Shortclip - گناہ کی معافی کیسے ہوگی؟

پند ِ سود مند

 

پند ِ سود مند

علم حدیث کے مشہور امام حضرت محی الدین ابُو زکر یا یحیٰ بن شر ف النووی تحریر فرماتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’میں نے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں، میں ان سے رزق نہیں مانگتا اورنہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں‘‘ (۱۵/۵۶۔۵۷)۔اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ جن اورانسان عبادت کیلئے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد ِ تخلیق کی طرف توجہ دیں اور دنیاوی زیب وزینت سے کنارہ کشی اختیار کریں، کیونکہ یہ دارِ فانی ہے ، ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ،راہ ہے منزل نہیں۔ یہ مٹ جانے کی چیز ہے ہمیشگی کا وطن نہیں۔ اسی لیے اہلِ دنیا میں سے بیدارمغز وہی لوگ ہیں جو عبادت میں مشغول رہتے ہیں اوروہی سب سے زیادہ زیرک ہیں۔جو دنیوی زیب وزینت سے کنارہ کش رہتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’دنیا کی مثال تو ایسی ہے جیسے کہ وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتار اتو اس کے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں سب گھنی ہوکر نکلیں جو کچھ آدمی اورچوپائے کھاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب زمین نے سنگارلے لیا اورخوب آراستہ ہوگئی،ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کردیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں ۔ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غور کرنیوالوں کیلئے‘‘ (یونس۲۴)اس مفہوم کی آیت بے شمار ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔اللہ تعالیٰ کے بندوں میں ایسے ذی ہوش بھی ہیں جنہوں نے دنیا کو چھوڑدیا اور فتنوں سے ڈرے ۔ انھوں نے دنیا کے متعلق غوروفکر کیا اورجب انھیں معلوم ہوگیا کہ دنیا قیام کی جگہ نہیں ہے تو انھوں نے اس دنیا کو موجِ دریا تصورکیا اوراعمالِ صالحہ کی کشتی پر سوار ہو کر اس دریا کو عبور کرنے کا مقصد کرلیا۔ 
جب دنیا کی حالت یہ ہے جو بیان کی گئی، اورہماری حالت اورہمارا سبب تخلیق وہ ہے جس کا ابھی ذکر ہوا تو پھر انسان کو چاہیے کہ اس رستہ پر چلے جو نیک لوگوں کا راستہ ہے اوراس مسلک کو اپنائے جو ذی ہوش اورعقلمند لوگوں کا مسلک ہے اورجس چیز کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اس کیلئے تیاری کرے اورجس چیز سے میں نے اسے متنبہ کیا ہے اس کا اہتمام کرے۔اس سلسلے میں صحیح مسلک اورراہ ہدایت یہ ہے کہ انسان اس رستے پر چلے جو حضور ﷺسے ثابت ہے جو اولین وآخرین کے سردار ہیں۔ اورتمام اگلوں اور پچھلوں سے زیادہ معزز ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو آپ پر اورتمام انبیاء کرام پر ۔ اور حضور ﷺسے یہ حدیث صحیح مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تک اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا مدد گار ہوتا ہے‘‘۔(ریاض الصالحین )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1908 ( Surah Al-Hashr Ayat 18 Part-3 ) درس ق...

بدھ، 24 نومبر، 2021

Shortclip - جنت میں کون جائے گا؟

نجات دلانے والی چالیس باتیں

 


نجات دلانے والی چالیس باتیں

حضرت سلمان  ؓ فرماتے ہیں میں نے حضور اکرم  ﷺ سے استفسار کیا کہ وہ چالیس باتیں کون سی ہیں، جن کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ جو ان کو یاد کرلے (اور اپنا شعار بنا لے )وہ نجات پا جائے گا۔

حضور اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا (۱) ایمان لا نا اللہ پر (۲) یومِ آخر ت پر (۳) فرشتوں کے وجود پر (۴) اللہ کی نا زل کردہ کتابوں پر (۵) تمام انبیاء پر (۶) مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پر (۷) اور اس بات پر کہ تقد یرِ خیر وشر منجانب اللہ ہے(۸) اس امر کی گواہی کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسولِ برحق ہیں (۹)ہر نماز کے وقت کامل وضو کر کے نماز قائم کرنا (۱۰) زکوۃ ادا کرنا (۱۱) رمضان کے روزے رکھنا (۱۲) استطاعت ہونے کی صورت میں حج کرنا (۱۳) ہر روز بارہ۱۲ رکعت سنت مؤکدہ ادا کرنا(۱۴) وتر کو کسی رات ترک نہ کرنا (۱۵) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا نا (۱۶) والدین کی نافرمانی نہ کرنا (۱۷) ظلم سے یتیم کا مال نہ کھانا (۱۸) شراب نوشی سے بچنا (۱۹)بدکاری سے بچنا (۲۰) جھوٹی قسم نہ کھانا (۲۱) جھوٹی گواہی نہ دینا (۲۲) نفسانی خواہشات پر عمل نہ کر نا (۲۳)مسلمان بھائی کی غیبت سے پرہیز کرنا (۲۴) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے بچنا (۲۵) اپنے مسلمان بھائی سے کینہ نہ رکھنا (۲۶) لہوولعب میں نہ خود مشغول ہونا (۲۷) نہ اُ سکے تماش بینوں میں شریک ہونا (۲۸) کسی کو ظاہری عیب سے نہ پکارنا (یعنی ٹھنگنا،کانا،لنگڑاکہنا )(۲۹)کسی کامذاق نہ اُڑانا (۳۰) مسلمانوں کے درمیان غلط فہمی نہ پھیلانا(۳۱)  ہر حال میں اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا (۳۲)بَلا اور مصیبت پر صبر سے کام لینا (۳۳) اللہ کے عذاب سے بے خوف نہ ہوجانا (۳۴)رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کرنا (۲۵)بلکہ صلہ رحمی سے کام لینا (۳۶) اللہ کی کسی مخلوق کو لعنت نہ کرنا (۳۷) سبحان اللہ ،الحمداللہ ، لاالہ الا اللہ ، اللہ اکبر کا کثر ت سے ورد کرنا (۳۸) جمعہ اور عید ین میں حاضری کا التزام کرنا (۳۹) اس با ت کا یقین رکھنا کہ جو تکلیف پہنچی وہ ٹلنے والی نہیں تھی اور جو کچھ نہیں پہنچا وہ کسی طرح پہنچنے والا نہیں تھا (۴۰)کلام اللہ شریف کی تلاوت کسی حال میں بھی نہ چھوڑنا ۔

حضر ت سلمان ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم  ﷺ سے پوچھا کہ جو شخص ان باتوں کو یادرکھے اسے کیا اجر ملے گا۔ حضور اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کا حشر انبیاء اور علما ء کے ساتھ فرمائیں گے۔


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1907 ( Surah Al-Hashr Ayat 18 Part-2 ) درس ق...

منگل، 23 نومبر، 2021

Shortclip - اصل میں جرم کیا ہے؟

حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ

 

حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ نقل کیا۔ دیکھیے کہ لفظوں کے آبگینوں سے کس طرح عرفانِ ربانی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں اور رُوحِ ایمان کو سیراب کر رہے ہیں۔ ’’سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب ہے، سب سے زیادہ قابل اعتماد چیز تقویٰ ہے‘ بہترین ملت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے، سب سے بہترین طرز زندگی محمدرسول اللہ کا طرزِ زندگی ہے، سب سے اشرف بات اللہ رب العزت کا ذکر ہے، سب سے اچھا قصہ قرآن ہے، بہترین کام وہ ہیں جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوں اور بدترین کام بدعات (نئی اور بے اصل باتیں) ہیں، سب سے بہتر طریقہ انبیاء کاہے اور سب سے عزت کی موت شہادت ہے، بدترین بے بصیرتی ہدایت کے بعد گمراہی ہے۔ بہترین عمل وہ ہے جو (دنیاو آخرت میں) نفع بخش ہو اور بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کی جائے،بدترین اندھاپن دل کی بے بصری ہے،اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے، تھوڑی چیز سے کفایت ہوجائے تو وہ اس وافر سے بہتر ہے جو غفلت پیداکرے، بدترین معذرت موت کے وقت کی معذرت ہے اور بدترین نِدامت یومِ آخرت کی ندامت ہے، بعض لوگ جمعہ کو (نماز کیلئے) دیر سے آتے ہیں (اسکے باوجود بھی) انکے دل پیچھے (کاروبار میں) لگے ہوتے ہیں، سب گناہوں سے بڑاگناہ جھوٹی زبان ہے اور بہترین تونگری دل کی بے نیازی ہے۔ بہترین توشہ تقویٰ ہے، دانائی کی بنیاد خداکا خوف ہے، دلنشین باتوں میں بہترین چیز (خداپر) یقین ہے، شک کفر کی ایک شاخ ہے، نوحہ جاہلیت کا کام ہے، مالِ غنیمت (سرکاری اموال واملاک) میں چوری جہنم کا ایندھن ہے، شراب کی بدمستی گناہوں کا ذخیرہ ہے، (بے ہودہ) شعر ابلیس کا حصہ ہے، بدترین غذا یتیم کا مال ہے، سعادت مند وہ ہے جو نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو شقی ہے، مومن کو گالی دینا فسق ہے، اسکے ساتھ قتال کر ناکفر ہے اور اسکی غیبت کرنا نافرمانی ہے، اسکے مال کی حرمت اسکے خون کی حرمت کی طرح ہے، جو کسی کا عیب چھپاتا ہے، خدا اسکے عیب چھپاتا ہے، جو (خلق کو) معافی دیتاہے، اسے (خالق کی طرف سے) معافی دی جاتی ہے، جو غصے کو پی جاتا ہے خدا اسے اجر دیتا ہے۔ جو چغلی کو پھیلاتا ہے خدا اسکی رسوائی کو عام کردیتا ہے، جوصبر کرتا ہے، خدا اسے ترقی دیتا ہے، جو بلاضرورت قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ اسے جھوٹا کر دیتا ہے اور جو شخص (سچے دل سے اللہ سے مغفرت طلب کرتاہے) اللہ اس سے درگزرکرتا ہے۔‘‘

Darsulquran Para-05 - کیا ہم راستہ بھٹک کر گمراہ ہو چکے ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1906 ( Surah Al-Hashr Ayat 18 Part-1 ) درس ق...

پیر، 22 نومبر، 2021

حصول علم کی تحریک

 

 

 حصول علم کی تحریک

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لائے ، ہم لوگ اکتساب علم کے لیے صفہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔آپ نے ارشادفرمایا: تم میں سے کون شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ علیٰ الصبح بطحان یا عقیق کے بازار میں جائے اوراونچے کوہان والی عمدہ سے عمدہ دو اونٹنیاں کسی قسم کے گناہ اورقطع رحمی کے بغیر پکڑلائے ؟ہم نے عرض کیا: ہم سب اسے پسند کریں گے آپ نے ارشادفرمایا: مسجد میں جاکر دوآیتوں کا پڑھنا یا پڑھا دینا دو اونٹیوں سے ، تین آیات کا تین اونٹیوں سے اوراسی طرح چار کا چار سے افضل ہے اوران کے برابر اونٹوں سے افضل ہے۔(مسلم)

 حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا، آپ نے استفسار فرمایا:کیسے آنا ہوا؟میں نے عرض کیا: حضور میری عمر زیادہ ہوگئی ہے ، میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں یعنی میں ضعیف ہوگیا ہوں۔میں آپ کی خدمت اقدس میں اس لیے حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز سکھادیں جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے نفع عطاکرے۔آپ نے ارشادفرمایا:تم جس پتھر درخت اورڈھیلے کے پاس سے گزرے ہواس نے تمہارے لیے دعائے مغفرت کی ہے۔

 اے قبیصہ ! نماز فجر کے بعد تین دفعہ یہ ورد کہو،سبحان اللہ العظیم وبحمدہٖ۔اس کی برکت سے تم اندھے پن ، کوڑھی پن اورفالج سے محفوظ رہو گے۔اے قبیصہ ! یہ دعا بھی پڑھا کرواللھم انی اسئلک مماعندک وافض علی من فضلک وانشر علی من رحمتک وانزل علی من برکتک(ترجمہ) اے اللہ !میں ان نعمتوں میں سے سوال کرتا ہوں جو تیرے پاس ہیں اورمجھ پر اپنے فضل کی بارش کر اپنی رحمت مجھ پر پھیلا دے اوراپنی برکت مجھ پر نازل فرمادے۔(مسند امام احمد بن حنبل)

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: علم اسلام کی زندگی اوربقاء ہے اوردین کا ستون ہے۔جو شخص علم حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا اجر مکمل کردیتا ہے اورجو شخص علم حاصل کرکے اس پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وہ علم بھی عطا کردیتا ہے جو اس نے حاصل نہیں کیا۔(کنزالعمال)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1905 ( Surah Al-Hashr Ayat 14 - 17 ) درس قرآ...

اتوار، 21 نومبر، 2021

Shortclip -ہم زندہ کب ہونگے؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکیمانہ اسلوب

 

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکیمانہ اسلوب  

ایک دن سرکارِ دوعالم ﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک شخص دور دراز کا سفر طے کرکے آپؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ اسکا علاقہ شدید قحط کا شکار ہوچکا تھا۔ حضور اکرم  ﷺ کی سخاوت کا شہرہ سنا توآپؐ کے پا س پہنچا اور گزارش کی کہ یارسول اللہ! ہمارا علاقہ کئی مہینوں سے قحط کا شکار ہے۔ آپؐ کے پاس تھوڑی سی کھجوریں موجود تھیں۔ آپ نے فرمایا ساری کھجوریں تم لے لو۔ وہ تو بہت زیادہ کی امید لے کر آیا تھا۔ بڑامایوس ہوا اور چلانے لگا کہ میں آپؐ کو بڑا سخی سمجھ کر حاضر ہوا تھا۔ آپؐ میر ے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں الغرض جو کچھ منہ میں آیا کہتا چلا گیا۔ اس بدتہذیبی پر صحا بہ کرامؓ کے  ہاتھ بے ساختہ تلواروں کے دستوں کی طرف گئے۔ آپؐ نے صحابہؓ کے تیور دیکھے تو فرمایا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ میر امہمان ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اسکے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ صحابہ ؓ کے ہاتھ رک گئے اور وہ شخص بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر چلاگیا۔ کچھ دیر بعد اللہ رب العزت کے کرم سے کھجوروں سے لد ے بہت سے اونٹ آپکے پاس آگئے۔ آپؐ نے پوچھا تمھارا صبح والا بھائی کہاں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ وہ غصے کی حالت میں مسجد سے نکل گیا تھا‘ آپؐ نے فرمایا‘ اُسے تلاش کرکے لے آئو۔ چنانچہ تلاش بسیار کے بعد اسے آپؐ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔ آپؐ نے اسے فرمایا کھجوروں کا ڈھیر دیکھ رہے ہو۔ جتنا چاہو لے لو‘ جب تم راضی ہوجاؤ گے پھر کسی اور کو ملے گا اور اگر تم سارا بھی لے جاؤ تو کوئی ممانعت نہیں۔ وہ خوشی سے پھولا نہیں سمایا‘ اپنے اونٹوں پر اتنا لاد لیا کہ ان کیلئے اُٹھنا دشوار ہوگیا۔ پھراس نے بڑی وارفتگی سے جناب رسالت مآب کی تعریف شروع کردی۔ اسکے تعریفی کلمات سن کر صحابہ کرام ؓ کا انقباض دور ہوگیا اور انکے چہر ے پھولوں کی طرح کھل اُٹھے۔ حضورؐ نے یہ منظر دیکھا تو صحابہ ؓسے پوچھا۔ صبح جب یہ ناراض ہو رہا تھا، اگر تم اسے قتل کردیتے تو اس کا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔ انھوں نے عرض کی بلاشبہ جہنم میں۔ آپ نے پوچھا اب اگر اسے موت آجائے تو اس کا مقام کہاں ہو گا۔ انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ! بلاشبہ جنت الفردوس کی بہاریں اسکی منتظر ہونگی۔ حضورؐ نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ اے میر ے صحابہؓ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کا اونٹ بھاگ گیا۔ لوگ اسے پکڑنے کیلئے دوڑ ے لیکن وہ لوگوں نے آوازیں سن کر مزید بدک کیا۔ اتنے میں اس کا مالک آگیا۔ اسے تمام حالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا‘ اے لوگو! تم اپنی توانائیاں ضائع نہ کرو یہ میرا اونٹ ہے اور میں ہی جانتا ہوں کہ اسے کیسے پکڑنا ہے۔ پھر اس نے سبز چارہ اپنی جھولی میں ڈالا اونٹ کو مخصوص انداز میں بلایا‘ اونٹ نے مانوس آواز سنی تو فوراً پلٹ آیا۔ حضورؐ نے فرمایا: تم بھی اس بھاگے ہوئے اونٹ کی طرح ہو اور میں اس مالک کی طرح ہوں، مجھے معلوم ہے تمھیں کس طرح اللہ کی بارگاہ میں لانا ہے۔

Shortclip - کیا روحانی نعمتیں باطنی نعمتوں سے زیادہ ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1904 ( Surah Al-Hashr Ayat 10 - 13 ) درس قرآ...

Darsulquran Para-05 - کیا ہمارا ایمان باللہ ہے

جمعہ، 19 نومبر، 2021

Shortclip - باطنی نعمتوں کی تفصیل

Darsulquran Para-05 - کیا ہم یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے

Shortclip - دل کے اندھیرے کیسے دور ہونگے؟

تمدن آفریں

 

تمدن آفریں

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی سرگرمیوں کا محور یہ تھا کہ ان کے حلقہ تربیت میں آنے والے افراد ایک مکمل اسلامی کردار کے حامل بن جائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اس زمانے کا ماحول اورمعاشرت بھی اسلامی رنگ میں رنگ جائے ۔  برصغیر کا معاشرہ ہندو مذہب کے رسوم رواج میں رنگا ہوا تھا۔ برہمن کا اقتدار اس معاشرے پر بڑا مضبوط تھا۔ اسکے علاوہ بے شمار توہمات وروایات کو یہاں بڑا تقدس حاصل تھا، ہندوفلسفہ ، ادب اورثقافت کی بنیادیں معاشرے میں بہت گہری تھیں۔

ایسے میں مسلم تہذیب وثقافت اورمسلم تمدن کی آبیاری کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کیلئے اصول پر مضبوطی سے قائم رہنا بھی بہت ضروری تھا اور ایک بھر پور تمدنی شعور کے ساتھ بڑے لچک دار حکیمانہ رویے کی بھی ازحد ضرورت تھی۔ اصول پراس طرح مستحکم رہنا کہ انسان کاخُلْق اورفراخ دلی بھی قائم رہے اوررویے میں ایسی لچک کہ مستحکم اصولوں پر ہی لرزش نہ آئے بڑا مشکل کام ہے۔ اس پیچیدہ اوردشوار مرحلے سے گزرنے کیلئے ایک ایسے وجود کی ضرورت تھی جو علم، عشق اوربصیرت کاجامع ہو۔ اوربرصغیر کی مسلم تاریخ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ تاریخ کے اس معنی خیز مرحلے پر خواجہ نظام الدین اولیاء کی شخصیت اپنی پوری ،علمی ،روحانی اورفکری توانائی کے ساتھ موجود تھی۔ آپ قرآن وحدیث سے گہر اشغف رکھتے تھے۔ امام غزالی ؒ جیسے حکیم کی تفسیر کا بلاناغہ مطالعہ فرماتے، دیگر متداول تفسیر یں بھی پیشِ نظر رکھتے، زیرکفالت تمام افراد کو قرآن حفظ کروایا، اوراپنی مجلس میں لطیف قرآنی نکات بیان کرتے، حدیث کے نادر نکات کی نشان دہی کرتے۔ قرآنی اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے بڑی ایمان افروز  حکایات کے ذریعے مخاطب کو اپنی بات سمجھاتے ،سنت کا گہر اشعور رکھتے اورمعاشرتی آداب کی بڑے حکیمانہ انداز میں ترویج وتبلیغ فرماتے۔ اسلامی اخلاقیات کا شعور آپکے پورے حلقے میں بہت اچھی طرح راسخ ہوگیا۔ اس طرح آپکی توجہ سے جہاں بڑے جلیل القدر لوگوں کی ایک جماعت نظر آتی ہے جنہوں نے پورے خطے کو اپنے علم اور روحانیت سے معمور کردیا ان میں حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلی، مولانا شمش الدین محمد ،شیخ قطب الدین  منور، مولانا فخرالدین زرادی، مولانا حسام الدین ملتانی، مولانا شہاب الدین امام، خواجہ ابوبکر مندہ،مولانا برھان الدین غریب،مولانا علاء الدین نیلی، مولانا عثمان المعروف اخی سراج وغیر ہ جیسے عظیم المرتبت لوگ شامل ہیں۔ وہیں علم ودانش اورتہذیب ثقافت میں امیر خسرو جیسے منتخب روزگار،حسن سنجری جیسے شاعر اورادیب امیر خوردکرمانی اورضیاء الدین جیسے صاحب اسلوب مؤرخ بھی اپنی تابانیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1902 ( Surah Al-Hashr Ayat 08 ) درس قرآن سُو...

جمعرات، 18 نومبر، 2021

Shortclip - دنیا کی حقیقت

Shortclip - کیا دنیا ہی ہماری منزل ہے؟

طیب وطاہر وجود

 

طیب وطاہر وجود

 قاضی عیاض مالکی تحریر کرتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کی نظافت بطن اقدس اوراس کے سینے کی خوشبو اوراس کا ہر قسم کی آلودگی اورعیوبات جسمانیہ سے پاک صاف ہونا یہ ہے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ خصوصیت عطافرمائی ہے کہ آپ کے سوا کسی میں پائی ہی نہیں جاتی۔مزید براں یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو شرعی نفاست وپاکیزگی اوردس فطری خصلتوں سے بھی مزین فرمایا ہے،چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دین کی بنیاد پاکیزگی پر ہے۔ (ترمذی)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سی خوشبو سے بڑھ کر کسی عنبر ،کستوری اورکسی بھی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔(صحیح مسلم)

 حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رخسار کو چُھواتو میں نے آپ کے دست اقدس کو ایسا ٹھنڈا اورمعطر پایا کہ گویا ابھی آپ نے عطارکے صندوقچے سے اپنے دست مبارک کو باہر نکالاہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ سے مروی ہے کہ خواہ آپ نے خوشبو لگائی ہوتی یا نہیں لیکن آپ جس شخص سے بھی مصافحہ فرماتے تو وہ ساران دن اُس کی خوشبو سے معطر رہتا ،اگر آپ کسی بچے کے سر پر اپنا دست شفقت پھیردیتے تو وہ بچہ خوشبو کی وجہ سے پہچانا جاتا۔(صحیح مسلم)

 ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے گھر میں قیام فرمایا، آپ کو پسینہ آگیاحضرت انس کی والدہ ایک شیشی لے آئیں اورآپکے پسینے کو جمع کرنے لگیں، آپ نے وجہ دریافت فرمائی توعرض کیا میں اس کو اپنی خوشبو میں رکھوں گی یہ سب سے عمدہ اورطیب خوشبو ہے۔(صحیح مسلم)

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس کوچہ وبازار سے گزرفرماتے اس کے بعد کوئی شخص اس طر ف سے گزرتا تو وہ خوشبو سے محسوس کرلیتا کہ آپ ادھر سے گزرے ہیں۔(بخاری فی التاریخ)اسحاق بن لاہویہ نے ذکر کیا ہے کہ آپ خوشبو نہ بھی استعمال فرماتے تو آپ کے جسم سے خوشبو پھوٹتی تھی۔

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں ایک دفعہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت کو چومنے کا موقع ملا تواس میں سے کستوری کی خوشبو محسوس ہورہی تھی۔(ابن عساکر)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1901 ( Surah Al-Hashr Ayat 07 ) درس قرآن سُو...

بدھ، 17 نومبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم بے ایمان لوگ ہیں

Shortclip - کیا ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں؟

Shortclip - کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں معاذ اللہ فضول پیدا کیا ہے؟

ذوقِ عبادت

 

ذوقِ عبادت

 حضرت سالم بن ابی الجعد بیان کرتے ہیں ، ایک شخص نے ، جوراوی کے گما ن کے مطابق بنوخزاعہ سے تھا کہا: کاش میں نماز میں مشغول ہوتا اوراس سے مجھے راحت ملتی۔ لوگوں نے گویا اس کے قول کو معیوب سمجھا تواس نے کہا: میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ فرماتے سنا ہے : اے بلا ل! نماز کے لیے اقامت کہو اوراس طرح ہمیں راحت پہنچائو۔(صحیح مسلم)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، ہم رات (کے کسی حصہ )میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو نماز پڑھتے دیکھ سکتے تھے اوراگرآپ کو ہم (رات کے کسی حصہ میں)سوتے دیکھنا چاہتے تو سوتے بھی دیکھ سکتے تھے۔(صحیح بخاری)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متاع دنیا میں سے عورتوں اورخوشبوکو میرے لیے محبوب بنایاگیا ہے اورمیری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔(صحیح بخاری)

 حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے تھے ، (یا فرمایا)نماز پڑھتے تھے حتیٰ کہ آپ کے قدم مبارک یا پنڈلیاں سوج جایا کرتی تھیں، آپ کی خدمت میں اس صورت میں حال کے متعلق کچھ عرض کیاجاتا تو آپ فرماتے : کیا میں (اللہ تعالیٰ کا)شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(سنن نسائی)

 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! آپ (کبھی )روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں تویوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ روزوں کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے، اور(کبھی)آپ افطار کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ دوبارہ روزے شروع نہیں کریں گے، سوائے دودنوں کے کہ اگروہ آپ کے معمول کے روزوں کے درمیان آجائیں تو ٹھیک ورنہ آپ ان ایام میں ضرور روزہ رکھتے ہیں ، فرمایا: وہ دن کون سے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : پیر کا دن اورجمعرات کا دن ، فرمایا:یہ دونوں دن ایسے ہیں جن میں اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں ، اورمیں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب بارگاہ خداوندی میں پیش ہوں تو اس وقت میں روزے کی حالت میں ہوں۔(سنن نسائی)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1900 ( Surah Al-Hashr Ayat 06 Part-2 ) درس ق...

منگل، 16 نومبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم نے خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے

ShortClip - کیا ہم زندگی کو ضائع کرنے پر تُل گئے ہیں؟

دلجوئی کی عادت

 

دلجوئی کی عادت

حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ریشم کی کچھ قبائیں پیش کی گئیں جن کو سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبائوں کو کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تقسیم کردیا اوران میں سے ایک قبا حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کے لیے علیحدہ کرلی۔ جب حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے فرمایا : یہ (قبا)میں نے تمہارے لیے چھپارکھی تھی۔ (صحیح بخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی ، جب آپ فارغ ہوئے تو بنوسلمہ کا ایک شخص حاضر خدمت ہوا اورعرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہم (دعوت کے لیے) اونٹ ذبح کرنا چاہتے ہیں اورہماری خواہش ہے کہ آپ اونٹ ذبح کرنے کے موقع پر موجود ہوں۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے، پھر نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اورہم بھی آپ کے ساتھ چل دیے ۔ ہم نے دیکھا کہ اونٹوں کو ابھی ذبح نہیں کیا گیا تھا، پھر اونٹوں کو ذبح کیاگیا، ان کو گوشت کاٹا گیا ، اسے پکایا گیا اورپھر غروب آفتاب سے پہلے ہم نے ان کا گوشت تناول کیا۔(صحیح مسلم)

حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ خطبہ ارشادفرمارہے تھے ، میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ایک مسافر حاضر خدمت ہوا ہے، وہ دین کے بارے میں پوچھنے آیا ہے ، اسے کچھ خبر نہیں کہ اس کا دین کیا ہے ،(اس پر)حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے ، آپ نے خطبہ چھوڑ دیا اورمیرے پاس تشریف لے آئے، آپ کی خدمت میں کرسی پیش کی گئی، میرے خیال میں اس کرسی کے پائے لوہے کے تھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کرسی پر جلوہ افروز ہو گئے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو علم عطافرمایا تھا اس میں سے مجھے بھی تعلیم فرمانے لگے ، پھر آپ خطبے کے لیے تشریف لے گئے اورخطبے کو مکمل کیا۔ (صحیح مسلم)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1899 ( Surah Al-Hashr Ayat 06 Part-1 ) درس ق...

پیر، 15 نومبر، 2021

Shortclips - نفس کے درجات

سبحان اللہ وبحمدہٖ!

 

 !سبحان اللہ وبحمدہٖ

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دوکلمے: سبحان اللہ وبحمدہٖ، سبحان اللہ العظیم(ادائیگی کے اعتبار سے ) زبان پر ہلکے ،میزان پر بھاری اوررحمان کے نزدیک محبوب ہیں ۔(صحیح مسلم)

٭ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور سیدالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشادفرمایا: کیامیں تجھے اللہ رب العزت کے پسندیدہ کلام کے بارے میں مطلع نہ کردوں،میں نے عرض کیا :یارسول اللہ ! مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کے محبوب کلام کے بارے میں ضرور بتائیے ،آپ نے فرمایا:بے شک اللہ کریم کا پسندیدہ کلام ہے: سبحان اللہ وبحمدہٖ ۔ایک روایت میں ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا :کہ سب سے افضل کلام کون سا ہے ؟آپ نے ارشادفرمایا:وہ کلام جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ اوربندوں کے لیے خاص کرلیا ہے وہ ہے :سبحان اللہ وبحمدہٖ۔ (صحیح مسلم)

٭  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہٖ پڑھتا ہے ، اس کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں اگر چہ وہ سمند ر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔(سنن ترمذی)

٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس شخص کے لیے رات میں عبادت کرنا دشوار ہو یا جو اپنا مال خرچ کرنے میں گرانی محسوس کرتا ہویا جو دشمن سے برسرِ پیکار ہونے سے ڈرتا ہووہ سبحان اللہ وبحمدہٖ کثرت سے پڑھا کرے کیونکہ ایسا کرنا اللہ رب العزت کو سونے کاپہاڑ صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ ( مجمع الزوائد)

٭ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جس شخص نے سبحان اللہ وبحمدہٖ ، سبحان اللہ العظیم ، استغفر اللہ واتوب الیہ کہا اس کے لیے اس کلمے کو اسی طرح لکھ لیا جائے گا پھر اسے عرش کے ساتھ معلق کردیا جائے گااور اس شخص کا کوئی عمل کوتاہ اسے مٹانہ سکے گا یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو وہ کلمہ اسی طرح مہربندہوگا جس طرح کہ اس نے اداکیا تھا ۔(مجمع الزوائد)


اتوار، 14 نومبر، 2021

مخلصین

 

مخلصین

 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :مبارک ہو مخلصین کو یہ لوگ ہی ہدایت کے چراغ ہیں اوران سے ہر فتنے کا اندھیرا چھٹ جاتا ہے ۔(بیہقی)

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو قاضی بنا کر یمن کی طرف جانے کا حکم دیا تو انھوں نے عرض کیا :یارسول اللہ !مجھے کچھ نصیحت فرمائیے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اپنے دین کو (محض اللہ کے لیے )خالص کرلو ، تمہیں تھوڑا عمل بھی کفایت کرے گا۔(مستدرک ،امام حاکم)

٭ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے خطبہ میں ارشادفرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ اس بندے کو خوش وخرم رکھے جس نے میری بات سنی اوراسے اپنے ذہن میں محفوظ کرلیا ۔پس کئی مسائل کو جاننے والے لوگ ان کے دلائل سے واقف نہیں ہوتے ۔تین باتیں ایسی ہیں:جن پر کسی ایمان دار بندے کا دل خیانت نہیں کرے گا،عمل کا خالص اللہ کے لیے ہونا ، مسلمانوں کے آئمہ (حکمران ، علماء ، امراء )کے لیے نصیحت کرنا ، مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا۔پس بے شک ان کی دعاء مقبول ومستجاب ہوتی ہے ۔(صحیح ابن حبان )

٭ حضرت مصعب بن زید رضی اللہ عنہما اپنے والدِ گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ اُنھوں نے یہ گمان کیا کہ انھیں اُن اصحاب رسول پر فضیلت حاصل ہے جو ان سے کمزور درجے والے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اس خیال پر مطلع ہوئے تو آپ نے ارشادفرمایا:اللہ تعالیٰ ا س اُمت کی مدد اس کے کمزوروںہی کی وجہ سے فرماتا ہے ۔ان کی دعائوں، نمازوں اوراخلاص کی وجہ سے ۔(نسائی)

٭ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا ملعونہ یعنی اللہ کی رحمت سے دور ہے اورجو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے ۔مگر وہ چیز (ملعون نہیں ہے) جس کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاء اورخوشنودی طلب کی جائے۔(طبرانی، الترغیب والترہیب)


Shortclip - ہم راہ راست پر کیسے آسکتے ہیں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1897 ( Surah Al-Hashr Ayat 03 - 04 ) درس قرآ...

بدھ، 10 نومبر، 2021

Darsulquran Para-05 - ہم کیا صرف دنیا کے طلبگار ہیں

Shortclip - نفس کا فائدہ

تعلیم

 

تعلیم

٭ اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں:’’اوریہ تو ہونہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ)نکل کھڑے ہوں تو  ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ)کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں خوب فہم وبصیرت حاصل کریں اوراپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف واپس آئیں تاکہ وہ (گناہوں اورنافرمانی کی زندگی سے )اجتناب کریں‘‘۔(توبہ ۱۲۲)

٭ ’’اوریادکرو،جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطاکی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں کے سامنے واضع انداز میں بیان کروگے اور(جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے )اسے نہیں چھپائوگے، تو انھوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا اوراس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کرلی ، سو! یہ ان کی بہت ہی بری خریداری ہے‘‘۔(آل عمران ۷ ۸ ۱ )

٭ ’’اوران میں سے ایک گروہ (علم )حق کو چھپاتا ہے حالانکہ وہ (اچھی طرح)جانتے ہیں‘‘۔(بقرۃ ۱۴۶)

٭ ’’اوراس سے بڑھ کر کس کی بات اچھی ہے کہ حق تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے اوراچھے کام کرتا ہے ‘‘۔( فصلت۳۳)

٭ ’’اوراپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اورخوش اسلوبی کے ساتھ دعوت دو‘‘۔(نحل ۴۸)

٭ ’’اوروہ (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم)انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔(آل عمران ۴۸)

 حضورمعلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس عالم کو علم دیا ہے اس سے وہ عہد لیا ہے جو انبیائے کرام سے لیا گیا کہ وہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اوراسے چھپائیں گے نہیں۔(احیاء العلوم)

٭ جب قیامت کا دن ہوگاتو اللہ تبارک وتعالیٰ عابدین ومجاہدین سے فرمائے گا کہ جنت میں داخل ہوجائو ، اہل علم عرض کریں گے کہ ان لوگوں نے تو ہمارے علم کی فضیلت کی وجہ سے عبادت اورجہاد (کا فہم حاصل )کیا ، اللہ رب العزت ارشاد فرمائے گاتم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی طرح ہوتم لوگوں کی سفارش کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی پھر وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔(کنزالعمال )

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1893 ( Surah Al-Hashr Ayat 01 ) درس قرآن سُو...

منگل، 9 نومبر، 2021

Shortclip - نفس کی حقیقت

Shortclip - نفس کی حقیقت

حسنِ تربیت

 

حسنِ تربیت

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒنے خواجہ نظام الدین کے علمی معاملات پر ہی توجہ نہیں مبذول فرمائی بلکہ اُنکے اخلاق حسنہ کو سنوارنے کی طرف بھی بڑا دھیان دیا۔ صوفی مبلغین نفی ذات، مخالفت نفس ،شکست انا،عاجزی انکساری پر بہت زور دیتے ہیں۔ مخلوق سے محبت کرنا اور انھیں خود سے راضی رکھنا بہت ضروری خیال کیاجاتا ہے۔ ایک بار شیخ کبیر نے اپنے درس کے دوران ارشاد فرمایا ’’دشمنوں کوراضی کرو اورحق داروں کو ان کا حق دو‘‘ خواجہ نظام نے اپنے معاملات پر غور کیا تو انھیں یاد آیا کہ انھوں نے ایک بزار سے کپڑا خرید اتھا۔ جسکے بیس جیتل (اس زمانے کا سکہ)ابھی باقی ہیں۔ ایک شخص سے مطالعے کیلئے کتاب لی تھی وہ ان سے کھوگئی واپس نہیں ہوسکی۔وہیں پر بیٹھے بیٹھے طے کیا کہ دلی واپس جاتے ہی جس طرح بھی ممکن ہوگا، انھیں راضی کروں گا۔ واپس آئے تو اپنے دوست کے پاس گئے اوراس سے بڑی  معذرت کی اورکہاکہ آپکی کتاب مجھ سے گم ہوگئی۔ میں نیت رکھتا ہوں کہ کہیں سے کاغذحاصل کروں اوروہ کتاب آپ کو نقل کردوںگا۔وہ دوست تھوڑی دیر آپکو دیکھتے رہے پھر کہنے لگے آپ بابافرید کے پاس سے آئے ہیں،اس جگہ کا ثمرہ ہی یہی ہے کہ اللہ کی رضا حاصل  ہوجائے وہ کتاب میں نے آپ ہی کو بخش دی۔ دکاندار کی خدمت میں حاضر ہوئے، اسے دس جیتل جو اس وقت آپکے پاس تھے، اسے پیش کردیے ۔ اوراسے یاد دلایا کہ آپکے ۲۰جیتل میری طرف  ادھار ہیں۔ باقی رقم بھی عنقریب اداکردوں گا۔ دکان دار نے نم دیدہ ہوکر کہا جہاں سے آپ آئے ہیں وہاں سے تربیت پاکر آنیوالے ایسے ہی اخلاق سیکھ کر آتے ہیں۔ باقی رقم آپ میرے طرف سے ہدیہ سمجھئے۔ ایک دن شیخ کبیر کی خدمت میں نورانی چہروں والے چھ سات نوعمر درویش حاضر ہوئے اورکہنے لگے ہمارا آپس میں کچھ اختلاف ہے۔اپنے کسی مرید کو حکم فرمائیں ہمارے درمیان فیصلہ کردے،آپ نے خواجہ نظام اور سیّد بدرالدین اسحٰق سے فرمایا۔ ان کا معاملہ سن لو۔ان درویشوں نے ایک دوسرے کی شکایت بیان کرنا شروع کی لیکن بڑے نرم اورلطیف لہجے میں۔کہ اس روز آپ نے ایسی بات فرمائی تھی،اورمیں نے یہ عرض کیا تھا۔ اسکے بعد آپ نے یہ ارشاد فرمایا ،میں اس سے واقف نہیں تھا، سمجھا نہیں غلط جواب دیدیا۔ اسکے ساتھی نے بھی اسی نرمی سے کہا آپ نے تو یہی فرمایا تھا مگر غلطی مجھ سے ہوئی واقعی آپ حق پر تھے ۔اسی طرح گفتگو ہوتی رہی۔خواجہ نظام اور مولانا بدران لوگوں کی گفتگو سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان پر گریہ طاری ہوگیا۔ کہنے لگے یہ لوگ ہم سے اپنا فیصلہ کروانے نہیں آئے بلکہ ہماری تربیت کیلئے آئے ہیں کہ ایک دوسرے سے معاملات کیسے کرنے چاہیں اور شکوہ شکایت کا اسلوب کیا ہونا چاہیے۔

پیر، 8 نومبر، 2021

Shortclip سب سے زیادہ نقصان میں کون لوگ ہیں؟

آفتاب وماہتاب

 

آفتاب وماہتاب

خواجہ نظام الدین کو دلی میں تحصیل علم کرتے ہوئے چارسال ہوگئے۔ ان چارسالوں میں وہ مسلسل بابافرید الدین گنج شکر کا تذکرہ اور شہرہ سنتے رہے ۔جنہیں اس وقت کے اہل فضل وکمال بڑے احترام سے ’’شیخ کبیر‘‘ کے لقب سے یادکرتے تھے وہ اگرچہ ایک قدرے دور افتادہ قصبے اجودھن (پاکپتن)میں قیام پذیر تھے۔لیکن ان کی علم وروحانیت ،کی بناپر خلقت انکی جانب امڈ امڈ کر آرہی تھی۔خواجہ نظام بھی وہاں جانا چاہتے تھے لیکن سفرکی دشواری اور اسباب سفر کی کم یابی راستے میں رکاوٹ بنتی ۔ایک دن صبح کی اذان کے بعد موذن نے نہایت خوش الحانی سے قرآن کی آیت پڑھی۔ ’’کیا اہل ایمان کیلئے ابھی تک وہ دن نہیں آیا کہ انکے دل اللہ کے ذکر سے گداز ہوں‘‘۔یہ سننا تھا کہ بے قرار ہوگئے ، سارے اندیشوں اوراسباب ووسائل کے خیال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باباصاحب کی طرف روانہ ہوگئے۔ جیسے ہی وہاں پہنچے بابافرید نے مسکراکر آپ کا استقبال کیااور آپ کو دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا۔

اے آتشِ فراقت دل ہا کباب کردہ 

سیلاب اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ

خواجہ نظام وفورِ اشتیاق ،پاسِ ادب اور شیخ کبیر کی بزرگی کی وجہ سے کلام نہیں کرپارہے تھے۔ باباصاحب نے بڑی لطافت اور خوش طبعی سے فرمایا ’’لکل داخلٍ دھشۃ ‘‘(ہر نیا آنے والا کچھ مرعوب ضرور ہوتا ہے)

باباصاحب زہد ،تقویٰ ،توکل ،استغناء ، فقر ودرویشی اور تزکیہ وتربیت میں فرد تھے۔ لیکن اس وبستانِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جو علم کو ازحد ضروری گردانتے تھے ،لہذا آپ نے سب سے پہلے خواجہ نظام سے انکی علمی استعداد کے بارے میں استفسار فرمایا۔ابتداء قرآن سے ہوئی اور پوچھا کہ کچھ قرآن بھی پڑھا ہے،تو سنائو آپ نے قرآن سنایا اگر چہ آپ نے بڑے اچھے قراء سے تحصیل فرمائی تھی لیکن باباصاحب مطمئن نہیں ہوئے فرمایا قرآن پاک ہم تمہیں خود پڑھائیں گے۔آپ نے خواجہ نظام کو چھ سپارے قرآت وتجوید کے اصولوں کے مطابق پڑھائے۔ آپ فرماتے ہیں لفظ ضاؔد کا مخرج جس خوبصورتی سے باباصاحب ادافرماتے تھے میں نے اپنی زندگی میں کسی اور سے اس طرح نہیں سنا۔قرآن پاک کیساتھ آپ نے باباصاحب سے مشہور کتاب عوارف المعارف کے پانچ ابواب پڑھے۔ اور عقائد میں ابوشکور شالمی کی کتاب’’تمہید المبتدی‘‘پڑھی ۔شیخ کبیر کے پڑھانے کا انداز انتہائی دلکش تھا۔آپ فرماتے ہیں کہ وہ ایسے عمدہ اور دلکش انداز سے پڑھاتے تھے کہ آدمی انکے لطف بیان میں کھو جاتا تھا اور اتنا محوہوجاتا کہ جی چاہنے لگتا کہ کاش اس سماعت میں دم ہی نکل جائے۔ علم کے ساتھ باباصاحب نے آپکی روحانی تربیت فرمائی۔ اذکار واوراد تلقین فرمائے۔


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1891 ( Surah Al-Mujadila Ayat 21 ) درس قرآن ...

اتوار، 7 نومبر، 2021

Shortclip - کیا ہم سب سیدھے راستے پر ہیں؟

Shortclip.کیا مومن گناہ پر اصرار کرسکتا ہے؟

خواجہ نظام کا ورودِ دلی

 

خواجہ نظام کا ورودِ دلی

حضرت نظام الدین اولیاء نے بدایوں میں رہتے ہوئے اپنی تعلیم مکمل کرلی اس وقت انکی عمر 16بر س تھی۔ مزید تحصیل علم کا شوق فراواں موجود تھا۔ اپنی والدہ اور ہمشیرہ کے ساتھ دلی آگئے۔ دلی اس وقت حکومت واقتدار کا مرکز تھا اور اس شہر میں بڑے بڑے صاحبانِ کمال موجود تھے۔ تاتاریوں کی بڑھتی ہوئی یورشوں کی وجہ سے مملکت اسلامیہ کے بہت سے علاقوں کے، چنیدہ افراد ہندوستان کا رخ کررہے تھے۔ 

اہل کمال کے اس ہجوم میں’’بابانظام‘‘ نے جلد ہی ایک محنتی، ذہین اورعلم کا شدید اشتیاق رکھنے والے طالب علم کی حیثیت سے اپنا مقام منوالیا اپنی ذہانت برحبستہ گوئی اور استدلال و طریقِ گفتگو کی وجہ سے نظام الدین بحاث اور نظام الدین محفل شکن کے القابات سے مشہور ہوگئے۔انہوں نے اپنے عہد کے تمام علوم سے شناسائی حاصل کی مقامات حریری عربی ادب کی ایک مشکل اور ادّق کتاب ہے۔ اسکے چالیس ابواب زبانی یادکرلیے۔ مولانا شمس الملک، مولانا کمال الدین زاہد اور مولانا امین الدین محدث جیسے باکمال اساتذہ سے علم حاصل کیا، خواجہ شمس الملک تو اپنے شاگرد کا اس درجہ احترام کرتے کہ انھیں اپنے برابر میں بٹھاتے۔

مولانا کمال الدین زاہد حدیث کے زبر دست عالم تھے انہوں نے علم حدیث، نامور محدث مولانا رفیع الدین صغانی صاحب ’’مشارق الانوار‘‘ کے شاگرد مولانا برہان الدین محمود اسعد بلخی سے حاصل کیا تھا۔ مزاج میں زہد، تقویٰ اور قناعت پاکیزگی کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ جب بادشاہ غیاث الدین بلبن نے ان کا شہرہ سنا تو انہیں دربار میں طلب کیا۔ اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ ہماری نمازوں کی امامت کروائیں۔ مولانا نے جواباً، بڑی بے باکی سے کہا ’’ہمارے پاس نماز کے سواء اور ہے کیا، کیا بادشاہ اسے بھی ہم سے چھین لینا چاہتا ہے‘‘ بلبن یہ سن کر چپ ہوگیا اور دوبارہ اصرار نہیں کیا۔’’مشارق الانوار‘‘ بخاری اور مسلم کا ایک خوبصورت انتخاب ہے۔ خواجہ نظام نے آپ سے اس کتاب کا نہ صرف یہ کہ درس لیا بلکہ پوری کتاب کو حرفاً حرفاً حفظ بھی کر لیا۔دلی میں خواجہ نظام الدین کو حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کا پڑوس میسر آیا۔ آپ حضرت بابافرید الدین گنج شکر کے چھوٹے بھائی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ میں نے اتنا پڑھ لیا کہیں قاضی لگ جائوں میں نے حضرت متوکل سے دعا کیلئے عرض کیا تو انھوں نے مسکرا کر کہا، قاضی مشوچیزے دیگر مشو،قاضی نہ بنو کچھ اور چیز ہی بنو، خواجہ نظام بچپن میں بابا فرید الدین کا ذکر سنتے تو اپنے دل میں انکے لیے بڑی محبت محسوس کرتے۔ شیخ نجیب کی صحبت نے اس اشتیاق کو بہت بڑھا دیا اور وہ باباصاحب کی ملاقات کیلئے پاکپتن روانہ ہوگئے۔


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1890 ( Surah Al-Mujadila Ayat 20 ) درس قرآن ...

ہفتہ، 6 نومبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا جلد ہی ہم نابود ہونے والے ہیں

Shortclip - کیا توبہ کی امید پر گناہ کرسکتے ہیں؟

آئینہ خلقِ رسالت

 

آئینہ خلقِ رسالت

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سیرت کردار میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار وعمل کا آئینہ تھے۔انتہائی خلیق ، مواضع اور منکسر المزاج تھے،کوئی بچہ اور بچی بھی بات کرنے لگتی تو کھڑے ہو کراس کا مسئلہ سنتے اور اس کی اعانت کرتے ۔غریبوں مسکینوں کی صحبت میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے جبکہ امراء ، وزراء حتیٰ کہ حکمرانِ وقت کی مصاحبت سے بھی گریز کرتے ۔صاحبان علم وتقویٰ آپ کے پاس آتے تو کھڑے ہو کر انھیں خوش آمدید کہتے لیکن کسی بھی امیر آدمی یا اراکین سلطنت کی تعظیم کے لیے کھڑے نہ ہوتے۔کبھی کبھی کسی وزیر یا سلطان کے دروازے پر نہیں گئے آپ کے احباب میں سے کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کے حالات دریافت فرماتے ، کوئی بیمار ہوجاتا تو عیادت کے لئے تشریف لے جاتے ،خواہ سفر ہی اختیار کرنا پڑے، ایک مرتبہ حضرت شیخ علی ہیتی بیمار ہوگئے تو آپ ان کی بیمار ی پر سی کے لیے ان کی بستی زرہران میں تشریف لے گئے جو بغداد سے قدرے فاصلے پر واقع ہے۔طبیعت میں حلم اور برباری غالب تھی، کسی ذاتی یا خانگی معاملے میں کبھی غصہ نہ فرماتے ، عوام یا خواص سے کوئی لغزش ہوجاتی تو اسے معاف فرمادیتے ۔ شیخ ابو عبد اللہ بغدادی کہتے ہیں:’’آپ کے اخلاق نہایت محبوب اور اوصاف ازحد پاکیزہ تھے ۔ ہر رات عام دسترخوان بچھتا،مہمانوں کے ساتھ کھاتے، کمزوروں کے ساتھ بیٹھتے ،طلبہ سے خاص انس رکھتے آپ سے زیادہ صاحب حیا میں نے کوئی نہ دیکھا بڑے رقیق القلب ،خدا سے بہت ڈرنے والے،بڑی ہیبت والے ازحد کریم الاخلاق اور پاکیزہ طبع تھے ۔ محارم الہی کی بے حرمتی کے وقت سخت گیر تھے مگر اپنی ذات کے لئے انتقام نہ لیتے۔‘‘

امام محمد بن یوسف البرزالی فرماتے ہیں:۔

’’آپ مستجاب الدعوات تھے، آنکھوں میں بڑی جلدی آنسو آجاتے ، ہمیشہ ذکروفکر میں مشغول رہتے ۔ بڑے رقیق القلب ،خندہ پیشانی کے خوگر، شگفتہ رو،کریم النفس فراخ دست،وسیع العلم ،بلند اخلاق تھے۔عبادات اورمجاہدات میں آپ کا پایہ بلند تھا‘‘۔ 

سخاوت ،جو دوکرم اور بھوکوں کو کھانے کھلانے کاخاص ذوق تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ساری دنیا کی دولت میرے قبضہ میں ہو تو بھوکوں کو کھانا کھلادوں یہ بھی فرماتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری ہتھیلی میں سوراخ ہے۔کوئی چیز اس میں ٹھہرتی نہیں۔ فرمایا کرتے تھے میں نے تمام اعمالِ صالحہ کی چھان بین کی ہے۔ ان میں سب سے افضل عمل بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔ صبر وصداقت اور استقلال اورصدق میں آپ کی شخصیت یکتائے روزگار تھی۔


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1889 ( Surah Al-Mujadila Ayat 19 ) درس قرآن ...

جمعرات، 4 نومبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1887 ( Surah Al-Mujadila Ayat 14 - 16 ) درس ...

Darsulquran Para-05 - تقوی کی اہمیت

ShortClip - کیا ہمارے ایمان کی کوئی حقیقت ہے؟

مصائب اور کفارہ

 

مصائب اور کفارہ

٭ حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !لوگوں میں زیادہ بلاء مشقت والے کون ہیں؟تو آپ نے فرمایا:أنبیاء کرام پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ ان کے پیروکار حتیٰ کہ انسان کو اس کے دین کے درجہ اورمقدار کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر اس کا دین مضبوط ہوتو اسکی آزمائش اوربلا بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے اوراگر اس کے دین میں نرمی اورکچھ کمی ہوتو اس کے حساب سے ہی اس کی آزمائش کی جاتی ہے ۔اللہ کے بندے پر بلاء وآزمائش گزرتی رہتی ہے حتیٰ کہ جب ختم ہوتی ہے تووہ گناہوں سے پاک ہوکر زمین پر چلتا ہے ۔
٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیہ مبارکہ من یعمل سوئً ا یجزبہ۔’’جس نے جو بھی براکام کیا اسے اس کی جزادی جائے گی۔‘‘کے بعد ہمارا کیا بنے گا کہ ہمیں ہمارے بُرے کام کی سزاملے گی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ کہاغفراللہ لک یا أبا بکر۔’’ابوبکر!اللہ تجھے معاف کرے‘‘کیا تو مریض نہیں ہوتا ؟کیا تجھے غم وملال نہیں پہنچتا؟تجھے تھکن اورمشقت نہیں ہوتی ؟تجھے پیٹ وغیرہ کا درد نہیں ہوتا؟میں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ!تو آپ نے فرمایا:یہی تمہاری غلطیوں کی وہ پاداش ہے جو تمہیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کا ایک مرتبہ کو نہیں پاسکتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے کسی آزمائش میں ڈال دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔ 

٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مؤمن اورمؤمنہ کے مال وجان اوران کی اولاد کے سلسلے میں ان پر بلاء وآزمائش جاری رہتی ہے حتیٰ کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتے ہیں توان پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔ 

٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ بخار دوزخ کی دھونکنی ہے توجس مؤمن کواس سے کچھ حضہ پہنچا ،وہ دوزخ کی آگ سے اس کا نصیب تھا۔

٭ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت سے ارشاد فرمایا کہ توبخار کو گالی نہ دے کیونکہ یہ اولادِ آدم کے گناہوں کو یوں ختم کردیتا ہے ،جیسے لوہارکی دھونکنی لوہے کی میل کچیل کو۔

٭ حضرت عبدالرحمن بن ازھر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مؤمن بندہ کی مثال جب اسے بخار آتا ہے ،اس لوہے کے ٹکڑے کی سی ہے جسے آگ میں ڈالا جاتا ہے وہ اس کی میل کچیل کو دور کرکے اسے خالص بنادیتی ہے۔(الآداب،بیہقی)


بدھ، 3 نومبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اسلام کے راستے پر چل رہے ہیں

ShortClip - کیا ہم مومن نہیں ہیں؟

ایک مربوط علمی تحریک

 

ایک مربوط علمی تحریک

بغداد کے مدرسہ قادریہ اور عالم اسلام کے دیگر بڑے مدارس اس نتیجے پر پہنچے کہ القدس کی بازیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسلامی روح اور جذبہ سے سرشار ایک نسل نو سامنے نہ آئے۔اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک مربوط کوشش کا آغاز کیا ۔اس کاوش کی ایک جھلک ام القری یونیورسٹی (مکہ مکرمہ) کے استاذ ڈاکٹر ماجد عرسان الکیلانی نے اپنی کتاب’’ھکذا ظہرَ جیل صلا ح الدین وھکذا عادت القدس‘‘میں بیان کی ہے۔ ’’546تا 550ھ (1151ء تا 1155ء )کے درمیانی عرصہ میں مدارس اصلاح کے باہمی ربط واتصال کی تحریک جاری ہوئی،جس کا مقصد یہ تھا کہ تمام کوششوں کو متحد کیاجائے اور باہمی تعاون کو منظم کیا جائے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے متعدد اجتماعات منعقد کیے گئے جن کے تنطیمی اورنظریاتی سطح پر اہم نتائج بر آمد ہوئے ۔تنظیمی سطح پر باہمی ربط کی کوشش ،مدارس اصلاح کے لیے متحدہ قیادت کی صورت میں سامنے آئیں۔ اس میں پورے عالم اسلام کی سطح پر اتحاد کی صورت پیدا ہوئی ۔قیادت کے مذکورہ اتحاد کے مقصد کے لیے پہلا اجتماع مدرسہ قادریہ کی رباط میں منعقد ہوا، یہ رباط ،بغداد کے محلہ ’’حلہ‘‘میں واقع تھی۔جہاں عراق اور بیرون عراق سے پچاس سے زیادہ شیوخ حاضر ہوئے۔دوسرا اجتماع موسم حج کے دوران ہوا، جس میں عالم اسلامی کے مختلف کونوں سے اصلاحی مدارس کے شیوخ جمع ہوئے۔ اس اجتماع میں عراق سے حضرت شیخ عبدالقادر ،حضرت شیخ عثمان مرزوق (جن کی شہرت مصر میں پھیل چکی تھی)شیخ المدین مغربی(جو المغرب میں اشاعت زہد کے قائد تھے)نے شرکت کی، اس طرح یمن سے متعدد شیوخ اجتماع میں شامل ہوئے جن کے امورمنظم کرنے کے لیے حضرت شیخ نے اپنا ایک نمائندہ انکے ساتھ روانہ کیا۔ اس دوران شیخ عبدالقادر اور شیخ رسلان دمشقی کے درمیان روابط جاری رہے۔اسکے بعد وسیع پیمانے پر اجتماع منعقد ہوا جس میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں سے مدارس اصلاح کی نمائندگی کرنے والے تمام بڑے شیوخ شامل تھے۔ا س اجتماع کا اہم ترین نتیجہ یہ تھا کہ ایک متحدہ قیادت عالم وجود میں آئی ۔ (جس کی سربراہی جناب شیخ عبدالقادر جیلانی کے سپرد تھی)اس متحدہ قیادت کافرض تھاکہ وہ مدارس اصلاح کی سرگرمیوں کو مربوط کرے اور ان کا رخ اشاعت زہد اور نئی نسل کی تربیت کی طرف موڑ دے اور اس بات کا خیال رکھے کہ انکاکردار اس عہد کے اسلامی معاشرے کے ان امراض کے علاج کے محور کے گرد گھومتا رہے جن امراض سے چیلنجوں کے سامنے اسے کمزور کردیا ہے۔ اور اندرونی فرائض کی ادائیگی میں بے بس کردیا ہے۔ (عہد ایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1886 ( Surah Al-Mujadila Ayat 12 - 13 ) درس ...

Darsulquran Para-05 - انسان کی کامیابی کا راز کیا ہے

منگل، 2 نومبر، 2021

Shortclip - دنیا میں آزمائش کیوں؟

بغداد کا مرکز علمی

 

بغداد کا مرکز علمی

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نے مدرسہ مخزومیہ بغداد کی تنظیم نو کی جو جلد ہی آپ کے اسم گرامی سے منسوب ہوگیا۔اس (مدرسہ)نے تحریک اصلاح وتجدید کی باگ ڈور سنبھالی،اسکی سرگرمیاں متعدد میدانوں پر مرکوز ہوئیں۔(۱)عملِ اسلامی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پیغام پھیلانے کیلئے مستقل قیادت کا فارغ التحصیل کرنا۔(۲)عملِ اسلامی کیلئے مختلف مدارس کے درمیان مطابقت پیدا کرنا۔ (۳)تعلیم اور دعوت کے عمل کا طریقِ کار وضع کرنا اور اس کی منصوبہ بندی اور پروگرام مرتب کرنا ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مدرسہ قائم کیا اور نصف صدی کی مدت تک اس کی سرگرمیوں کی قیادت کی۔یہاں تک کہ ساری عالم اسلام میں اس کی اشاعت اور روابط پھیل گئے۔جب زنگی سلطنت (نورالدین زنگی) قائم ہوئی۔تو اس مدرسہ کے فارغ التحصیل افراد اس نئی سلطنت کے ساتھ مل گئے اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کی ذمہ داریوں میں شریک ہوگئے۔’’مدرسہ سے متعلق معلومات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس نے ملک شام میں صلیبی خطرہ کا سامنا کرنے کی عرض سے ایک نسل کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کیا۔یہ مدرسہ ان مہاجر ین کے بیٹوں کو خوش آمدید کہتا تھا۔ جو صلیبی قبضہ کی وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے۔ انہیں پوری طرح تیار کیا جاتا تھا،اور پھر انہیں ان علاقوں میں واپس بھیج دیا جاتا تھا۔ جو زنگی قیادت کے تحت صلیبیوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔بعد میں ان طلبہ میں سے بعض نے بڑی شہرت پائی، ان میں ایک ابن نجا الواعظ تھے۔ جو بعد میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے سیاسی وعسکری مشیر بن گئے۔ اسی طرح الحافظ الرہادی اور موسیٰ بن شیخ عبدالقادر جیلانی جو شام منتقل ہوگئے تاکہ فکری سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ اسی طرح موفق الدین (کتاب المغنی کے مصنف اور سلطان صلاح الدین کے مشیر)اور ان کے قریبی الحافظ عبدالغنی تھے۔ یہ دونوں اس وقت حضرت شیخ کے مدرسہ میں داخلہ کے لیے آئے جب انکے خاندانوںنے نابلس کے علاقہ میں واقع جماعیل سے نقل مکانی کی‘‘ ۔(عہدایوبی کی نسل نو اور القدس کی بازیابی)جناب شیخ نے اپنے اوقات کا بڑا حصہ مدرسہ کے لیے وقف کردیا۔آپ ایک دن میں تیرہ علوم کی تدریس فرمایا کرتے تدریس کے عمل کو بڑی فضیلت کا حامل سمجھتے تھے۔ آپ نے صرف مدرسہ قادریہ پر توجہ نہیں دی، بلکہ تیس کے قریب بڑے مدرسے قائم کروائے جن کی ذیلی شاخیں سینکڑوں کی تعداد میں تھیں۔ ان سے فارغ التحصیل ہوکر طلبہ جامعہ قادریہ میں آجاتے۔ جہاں جناب شیخ انکی تربیت فرماتے اور ایک سال میں ۳ ہزار سے زیادہ طلبہ آپ سے دستاد فضیلت حاصل کرتے۔