پیر، 29 اپریل، 2024

خود داری(۲)

 

خود داری(۲)

حضرت عوف بن مالک الاشجعیؓ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ ناز میں حاضر تھے تو آپؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے کچھ دیر پہلے ہی بیعت کی تھی ۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہؐ!ہم بیعت کر چکے ہیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا کیا تم اللہ کے رسولؐکے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہؐ، ہم بیعت کر چکے ہیں ۔ آپؐ نے پھر فرمایا کیا تم اللہ کے رسولؐ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے ۔ آپؓ فرماتے ہیں ہم نے بیعت کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور عرض کی یا رسول اللہؐ، ہم کس چیز پر آپ کی بیعت کریں؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس چیز پر کہ اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائو گے۔ پانچ وقت نماز ادا کرو گے اور اطاعت کرو گے ۔پھر آپؐ نے آہستہ سے ایک کلمہ فرمایا کہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ بعدمیں ان لوگوں کی یہ حالت تھی کہ ان میں سے اگر کسی کا کوڑا بھی نیچے گر جاتا تو وہ کسی سے پکڑانے کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ( السنن الکبریٰ)
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: مجھے اس چیز کی ضمانت کون دیتا کہ وہ لوگوں کے آگے سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبانؓ نے عرض کی، یا رسول اللہؐ میں۔ تو اس کے بعد حضرت ثوبانؓ نے کبھی کسی سے کوئی سوال نہیں کیا۔ جب انسان اللہ کی طرف دیکھنے لگ جائے تو وہ لوگوں کی طرف کبھی نہیں دیکھتا۔ جو بندہ لوگوں کی بجائے اللہ کی طرف دیکھتا ہے وہ ہی خودداری کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ صرف اللہ کے در پہ اپنا ہاتھ پھیلانے والا ہی حقیقی بادشاہ ہوتا ہے، چاہے وہ کسی کٹیا پر بیٹھا ہو اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والا گدا گر ہوتا ہے چاہے وہ تخت نشین ہی کیو ں نہ ہو۔
خودداری اور عزت نفس کی دولت بازار سے خریدی نہیں جا سکتی، یہ خزانہ صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھنے سے ہی ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر پختہ یقین اس کو مزید جلا بخشتی ہے ۔ جب کسی انسان کو یہ دولت مل جائے تو انسان وقت کا سلطان بن جاتا ہے، نہ اس کا ہاتھ اللہ کے سوا کسی کے آگے اٹھتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی جھولی کسی کے آگے پھیلاتاہے اور نہ ہی وہ کبھی احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں 
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں