منگل، 9 نومبر، 2021

حسنِ تربیت

 

حسنِ تربیت

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒنے خواجہ نظام الدین کے علمی معاملات پر ہی توجہ نہیں مبذول فرمائی بلکہ اُنکے اخلاق حسنہ کو سنوارنے کی طرف بھی بڑا دھیان دیا۔ صوفی مبلغین نفی ذات، مخالفت نفس ،شکست انا،عاجزی انکساری پر بہت زور دیتے ہیں۔ مخلوق سے محبت کرنا اور انھیں خود سے راضی رکھنا بہت ضروری خیال کیاجاتا ہے۔ ایک بار شیخ کبیر نے اپنے درس کے دوران ارشاد فرمایا ’’دشمنوں کوراضی کرو اورحق داروں کو ان کا حق دو‘‘ خواجہ نظام نے اپنے معاملات پر غور کیا تو انھیں یاد آیا کہ انھوں نے ایک بزار سے کپڑا خرید اتھا۔ جسکے بیس جیتل (اس زمانے کا سکہ)ابھی باقی ہیں۔ ایک شخص سے مطالعے کیلئے کتاب لی تھی وہ ان سے کھوگئی واپس نہیں ہوسکی۔وہیں پر بیٹھے بیٹھے طے کیا کہ دلی واپس جاتے ہی جس طرح بھی ممکن ہوگا، انھیں راضی کروں گا۔ واپس آئے تو اپنے دوست کے پاس گئے اوراس سے بڑی  معذرت کی اورکہاکہ آپکی کتاب مجھ سے گم ہوگئی۔ میں نیت رکھتا ہوں کہ کہیں سے کاغذحاصل کروں اوروہ کتاب آپ کو نقل کردوںگا۔وہ دوست تھوڑی دیر آپکو دیکھتے رہے پھر کہنے لگے آپ بابافرید کے پاس سے آئے ہیں،اس جگہ کا ثمرہ ہی یہی ہے کہ اللہ کی رضا حاصل  ہوجائے وہ کتاب میں نے آپ ہی کو بخش دی۔ دکاندار کی خدمت میں حاضر ہوئے، اسے دس جیتل جو اس وقت آپکے پاس تھے، اسے پیش کردیے ۔ اوراسے یاد دلایا کہ آپکے ۲۰جیتل میری طرف  ادھار ہیں۔ باقی رقم بھی عنقریب اداکردوں گا۔ دکان دار نے نم دیدہ ہوکر کہا جہاں سے آپ آئے ہیں وہاں سے تربیت پاکر آنیوالے ایسے ہی اخلاق سیکھ کر آتے ہیں۔ باقی رقم آپ میرے طرف سے ہدیہ سمجھئے۔ ایک دن شیخ کبیر کی خدمت میں نورانی چہروں والے چھ سات نوعمر درویش حاضر ہوئے اورکہنے لگے ہمارا آپس میں کچھ اختلاف ہے۔اپنے کسی مرید کو حکم فرمائیں ہمارے درمیان فیصلہ کردے،آپ نے خواجہ نظام اور سیّد بدرالدین اسحٰق سے فرمایا۔ ان کا معاملہ سن لو۔ان درویشوں نے ایک دوسرے کی شکایت بیان کرنا شروع کی لیکن بڑے نرم اورلطیف لہجے میں۔کہ اس روز آپ نے ایسی بات فرمائی تھی،اورمیں نے یہ عرض کیا تھا۔ اسکے بعد آپ نے یہ ارشاد فرمایا ،میں اس سے واقف نہیں تھا، سمجھا نہیں غلط جواب دیدیا۔ اسکے ساتھی نے بھی اسی نرمی سے کہا آپ نے تو یہی فرمایا تھا مگر غلطی مجھ سے ہوئی واقعی آپ حق پر تھے ۔اسی طرح گفتگو ہوتی رہی۔خواجہ نظام اور مولانا بدران لوگوں کی گفتگو سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان پر گریہ طاری ہوگیا۔ کہنے لگے یہ لوگ ہم سے اپنا فیصلہ کروانے نہیں آئے بلکہ ہماری تربیت کیلئے آئے ہیں کہ ایک دوسرے سے معاملات کیسے کرنے چاہیں اور شکوہ شکایت کا اسلوب کیا ہونا چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں