اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
منگل، 30 اپریل، 2024
حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ(۱)
حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ(۱)
حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ بہادر، سخی ، خوش اخلاق اور قریش کے دلاور نوجوان اور قریش میں انتہائی بلندمقام کے مالک تھے ۔ آپ ؓ حضور نبی کریم ﷺ کے چچا تھے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے چچا سیدنا امیر حمزہ ؓ سے بہت زیادہ انس و محبت تھی ۔ اور آپ ؓ بھی حضور سرور کائنات ﷺ سے بہت پیار کرتے تھے ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب آپ ؓ کو پتا چلا کہ ابو جہل آپ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتا ہے تو آپؓ نے حرم کعبہ میں اس کے سر میں اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر کھل گیا ۔ حضرت امیر حمزہ ؓ نے حضور نبی کریم ﷺ سے گزارش کی اے بھتیجے تو کھل کر دین اسلام کی تبلیغ کر ۔اللہ کی قسم یہ مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دیں تو میں تب بھی اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا ۔
آپؓ کے اسلام لانے سے رسول کریم ﷺ کو بہت زیادہ قوت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ ﷺ کو تکلیف پہنچانے سے کچھ حد تک رک گئے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے لیے تھا جب آپ ﷺ نے انہیں ۲ ہجری میں قوم جھینہ کے علاقے میں سیف البحر کی طرف ایک دستے کے ساتھ بھیجا تھا ۔
سید الشہدا ء حضرت سیدنا امیر حمزہ ؓ جنگ بدر میں شریک ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس میں بڑی جانبازی کا مظاہرہ کیا ۔ غزوہ بد ر میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کفار کے دوبڑے سرداروں کو قتل کیا ۔ایک کا نام عتبہ اور دوسرے کا نام طعیمہ بن عدی تھا ۔ آپ ؓ نے ان دونوں کافروں کو ایک ہی وار میں واصل جہنم کر دیا تھا ۔ جنگ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری دیکھ آپ ﷺ نے فرمایا: حمزہ خدا کا بھی شیر ہے اور اس کے رسول ﷺ کا بھی شیر ہے ۔
طعیمہ بن عدی کا ایک بھتیجا جبیر بن مطعم تھا اس نے اپنے چچا کا بدلہ لینے کے لیے اپنے غلام وحشی کو لالچ دی اور کہاکہ اگر تو میرے چچا کا بدلہ نبی ﷺ کے چچا سے لے گا تو میں تجھے اپنی غلامی سے آزاد کر دو ں گا اور بہت سارا انعام بھی دوں گا ۔ عتبہ کی بیٹی ھندہ نے وحشی سے کہا کہ تو اگر سیدنا امیر حمزہؓ سے میرے باپ کا بدلہ لے گا تو میں تجھے آزادبھی کروائوں گی اور بہت سارا سونا اور چاندی اور مال و متاع دوں گی ۔اور سیدنا امیر حمزہ ؓ کا کلیجہ نکال کر لانا بھی تیرا کام ہے میں نے قسم کھائی ہے کہ میں ان کا کلیجہ چبائوں گی ۔
پیر، 29 اپریل، 2024
خود داری(۲)
خود داری(۲)
حضرت عوف بن مالک الاشجعیؓ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ ناز میں حاضر تھے تو آپؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے کچھ دیر پہلے ہی بیعت کی تھی ۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہؐ!ہم بیعت کر چکے ہیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا کیا تم اللہ کے رسولؐکے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہؐ، ہم بیعت کر چکے ہیں ۔ آپؐ نے پھر فرمایا کیا تم اللہ کے رسولؐ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے ۔ آپؓ فرماتے ہیں ہم نے بیعت کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کی یا رسول اللہؐ، ہم کس چیز پر آپ کی بیعت کریں؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس چیز پر کہ اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائو گے۔ پانچ وقت نماز ادا کرو گے اور اطاعت کرو گے ۔پھر آپؐ نے آہستہ سے ایک کلمہ فرمایا کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ بعدمیں ان لوگوں کی یہ حالت تھی کہ ان میں سے اگر کسی کا کوڑا بھی نیچے گر جاتا تو وہ کسی سے پکڑانے کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ( السنن الکبریٰ)
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: مجھے اس چیز کی ضمانت کون دیتا کہ وہ لوگوں کے آگے سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبانؓ نے عرض کی، یا رسول اللہؐ میں۔ تو اس کے بعد حضرت ثوبانؓ نے کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کیا۔ جب انسان اللہ کی طرف دیکھنے لگ جائے تو وہ لوگوں کی طرف کبھی نہیں دیکھتا۔ جو بندہ لوگوں کی بجائے اللہ کی طرف دیکھتا ہے وہ ہی خودداری کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ صرف اللہ کے در پہ اپنا ہاتھ پھیلانے والا ہی حقیقی بادشاہ ہوتا ہے، چاہے وہ کسی کٹیا پر بیٹھا ہو اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والا گدا گر ہوتا ہے چاہے وہ تخت نشین ہی کیو ں نہ ہو۔
خودداری اور عزت نفس کی دولت بازار سے خریدی نہیں جا سکتی، یہ خزانہ صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھنے سے ہی ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر پختہ یقین اس کو مزید جلا بخشتی ہے ۔ جب کسی انسان کو یہ دولت مل جائے تو انسان وقت کا سلطان بن جاتا ہے، نہ اس کا ہاتھ اللہ کے سوا کسی کے آگے اٹھتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی جھولی کسی کے آگے پھیلاتاہے اور نہ ہی وہ کبھی احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
اتوار، 28 اپریل، 2024
خود داری(۱)
خود داری(۱)
عزت نفس کی حفاظت اور خودداری کا تحفظ وہ بے بہا دولت ہے جو انسان کو عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے ۔ ہر انسان کو جو کچھ اللہ تعالی نے عطا کیا ہے اسے اچھی طرح سمجھ لے تو نہ کبھی اس کا سر شکر کے سجدے سے اٹھے اور نہ ہی وہ کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہو ۔ دوسروں کے محل کو دیکھ کر اپنی جھونپڑی سے نفرت کرنا نا صرف کم ہمتی ہے بلکہ اللہ تعالی کی تقسیم پر اعتراض بھی ہے ۔
خودداری اور عزت نفس کی دولت کو حاصل کرنے کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں ۔ ایک یہ کہ انسان کو اس بات پر پختہ یقین ہو کہ صرف اللہ تعالی کے در سے ہی مانگنے سے میری عزت میں اضافہ ہو گا اور اس کے در سے امید لگانے سے ہی میری توقیربڑھے گی ۔ اللہ کے سوا کسی بادشاہ یا وڈیرے سے مانگنا بھی میری توہین ہے ۔ جب انسان اپنا سب کچھ اللہ تعالی کی ذات اقدس کو سمجھ لیتا ہے تو ہر انسان اپنی ذات میں باد شاہ بن جاتا ہے ۔ اللہ سے دوری ذلت ہے اور اللہ کا قرب ہی عزت و خودداری ہے ۔
دوسری چیز اپنے دائرہ کار کا تعین کرنا ہے انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ میرا کام صرف اور صرف کوشش کرنا ہے اور بھرپور کوشش کرنا ہے اور میری تمام تر کوششوں کے باوجود بھی مجھے میرا مقصد حاصل نہیں ہوا تو یہی میرے اللہ کا فیصلہ ہے مجھے اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ہے اور نہ ہی احساس کمتری کا شکار ہونا ہے ۔ اللہ تعالی اس بات کو مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ کیا میرے لیے اچھا ہے اور کیا نقصان دہ ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے : ’’ اور اللہ نے تم میں کسی کو دوسرے پر جو برتری دی ہے اس کے در پے نہ ہوا کرو ۔ مردوں نے جو کام کیے ہیں انہیں ان کا اجر ملے گا ۔ اور عورتوں نے جو کام کیے ہیں انہیں ان کا اجر ملے گا ۔ اور االلہ سے اس کے فضل کی التجا ء کرو بیشک اللہ تعالی ہر شے کو خوب جاننے والا ہے ‘‘۔ ( سورۃ النساء )
جب بندہ اس بات پر اچھی طرح یقین کر لے کہ میرا ہاتھ جب اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں اٹھے گا تو میری عزت میں اضافہ ہو گا اور جب کسی بھی حاکم وقت کے سامنے اٹھے گا تو مجھے رسوائی ملے گی تو یہ حقیقت اسے عزت نفس کی دولت اس حد تک ملے گی کہ اس کا ہاتھ کبھی بھی کسی غیر کے سامنے نہیں اٹھے گااور جب بھی اٹھے گا صرف اللہ تعالی کی بارگاہ میں اٹھے گا ۔
اور جتنے بھی سہارے ہیں سبک کرتے ہیں
عزت نفس بڑھاتا ہے سہارا تیرا
ہفتہ، 27 اپریل، 2024
عزت و آبرو
عزت و آبرو
عزت و آبرو انسان کے لیے ایک بہت ہی نایاب خزانہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انسان بہت زیادہ محنت کرتا ہے۔ہر انسان عزت و آبرو کا تحفظ چاہتا ہے ۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ اس کی معاشرے میں جو عزت ہے وہ خراب ہو اور وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائے ۔طاقت کی وجہ سے کسی سے عاجزی کروالینا ۔ اقتدار میں رہ کر کسی سے احترام کروا لینا اور ظلم و ستم کے بل بوتے پر اپنی تکریم کروا لینا عزت نہیں بلکہ حقیقی عزت وہ ہے جو بغیر کسی جبر کے کوئی دل کی گہرائیوں سے کرے اور یہ پوری زندگی پر محیط ہو ۔
انسان تخت پر بیٹھا ہو یا پھر کٹیا نشین ہو ، وہ کسی اعلی منصب پر ہو یا ایک عام انسان کی طرح رہ رہا ہو ہر حال میں اس کی عزت میں فرق نہ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و تکریم کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے ۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص صاحب اقتدار ہے اور اس کی عزت و تکریم کی جائے اور جب اقتدار ختم ہو جائے تو عزت و تکریم بھی ختم ہو جائے تو اس کا مطلب ہے یہ حقیقی عزت نہیں ۔
عزت ایسی چیز نہیں جو بازار سے مل جائے ، یا پھر عزت زبر دستی چھین لینے والا سرمایہ نہیں بلکہ حقیقی عزت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حاصل ہوتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں مقبولیت کی دلیل ہے ۔ ایک بندہ جتنا زیادہ اللہ تعالی کے قریب ہو تا ہے اس کی عزت مخلوق کی نظر میں اتنی زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ عزت کا طالب تو ہر انسان ہوتا ہے لیکن وہ عزت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں سے عزت طلب کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ذلتوں کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” منافقوں کو درد ناک عذاب کی خبر دیجیے جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنے دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں بیشک تمام تر عزت اللہ ہی کے لیے ہے “۔ ( سورة النسائ)
انسان معزز بننے کے لیے دوستوں سے وفاداری نبھاتا ہے اور اس میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اپنے دوستوں کو خوش رکھنا چاہتا ہے ۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری عزت اسی صورت باقی رہے گی اگر میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیوفائی نہ کروں ۔ لیکن اللہ کی نافرمانی کر کے عزت بچاتے ہوئے وہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کو بھول جاتا ہے کہ جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس ظالم کو اس پر مسلط کر دیتا ہے ۔
جمعہ، 26 اپریل، 2024
حقیقت ِدین
حقیقت ِدین
انسانی زندگی میں اصل حاکم اس کی سوچ اور فکر ہوتی ہے ۔ انسان کے تمام اعمال اس کی سوچ اور فکر کے گرد گھومتے ہیں ۔ اگر انسان کی سوچ یہ ہو گی کہ غربا پروری ایک اچھا عمل ہے تو اس کی ساری زندگی غربا پروری میں گزر جائے گی اور اگر اس کی سوچ یہ ہو کہ لوٹ مار اور دو نمبری ہی میری زندگی کا اصل مقصد ہے تو وہ اپنی ساری عمر اسی کام میں گزار دے گا ۔
جب انسان کا اس بات پر پختہ یقین ہو جائے کہ فرشتے اس کے منہ سے نکلنے والی ہر بات کو لکھ رہے ہیں اور ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنی ساری زندگی میں کیے گئے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ تو پھر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرے وہ اس کے نام پہ اپنی ساری زندگی کا ما ل و متاع قربان کر دے جس کا کرم ہر قدم پر اس کی رہنمائی کرتا ہے ۔
عبادات اسی وقت عبادات کہلاتی ہیں جب وہ اس سوچ اور تڑپ کا نتیجہ ہوں اگر کوئی اس سوچ اورتڑپ سے محروم ہے تو اس کی عبادات محض ایک عادت بن جائے گی اور اس کی زندگی اسلامی فکر کی مظہر نہیں ہو گی۔
فکر اور اعمال دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں اور آپس میں لازم و ملزوم ہیں ان کا ایک دوسرے کا ساتھ وہ ہی تعلق ہے جو طلوع آفتاب کا دن کے ساتھ ہے ۔ اگر انسان یتیم کے سر پر یہ سوچ کر ہاتھ رکھتا ہے کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے تو اس کا دست شفقت لازمی یتیم کے سر تک پہنچ جائے گا اور اگر وہ یتیم کے ساتھ ہمدردی اور پیار اس لیے کرے کہ اس کا مال لوٹا جائے تو اس نے یتیم کے سر پر جو ہاتھ رکھا ہے اسے دست شفقت نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کی تعبیر دھوکا اور فریب سے کی جائے گی ۔
اسلامی عبادات حقیقت میں فکر کا مظہر ہیں اس کے بغیر یہ صرف رسم یا پھر عادت بن کر رہ جائیں گی ارشاد باری تعالی ہے:” نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ تعالی ، روز قیامت ، فرشتوں آسمانی کتابوں اور سب انبیاءپر ایمان لائے ۔ اور اس کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ،مانگنے والوں اور قید یوں پر خرچ کرے ، اور نماز قائم کرے اور زکوة ادا کرے اور جب کوئی عہد کرے تو اسے پورا کرے ۔اور مشکل ، تنگی اور جنگ کی حالت میں استقامت دکھائے ، یہی سچے ہیں اور یہ ہی لوگ تقوی والے ہیں ۔ ( سورة البقرة )
جمعرات، 25 اپریل، 2024
چند سورتوں اور آیات کی فضیلت(۱)
چند سورتوں اور آیات کی فضیلت(۱)
قرآن مجید پڑھنا سب عبادتوں سے افضل ہے اور خاص طور پر نماز میں کھڑے ہو کر قرآن مجیدکی تلاوت کرنا ۔ آپﷺنے فرمایا میری امت کی عبادتوں میں افضل عبادت تلاوت قرآن مجید ہے ۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں ۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرو یہ چیز تمہارے دین اور معاملات کو ٹھیک حالت میں رکھنے والی ہے میں نے عرض کی کچھ اور ارشاد فرمائیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا خود کو تلاوت قرآن مجید اور اللہ کے ذکر کا پابند بنا لو تو خدا تمہیں آسمانوںپر یاد کرے گا اور تاریکیوں میں یہ دونوں چیزیں تمہارے لیے روشنیوں کا کام کریں گی۔ (مشکوۃ شریف)
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا بنی آدم کے دل پر اس طرح زنگ چڑھ جاتا ہے جیسے پانی لگ جانے سے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرنا اور تلاوت قرآن پاک کرنا اس زنگ کو دور کرتا ہے۔
سورۃ الفاتحہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے ابی بن کعب ؓ سے فرمایا کہ کیا تمہاری خواہش ہے کہ میں تمہیں قرآن مجید کی ایسی سورت سکھائوں جس کے مرتبہ کی کوئی سورت نہ تورات میں نازل ہوئی ہے اور نہ انجیل میں ، نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں ؟ ابی بن کعب نے عرض کیا حضور مجھے وہ سورت بتائیں۔
آپﷺ نے فرمایا تم نماز میں قرات کس طرح کرتے ہو ؟ ابی بن کعب نے آپ کو سورۃ الفاتحہ پڑھ کر سنائی ۔ آپﷺنے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ توریت ، انجیل ، زبور اور قرآن مجید کسی میں بھی اس جیسی کوئی سورت نہیں ۔ ( جامع ترمذی )
ایک فرشتے نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا اوردو ایسے نوروں کی بشارت دی جو حضور ﷺ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے ۔ ایک سورۃ الفاتحہ اور سورۃ بقرۃ کی آخری آیات ۔ ( مسلم زشریف)
سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے اس گھر میں شیطان نہیں آسکتا ۔ ( ترمذی )
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قرآن پڑھا کرو یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والو ں کی شفاعت کرے گا ۔ خاص طور پر سورۃ البقرۃ اور سوۃ آل عمران پڑھا کرو۔ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کو اپنے سایہ میں لیے اس طرح آئیں گی جیسے کہ وہ ابر کے ٹکڑے ہیں یا سائبان ہیں ۔(مسلم )
بدھ، 24 اپریل، 2024
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے اور ان کی منزل ان کے سامنے واضح ہواور ایک مقصد حیات بن جائے جس میں منازل حیات اور کٹھن راستوں کو طے کرنے کے لیے چلیں۔ اپنے بچوں کو بتائیں اور اس بات کا پابند کریں کہ ان کے تمام اعمال اور افعال سیرت مصطفیﷺ کا مظہر ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’ تمہارے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے لیے میرے اور میرے خلفاء راشدین کے طریقہ کو اپنانا لازم ہے۔ اس کو اپنی داڑھوں سے پکڑ لو۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی اولا د کو بتائیں کہ حضور نبی کریم ﷺ تمام چنے ہوئوں میں سے برگزیدہ ہیں۔ آپ ﷺ تمام انبیاء میں سب سے پہلے نبی ہیں اورتمام رسولوں میں آخری رسول ہیں اور آپ ﷺ پر نبوت کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے یعنی آپ ﷺ خاتم النبین ہیں۔ انہیں یہ بھی بتائیں کہ بعثت سے پہلے سچے اور ایمان دار تھے اور بعثت کے بعد آپ ﷺ رحمۃ اللعالمین ہیں جو تمام جہانوں کو بطور ہدیہ عطا کی گئی۔ انہیں آپ ﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت موسی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلاۃ والسلام کی خوشخبریاں اور امام الانبیاء ہیں۔اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں انبیاء سے عہد لیا کہ جب میرا محبوب دنیا میں آ جائے تو اس کی پیروی بھی کرنی ہے اور اس کی مدد بھی کرنی ہے۔ اپنے بچوں کو سکھائیں کہ حضور نبی کریم ﷺ مومنین کی جانوں سے بھی زیادہ ان کے قریب ہیں اور انہیں بتائیں کہ وہ اپنے والدین ، بہن بھائی ، مال وجان اور اولاد سے بڑھ کر آپﷺ سے محبت کریں۔ پھر ہی ایمان مکمل ہو گا۔اپنے بچوں کو بتائیں کہ آپ ﷺ کی جانب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی تھی۔ آپ ﷺ ہر اس شخص کے لیے عمدہ نمونہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر یقین رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔ اپنے بچوں کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی زندگی کی قسم کھائی ہے اور اپنے محبوب کے شہر کی قسم کھائی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے دلوں میں عشق مصطفی ﷺ کا پودا لگائیں اور انہیں بتائیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی اور جس نے میری اطاعت کی حقیقت میں اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔
منگل، 23 اپریل، 2024
حضو ر ﷺ اور صحابہ کرام کی نماز (۲)
حضو ر ﷺ اور صحابہ کرام کی نماز (۲)
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز : جب شیر خدا ؓ نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا ۔ آپؓ سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیا ہوجاتا ہے آپ نے فرمایا : کہ اس امانت کو ادا کرنے کا وقت آجاتا ہے جس کو زمین و آسمان اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا اور ہم نے اسے اٹھا لیا تھا میں نہیں سمجھتاکہ میں اس کو پورا کر سکوں گا کہ نہیں ۔
حضرت اما م زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز : آپ رضی اللہ تعالی عنہ زمانے کے بہت بڑے عابد اور زاہد تھے آپ نماز کی حالت میں ہمہ تن اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہوتے بلکہ نماز میں اس قدر مگن ہو جاتے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بالکل بے خبر ہو جاتے ۔ ایک مرتبہ آپ اپنے گھر میں نماز ادا کر رہے تھے کہ گھر میں آگ لگ گئی لوگوں نے شور مچایا اے ابن رسول ﷺ گھر میں آگ لگ گئی ہے ۔ جب آگ بجھ گئی اور آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ سے پوچھا گیا کہ آپ آگ سے غافل کیوں رہے ۔ آپ ؓ نے جواب دیا میں آخرت کی آگ سے ڈر سے چپ رہا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز : آپؓ جب اذان کی آواز سنتے تو اس قدر روتے کہ چادر ترہو جا تی رگیں اور آنکھیں پھول جاتیں کسی نے عرض کی ہم بھی اذان سنتے ہیں مگر کچھ اثر نہیں ہوتا آپ اس قدر کیوں گھبرا جاتے ہیں ۔آپ ؓ نے فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ مﺅذن کیا کہتا ہے تو راحت و سکون سے محروم ہو جائیں اور نیندیں اڑ جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی نماز : آپؓ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے کوئی لکڑی نصب ہے یعنی بالکل بھی حرکت نہیں ہوتی تھی ۔ آپ ؓ سے کسی نے کہا کہ جب آپ سجدہ کرتے ہیں تو اس قدر لمبا اور بے حرکت تھا کہ چڑیا آکر کمر پر بیٹھ جائے ۔ بعض اوقات رکوع اتنا لمبا فرماتے کہ پوری رات رکوع میں گزر جاتی ۔ بعض اوقات سجدہ اتنا لمبا کرتے کہ پوری رات گزر جاتی ۔
ایک مرتبہ آپ ؓ نماز ادا کر رہے تھے آپ کا بیٹاہاشم جو آپ کے پاس چار پائی پر سویا ہو اتھا ۔ چھت میں اسے ایک سانپ گرا اور بچے پر لیٹ گیا بچہ چلایا گھر والے سب دوڑے چلے آئے اور شور مچ گیا کہ اس سانپ کو مارو ۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر بڑے اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتے رہے ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ کچھ شور کی آوزتھی کیا ہواتھا ۔ آپ کی بیوی نے کہا اللہ آپ پر رحم کرے بچے کی جان خطرے میں تھی اورآپ کو پتہ ہی نہیں چلا ۔ آپ نے فرمایا اگر نماز میں دوسری طرف توجہ کرتا تو نماز کہا ں باقی رہتی ۔
پیر، 22 اپریل، 2024
حضو رﷺ اور صحابہ کرامؓ کی نماز (۱)
حضو رﷺ اور صحابہ کرامؓ کی نماز (۱)
نماز کی روحانی کیفیت خشوع و خضوع سے پیدا ہوتی ہے جس کا مطلب ہے خشیت الٰہی پیدا کرنا ۔ نماز میں خشوع و خضوع سے مراد یہ ہے کہ بندہ نماز میں پوری طرح اپنے مالک حقیقی کی طرف متوجہ ہے اور ہیبت اور جلال کا خوف دل پر طاری ہو اور جسم میں عاجزی اور مسکینی ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: بے شک مومنین نے فلاح پائی جو اپنی نمازں میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔
حضور نبی کریمﷺ کی نماز: کسی نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ کوئی عجیب بات جو آپؐ میں آپؓ نے دیکھی ہو ۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ایک رات حضور نبی کریمﷺ تشریف لائے، پہلے لیٹ گئے، پھر فرمایا، اے عائشہ، میں اپنے رب کی عبادت کر لو ں۔ یہ کہہ کر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور رونے لگے، اتنا روئے کہ آنسو مبارک سینۂ مبارک تک آ گئے۔ پھر رکوع اور سجود میں بھی اسی طرح روتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت بلالؓ نے فجر کی اذان دی۔ میں نے عرض کی یارسو ل اللہﷺ، آپ اتنا روئے ہیں حالانکہ کہ آپؐ معصوم ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، کیا میں اپنے رب کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟ آپؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ رات کو اتنی اتنی لمبی نماز پڑھتے کہ آپؐ کے پاؤں مبارک پر کھڑے کھڑے ورم آ جاتے۔
حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کی نماز: آپؓ اکثر دن میں روزہ رکھتے اور ساری رات نماز میں گزار دیتے۔ آپؓ خشوع خضوع کا یہ عالم تھا کہ نماز میں لکڑی کی طرح بے حس و حرکت نظر آتے اور اتنا روتے کہ آپ کی ہچکی بند ھ جاتی۔
حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کی نماز:آپؓ جب نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ کا سارا جسم کانپنے لگتا اور دانت آپس میں بجنے لگ جاتے۔ جب آپؓ سے اس بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے کہ امانت کی ادائیگی کا وقت آ گیا ہے مجھے معلوم نہیں کسے ادا ہو۔
حضرت سیدنا ذوالنورینؓ کی نماز: حضرت عثمان غنیؓ دنیاوی معاملات میں توجہ دینے کے باوجود بڑی انکساری اور خضوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا فرماتے تھے ۔ جب آپؓ نماز ادا فرماتے تو دنیاداری کے تمام معاملات سے بے نیاز ہو جاتے اور اپنے رب کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتے ۔
اتوار، 21 اپریل، 2024
محنت با مقصد یا بے مقصد
محنت با مقصد یا بے مقصد
محنت ، محنت ہے لیکن ہر محنت کامیابی اور کامرانی کی دلیل نہیں کامیابی صرف اور صرف اسی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے جسے کسی مفید اور کارآمد کام میں صرف کیا جائے ۔ محنت کے متعلق یہ سوچنا ہر قدم پر ضروری ہے کہ یہ محنت با مقصد ہے یا بے مقصد ۔ بے مقصد محنت ایک حیوان تو کر سکتا ہے کیونکہ وہ عقل و شعور او ر قوت فیصلہ سے عاری ہے لیکن ایک انسان کی فہم و ادراک اور شرف انسانیت اسے ایسی محنت سے ضرور روکے گا جو بے مقصد ہو ۔
ارشاد باری تعالی ہے : اور جو بھی اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا ۔اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا ۔ ( سورۃ آل عمران )
ایک شخص بت پرستی کر رہا ہو یا اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب پر ہے اور وہ جتنی مرضی عبادت کر لے اور اپنی تمام تر محنت اس پہ لگا دے لیکن جب قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش ہو گا تو اس کی کوئی محنت اس کے کسی کام نہیں آئے گی ۔ اس کی تمام ریاضتیں راکھ کا ڈھیر بن جائیں گی اور اس کا نامہ اعمال نیکیوں سے مکمل خالی ہو گا۔
ارشاد باری تعالی ہے : اور وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ۔ اس کے سب اعمال ضائع ہو گئے انہیں اسی کا بدلہ ملے گا جو وہ کیا کرتے تھے ۔ ( سورۃ النحل )
چونکہ وہ اپنے اعمال سے بھی کفر اور شرک ہی کرتے تھے اس لیے ان کے اعمال ان کی نجات کا ذریعہ نہیں بنیں گے ۔ مفید کام چھوڑ کر غیر مفید کام میں کوشش کر نا نہ صرف دانش مندی کے خلاف ہے بلکہ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں اور صلاحیتوں کا انکار بھی ہے ۔
دین کا مغز اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا ہے اور اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی کریم ﷺ تک جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے سب نے صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور لوگوں کو کفر وشرک سے منع کیا ۔
کوئی شخص اپنی ساری محنتیں اور جملہ کاوشیں ان مباحث میں صرف کر دے جس کا قیامت کے دن انسان سے سوال ہی نہیں ہو گا اور جو منصوص نہیں ہیں بلکہ اپنے استدلال پر مبنی ہیں تو اس کی محنت کا مصرف بھی بے محنت اور بے نتیجہ ہے ۔ اس لیے کسی بھی کام میں محنت اور وقت صرف کر نے سے پہلے اس میں اللہ تعالی کی رضا دیکھنی چاہیے اور محنت کے مقاصد کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ کیا وہ جو محنت کر رہا ہے یہ با مقصد ہے یاپھر بے مقصد ۔
ہفتہ، 20 اپریل، 2024
مسواک کرنے کی فضیلت
مسواک کرنے کی فضیلت
انسان کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کرنے کے لیے پیدا فرمایا ۔ اگر ہم اللہ تعالی کی عبادت کریں گے تو دنیا اور آخرت میں عزت پائیں گے ۔ لیکن اگر عبادت الٰہی سے منہ موڑ لیا تو سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ اللہ تعالی کی بندگی رسول خدا ﷺ کی اطاعت کا نام ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔
حضور نبی کریمﷺ کی فرمانبرداری آپ ﷺ کی سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ممکن ہے ۔ جب ہم آپ ﷺ کی مبارک سنتوں پر عمل کریں گے تو حضور ﷺ کی سچی محبت بھی نصیب ہو گی ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جو کوئی میری ایک سنت کو زندہ کرے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا ۔ اور ایک شہید کا مقام یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص یہ خواہش نہیں کرے گا کہ اس کو واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور پھر اس کی روح قبض کی جائے سوائے شہیدکے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر مجھے اپنی امت کی مشقت اور دشواری کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو ہر نما ز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔(بخاری شریف)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیاءکرام علیہ السلام کی سنت میں سے ہیں ۔ (۱) ختنہ کرنا (۲) عطر لگانا (۳) مسواک کرنا (۵) نکاح کرنا (ترمذی شریف )
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مسواک منہ کو صاف ستھرا کرنے اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا سے ایک اور روایت مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو نماز مسواک کر کے پڑھی جائے وہ ستر درجہ افضل ہے اس نماز سے جو بغیر مسواک کے پڑھی جائے ۔ آپ ؓ فرماتی ہیں کہ مسواک موت کے سوا ہر مرض کے لیے شفا ءہے ۔
ملا علی قاری رحمة اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ مسواک کرنے کے ستر فوائد ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسواک کرنے والے کو مرتے وقت کلمہ نصیب ہو گا ۔ فیضان سنت میں علامہ شرنبلانی رحمة اللہ تعالی علیہ روایت کرتے ہیں کہ انبیاءاور رسل علیہم السلام مسواک کرنے والے کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ۔ مسواک کرنے والے سے فرشتے خوش ہوتے ہیں ۔اس سے مصافحہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ انبیاءکرام علیہ السلام کی پیروی کرنے والا ہے ۔
جمعہ، 19 اپریل، 2024
زبان کی آفات
زبان کی آفات
