اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
جمعرات، 30 جولائی، 2020
بدھ، 29 جولائی، 2020
الطافِ کریمانہ
الطافِ کریمانہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو (جوارِ )بیت اللہ میں سکونت عطاء فرمائی تو حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا۔ (اے پروردگار) بے شک تو نے ہر مزدور کو اس کی اجرت بخش دی۔ لہٰذا مجھے بھی میری اجرت عطاء فرما۔اللہ رب العزت نے وحی فرمائی کہ جب تم اس گھر کا طواف کروگے تو میں تمہاری بخشش کردوں گا ۔حضرت آدم علیہ السلام نے گزارش کی ،اے میرے رب میری اجرت میں اضافہ فرما۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :تمہاری اولاد میں جو بھی اس گھر کا طواف کرے گا میں اس کو بھی بخش دوں گا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پھر درخواست کی، اے میرے مالک مجھے مزید عطا ء فرما ۔ اللہ کریم نے فرمایا : وہ طواف کرنے والے جس کی مغفرت چاہیں گے میں اس کو بھی معاف کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں ۔ (یہ نوازشات دیکھ کر ) ابلیس گھاٹیوں کے درمیان کھڑا ہوااور کہنے لگا۔ اے خدا تو نے مجھے فنا کے گھر میں ٹھہرا دیا اور میرا ٹھکانہ جہنم بنادیا، اور میرے ساتھ میرے رقیب (آدم علیہ السلام ) کو کردیا۔ اس پر ایسی عطاء ، اے رب مجھے بھی (کوئی خاص صلاحیت ) عطاء فرما۔ خداوندِ قدیر نے فرمایا : میں نے تجھے ایسا کردیا تو انسان کو دیکھ سکتا ہے ،لیکن وہ تجھے نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے پھر سوال کیا تو ارشاد ہوا: میں نے انسان کے قلب کو تیرا ٹھکانہ بنادیا۔ اس نے مزید تقاضا کیا تو ارشاد ہوا، میں تجھے ایسا بنادیا کہ تو انسان کے رگ وپے اور شریانوں میں دوڑ سکتا ہے۔ راوی کہتے ہیں ( یہ دیکھ کر) آدم علیہ السلام نے درخواست کی: اے میرے رب ابلیس کو (ایسی صلاحیت ) مل گئی ہے(تو اس کے سد باب کے لیے) مجھے بھی کچھ عطاء ہو۔ ارشاد ہوا: میں نے تمہیں ایسا کردیا کہ جب تم نیکی کا ارادہ کروگے ، لیکن اسے انجام نہ دوگے، پھر بھی اس نیکی کو تمہارے حق میں لکھ دوں گا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پھر سوال کیا، تو ارشادہوا: اگرتم برائی کا ارادہ کروگے ،لیکن اس پر عمل نہیں کرو گے تو میں تمہارے نامہ اعمال میں اس برائی کو درج نہیں کروں گا۔ بلکہ اس کے بدلے میں تمہارے حق میں ایک نیکی لکھوں گا۔
منگل، 28 جولائی، 2020
مکہ معظمہ
مکہ معظمہ
’’مکہ قدیم زمانوں کے بعض محققوں کے نزدیک بابلی یا کلدانی لفظ ہے۔ جس کے اصلی معنی ’’گھر‘‘ کے ہیں۔ اس سے دو حقیقتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ آباد ی اس وقت قائم ہوئی جب بابل وکلدان کے قافلے اس سے گذرتے تھے،اور یہ اس کی ابراہیمی نسبت کی ایک اور لغوی دلیل ہے۔ دوسری یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی آبادی اسی گھر کے تعلق سے وجود میں آئی ۔مکہ کا نام حضرت دائود علیہ السلام کی زبور میں سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ قدیم شاہی زبان میں’ بکَّ‘کے معنی آباد یا شہر کے ہیں ۔جیسا کہ آج بھی شام کے ایک نہایت قدیم شہر کا نام’’بعلبک ‘‘ہے معنی بعل کا شہر (بعل دیوتا کا نا م ہے) یہ اس آبادی کی قدامت کی دوسری لغوی شہادت ہے کہ کعبہ کی ابتدائی تعمیر کے وقت یہی نام قرآن پا ک میں آیا ہے۔ کعبہ کے لغوی معنی ’’چوکھونٹے‘‘ کے ہیں۔ یہ گھر چوکھونٹا (چورس ) بناتھااور اب بھی اس طرح ہے ۔ اس لیے ’’کعبہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا‘‘۔ (سیرت النبی )اس شہر مقدس کی حرمت وتقدس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر درج ذیل احکام ارشادفرمائے۔:’’اب ہجرت نہیں مگرجہاد اورخلوص نیت (باقی ہیں) اور جب تمہیں جہاد کے یے بلایا جائے تو نکلو اور فرمایا : فتح کے دن یعنی فتح مکہ کے روز ، بے شک یہ شہر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس روز حرمت والا بنایا ، جس روز آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا پس یہ شہر اللہ تعالیٰ کی عطاء کی گئی۔ حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے، اور یقینا اس میں مجھ سے قبل کسی کے لئے جنگ حلال نہ ہوئی ، اور میرے لیے بھی د ن کی ایک گھڑی ہی حلال ہوئی۔ پس یہ اللہ کی عطاء کی گئی حرمت کی بناپر قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے۔ اس کا کانٹا بھی نہ کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو ڈرایا جائے۔ اللہ نہ اس پر گری ہوئی کسی چیز کوکوئی اٹھا ئے۔ سوائے اس شخص کے جو اس کا علان کرے نہ ہی اسکی گھاس کاٹی جائے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔یا رسول اللہ سوائے اذخر (ایک گھاس) کے کیونکہ یہ لوہاروں کی بھٹیوں کے لیے ہے،اور ان کے گھر وں کے لیے استعمال ہوتی ہے(یعنی آپ اس گھا س کے کاٹنے کی اجازت مرحمت فرمادیں۔ کیونکہ اس میں باسیانِ شہر کی سہولت ہے)۔آپ نے فرمایا : ہاں سوائے اذخر کے ۔ (مسلم شریف )
پیر، 27 جولائی، 2020
طاقتور کون؟
طاقتور کون؟
غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔
عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )
اتوار، 26 جولائی، 2020
کعبۃ اللہ
کعبۃ اللہ
ایک شخص نے امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا ، یہ کعبہ کیا ہے اور اس کا طواف کرنے کاحکم کیوں دیا گیاہے؟آپ کے ارشاد گرامی کا خلاصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں نے جنابِ باری تعالیٰ میں انسانوں کے بارے میں گزارش کی ،تو انھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ انہوں نے سوچا کہ ہمیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا ، ممکن ہے مالک ناراض ہوگیا ہو، اس تصور سے انکی جان نکلی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے عرش علاٗکا طواف کرنا شروع کردیا ۔ یہ وارفتگی شوق کا اظہار تھا۔
اب کریم کی رحمت نے انھیں نوازا ، اور عرش کی سیدھ میں نیچے ساتویں آسمان پر ایک گھر پیدا فرمایا ،اور فرشتوں کو حکم دیا،اس گھرکا طواف کروپس فرشتوں نے اس گھرکا طواف شروع کردیا۔ اس گھر کا نام البیت المعمور رکھا گیا۔ سورہ الطور میں اسکا ذکر موجود ہے۔ (کتا ب الاعلام ، تاریخ قطبی ۳۲ ،بحوالہ کعبۃ اللہ اور اس کا حج )
معراج کی شب کے جو اسرار روایات میں آئے ہیں ان میں سے مسلم شریف کی حدیث ہے۔ پھر ہمارے سامنے البیت المعمور آیا ۔ یہ ایک ایسی زیارت گاہ ہے جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے آتے ہیں ، اور پھر انھیں (کثرت تعداد کی وجہ سے)کبھی دوبارہ آنا نصیب نہیں ہوتا،اور آپ نے (مزید) بتا یا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ البیت المعمور سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔
٭حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی امامحمد باقر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت فرماتے ہیں ۔ اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا: میرے لیے اب زمین پر بھی ایک گھر بنائو تاکہ اولاد آدم میں سے جب کسی سے ناراض ہوجائوں تو وہ اسکی پناہ لے سکے اور جس طرح تم نے میرے عرش طواف کیاتھا۔ وہ اسکا طواف کرسکے ،تب میں اس سے بھی راضی ہوجائوں گا۔جس طرح تم سے راضی ہواتھا۔ چنانچہ فرشتوں نے اس حکم کی تعمیل کی (تاریخ الحرمین : عباس کرار ،بحوالہ کعبۃ اللہ اور اسکا حج)
٭ جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اترے تو اللہ رب العزت نے انھیں اس گھر کی تعمیر جدید کا حکم دیا۔ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوکر جب آدم علیہ السلام نے کعبہ کا طواف فرمایا تو فرشتے انکے پاس آئے اورکہا ،اللہ تعالیٰ آپ کا حج قبول فرمائے ۔ہم نے دوہزار سال پہلے اسکا حج کیا تھا۔ (احیاء العلوم ۔اما م غزالی )دیکھئے کہ اللہ کی شان کریمی کہ انسان کی بودوباش سے بھی پہلے اللہ نے اسکی خطاء کی بخشش کا اہتمام فرمادیا۔
آدم علیہ السلام کے وصال کے بعد کعبہ کی تکریم جاری رہی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ کفر کا چلن عام ہونے لگا،اور دنیا کو طوفانِ نوح نے اپنی لپٹ میں لے لیا۔ کہتے ہیں کہ طوفانِ نوح کی وجہ سے کعبہ کی جگہ چھپ گئی،لیکن انبیاء اور عارفین (من جانب اللہ ) اس کی اہمیت سے آگاہ رہے یہاں تک حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ذریعے پھر اس کا اظہار ہوا۔
ہفتہ، 25 جولائی، 2020
بیت اللہ
Noor-e-Baseerat
بیت اللہ
’’کعبہ وہ مقام ہے جو مسلمان عرفاء کے خیال کے مطابق عرشِ الہٰی کا سایہ ہے، اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا سِمتُ القدم ہے۔وہ ازل سے اس دنیا میں خدا کا معبد اور خداپرستی کا مرکز تھا، سب سے بڑے بڑے پیغمبر وں نے اسکی زیارت کی اور بیت القدس سے پہلے اپنی عبادتوں کی سمت اس کو قرار دیا کہ’’ اَوَّلَ بیتٍ وُّ ضِعُ للناس (آل عمران) سب سے پہلا خدا کا گھر جو لوگوں کیلئے بنایا گیا‘‘۔وہ وہی تھا، لیکن حضرت ابراہیم سے بہت پہلے دنیا نے اپنی گمرائیوں میں اس کو بھلا کر بے نشان کردیاتھا۔ حضرت ابر اہیم کے وجود سے جب اللہ تعالیٰ نے اس ظلمت کدہ میں توحید کا چراغ پھر روشن کیا، توحکم ہوا کہ اس گھر کی چار دیواری بلند کرکے دنیا میں توحید کا پتھر پھر نصب کیا جائے۔ چنانچہ قرآن پاک کے بیان کے مطابق (حج ۳،۴)کعبہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں البیت العتیق (پرانا گھر ) تھا کوئی نیا گھر نہ تھا۔حضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسمعیل ؑ نے مل کر اس گھر کی پرانی بنیادوں کو ڈھونڈ کر نئے سرے سے ان پر چار دیواری کھڑی کی اور فرمایا : ’’اذیرفَعْ ابراہیم القو اعد فی البنیا من البیت‘‘ ابراہیم جب اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے، اس سے معلوم ہواکہ بنیاد پہلے سے پڑی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسمعیلؑ نے اس افتادہ بنیاد کو از سرنو بلند کیا‘‘۔(سیرت النبی جلد ۵ ) اب رہا یہ معاملہ کہ پہلی تعمیر کس نے اور کس وقت کی، اس میں کوئی صحیح اور قوی روایت حدیث کی منقول نہیں ،اہل کتاب کی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے پہلے اس کی تعمیر آدم علیہ السلام کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی فرشتوں نے کی تھی پھر آدم علیہ السلام نے اسکی تجدید فرمائی۔ یہ تعمیر طوفان نوح تک باقی رہی ،طوفانِ نوح میں منہدم ہوجانے کے بعد سے ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک یہ ایک ٹیلہ کی صورت میں باقی رہی ۔ حضرت ابراہیم واسمعیل علیہماالسلام نے ازسر نو تعمیر فرمائی اسکے بعد اس تعمیر میں شکست وریخت تو ہمیشہ ہوتی رہی ۔ آنحضرت ﷺ کے بعثت سے قبل قریش مکہ نے اس کو منہدم کرکے ازسر نو تعمیر کیا جس کی تعمیر میں آنحضرت ﷺنے بھی خاص شرکت فرمائی ۔ (معارف القرآن ) شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ نے عوارف المعارف میں لکھا ہے۔’’جب اللہ تعالیٰ نے پانی پر (فرش زمین ) بچھانے کا ارادہ فرمایا تو جس مقام پر آج بیت اللہ شریف ہے ،وہاں سے ایک جھاگ نمودار ہوئی اور اس نے ٹھوس شکل اختیار کرلی ۔یہ زمین کی تخلیق کا آغاز ہے اس ابتدائی مادہ زمین کو ’’ام الخلیقہ ‘‘ کہتے ہیں ۔ اسی سے ایک ٹکڑا بہتا ہوا اس جگہ پر قرار پذیر ہوگیا۔ جہاں سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی آرام گاہ ہے۔ اس لیے مکہ ’’ام القری ‘‘ ہے اور باقی زمین کا سلسلہ تخلیق یہیں سے شروع ہوا،اور یہی وہ مقام ہے جہاں فرشتوں نے سب سے پہلے اللہ رب العز ت کا گھر تعمیر کیا۔
جمعہ، 24 جولائی، 2020
خادموں کا خیال رکھنے والے
خادموں کا خیال رکھنے والے
ربیعہ بن کعب اسلمی حضور اکرم ﷺکی خدمت عالیہ کیلئے ہمہ وقت اور ہمہ دم حاضر رہتے تھے۔ طہارت اور وضو کے پانی کا نہایت ذوق وشوق سے اہتمام فرماتے، آپ بیان فرماتے ہیں‘ ایک دن حضور انور ﷺنے مجھ سے استفسار فرمایا اے ربیعہ! کیا تم شادی نہیں کروگے؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میں نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپؐ کی خدمت سے غافل کردے۔ آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ کچھ دن بعد مجھ سے پھر پوچھا ربیعہ! کیا تم شادی نہیں کروگے؟ میں نے عرض کیا رسول اللہؐ ایک تو میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور مشغولیت مجھے آپؐ کی خدمت سے غافل کردے۔ دوسرا یہ کہ میرے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ میں بیوی کو مہر دے سکوں، آپ پھر خاموش ہوگئے۔ میں نے سوچا جناب رسول محتشم ﷺمیری حالتِ زار اور میرے مالی معاملات سے بخوبی واقف ہیں‘ اسکے باوجود مجھ سے شادی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ مجھے آپؐ کے سامنے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اب پوچھیں گے تو ضرور اثبات میں جواب دوں گا۔ چنانچہ آپؐ نے ایک دن پھر پوچھا، میں نے گزارش کی یارسول اللہ جو حکم! لیکن مجھ مفلس ونادارکو رشتہ کون دیگا۔ آپؐ نے مجھے فرمایا۔ فلاں قبیلے کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ رسول اللہؐ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کردو۔ انہوں نے نکاح کا پیغام سن کر حضور اکرم ﷺاور مجھے مرحبا کہا اور ایک خاتون کے ساتھ میرا نکاح کردیا۔ میں آپؐ کی خدمت ِ اقدس میں واپس آیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا اور ساتھ ہی عرض کیا اب حق مہر کہاں سے ادا کروں۔ آنحضورؐ نے حضرت بریدہ اسلمی سے فرمایا: ربیعہ کیلئے ایک گٹھلی کے برابر سونے کا انتظام کرو۔ انھوں نے سونا جمع کرکے مجھے دے دیا۔ وہ میں نے بیوی کے گھر والوں کو دے دیا۔ پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنجنابؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! اب ولیمہ کیلئے کیسے اہتمام کیا جائے۔ آپؐ نے پھر حضرت بریدہ سے ارشاد فرمایا‘ اب ربیعہ کیلئے ایک مینڈھے کا انتظام کردو۔ انہوں نے فوراً انتظام کر دیا۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ عائشہ (صدیقہ رضی اللہ عنہا) کے پا س جائو اور ان سے کہو کہ انکے پاس جتنے جوہیں‘ وہ تمہارے حوالے کردیں۔ میں انکے پاس گیا تو انھوں نے آٹے کی ٹوکری میرے حوالے کردی حالانکہ صورتحال یہ تھی کہ کاشانہ نبویؐ میں اس ٹوکر ی کے علاوہ شام کے کھانے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ جب دنبہ اور آٹا آگئے تو میرے سسرال والوں نے کہا کہ روٹیاں ہم تیار کر دیتے ہیں۔ مینڈھے کے متعلق اپنے ساتھیوں سے کہو کہ وہ اسے ذبح کردیں اور سالن تیا ر کردیں۔ یوں گوشت اور روٹی تیار ہوگئی اور میر ے ولیمہ کا اہتمام ہوگیا۔
جمعرات، 23 جولائی، 2020
عالمگیر پیغام (۳)
عالمگیر پیغام (۳)
اللہ کے سارے نبی اور رسول آفاقی نقطۂ نظر کے حامل ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ جس ماحول اور معاشرے میں وہ تشریف لائیں وہ بھی بلوغت کی اس سطح کو پہنچ چکا ہو ۔ ’’یوحنا‘‘ کی انجیل کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس حقیقت کا برملا اظہار فرمایا ’’مجھے ابھی تم سے بہت سی باتیں کہنی ہیں لیکن تم ابھی اسکے متحمل نہیں ہوئے‘‘۔ لیکن انہوں نے رفع آسمانی سے پہلے انسانیت کو یہ خوشخبری سنا دی ’’جب انسانیت بلوغت کو پہنچ جائیگی تو ان سب کیلئے ایک پیغمبر آئیگا اور وہ تمام حقائق جن کے تم اس وقت متحمل نہیں ہو سکتے، لائے گا‘‘ نبی محتشم ﷺ تشریف لائے تو اللہ نے اپنے کلام مقدس میں کسی ایک قوم کی بجائے پوری انسانیت سے خطاب فرمانا شروع کیا اور بات’’یآایھاالناس‘‘ سے ہونے لگی ’’اے بنی نوع انسان اس رب کی عبادت کرو جس نے تم سب کو پیدا کیا‘‘۔ اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اس حقیقت کا اعلان کردیں کہ: اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف سے اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف) حضوراکرم ﷺ کو قیامت تک کیلئے ساری انسانیت، سارے زمانوں، ساری قوموں کیلئے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا۔ صرف یہی نہیں کہ آپؐ ہر طبقہ انسانیت کیلئے اللہ کے رسولؐ ہیں بلکہ جنات و ملائکہ کے علاوہ باقی مخلوقات کے بھی نبی اور رسولؐ ہیں اور سرکش جنوں اور انسانوں کے علاوہ اس حقیقت کا روحانی ادراک واحساس کائنات کی تمام مخلوقات کو ہے۔
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے سنا کہ وہ فرمارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو آسمان والوں پر بھی فضلیت عطاکی ہے اور دیگر انبیاء پر بھی لوگوں نے ان سے پوچھا کہ انبیائے کرام پر فضلیت کی دلیل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیائے کرام کو انکی قوموں کی طرف، ان قوموں کی زبان میں ارسا ل کیا اور رسول ﷺ کیلئے ارشاد ہوا کہ ہم نے آپؐ کو پوری انسانیت کیلئے بھیجا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‘ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کبھی کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ مہینہ بھر کی مسافت تک میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی۔ میرے لیے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاک بنا دی گئی۔ میری اُمت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کیلئے غنیمت کا مال حلال نہیں کیا گیا۔ میرے لیے غنیمت حلال کردی گئی۔ مجھے شفاعت دی گئی ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیاہوں (بخاری ومسلم) ۔
بدھ، 22 جولائی، 2020
عالمگیر پیغام ( ۲)
عالمگیر پیغام ( ۲)
حضور اکرم ﷺ سے پہلے انبیائے کرام نے جب بھی اپنے مخاطبین سے کلام کیا ’’اے میری قوم کہہ کرمخاطب کیا۔ قرآن مقدس نے حضرت موسیٰ، حضرت لوط، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت شعیب، حضرت صالح علیہم السلام کے اپنی اپنی قوموں سے مکالمے کا ذکر کیا ہے ہر پیغمبر نے ’’یاقوم‘‘ کہہ کرخطاب کیا۔ اس طرح دنیا میں موجود مذاہب کی تاریخ اور انکی شریعتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بھی محدود دائرہ کار پر دلالت کرتی ہیں۔ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یا تو کسی خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یا کسی قوم کے نام پر ’’عیسائیت‘‘ نام اس لیے ہے کہ اسکی نسبت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف ہے۔ یہودی مذہب ایک خاص قبیلے میں پیدا ہوا جس کا نام یہودا ہے۔ بدھ مت اپنے بانی مہاتمابدھ کے نام سے منسوب ہے زرتش مذہب کا نام اسکے بانی زرتشت کے نام سے ہے۔ اس طرح قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور اہل مدین۔ دوسری طرف دیگر معروف مذاہب کا جائزہ لیں تو انکے ہاں بھی وسعت اور ہمہ گیری کا تصور مفقود نظر آتا ہے غیرالہامی اور غیرسامی مذاہب میں ہندومت ایک قدیم مذہب ہے۔ یہ مذہب پیچیدہ روایات اور عجیب وغریب اعتقادات کا مجموعہ ہے۔ یہ مذہب کبھی بھی ہندوستان سے باہر نہیں نکل سکا اور ہندوستان میں بھی یہ خواص کا مذہب رہا۔ آریہ دت اور برہمن ہی اسکے اصل پجاری ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر ذاتوں کو گھٹیا اور ملیچھ قرار دیا گیا۔ ویش کھتری اور شودر کم درجہ ذاتیں ہیں ہندوئوں کی مقدس کتابوں کا تعلق بھی محدود طبقہ سے ہے۔ انکے ویدوں، کو دیکھے، کسی بھی ویدنے نہ تو خود کسی عالمگیر پیغام کا دعوی کیا ہے اور نہ اسکے کسی معلم نے اسکے ابلاغ ِ عام کا بیڑا اُٹھایا‘ نہ ان کا پیغام ہندوستان سے باہر پہنچایا بلکہ ہندوستان کے اندر بھی شودر وید کاکلام سننا تو درکنار اسکی شکل تک دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک شودر کسی برہمن سے وید سن لے تو اسکے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا اور اس کو قتل کر دیا جاتا (وید ہندوؤں کی مذہبی کتابیں ہیں)۔ بدھ مت اور جین مت ہندوستان میں برہمنوں کے اقتدار کے ردِ عمل کے طور پر پیدا ہوئے۔ ابتدامیں عورتوں کو بدھ دھرم میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ لوگوں کے اصرار پر یہ اجازت دی گئی تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاگیا کہ اب اس مذہب کی مدت کم ہو جائیگی ۔ اس طرح جین مت، کنفیوشس ازم اور زرتشت کی تعلیمات بھی اپنے اپنے علاقے اور اپنی اپنی قوم تک محدود تھیں۔ انسانیت منتظر تھی ایسے پیغام کی جو عالمگیر ہو۔ آفاقی ہو سب کیلئے ہو۔ ایسے میں ایک بشیرو نذیر کی آمد ہوئی جس کا تعارف اسکے پروردگار نے یو ں کروایا ۔
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین
منگل، 21 جولائی، 2020
عالمگیر پیغام (۱)
عالمگیر پیغام (۱)
خطہء زمین پر انسان کی بودوباش کے بعد اس کی ضروریات دوطرح کی تھیں ۔ ایک جسمانی اور دوسری روحانی ۔ اللہ جو رب العالمین ہے ، اس نے انسان کوکسی بھی اعتبار سے تنہا اور بے یارومددگار نہ رہنے دیا ۔ اللہ نے انسان کے رزق کیلئے زمین کوصلاحیت نمو بخشی ، سمندروں کی وسعت میں اسکے اسباب پیداکیے ۔ سورج کی روشنی اور آسمان کے بادل ممدو معاون ہوئے اسباب وسائل کی فراوانی کے ساتھ ساتھ انسان کو عقل ،شعور بھی عطاکیااور انہیں ان اسباب کو بروئے کار لانے کی صلاحیت سے بھی متصف کیاگیا ۔ یہ کیسے ممکن تھاکہ خدا انسان کیلئے مادی وسائل توبہم پہنچائے ، لیکن روحانی تشنگی کا مداوا نہ کرے ۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مجرد عقل پر اعتماد کرتے ہوئے انسان صراط مستقیم کا سراغ لگابھی نہیں سکتا۔ انسان کی روحانی اصلاح کیلئے اور اسے ہدایت کی منزل کی طرف گامزن کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کا مبارک سلسلہ جاری کیا ۔ قرآن اس امر کا واشگاف اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کو اللہ کی اس رحمت سے محروم نہیں کیا گیا ۔کوئی امت ایسی نہیں جس ( اللہ کی طرف سے کوئی ) نذیر ( جنجھوڑنے والانہیں آیا) دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔ ہرقوم کوہدایت دینے والا آیا ہے۔(نمل ۱۶۔۳۶) بے شک ہم نے ہر امت میں رسول مبعوث کیے ہیں۔ ان انبیائے کرام نے اپنے اپنے علاقے میں اور اپنی اپنی قوم میں بڑی محنت ، تند ہی اور جاں فشانی سے اللہ کا پیغام پہنچایا اور مقدور بھر انکی اصلاح کی کوشش کی ، قرآن مقدس ، دیگر مقدس سماویہ اور مذاہب عالم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر ہادی ،نبی تشریف لائے کسی نہ کسی مخصوص قوم ، علاقے اورمخصوص وقت کیلئے مبعوث ہوئے انہیں ایک مخصوص ذمہ داری دی گئی جسے انہوں نے بطریق احسن نبھایا حضرت نوح ؑکاتذکرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے ’’بے شک نوح علیہ السلام کو ان قوم کی طرف بھیجاگیا‘‘ (الذاریات ۵۹۔۷) حضرت ہود ؑقوم عاد کی طرف بھیجے گئے ’’ قوم عاد کی طرف انکے بھائی ہود آئے ‘‘( الاعراف ۷۔۶۵) صالح کیلئے کہاگیا(قوم ) ثمود کی طرف انکے بھائی صالح آئے( الاعراف) حضرت شعیب ؑکے متعلق فرمایاگیا۔’’اورمدین کی طرف انکے بھائی شعیب آئے ‘‘(الاعراف) حضرت موسیٰ کا ذکر یوں ہوتاہے ۔’’ ہم نے موسیٰ پرکتاب اتاری اوراسے بنی اسرائیل کیلئے ہدایت بنایا‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷۔۲)قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول یوں بیان کیاگیا ہے ’’اور جب عیسٰی ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں‘‘۔ ( الصف ۶۱۔۶)
پیر، 20 جولائی، 2020
مجاہد کا اجر
مجاہد کا اجر
حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا: آج کی رات ہمارا پہرہ کون دے گا؟حضرت انس بن ابی مرثد رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ! یہ سعادت میں حاصل کروں گا۔آپ نے ارشادفرمایا:تو پھر سوار ہوجائو چنانچہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا : سامنے والی گھاٹی کی طرف رخ کرواوراس کی سب سے بلند چوٹی پر چلے جائو، خوب چوکس ہوکر پہرہ دینا ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلت یا لاپرواہی کی وجہ سے ہمارا لشکر دشمن کے کسی فریب کا شکار ہوجائے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ تعمیل ارشادمیں وہاں چلے گئے ۔جب صبح ہوئی تو آقا علیہ السلام جائے نماز پر تشریف لائے اوردورکعتیں ادافرمائیں پھر آپ نے صحابہ سے استفسار فرمایا:تمہیں اپنے سوارکی کچھ خبر ہے ؟ انھوں نے عرض کی ہمارے پاس ابھی تو کوئی اطلاع نہیں ہے۔اتنے میں فجر کی اقامت شروع ہوگئی صحابہ دیکھ رہے تھے کہ حضور اس دوران بھی گھاٹی کی طرف متوجہ رہے۔نماز کی ادائیگی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشادفرمایا تمہیں مبارک ہوکہ تمہارا سوار آگیا ہے۔
ہم لوگوں نے وادی کی طرف دیکھنا شروع کیا جلدہی درختوں کے درمیان سے انس بن مرثد آتے ہوئے دکھائی دیے ۔وہ قریب آئے اورگھوڑے سے اتر کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں سلام عرض کیا۔حضور نے ان سے ان کی ڈیوٹی کے احوال پوچھے ۔انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ میں آپ کے حکم کے مطابق یہاں سے چلا اورچلتے چلتے وادی کی سب سے اونچی گھاٹی پر پہنچ گیاجہاں پر آپ نے مجھے مامور فرمایا تھا۔میں رات بھر وہاں پہرہ دیتا رہا، جب صبح ہوئی تومیں نے اطراف واکناف کی گھاٹیوں پر بھی چڑھ کر اچھی طرح معائنہ کیا۔مجھے کسی طرف سے بھی کسی دشمن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔پوری طرح مطمئن ہوکر آپ کے پاس واپس آگیا ہوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے استفسار فرمایا کیا تم رات کو کسی وقت اپنی سواری سے اترے اورمحواستراحت ہوئے انھوں نے عرض کی یارسول اللہ !نہیں،صرف نماز کی ادائیگی اورطہارت کی غرض سے اتراتھا اوراس کے فوراً بعد سوار ہوکر اپنی ڈیوٹی شروع کردی تھی۔