ارشاد باری تعالی ہے : جب لے لیتے ہیں دو لینے والے ۔ ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے وہ اپنی زبان سے کوئی بات نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان تیار ہوتا ہے ۔ ( سورة ق)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : نیکیاں لکھنے والا فرشتہ انسان کی دائیں جانب اور برائیاں لکھنے والا بائیں جانب ہوتا ہے ۔اور نیکیاں لکھنے والا برائیاں لکھنے والے پر ذمہ دار ہوتا ہے ۔ پس جب وہ نیکی کرے تو دائیں سمت والا دس نیکیاں لکھ لیتا ہے اور اگر ایک برائی کرے تو دائیں طرف والا بائیں طرف والے سے کہتا ہے کہ اسے سات گھڑیاں چھوڑ ے رہو شاید کہ استغفار کر لے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو ۔ کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرتا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ۔ تم اسے مکروہ سمجھتے ہو ۔ اور اللہ تعالی سے ڈرو ۔ بیشک اللہ تعالی بہت توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔(سورة الحجرات )
حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ ﷺ مجھے اس عمل کی خبر دیں جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے آزاد کر دے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اللہ تعالی کی عبادت کر اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ۔ نمازقائم کرے ، زکوة ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے ۔ پھر فرمایا میں تجھے خیر کے ابواب پر دلالت نہ کروں ۔ روزہ ڈھال ہے ۔صدقہ خطا کو یوں مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔ اور آدمی کی نماز رات کے دوران ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :
ترجمہ: ان کے پہلوخواب گاہوں سے دور رہتے ہیں ۔ اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے اور ہم نے انہیں جو رزق دیا اس سے خرچ کرتے ہیں ۔پس کوئی شخص نہیں جانتا اس آنکھوں کی ٹھنڈک کو جو ان سے چھپا رکھی گئی ہے ۔ یہ صلہ ہے ان اعمال کا جو وہ کرتے ہیں ۔( سورة السجدہ )
اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تجھے امر دین کے سر اور اس کے ستون اور اس کی رفعت کی خبر نہ دوں ؟ فرمایا وہ جہاد ہے ۔ پھر فرمایا کہ کیا میں تجھے اس سب کی اصل کی خبر نہ دوں ؟ میں نے عرض کی جی ضرور یارسو ل اللہ ﷺ پس آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا فرمایا اسے قابو میں رکھ ۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اور کیا ہمیں اس پر مواخذہ ہو گا جو ہم کلام کرتے ہیں۔لوگوں کو جہنم میں چہروں کے بل یا ان کے نتھوں کے بل نہیں گرائیں گی مگر ان کی زبانوں کی درانتیاں ۔(ترمذی)
جمعرات، 18 اپریل، 2024
فضائل قرآن مجید
فضائل قرآن مجید
ارشاد باری تعالی ہے : بیشک جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس مال سے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دیا رازداری سے اور اعلانیہ وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جو ہرگز نقصان والی نہیں۔ (سورۃ فاطر)
سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے : پھر ہم نے اس کتاب کا ان کو وارث بنایا جنہیں ہم نے چن لیا تھا اپنے بندوں سے۔ پس ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض درمیانہ رو ہیں اور بعض نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں اللہ کی توفیق سے۔ یہی بڑا فضل ہے۔
رحمت دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے کئی قوموں کو رفعت بخشے گا اور کئی کو پست کرے گا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ بیشک یہ قیامت کے دن اپنے ساتھیوں کی شفاعت کرنے والا ہو گا۔ ( مسلم شریف)
بخاری اور مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ حسد نہیں ہے مگر دو آدمیوں کے متعلق۔ایک تو وہ جسے اللہ تعالی نے قرآن عطا فرمایا پس وہ اس کے ساتھ رات کے حصوں میں اور دن کی طرفوں میں قیام کرتا ہے اور ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہے تو وہ اسے رات دن اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس مسلمان کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے نارنگی جیسی ہے جس کی مہک بھی اچھی اور ذائقہ بھی اچھا۔ اس مسلمان کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا کھجور جیسی ہے اس کی مہک تو نہیں ہے مگر ذائقہ شیریں ہے۔ اس منافق کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے پودینہ جیسی ہے اس کی مہک اچھی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا ہے اس کی مثال تمے جیسی ہے جس کی کوئی مہک نہیں اور ذائقہ نہایت کڑواہے ( بخاری و مسلم شریف )
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : قرآن مجید ہر شے سے افضل ہے جس نے قرآن مجید کی تعظیم کی اس نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی اور جس نے قرآن مجید کو تحقیر جانا اس نے اللہ تعالیٰ کے حق کو حقیر جانا۔ حافظ قرآن ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی آغوش میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تعظیم کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے نور سے آراستہ ہیں جس نے انہیں دوست رکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو دوست رکھا اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے اللہ تعالیٰ کے حق کو حقیر جانا۔
بدھ، 17 اپریل، 2024
نماز با جماعت کے فضائل
نماز با جماعت کے فضائل
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : با جماعت نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے ۔ (بخاری)
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کی با جماعت نماز اس کے گھر اور بازار میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ہے اور یہ اس لیے کہ اس نے جب وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر مسجد کی طرف چلا اورصرف نماز پڑھنے ہی کی نیت سے چلا تو وہ ایک قدم نہیں اٹھاتا مگر اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور ایک غلطی مٹا دی جاتی ہے ۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے اور جب تک اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے ملائکہ اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ کوئی اور بات نہ کرے ۔ یا اللہ اس پر رحم فرما اور نماز میں ہی رہتا ہے جب تک وہ نماز کا انتظار کرتا ہے ۔
عمر و ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ میں نابینا ہو ںمیرا گھر فاصلے پر ہے اور مجھے کوئی پکڑ کر لانے والا بھی نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں مجھے اجازت ہے کہ میں گھر نماز ادا کر لوں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تجھے اذان سنائی دیتی ہے ؟ عرض کی جی ہاں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتا ۔ (ابو داﺅد ) امام بہیقی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا میں تیرے لیے ایسی رخصت نہیں پاتا کہ جماعت میں حاضری کے بغیر تم باجماعت نماز کی فضیلت حاصل کر لو ۔
ابو داﺅد میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک شخص کا ایک شخص کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ اور اس کا دو کے ساتھ نماز ادا کرنا ایک کے ساتھ ادا کرنے سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔ اور جتنی کثرت ہو اسی قدر اللہ تعالی کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے ۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو چالیس دن با جماعت نماز ادا کرے اس طرح کہ تکبیر اولی پا لے تو اس کے لیے دو خلاصیاں ہیں ۔ ایک خلاصی آگ سے اور دوسری نفاق سے ( ترمذی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے عشاءکی نماز با جماعت ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا اور جس نے نماز فجر با جماعت پڑھی تو گویا اس نے پوری رات کا قیام کیا ۔( مسلم شریف)
رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب نماز کھڑی ہو جائے تو بھاگتے ہوئے نہ آﺅ بلکہ سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہوئے آﺅ ۔ جو مل جائے پڑھ لو اور جو کچھ رہ جائے اسے پورا کر لو ۔ (بخاری و مسلم شریف )
منگل، 16 اپریل، 2024
کھانے کے آداب
کھانے کے آداب
حضرت عمرو بن ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں جب میں چھوٹا تھا رسول خدا ﷺ کی آغوش میں تھا ۔ میرا ہاتھ پیالے میں ہر سمت گھومتا تھا ۔ تو مجھے آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی کا نام لو یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو ۔ اور اپنے دائیں ہاتھ کے ساتھ کھائو ۔ اور اپنی طرف سے کھائو ( بخاری و مسلم )
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کا نام لے اور اگر آغاز میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ بسم اللہ اولہ وآخرہ کہے ( ابو دائود ، ترمذی ) ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : شیطان اس کھانے کو حلال سمجھتا ہے جس میں اللہ تعالی کے نام کا ذکر نہ کیا جائے ۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول خدا ﷺ کو تین انگلیوں کے ساتھ کھاتے ہوئے دیکھا جب فارغ ہوئے تو انہیں چاٹ لیا ( مسلم شریف) ۔حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے چاہیے کہ اسے اٹھا لے اور جو آلودگی لگی ہے اسے جھاڑ لے اور اسے چاہیے کہ اسے کھا لے اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے اور ہاتھ رومال سے نہ پونچھے یہاں تک کہ انگلیاں چاٹ لے ۔ کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے ۔ ( مسلم شریف )
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کھانا ٹھنڈا کرکے کھائو کیونکہ گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی اور کھانا سونگھو نہیں کیونکہ یہ چار پایوں کا کام ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں سے عیب نہیں نکالا ۔ اگر چاہا تو کھا لیتے اور پسند نہ ہوتا تو چھوڑ دیتے (بخاری و مسلم ) ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺنے اپنے اہل خانہ سے کھانا طلب فرمایا ۔ عرض کی گئی کہ اور کچھ نہیں صرف سرکہ ہے ۔ آپ ﷺ نے وہی طلب فرمایا اور کھانے لگے اور فرمایا کیا اچھا سالن سرکہ ہے کیا ہی اچھا سالن سرکہ ہے ۔( مسلم )
ارشاد باری تعالی ہے : اور کھائو پیو اور اسراف نہ کرو ۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : کسی آدمی نے پیٹ سے زیادہ تن نہیں بھرا ۔ ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جن سے وہ اپنی پشت سیدھی رکھے ۔ اگر بھرے بغیر چارہ نہیں تو ایک تہائی طعام کے لیے ، ایک تہائی مشروب کے لیے اور ایک تہائی اپنی سانس کے لیے ۔
پیر، 15 اپریل، 2024
حکمت و دانش
حکمت و دانش
حکمت کا ایک کلمہ انسان کی زندگی کا رخ بدل دیتا ہے۔ دانش کی کہی ہوئی ایک بات انسانی فکر کو تبدیل کر دیتی ہے اوربصیرت بھرا ایک جملہ انسانی سوچوں میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے۔ دقیق مباحث اور دلائل کے انبار قلب نظر میں اضطراب تو پیدا کرتے ہیں اور دلائل خرد کی تشنگی کو مزید بڑھا تو ضرور دیتی ہیں لیکن انسانی قلب کی کیفیات کو بدلنے سے قاصررہتی ہیں۔ حکمت سے مراد دانائی اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ جو بات اس کے دل میں بیٹھ جائے کبھی اس سے انکار نہیں کر سکتا ۔ تو جس بندے کو ایسا حکمت بھرا انداز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو جائے اور دوسرے اس کی باتوں کے قائل ہوتے جائیں اوراس کی باتیں دلوں پر راج کریں تو وہ سمجھ جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے شمار بھلائیاں عطا فرمائی ہیں۔ حکمت و دانش کی یہ دولت اللہ تعالیٰ کی خصوصی عطا ہے جسے یہ مل جائے وہ بہت ہی خوش قسمت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دے دی گئی۔(سورۃ البقرہ)
خیر کثیر سے مراد مال و دولت، جاہ و جلال یا پھر منصب و شہرت نہیں بلکہ اس سے مراد فکرو خیال کی وہ پاکیزگی عطا کی گئی ہے کہ وہ خودخیر کا پیکر بن گیا اور دوسرے اس کی خیر کو ٹھکرا نہ سکیں۔ کائنات میں پائی جانے والی ہر حکمت اور دانش کی بات کسی نہ کسی نبی کا فیضان ہوتی ہے اس لیے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حکمت بھری بات مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ وہ اسے جہاں بھی پائے وہی اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔ (ترمذی )
یعنی حکمت تو ہے ہی ایمان کا ثمر اور بندہ مومن کا مطلوب۔ اسے جہاں سے بھی کوئی حکمت بھرا کلمہ ملے اسے کسی صاحب ایمان کا ہی فیضان سمجھ کر حاصل کر لے۔ یہ بھی نہ دیکھے یہ کلمہ کس کی زبان سے ادا ہو رہا ہے بس یہ دیکھے کہ وہ بات حکمت کی ہے اور اپنی گمشدہ میراث سمجھ کر اس کی طرف لپکے۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: بہترین مجلس وہ ہے جس میں حکمت کی بات کی جائے۔ (المعجم الکبیر )
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حسد صرف دو آدمیوں پر کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جسے اللہ نے مال و دولت دیا اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی وہ اس پر عمل کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ )
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان نے اپنے بھائی کو حکمت کی بات سے بڑھ کر بہترین تحفہ نہیں دیا۔( شعب الایمان )
اتوار، 14 اپریل، 2024
اخوت و بھائی چارہ
اخوت و بھائی چارہ
دین اسلام ہمیں محبت کا درس دیتا ہے ۔ اسلام ہمیں اللہ تعالی کی محبت کے ساتھ ساتھ باہمی محبت کا بھی درس دیتا ہے ۔رحمت دو عالم نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اپنے بھائی پر ظلم و زیادتی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اسے اذیت میں پڑا رہنے دینا چاہیے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی فرماتا ہے جو کسی مسلمان بھائی کی ایک تکلیف دور کرتا ہے اللہ تعالی بروز قیامت اس کی تکالیف میں سے ایک تکلیف دور فرمائے گا ۔ ( ریاض الصالحین )
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : حسد نہ کرو اور نہ ہی خریداری کی نیت کے بغیر قیمت بڑھائو اور نہ بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے بات چیت ترک کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کا مال نقصان پہنچانے کے لیے خریدو ۔ تمام خدا کے بندے بھائی بھائی بن جائو ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہ کرنا اس کا ساتھ نہ چھوڑنا اور اس سے جھوٹ بات نہ کہنا اور اس کو حقیر نہ سمجھنا کیونکہ کہ کسی آدمی کو برا بنانے کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر غاصبانہ طور پر حرام ہے اس کا خون ، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔( ایضا ً)
ریاض الصالحین میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے میری امت میں سے کسی ایک کی حاجت کوپورا کیا اور چاہتا ہے کہ اس کو خوش کرے تو بیشک اس نے مجھے خوش کیا تو اس نے اللہ تعالی کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالی کو خوش کیا تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل فرمائے گا ۔
حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ جو کوئی مسلمان کو کسی منافق سے بچائے گا تو اللہ تعالی ایک فرشتہ نازل فرمائے گاجو اسے قیامت کے دن جہنم کی آگ سے بچائے گااور جو کسی مسلمان کو کسی ایسی چیز میں دیکھے جس سے اس کی برائی کرناچاہے تو اللہ تعالی اس کو جہنم کی آگ پر کھڑا رکھے گا جب تک وہ اپنے قول سے رجوع نہ کر لے ۔ (ابو دائود)
حضرت ابو دائود ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں تمہیں روزے ، صدقے اورنماز سے بڑھ کر ایک چیز نہ بتائوں؟ صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی جی ضرور تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ آپس میں اپنے تعلقات اور معاملات کو خوشگوار بنائے رکھو اور بگڑے ہوئے تعلقات اور معاملات کو سنوارنے کی کوشش کرو ۔ (ابودائود ، ترمذی )
ہفتہ، 13 اپریل، 2024
تنگی کے ساتھ آسانی
تنگی کے ساتھ آسانی
ارشاد باری تعالی ہے: پس بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ۔ بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ۔ تو جب آپ فارغ ہو ں تو عبادت میں مصروف ہو جائیں اور اپنے رب کی چاہت میں رہیں ۔ (سورۃ الم نشرح )
اللہ تعالی نے ان آیات میں تنگی اور آسانی کے باہمی تعلقات کو بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے تنگی کے ساتھ ہی آسانی اورمشکل کے ساتھ ہی سہولت پیدا فرمائی ہوئی ہے ۔ اس میں انسان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ وہ مشکلات سے گھبرائے نہیں بلکہ اس بات پر یقین رکھے کے مشکلات ختم ہونے والی ہیں اور آسانیاں آنے والی ہیں ۔ اور اللہ تعالی کے نظام قدرت میں کوئی ایسی رات نہیں جس کے بعد صبح کا سورج طلوع نہ ہوتا ہو اور کوئی ایسی مشکل نہیں جس کے بعدآسانی نہ ہو ۔
انسان کی زندگی میں آسانیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور ان کی نسبت مشکلات بہت کم ہوتی ہیں ۔ لیکن انسان آسانیوںکو اپنا حق سمجھ کے روزمرہ کے معاملات سمجھ لیتا ہے اور مشکل کو کبھی نہیں بھولتا ۔ مثال کے طور پر انسان کی زندگی میں تھوڑی دیر کے لیے کوئی پریشانی آ جائے یا پھر وہ کسی تکلیف کی وجہ سے کسی ایک رات سو نہ سکے تو وہ اس تکلیف کو جو تھوڑے عرصہ کے لیے آئی تھی یا پھر وہ ایک رات جس رات وہ سو نہ سکا تھا اسے پوری زندگی یاد رہتا ہے ۔ لیکن اس کے برعکس انسان جو ہر روز سکون کی نیند سوتا ہے اس نے کبھی بھی اس نعمت کا احساس نہیں کیا کہ میرے رب نے مجھے نیند کی نعمت سے نوازا ہے ۔ لیکن کوئی ایک نعمت چھن جائے تو نا شکری شروع کر دیتا ہے اور باقی ان نعمتوں کی طرف نہیں دیکھتا جو اللہ تعالی نے اسے عطا فرمائی ہوئی ہیں ۔
دنیا وی زندگی کے لیے انسان اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ آسانیاں پانے کے لیے مشکلات سے گزرنا پڑتاہے اس کے لیے وہ ایک چھوٹی سی دکان کو بھی کامیاب کرنے کے لیے دن رات ایک کر دے گا اور جو بھی مشقت اٹھاناپڑی اٹھا لے گا ۔ لیکن اس کے برعکس اخروی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی کی عبادت کی طرف دھیان نہیں دیتا اور سستی میں پڑا رہتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
اور جنہوں نے ہماری راہ میں پوری جدو جہد کی ۔ ہم یقینا ان کے لیے اپنے رستوں کی رہنمائی کریں گے ۔ اور بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورۃ العنکبوت)
جمعہ، 12 اپریل، 2024
دعا
دعا
ارشاد باری تعالی ہے : اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو میں بالکل نزدیک ہوں ۔ میں دعاکرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگے ۔ پس انہیں چاہیے میرے حکم کی تعمیل کریں اور مجھ پرایمان لائیں تا کہ وہ کہیں ہدایت پا جائیں ۔ ( سورۃ البقرۃ )
سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالی ہے : اور خوف اور طمع کرتے ہوئے اس کے حضور دعا کرو ۔ یعنی اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ہاں جومغفرت اور ثواب ہے اس میں طمع کرتے ہوئے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک کوئی بھی چیز دعا سے محترم نہیں اور اشرف العبادات دعا ہے اور جو شخص اللہ تعالی سے نہیں مانگتا وہ اس پر غضب کرتا ہے ۔
حضرت ابو الدردا ء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکرتے تھے کہ مسلمان کی اپنے بھائی کے حق میں پس پشت دعا قبول ہے اس کے سر کے پاس فرشتہ مقرر ہے جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو وہ فرشتہ آمین کہتا ہے اور یہ کہ تیرے لیے بھی اسی کی مثل ہے ۔( مسلم شریف)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو ۔ بیشک اللہ تعالی اسے پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے جلدی وہ دعا قبول ہوتی ہے جو کہ غائب کی غائب کے لیے ہو اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے تو بدلہ دو اور اگر بدلہ نہ دے پائو تو اس کے لیے دعا کرو حتی کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے : اپنے رب سے گڑ گڑاتے ہوئے اور آہستہ آہستہ دعا مانگو بیشک وہ حدسے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ ( سورۃ الاعراف )
حضرت عمر ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ جب دعا کے لیے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تو انہیں نیچے نہیں کرتے تھے حتی کہ انہیں اپنے رخ انور پر پھیرتے (ترمذی)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی سے دعا کرو اس حال میں کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو ۔ اور جان لو کہ وہ غافل غیر متوجہ قلب سے دعا قبول نہیں فرماتا ۔ ( ترمذی )
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا اے بھائی ہمیں بھی اپنی دعا میں فراموش نہ کرنا ۔ آپ نے ایسا کلمہ فرمایا کہ مجھے اس امر کی کوئی خوشی نہیں کہ اس کے بدلے مجھے ساری دنیا مل جائے ۔
جمعرات، 11 اپریل، 2024
عید الفطر
عید الفطر
عید اورخوشی کا یہ دن مسلمانوں کا عظیم اور مقدس مذہبی تہوار ہے جسے مسلمان ہر سال یکم شوال کو انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں ۔ عید الفطر حقیقت میں تشکر ، انعام و اکرام اور ضیافت خدا وندی کا دن ہے ۔ رمضان المبارک کا تمام مہینہ عبادت و ریاضت روزے اور نماز تراویح میں گزارنے کے بعد شوال المکرم کی پہلی تاریخ کو اللہ تعالی اپنے عبادت گزار بندوں کوانعام و اکرام ، بے شمار رحمتوں اور برکتوں اور بے حساب اجر وثواب سے نوازتا ہے ۔عید الفطر حقیقت میں یوم الجائزہ اور یوم الانعام ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب عید الفطر کی رات آتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ ‘‘( یعنی انعام و اکرام کی رات ) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کو ساری روئے زمین پر بھیجتا ہے وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں اور راستوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے پکارتے ہیں جسے جنات اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں اے امت محمدیہ ﷺ اللہ تعالی کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ معاف فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے ۔ جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جو اپنا کام پورا کر چکا ہے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اے باری تعالی اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسے پورا بدلہ دیا جائے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے اے فرشتوگواہ ہو جائو میں نے انہیں رمضان المبارک اور قیام اللیل کے بدلے اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی ۔ اور بندوں کو خطاب فرما کر ارشادفرماتا ہے اے میرے بندو مجھ سے مانگو میری عزت و جلال کی قسم آج کے دن تم اپنے اجتماع عید میں دنیا و آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے میں عطا فرمائوں گا ۔ میری عزت وجلال کی قسم جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہارے عیبوں پر پردہ ڈالوں گا اور میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہیں کروں گا پس تم بخشے ہوئے ہو کر اپنے گھروں کی طرف لوٹ جائو ۔ تم نے مجھے راضی کر لیا میں تم سے راضی ہو گیا ۔ فرشتے اس دن امت محمدیہﷺ کو ملنے والے اجر کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ (الترغیب الترہیب ) ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے عید کی رات ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کیا اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن باقی لوگوں کے دل مرجائیں گے ۔ ( ابن ماجہ )
پیر، 8 اپریل، 2024
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ (2)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ (2)
بخاری ومسلم نے سعدبن ابی وقاص ؓسے روایت کیا ہے۔کہ نبی مکرمﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی کو اپنا نائب مقرر فرمایاتوآپؓ نے عرض کی کہ آقاآپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑے جارہے ہیں۔حضور ﷺنے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہے جوھارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی۔
امام مسلم نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ حضور ﷺ نے غزوہ خیبر میں فرمایاکل میں جھنڈا اس کودونگا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر کو فتح فرمائے گاوہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے اور خدا اور رسولﷺ بھی اس سے محبت کرتے ہیں لوگوں نے اس کشمکش میں رات گزاری کہ وہ نہ جانے خوش بخت کون ہوگا؟جسے صبح دست رسولﷺ سے عَلم عطا ہوگاصبح تمام لوگ رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس طرح ہر ایک کے دل میں خواہش تھی کہ کاش یہ سعادت سرکار ﷺ مجھے بہرہ مند فرمائیں۔
حضور ﷺ نے فرمایا علیؓ کہاں ہے؟کہا گیا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔تو نبی رحمتﷺ نے انہیں بلا بھیجاجب حضر ت علی بارگاہ اقدسﷺ میں حاضر ہوئے تو حضور نبی مکر م ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایاجس سے ان کی ساری تکلیف دور ہوگئی اور آپ کی وہ آنکھ اس طرح ہو گئی گویا اس میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔
حضو ر ﷺ نے جھنڈا حضرت علی کے ہاتھ میں دیا آپ فتح کا عزم لیے قلعہ پر حملہ آور ہوئے ۔ یہود کا سورما مرحب رجز پڑھتا چند سرداروں کے ہمراہ قلعہ سے باہر نکلا حضرت علی اس کی جانب بڑھے آپ نے جنگ کے دوران مرحب کو جہنم واصل کر دیا اور قلعہ کو فتح کر لیا ۔
اگرچہ آپ نادر شجاعت کے حامل تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ فقیرانہ احساس اور عجز و انکساری کا پیکر تھے ۔ جنگ کی وحشت و بربریت کا جذبہ کبھی بھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا ۔ آپ نے غازیانہ خلق عظیم کی بہترین دنیا میں مثال پیش کی آپ نے کبھی ظلم و تعدی سے کام نہ لیا اور نہ ہی فخرو غرور کی کوئی بات آپ سے سرزد ہوئی بلکہ آپ نے اپنے طرز عمل سے حلم وحیا کی روایت کو عام کیا ۔
کوفہ میں سترہ رمضان المبارک کو ایک بد بخت خارجی عبدالرحمن نے حالت نماز میں آپ پر حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے اور بیس رمضان المبارک جمعہ کی شب اسلام کا یہ بدر منیر ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔
اتوار، 7 اپریل، 2024
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ
امیر المﺅ منین خلیفة المسلمین داماد رسول شیر خدا خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت سے 23 سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے ہاشمی ہیں اور ساری نسل آدم کے دیگر تمام خاندانوں پر بنی ہاشم کو جن امتیازی صفات اور جسمانی علامات کی بنا پر فوقیت حاصل تھی آپ کی ذات مبارکہ ان تمام صفات و علامات کا مرقع تھی ۔
سرکار دو عالم ﷺ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے والدین سے جو انس و محبت تھی اس کا یہ تقاضا تھا کہ آپ ﷺ نے زمانہ قحط میں اپنے محسن چچا ابو طالب کی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے ان کا معاشی بوجھ ہلکا کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا اس وقت آپکی عمر پانچ سال تھی ۔آغاز نبوت کے دور میں جب یہ آیت نازل ہوئی ” وانذر عشیرتک الاقربین“ تو رب ذولجلال کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے بنی ہاشم کے سارے افراد کو مدعو کیا ۔ کھانا پیش کرنے کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں تم لوگوں کو ایسی بات کی طرف دعوت دیتا ہوں جو دینا و آخرت کی فلاح کی ضامن ہے اور میں نہیں جانتا کہ عرب میں کوئی بھی شخص ایسا بے بہا تحفہ لایا ہو ۔ آپ میں سے کون میری دعوت کو قبول کرتا ہے اور میرا معاون و مدد گار بنتا ہے ۔مگر تمام لوگ خاموش رہے تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اگرچہ میں کم عمر اور کمزور ہوں مگر میں آپ کا دست و بازو بنو گا ۔ حضور ﷺ نے آپ کو بٹھا دیا ۔ دوبارہ حاضرین سے خطاب کیا لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اس پر حضرت علی دوبارہ کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے آپ کو بٹھا دیا پھر آپ ﷺ نے تیسری بار لوگوںسے خطاب کیا تو کوئی جواب نہیں ملا پھر حضرت علی کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
” اے علی تو ہی میرا بھائی اور معاون مدد گار ہے “۔
حضرت علی کو بستر رسول پر آرام فرمانے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ جب حضور نبی کریم ﷺ کو مکہ چھوڑ جانے کی اجازت ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اے علی مجھے مکہ چھوڑ کر جانے کا حکم ہوا ہے آج میرے بستر پر میری سبز چادر اوڑھ کر سونا ہو گا اور ذرا اندیشہ نہ کرنا تمہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا“۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ تین روز تک مکہ مکرمہ رہے اور روز کھلی وادی میں جا کر اعلان فرماتے ” لوگو! سن لو جس کسی کی امانت رسول پاک ﷺ کے پاس رکھی تھی وہ آئے اور اپنی امانت لے جائے “۔ چوتھے روز آپ اکیلے مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور قبا پہنچ کر حضور ﷺ سے ملاقات کی تو آپ ﷺنے آپ کو گلے لگایا اور فرمایا” اے علی دنیااور آخرت میں تم میرے بھائی ہو“۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
روزہ اور اس کے مقاصد(۲) روزے کا پانچواں مقصد ضبط نفس کا حصول ہے۔ بھوک اور جنسی خواہش کے ساتھ تیسری خواہش راحت پسندی بھی اس کی زد میں آ...