آپ نے ارشادفرمایا:تم نے آج کی رات اللہ رب العزت کے راستے میں پہرہ دے کر اپنے لیے جنت واجب کرلی ہے لہٰذا اس عمل کے بعد اگر تم کبھی کوئی بھی( نفل)عمل نہ کرو تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔(ابودائود)
اتوار، 19 جولائی، 2020
انقلابِ فکر و عمل (۲)
انقلابِ فکر و عمل (۲)
حضور اکرم ﷺکی دعوت عرب کے اطراف واکناف میں پھیل گئی، خنساء بنت عمرو بھی اس پیغام سے آشناء ہوئیں۔ اللہ نے انہیں فطرت سلیم عطاء کی تھی‘ وہ فہم وفراست اور ذوق لطیف سے آراستہ تھیں۔ یہ پیغام سنتے ہی اسکی حقانیت ان پر واضح ہوگئی۔ انہوں نے اپنے قبیلہ کے چند افراد کو ساتھ لیا اور حضور انورؐ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوگئیں اور اسلام کی دولت سے مشرف ہوئیں۔ اس موقع پر حضوراکرم ﷺ نے بڑی دیر تک ان کا درد و سوز سے لبریز کلام بھی سماعت فرمایا‘ حضورؐ کلام سنتے اور فرماتے جاتے، شاباش! اے خنسائ، شاباش! اے خنسائ۔ قبول اسلام کے بعد اپنے قبیلے میں واپس آگئیں۔ انکے لہجے کی تاثیر اور خلوص نے بڑا اثر دکھایا اور بے شمار لوگ انکی تبلیغ سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ خنساء اسکے بعد بھی کئی بار مدینہ منورہ حاضر ہوئیں اور نبی کریم ﷺ سے اکتسابِ فیض کیا۔ سیّدنا عمر ابن خطاب کے زمانے میں قادسیہ کا تاریخی معرکہ برپا ہوا۔ حضرت خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اپنے چاروں بیٹوں کیساتھ اس معرکہ میں شریک تھیں۔ معرکے کی شب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا، اے میر ے بچو! تم نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا اور ہجرت کی سعادت حاصل کی‘ خوب سمجھ لو کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں۔ آخرت کی زندگی دنیا کی فانی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ کل جب تم میدانِ کارزار میں اترو تو اللہ سے فتح ونصرت اور کامیابی کی دعا مانگتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑنا۔ جب تم محسوس کرو کہ لڑائی کا تنور خوب بھڑک اٹھا ہے، تو تم خاص آتش دان میں جا گھسنا۔ راہ حق میں دیوانہ وار تلوار چلانا‘ ہوسکے تو دشمن کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا‘ اگر کامیاب رہے تو کیا کہنے اور اگر شہادت نصیب ہوگئی تو آخرت کی فضلیت سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ چاروں بیٹوں نے ثابت قدم رہنے کا وعدہ کیا۔ صبح جب یہ شیر جوان میدانِ کارزار میں اترے توضعیف وناتواں خنساء نے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی الٰہی! میری متاعِ عزیز یہی کچھ تھی‘ اب تیرے سپرد ہے۔ ہوا یوں کہ چاروں بیٹے ایک ایک کرکے اللہ کے راستے میں قربان ہوگئے۔ خنساء کو خبر ملی تو کہا مجھے انکے لاشوں کے پاس لے جائو۔ ٹٹول ٹٹول کر چاروں کی پشتوں کو دیکھا‘ وہا ں کوئی نشان زخم نہیں تھا۔ جتنے زخم تھے، سینے پر تھے، بے ساختہ زبان سے نکلا الحمدللہ الذٰی شرّفَنی بشہادۃ ھؤلائ۔ اللہ کی حمد جس نے مجھے ان چاروں کی شہادت سے مشرف کیا۔ اللہ اللہ یہ انقلاب فکر و عمل وہ خاتون جس نے اپنے بھائی کے غم میں رو رو کر وجود کو کھوکھلا کرلیا اور اپنی بینائی تک زائل اور موت کے پردے میں حیات کی کونسی روشنی دیکھ رہی ہے ۔
اپنے چاروں بیٹوں کی شہادت کو کس حوصلے سے برداشت کررہی ہے اور موت کے پردے میں حیات کی کونسی روشنی دیکھ رہی ہے ۔
ہفتہ، 18 جولائی، 2020
انقلابِ فکر و عمل (۱)
انقلابِ فکر و عمل (۱)
حضرت خنساء بنت عَمَرْوْ کا تعلق عرب کے معروف قبیلہ بنو سلیم سے تھا (جو بنوقیس بن غیلان کی ایک شاخ تھی)۔ یہ قبیلہ اپنی خوبیوں کی بناء پر قبائل عرب میں امتیازی شان کا حامل تھا۔ ایک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے اس قبیلہ کی تعریف کچھ اس طرح فرمائی۔ ’’بلاشبہ ہر قوم کی ایک پناگاہ ہوتی ہے اور عرب کی پناہ گاہ بنوقیس بن غیلان ہے۔‘‘ حضرت خنساء کا اصل نام ’’تماضر‘‘ تھا لیکن اپنی معاملہ فہمی، چستی اور خوبصورتی کی وجہ سے خنساء کے نام سے معروف ہوگئیں جس کا معنی ہے ’’ہرنی‘‘۔ خنساء ہجرت نبوی سے تقریباً 50 سال پہلے پیدا ہوئیں۔ خنساء کے والد عمر وبن الحارث بنو سلیم کے رئیس تھے اور اپنی وجاہت اور ثروت کی بناء پر بڑے اثر ورسوخ کے مالک تھے۔ انکی اولاد میں دو بیٹے معاویہ، صخر اور ایک بیٹی خنساء تھیں۔ ان سب کی تربیت بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوئی اور یہ سب بڑے اعلی خصائل کے مالک ہوئے۔ خنساء کے دو نکاح ہوئے۔ جن سے چار بیٹے پیدا ہوئے لیکن وہ جلد ہی بیوہ ہو گئیں۔ انکے دونوں بھائیوں نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ خاص طور پر خنساء اور صخر میں بڑی مناسبت طبعی تھی اور دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے تھے۔ سوئے اتفاق ‘ کہ ایک معرکے میں ان کا بڑا بھائی معاویہ ماراگیا اور جلد ہی ایک اور تنازعہ میں ان کا دوسرا بھائی ’’صخر‘‘ بھی شدید زخمی ہوگیا اور کئی ماہ تک موت وحیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد موت سے ہمکنار ہوگیا۔ صخر بڑا عاقل، شجاع اور خوبصورت نوجوان تھا۔ خنساء کو اسکی موت کا بے حد صدمہ ہوا۔ یہ غم انکے وجود کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے۔ شدت احساس سے جب ضبط کے بند ھن ٹوٹنے لگے تو اس نے اپنے اظہار کیلئے شاعری کا راستہ اختیار کرلیا ۔ خنساء نے صخر کے فراق میں ایسے دل سوز اور جان گداز مرثیے کہے کہ جنہیں سن کر پتھروں میں بھی گداز پیدا ہوجاتا۔ انکے مرثیوں نے انہیں پورے عرب میں مشہورکردیا۔ بازار عکاظہ میں ایک سالانہ میلا لگتا تھا جس میں قبائلِ عرب کے تمام رئوساء اور ہر قسم کے ارباب ہنروکمال شریک ہوتے۔ خنساء کو بھی بڑے اصرار سے اس میلے میں بلایا جاتا۔ ان سے صخرکا مرثیہ سنانے کی فرمائش کرتے جب وہ محوِ سخن ہوتیں تو اشک و آہ کا ایک طوفان اُٹھ جاتا۔ سخت دل صحرائی فرط رنج والم سے دھاڑیں مارمار کرروتے۔ خنساء صبح و شام صخر کی قبر پر جاتیں اور مرثیہ پڑھتیں۔ یہ غم یہاں تک بڑھ گیا کہ خنساء کی آنکھوں سے بینائی زائل ہوگئی۔ اسی کیفیت غم و اندوہ میں دن گزر رہے تھے کہ فاران کی وادیوں میں ایک آفتاب ہدایت طلوع ہوا اور اسکی روشنی کشاں کشاں خنساء کی تاریک دنیامیں بھی پہنچ گئی۔
جمعہ، 17 جولائی، 2020
اخلاص نیت (۳)
اخلاص نیت (۳)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کیخلاف فیصلہ سنایا جائیگا، جس نے شہادت پائی ہوگی، اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرکیا جائیگا ۔ خدا اسے اپنی تمام نعمتیں یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے میری نعمت کے بدلے کیا کام کیا؟ وہ عرض کریگا‘ میں نے تیری خوشنودی کی خاطر جہاد کیا، یہاں تک اپنی جان قربان کردی۔ خدا اس سے کہے گا تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی، تو نے صرف اس لیے لڑائی میں حصہ لیاکہ لوگ تجھے بہادر اور شجاع تسلیم کرلیں۔ سو دنیا میں تجھے اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہو گا اس (نامراد) کو منہ کے بل گھسیٹے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو۔ پھر ایک اورشخص کو خدا کی عدالت میں پیش کیا جائیگا جو دین کا عالم و متعلم ہوگا۔ خدا اسے اپنے انعامات یاد دلائے گا‘ وہ انہیں تسلیم کریگا۔ تب اس سے کہے گا‘ ان نعمتوں کویاد کرکے تونے کیا عمل کیے۔ وہ عرض کریگا‘ اے پروردگار، میں نے تیری خاطر دین سیکھا اور تیری خاطر دوسروں کو اسکی تعلیم دی اور تیری خاطر درس قرآن دیا۔ اللہ فرمائے گا‘ تم نے جھوٹ کہا تم نے تو اس لیے علم سیکھا تھاکہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور قرآن مجید کا درس محض اس لیے دیتے رہے کہ یہ قرآن کا قاری ہے (اور اسکے رموز سے آشنا ہے) سو تمہیں دنیا میں اس کا صلہ مل گیا۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو جہنم میں پھینک دو۔ تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مال ومنال اور آسودگی سے شاد کام کیا ہوگا۔ ایسے شخص کو بارگاہ ربوبیت میں پیش کیا جائیگا۔ اللہ اسے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے مطلع کریگا‘ وہ اقرار کریگا کہ یہ سب نعمتیں اسے دی گئیں۔ تب اس سے سوال ہو گا کہ تو نے ان نعمتوں کا کیا کیا۔ وہ جواب میں کہے گا۔ وہ تمام راستے جن پر خرچ کرنا تجھے پسند تھا میں نے ان سب راستوں پر تیری خوشنودی کی خاطر خرچ کرنا (کبھی) ترک نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا‘ تو نے جھوٹ کہا، یہ سارا مال تو نے اس لیے لٹا دیا کہ لوگ سخی کہیں سو تجھے دنیا میں یہ لقب مل گیا (اب آخرت میں تیرا کوئی حصہ نہیں) پھر حکم ہوگا کہ اسے (بھی) چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو‘ سو اسے بھی جہنم رسید کردیا جائیگا (مسلم شریف)۔ بیان کردہ روایات اسلامی ماحول اور معاشرے میں حسن نیت اور اخلاص کی فضاء پیدا کرنے کی تلقین کرتی ہیں بلکہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مومن جہاں بھی ہو اسکے ہر کام کی غرض محض اور محض اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے۔
جمعرات، 16 جولائی، 2020
اخلاص نیت (۲)
اخلاص نیت (۲)
حضرت ابو ہریرہ بن عبد الرحمن بن صحر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایااللہ تعالیٰ نہ تمہارے جسموں کودیکھتاہے اورنہ ہی تمہاری صورتوں کو بلکہ وہ تمہارے دلوں ( کے اخلاص ) کو دیکھتاہے (مسلم ) حضرت ابو موسیٰ عبداللہ قیس اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : حضوراکرم ؐ سے پوچھاگیاکہ ایک شخص بہادری دکھانے کی غرض سے جنگ کرتاہے ۔ ایک حمیت اور غیرت کے اظہار کیلئے لڑتا ہے اورایک وہ ہے جو محض دکھلاوے کی خاطر جنگ کرتاہے یارسول اللہؐ !ان میں سے کس کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے ؟ حضور انور ؐ نے فرمایا: جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ کاکلمہ (یعنی اس کادین ) سربلندہو ، سو اسی کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے (بخاری ومسلم) حضرت ابوبکر ہ نفیع بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا : جب دومسلمان اپنی تلواروں سے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ۔میں نے عرض کیا یارسول اللہ ؐ قاتل کاجہنم میں جانا تو سمجھ میں آتاہے لیکن مقتول (کاکیاقصور) اور اس کیلئے یہ حکم کیسے ؟ارشاد ہوا وہ بھی تو اپنے ساتھی کو قتل کرناچاہتاتھا( اس کابس نہ چلااور دوسرے کوپہلے موقع مل گیاگھرسے تو وہ بھی تو فساد اورقتل کی نیت سے ہی نکلاتھا( بخاری ومسلم) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپؐ جس وقت مجھے یمن کے علاقے میں بھیج رہے تھے میں نے گزارش کی اے اللہ کے رسول مجھے کچھ نصیحت فرمایئے آپ نے فرمایااپنی نیت کو ہرکھوٹ سے پاک رکھو جو عمل کرو خدا کی خوشنودی کیلئے کرو ،تو تھوڑا عمل بھی تمہاری نجات کے لیے کافی ہوگا ( الترغیب والترہیب )حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ رسول اللہؐ نے فرمایا باجماعت نماز ادا کرنے سے بازار یاگھر میں نماز ادا کرنے کی نسبت تیئس (23) سے تیس (30) گنا تک ثواب زیادہ ملتاہے ۔ اور یہ اس لیے کہ جب ایک شخص وضوکرتاہے ، پھرمسجد میں آ جاتاہے اوراس کی نیت صرف نماز اداکرنے کی ہوتی ہے وہ صرف نماز ہی کیلئے اُٹھتاہے وہ ( مسجد کی طرف ) جوقدم بھی اُٹھاتاہے اُ س کاایک درجہ بلند کردیاجاتاہے اور ایک گناہ معاف کردیاجاتاہے ۔یہاں تک کہ وہ مسجد میں پہنچ جاتاہے ۔اورجب وہ مسجد میں داخل ہوجاتاہے توجب تک نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتاہے (گویا کہ عنداللہ ) نماز میں ہی ہوتاہے تم میں سے کوئی شخص جب تک اس جگہ پر بیٹھارہتاہے ۔ جہاں اس نے نماز اداکی فرشتے اس پر سلام بھیجتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں اللہ اس پررحم فرمااے اللہ اس کو بخش دے اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما( اور یہ سلسلہ جاری رہتاہے ) یہاں تک کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے یاوہ کسی کوتکلیف نہ دے (بخاری ومسلم )
بدھ، 15 جولائی، 2020
اخلاص نیت (۱)
اخلاص نیت (۱)
فرمان خداوندی ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حضور (قربانی) کے گوشت اور انکے خون نہیں پہنچتے البتہ اسکے حضور تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچ جاتاہے۔ (الحج ۳۷) (اے پیغمبر) کہہ دیجئے جوکچھ تمہارے سینوں میں ہے تم اسے چھپائو یا ظاہرکرو‘ اللہ تعالیٰ اسے (اچھی طرح) جانتا ہے۔ (آل عمران ۲۹) حالانکہ نہیں حکم دیا گیا تھا انہیں مگر یہ کہ دین کواس کیلئے خالص کرتے ہوئے بالکل یک سو ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور نماز قائم کرتے رہیں اور زکوۃ ادا کرتے رہیں اور یہی دین نہایت سچاہے (البینہ آیۃ۵) امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب سے مروی ہے‘ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ پس جوشخص اللہ اور اسکے رسول کیلئے ہجرت کی نیت کرے تو اسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کی طرف ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیاکی طرف ہوکہ اسے حاصل کرے یا کسی عورت کی نیت سے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اسکی ہجرت اسی طرف ہے جہاں کی اس نے نیت کی ہے۔ (بخاری ومسلم) مذکورہ بالا حدیث مبارکہ تعلیمات اسلامیہ میں بڑی اہمیت کی حامل حدیث ہے۔ بہت سے محدثین نے مجموعہ احادیث کا آغاز حصول ِ برکت کیلئے اس حدیث پاک سے کیا ہے تاکہ انکے کام میں اخلاص پیدا ہو اور انکی تمام محنت و مشقت کا قبلہ درست سمت میں رہے۔ اس حدیث مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپکے صحابہ کرام کو مکہ معظمہ سے ہجرت کاحکم ہوگیا سب نے نہایت اخلاص و آمادگی سے اپنے جنم بھومی کو چھوڑ دیا، اپنے عزیزو اقارب کو خیر آباد کہہ دیا، اپنے اپنے کاروبار اور دیگر مفادات سے دست کش ہوگئے اور محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک دوسرے شہر کی طرف چل پڑے جہاں امکانات کی ایک نئی دنیا انکی منتظر تھی، اسی زمانے میں مکہ کے مسلمانوں میں ایک صاحب ایسے تھے جن کے رشتے کی بات چیت مدینہ منورہ (اُس وقت یثرب) میں قیام پذیر ایک خاتون سے چل رہی تھی جس کانام اُ مِ قُبیس تھا۔ اُ مِ قُبیس نے یہ شرط عائد کردی کہ آپ ہجرت کرکے یہاں آجائیں تو میں آپ سے شادی کرلوں گی۔ انہوں نے اس شرط کو قبول کرلیا اور مدینہ منورہ منتقل ہو گئے اور وہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ صحابہ کرام ازرہ خوش طبعی انہیں ’’مہاجرام قبیس‘‘ کہہ کر پکارتے اور کہتے ہماری ہجرت تو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کیلئے تھی جبکہ آپ کی ہجرت اُمِ قبیس کیلئے، اس لیے آپ تو ٹھہرے ’’مہاجرام قبیس‘‘ انہیں یہ بات پسند نہ آتی۔ معاملہ جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا آپ نے تمام احوال سن کر جو تاریخی ارشاد فرمایا وہ مدار دین و ایمان بن گیا۔
منگل، 14 جولائی، 2020
ایک سچے کی گواہی
ایک سچے کی گواہی
فیلسوفِ اسلام علامہ اقبال کی ملاقات جرمنی کے ایک فلسفی سے ہوئی ۔ باتوں باتوں میں اس نے علامہ اقبال سے پوچھا کیا آپ خدا کے وجود کے قائل ہیں اور اسے مانتے ہیں۔ آپ نے بڑی سادگی سے جواب دیا ’’ہاں‘‘ میں خداکو مانتا ہوں۔ اس نے حیرانگی سے پوچھا۔ کیا آپ اساتذہ اور والدین کی تربیت کے باعث یہ عقیدہ رکھتے ہیں یا آپکے پا س اسکی کوئی دلیل بھی ہے۔ علامہ اقبال نے جواب دیا‘ میں تقلیدی طور پر ماننے والوں میں سے نہیں ہوں، اگر دلیل قوی ہو تو تسلیم کرلیتا ہوں اگر دلیل کمزور ہو تو مسترد کردیتا ہوں۔ اُس نے کہا خدا کے وجود اور اسکی وحدانیت پرآپکے پا س کیا دلیل ہے، ہم تو اس دشتِ تحقیق میں برسوں سے سرگرداں ہیں، ہمیں تو کوئی دلیل نہیں ملی۔ علامہ اقبال نے کہا: میر ے پاس خدا کے وجود اور وحدانیت کی ایک نا قابلِ تردید دلیل موجود ہے‘ جس کی بِنا پر میں اسے وحدہ لاشریک مانتا ہوں اور وہ یہ کہ اس بات کی گواہی ایک ایسے سچے نے دی ہے‘ جس کے جانی دشمن بھی کہا کرتے تھے کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا جس کے خون کے پیاسے بھی اسے الصادق الامین کہا کرتے تھے۔ ایسے سچے کی شہادت پر میں نے بھی کہا لاالہ الاللہ ۔اللہ کی وحدانیت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے لیکن عقل انسانی سر توڑ کوششوں کے باوجود اس عقدے کو حل نہ کرسکی۔ افلاطون، ارسطو، سقراط، جالینوس جیسے ہزاروں فلسفی اس میدان میں بھٹکتے رہے لیکن خداوند قدوس کے عرفان کی دولت سے یکسر محروم رہے۔ منزل مقصود تک رسائی توکجا انہیں تو عرفانِ ربانی کا صحیح راستہ تک سجھائی نہ دیا۔ یہ اللہ کے فرستادہ حبیب ہی تھے جو دانائے سبل بن کر تشریف لائے۔ انکے فیضانِ نگاہ سے ہر حقیقت کو آشکار اور ہر راز مخفی کوبے نقاب ہونا تھا۔ مخلوق خدا کو علم وآگاہی کی دولت ملنی تھی۔ یہ حبیب جو سیرت وکردار کا ناقابلِ تردید معجز ہ لیکر آیا تھا۔ جب گویا ہوا تو اسکی ایک جنبشِ لب سے یقین واطمینان کے سوتے پھوٹ نکلے۔ رب ذوالجلال کی وحدانیت، الوہیت ، ربوبیت وکبریائی کی یہ گواہی سامنے آئی تو حقیقت اتنی آشکار ہوئی، اتنی نمایاں ہوئی کہ اسکے بعد کسی گواہی کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔ آج صد یوں کا سفر طے ہو جانے کے باوجود بھی ایقان کی یہ شمع اسی طرح روشن اور فروزاں ہے۔ دور دراز جنگل میں بکریاں چرانے والا ایک گمنام مسلمان چرواہا جسے کبھی کسی استاد کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک یقین و آگہی سے گواہی دیتا ہے لاالہ الاللہ۔ چرخہ کاتتی ہوئی گاؤں کی ایک سادہ لوح ان پڑھ ماں جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو پورے وثوق کیساتھ سبق پڑھاتی ہے لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ ۔
پیر، 13 جولائی، 2020
بصیرت افروز رہنمائی
بصیرت افروز رہنمائی
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں:جنگ احد کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جبیر ر ضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو پچاس پیادہ مجاہدوں کے دستے پر کمانڈرمقرر کیا اور فرمایا:اگر تم دیکھو کہ (شکست کے بعد)پرندے ہمارے جسموں کو نوچ رہے ہیں تو اس صورت میں بھی تم اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا حتیٰ کہ میں تمہارے پاس پیغام بھیجوں اور اگر تم یہ دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے کر ان کو پائوں تلے روند دیا ہے تو اس صورت میں بھی تم اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا جب تک میں تمہارے پاس پیغام نہ بھیجوں ۔(صحیح بخاری)
حضرت عمرو بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں:بنو النفیر کے اموال ایسے تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور غنیمت عطا فرمائے تھے،ان کے لیے مسلمانوں نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے ۔یہ اموال خالصتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال سے اپنے اہل خانہ کا ایک سال کا خرچ علیحدہ کر لیتے تھے اور جو مال بچتا تھااسے راہ خدا میں (کام آنے کے لیے)گھوڑے اور ہتھیار خریدنے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔(جامع ترمذی)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے باغ میں ان کا کھجور کا ایک درخت تھا۔اس انصاری کے اہل خانہ بھی اس کے ساتھ (باغ میں )ہوتے تھے۔راوی کہتے ہیں،سمرہ اپنی کھجور کے درخت کے پاس جاتے تھے جس سے اس(انصاری)کو تکلیف ہوتی تھی اور یہ بات اس پر گراں گزرتی تھی ۔اس نے حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخت کو بیچ دیں انہوں نے انکار کر دیا۔انہوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخت کا تبادلہ کر لیں ۔انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔انصاری حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے اس بات کا ذکر کیا۔آپ نے ان سے اس درخت کے تبادلہ کامتعلق ارشادفرمایاتو انہوں نے اس سے بھی معذرت کرلی۔آپ نے فرمایا،تم یہ درخت اس انصاری کو ہبہ کر دو،تمہیں اس کے بدلے میں اتنا اتنا دیا جائے گا ۔آپ نے ان کو تر غیب دی تو انہوں نے اس سے بھی معذرت کی ۔(اس پر)حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم ضرر رسانی کا ارادہ رکھتے ہو ۔پھر آپ نے اس انصاری سے فرمایا،جائو ،اس کے کھجور کے درخت کو کاٹ دو۔(سنن ابی دائود)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگو ٹھی بنوائی اور اس میں:محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ کروائے اور لوگوں کو ارشاد فرمایا:میں نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ کروائے ہیں۔کوئی شخص اپنی انگوٹھی پر میری اس انگوٹھی جیسے الفاظ کندہ نہ کرائے۔(صحیح مسلم)
اتوار، 12 جولائی، 2020
نجات دلانے والی چالیس باتیں
نجات دلانے والی چالیس باتیں
حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں میں نے حضور اکرمؐ سے استفسار کیا کہ وہ چالیس باتیں کون سی ہیں، جن کے بارے میں یہ کہاگیا ہے کہ جو ان کو یاد کرلے( اور اپنا شعار بنالے) وہ نجات پا جائے گا۔حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا(1) ایمان لانا اللہ پر(2) یومِ آخرت پر (3) فرشتوں کے وجود پر(4) اللہ کے نازل کردہ کتابوں پر(5) تمام انبیاء پر(6) مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پر(7) اور اس بات پر کہ تقدیرِ خیروشر منجانب اللہ ہے(8) اس امر کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسولِ برحق ہیں(9) ہرنمازکے وقت کامل وضوکرکے نماز قائم کرنا (10) زکوۃادا کرنا(11) رمضان کے روزے رکھنا(12) استطاعت ہونے کی صورت میں حج کرنا(13) ہر روز 12 رکعت سنت مؤکدہ ادا کرنا(14) وتر کو کسی رات ترک نہ کرنا(15) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا(16) والدین کی نافرمانی نہ کرنا(17) ظلم سے یتیم کا مال نہ کھانا(18) شرابی نوشی سے بچنا(19) بدکاری سے بچنا(20) جھوٹی قسم نہ کھانا(21) جھوٹی گواہی نہ دینا(22) نفسانی خواہشات پر عمل نہ کرنا(23) مسلمان بھائی کی غیبت سے پرہیز کرنا(24) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے بچنا(25) اپنے مسلمان بھائی سے کینہ نہ رکھنا(26) لہوو لعب میں مشغول نہ ہونا(27) نہ اُس کے تماشوں میں شریک ہونا (28) کسی کو ظاہری عیب سے نہ پکارنا(یعنی ٹھنگنا، کانا،لنگڑا کہہ کر پکارنا)(29) کسی کا مذاق نہ اڑانا(30) مسلمانوں کے درمیان غلط فہمی نہ پھیلانا(31) ہر حال میں اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکرادا کرنا(32) بَلا اور مصیبت پر صبر سے کام لینا(33) اللہ کے عذاب سے بے خوف نہ ہوجانا(34) رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کرنا (35) بلکہ صلہ رحمی سے کام لینا(36) اللہ کی کسی مخلوق کو لعنت نہ کرنا(37) سبحان اللہ،الحمد اللہ، لا الہ الا اللہ،اللہ اکبر کا کثرت سے ورد کرنا (38) جمعہ اور عیدین میں حاضری کا التزام کرنا(39) اس بات کایقین رکھنا کہ جو تکلیف پہنچی وہ ٹلنے والی نہیں تھی اور جو کچھ نہیں پہنچا وہ کسی طرح پہنچنے والا نہیں تھا(40) کلام اللہ شریف کی تلاوت کسی حال میں بھی نہ چھوڑنا۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ جو شخص ان باتوں کو یاد رکھے اسے کیا اجر ملے گا۔حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کا حشر انبیاء اور علماء کے ساتھ فرمائیں گے۔
ہفتہ، 11 جولائی، 2020
تسبیحاتِ فاطمہ ؓ
تسبیحاتِ فاطمہ ؓ
امام ابو داؤد روایت کرتے ہیں:۔ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ الکریم نے اپنے ایک شاگرد سے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اپنا اور فاطمہ بنت رسول ؐ کا جو آپ ﷺ کی سب سے زیادہ لاڈلی بیٹی ہیں، قصہ سناؤں: شاگرد نے کہا ضرور ارشاد فرمائیے، فرمانے لگے! فاطمہ بنتِ رسول ؐ اپنے ہاتھ سے چکی پیستی تھیں جن کی وجہ سے انکے ہاتھ میں نشان پڑگئے تھے۔ خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینے پر رسی کے نشان آگئے تھے۔ گھر کی صفائی ستھرائی خودہی کرتیں جس کے باعث اُنکے کپڑے غبار آلودہ ہو جاتے۔ ایک مرتبہ حضور ِ اقدس کے پا س مالِ غنیمت میں کچھ غلام اور باندیاں آئیں، میں نے فاطمہؓ سے کہا آپ بھی حضورؐ سے ایک خدمت گار مانگ لیں تاکہ روزمرّہ کے کاموں میں آسانی ہو، وہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اتفاق سے وہاں کچھ لوگ موجود تھے۔ سیّدہ کے مزاج میں شرم بہت تھی‘ وہ فرطِ حیاء کی وجہ سے سب کے سامنے کچھ عرض نہ کرسکیں اور واپس آگئیں۔ دوسرے دن حضورؐ بنفس نفیس تشریف لے آئے اور استفسار فرمایا۔ فاطمہؐ تم کل کس مقصد کیلئے میر ے پاس آئی تھیں؟ وہ شرم کی وجہ سے چپ ہوگئیں‘ میں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ! آپ انکے حالتِ زار ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ چکی پیسنے کی وجہ سے ان ہاتھوں میں نشان پڑگئے ہیں اور مشک اُٹھانے کی وجہ سے سینے پر رسی کے داغ بن گئے ہیں، ہر وقت کام کاج کی وجہ سے کپڑوں پر غبار پڑ جاتا ہے۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ سے ایک خادم مانگ لیں، آپؐ کی خدمت میں یہ بھی عرض کی گئی کہ گھر میں استعمال کیلئے مینڈھے کی کھال کا بنا ہوا محض ایک ہی بستر ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ ؑاور اُنکی بیوی کے پاس دس برس تک ایک ہی بچھونا تھا، وہ بھی حضرت موسیٰؑ کا چوغہ تھا، جسے رات کو بچھالیا جاتا ۔ آپ نے خادم کے بارے ارشاد فرمایا: اصحابِ صُفہ نے اللہ کے دین کی خاطر اپنا گھر بار اور آرام و سکون ترک کر دیا اور وہ غربت و افلاس اور فقرو فاقہ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (فی الوقت) ان پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا (خادم کی ڈیوٹی انکے کاموں میں مدد کیلئے لگائی جائیگی)۔ اے میری پیاری بیٹی تو تقویٰ حاصل کر اور اللہ سے ڈر، اپنے پروردگار کا فریضہ ادا کرتی رہ اور گھر کے کام کاج کو انجام دیتی رہ‘ میں تمہیں ایک ورد بتاتا ہوں جو تمہارے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہو گا۔ وہ یہ کہ جب تم رات کو سونے کیلئے لیٹو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ، 34 مرتبہ اللہ اکبر کہو (یعنی میر ے اہلِ بیت کا آرام وسکون اور اطمینان، اللہ کا ذکر ہے، اس سے انکی تھکاوٹ بھی زائل ہوگی اور انھیں اطمینان بھی نصیب ہو گا)۔ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا۔ میں اللہ اور اسکے رسولؐ سے راضی ہوں ۔
جمعہ، 10 جولائی، 2020
گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۲)
گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۲)
(۱)حضور اکر م ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ اس مسلمان کو سر سبز وشاداب رکھے گا جو میری بات(حدیث) سنے پھر اسے یا درکھے اور دوسروں تک پہنچادے ۔(ترمذی)(۲)حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ کہیں بیٹھے۔اور انہوں نے نہ اللہ کو یا د کیا اورنہ اپنے نبی پر دورد بھیجا تو قیامت کے دن یہ ان کیلئے نقصان اور حسر ت کا باعث ہوگا۔پھر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کو (اس مجلس کی پاداش میں )عذاب دے اور چاہے تو (اپنے کرم سے) بخش دے (ترمذی )(۳) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا دعا آسمان اور زمین کے درمیان میں ہی رُکی رہتی ہے۔ (اس وقت تک) اوپر نہیں جا سکتی جب تک حضور انور ﷺکی ذاتِ گرامی پر درود نہ بھیجا جائے ۔(ترمذی)(۴)حضرت عبداللہ بن عاص ؓسے روایت ہے۔نبی کریم ﷺ نے نماز کے بارے میں فرمایا ۔جس نے نماز کی حفاظت کی اس کیلئے قیامت کے دن نماز نور ہوگی، اور مومن ہونے کی دلیل اور ذریعہ نجات ہوگی اور جس نے اسکی حفاظت نہ کی اس کیلئے نہ نور ہوگی اور نہ دلیل اور نہ نجات کا ذریعہ اور بے نماز قیامت کے دن قارون ،فرعون اور امیہ ابن خلف (جیسے کفار) کے ساتھ اٹھایا جائیگا۔ (سنن دارمی ، احمد ) (۵) حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ،میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب جماعت کھڑی ہوجائے تو (اس میں شامل ہونے کیلئے) دوڑو نہیں بلکہ سکون ووقار کے ساتھ جماعت سے ملو، جتنی رکعتیں امام کیساتھ مل جائیں پڑھ لو اور جو رہ جائیں انہیں (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) مکمل کر لو ۔ (مسلم شریف) (۶) حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی دوسروں کو نماز پڑھائے (یعنی امامت کرے) تو تخفیف کر ے (قرآت کو طول نہ دے ) کیونکہ مقتدیوں میں ضعیف، بیمار ، بوڑھے اور دوسروں کے سہارے کے محتاج ، بھی ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھے توجس قدرچاہے طول دے (مسلم ) (۷)حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ حضور اکرم ﷺ مسجد میں جلوہ افروز ہوئے تو آپ نے دیکھا :ستون میں ایک رسی لٹک رہی ہے۔ آپ نے دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ز ینب (نامی ایک صحابیہ) نے باندھی ہے۔ رات کو جب وہ کھڑی کھڑی تھک جاتی ہے تو اسکے سہارے کھڑی ہوجاتی ہے۔آپ نے یہ سن کر فرمایا یہ رسی کھول دو۔لوگو! تم اس وقت تک (نقل ) نماز پڑھو جب تک تم میں نشاط باقی رہے۔جب کوئی تھک جائے تو آرام کرلے(بخاری )۔
جمعرات، 9 جولائی، 2020
گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۱)
گلستانِ حدیث کی چند مہکتی کلیاں(۱)
(۱)حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے سوال کیا گیا۔ کونسا عمل افضل ہے آپ نے ارشاد فرمایا اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا اسکے بعدفرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔پوچھا گیا پھر کونسا ارشاد ہوا وہ حج جس میں کسی گنا ہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ (بخاری شریف) (۲) حضر ت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا ۔کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ فرمایا نماز جو وقت پر اداکی گئی ہو۔ گزارش کی، اسکے بعد فرمایا والدین سے بھلائی پوچھا گیا اسکے بعد؟ ارشاد ہو اجہاد فی سبیل اللہ (بخاری) (۳)حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ میں نے جناب رسالت مآب سے عرض کیا ، یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور دوزخ سے دور کردے۔ آپ نے فرمایا :تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ لیکن یہ اُس شخص پر آسان بھی ہے جس پر اللہ (اپنی توفیق سے) آسان کردے (وہ عمل یہ ہے کہ )تو اللہ تعالیٰ کی بندگی کرے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور نماز قائم کر ے۔زکوٰۃ ادا کرے ، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور بیت اللہ شریف کا حج کرے۔(مشکوۃ)(۴)حضر ت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے دست اقدس پر ان باتوں پر بیعت کی، (۱)نماز کی پابندی (۲)زکوٰۃ کی ادائیگی (۳) اور ہر مسلمان سے خیر خواہی۔ (مسلم) (۴) حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔پانچ نماز یں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بندوں پر فرض کیں جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت پر نماز یں پڑھیں اور رکوع وخشوع کو پورا کیا تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے (ذمہ کرم پر ) یہ عہد کرلیا ہے کہ اسے بخش دے اور جس نے ایسا نہیں کیا اسکے لیے عہد نہیں ، چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے تو اسے عذاب کرے (ابوداؤد) (۶)حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اگر کسی کے گھر کے سامنے کوئی صاف شفاف نہر جاری ہو اور وہ (دن میں )پانچ بار اس میں غسل کرتا ہو تو کیا اسکے بد ن پر کوئی میل کچیل رہ سکتا ہے۔ سب نے عرض کی نہیں رہے گا۔ فرمایا یہی مثال پانچوں وقت نمازوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔(مشکوۃ)
بدھ، 8 جولائی، 2020
رفاقت اور دوستی کے معیار
رفاقت اور دوستی کے معیار
کہتے ہیں کہ صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالع ترا طالع کند۔ نیک اور صالح فرد کی صحبت اور دوستی صالحیت اور پر ہیز گاری کا باعث بنتی ہے اور برے افراد کی صحبت بھی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ عر ب کہتے ہیں المرء علی دین خلیلہٖ انسان اپنے دوست کے مسلک ومشرب پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کو ایسی رفاقت کی تلاش ہو جو اس کیلئے دین اور دنیا دونوں میں معاونت کا سبب بنے ، تو اس کا معیا ر کیا ہونا چاہیے، امام غزالی کہتے ہیں اپنے رفیقِ کار (پارٹنر) اور دوست کا انتخاب کرتے ہوئے اس میں پانچ خصلتیں ضرور دیکھو۔ (۱) عقل (۲)حسن خلق (۳) خیر کی صلاحیت (۴)سخاوت (۵)سچائی۔ (۱) عقل مند شخص کو اپنا دوست بنائو کیونکہ احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں۔ احمق کی دوستی کا انجام تنہائی اور قطع تعلقی پر ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو لیکن جہالت کی وجہ سے نقصان پہنچاتا ہے‘ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ ’’جاہل سے دوستی مت رکھو اور اپنے آپ کو اس سے بچائو پس کتنے جاہل ہیں جنہوں نے حلیم شخص کو ہلاک کر دیا‘‘۔ (۲) بدخو اور بدخلق کی پہچان یہ کہ غصے کے وقت اس کا نفس اسکے قابو میں نہیں رہتا۔ حضرت علقمہ عطاروی رحمتہ اللہ علیہ نے وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ بیٹا اگر کسی کے دوست بننا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی سنگت اختیار کرو کہ اگر تم اسکی خدمت کرو تو وہ تمہیں محفوظ رکھے اور بچائے گا، اگر اس سے مِلو، تو تمہارے اخلاق سنوریں۔ تم اس سے نیکی کرو تو اسے شمار کرے اور یا درکھے اگر تم سے کو ئی فروِ گذاشت ہو جائے تو وہ تم سے در گزر کرے۔ (۳) ایسے شخص کا انتخا ب کرنا چاہیے۔ جس کا رحجان طبع خیر کی طرف ہو۔ یاد رکھو جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا حوادثات زمانہ بھی اسکی اصلاح نہیں کر سکتے۔ یعنی وہ عبرت پکڑنے کی بجائے مزید فسق وفجور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گنا ہوںپر دلیر ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’اس شخص کی پیروی نہ کر و جس کا دل ہم نے اپنی یا د سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہشات کا پیر وکار ہے۔‘‘ (۴) حریص اور لالچی کی دوستی سے بھی اجتنا ب کرنا چاہیے کیونکہ انسانی طبائع ایک دوسرے سے غیر محسوس طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ (۵) جھوٹا شخص سراب کی طرح ہوتا ہے جس سے دور کی چیز یں نزدیک اور نزدیک کی اشیاء دور نظر آتی ہیں۔ جھوٹ کا عادی شخص تمہارے وہ خصائل بیان کریگا جن سے تم خالی ہو اور تمہاری جن غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے محض تمہیں خوش کرنے کیلئے ان سے پہلوتہی کر ے گا۔
منگل، 7 جولائی، 2020
صبر
صبر
صبر کا معنی ہے : کسی چیز کو تنگی میں روکنا ، نیز کہتے ہیں کہ نفس کو عقل اورشریعت کے تقاضوں کے مطابق روکنا صبر ہے۔ مختلف مواقع اورمحل استعمال کے اعتبار سے صبر کے مختلف معانی ہیں، مصیبت کے وقت نفس کے ضبط کرنے کو صبر کہتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں جزع اوربے قراری ہے اورجنگ میں نفس کے ثابت قدم رہنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں بزدلی ہے، حرام کاموں کی تحریک کے وقت حرام کاموں سے رکنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں فسق ہے، عبادت میں مشقت جھیلنے کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں معصیت ہے ، قلیل روزی پر قناعت کو بھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں حرص ہے ، دوسروں کی ایذارسانی برداشت کرنے کوبھی صبر کہتے ہیں اوراس کے مقابلہ میں انتقام ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صبر کی دوقسمیں ہیں، مصیبت کے وقت صبر اچھا ہے، اوراس سے بھی اچھا صبر ہے اللہ کے محارم سے صبر کرنا(یعنی نفس کوحرام کاموں سے روکنا)۔(ابن ابی حاتم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہواتھا، آپ نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھائوں جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں نفع دے ، میں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : اللہ کو یاد رکھو ، اللہ تمہیں یاد رکھے گا اللہ کو یاد رکھو تم اس کو اپنے سامنے پائو گے ، اللہ تعالیٰ کو آسانی میں یادرکھو وہ تم کو مشکل میں یادرکھے گا، اورجان لو کہ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے وہ تم سے ٹلنے والی نہیں تھی اورجو مصیبت تم سے ٹل گئی ہے وہ تمہیں پہنچنے والی نہیں تھی اوراللہ نے تمہیں جس چیز کے دینے کا ارادہ نہیں کیا تمام مخلوق بھی جمع ہوکر تمہیں وہ چیز نہیں دے سکتی اورجو چیز اللہ تمہیں دینا چاہے تو سب مل کر اس کو روک نہیں سکتے قیامت تک کی تمام باتیں لکھ کر قلم خشک ہوگیا ہے ، جب تم سوال کرو تو اللہ سے کرو اورجب تم مدد چاہو تو اللہ سے چاہو اورجب تم کسی کا دامن پکڑ وتو اللہ کا دامن پکڑواورشکر کرتے ہوئے اللہ کے لیے عمل کرو اورجان لو کہ ناگوار چیز پر صبر کرنے میں خیر کثیر ہے اورصبر کے ساتھ نصرت ہے اورتکلیف کے ساتھ کشادگی ہے اورمشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔ حضرت ابوالحویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے خوشی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہ قدر حاجت رزق دیا اوراس نے اس پر صبر کیا ۔(امام بیہقی )
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو مسلمان لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اوران کی ایذاء پر صبر کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اوران کی ایذاء پر صبر نہیں کرتا۔(امام بخاری ، ترمذی ، ابن ماجہ )
پیر، 6 جولائی، 2020
دوستی
دوستی
امام غزالی ارشاد فرماتے ہیں: انسان تین طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض غذا کی طرح جن کے بغیر چارہ نہیں، بعض دوا کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی ضرورت خاص اوقات میں پڑتی ہے۔ بعض بیماری کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ شعورو آگہی کے ساتھ روشناسِ خلق رہنے میں بھی بڑی افادیت ہے۔ مختلف اشخاص میں جو برائیاں نظر آئیں انسان ان سے بچے۔ نیک وہی ہے جو دوسروں سے نصیحت پکڑے۔ کیونکہ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے استفسار کیا گیا ہے کہ آپ نے ادب کس سے سیکھا، آپ نے فرمایا، مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا، صرف جاہل کی جہالت دیکھ کر میں نے اسے ترک کردیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اگر آدمی اس بات کو ترک کر دے جو دوسروں سے اسے بری محسوس ہوتی ہے تو اسے کسی ادب سکھانے والے کی ضرورت نہیں رہتی اور اسکے اخلاق خودبخود سنور جاتے ہیں۔ حقوق صحبت اور دوستی کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب تم کسی معاملے میں کسی کو شریکِ کار بنائو تو صحبت کے حقوق کو ملحوظ ِخاطر رکھو۔ جنابِ سرورکا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: بھائی ہاتھوں کی طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھوتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگل میں دومسواک لیے جن میں ایک ٹیرھا اور دوسرا سیدھا تھا۔ آپؐ کے ساتھ اس وقت ایک صحابی تھے۔ آپؐ نے سیدھا مسواک اُس صحابی کو عنایت فرمایا اور ٹیرھا اپنے لیے رکھ لیا۔ انھوں نے خدمت اقدس میں گزارش کی، یارسول اللہ سیدھا مسواک آپ کا ہی حق تھا۔ آپؐ نے فرمایا جو ایک لمحہ کا بھی ساتھی بنے تو اس سے پوچھا جائیگاکہ اس ایک لمحہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ صحبت کے حقوق اداکیے ہیں یا نہیں۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ دو ساتھی کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں کہلا سکتے۔ جب تک انکی صحبت اللہ تعالیٰ کیلئے نہ ہو یا وہ باہم نرمی سے پیش نہ آئیں۔ آج ہمارے معاشرے میں جنسِ سے ایثارو محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ خودغرضی کا چلن عام ہو رہا ہے۔ بالعموم دیکھا جاتاہے کہ کاروبار میں باہمی اشتراک وتعاون زیادہ عرصہ تک چلتا نہیں اور اسکی وجہ بھی عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ کہ ایک شراکت دار دوسرے کو دھوکہ دیتا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے ایثار سے کام لینے کے بجائے خود غرضی سے کام لیتا ہے۔ ایسے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہمارے رہنما ہیں۔ پہلے تو یہ کہ رفاقت کا انتخاب کر تے ہوئے احتیاط ودانش سے کام لینا چاہیے اور پھر اعتماد وایثار کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔
اتوار، 5 جولائی، 2020
صاحبِ خلقِ عظیم … (۳)
صاحبِ خلقِ عظیم … (۳)
ایک دن سرکاردوعالم ﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک شخص دور دراز کا سفر طے کر کے آپکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ حضور اکرم ﷺ کی سخاوت کا شہرہ سنا توآپکے پا س پہنچا اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ! ہمارا علاقہ کئی مہینوں سے قحط کا شکار ہے ، بارش کا ایک قطر ہ آسمان سے نہیں ٹپکا۔ غذا کیلئے کچھ بھی میسر نہیں۔ آپکی سخاوت کا چرچا سن کر حاضر ہوا ہوں مجھے کچھ عنایت فرمائیے ۔یہ اتفاق تھاکہ جس وقت اس شخص نے دستِ سوال درازکیا ۔ آپکے پاس تھوڑی سی کھجوریں موجود تھیں آپ نے فرمایا ساری کھجوریں تم لے لو ۔وہ توبہت زیادہ کی امید لے کر آیاتھا ۔بڑامایوس ہوا، اورچلانے لگا کہ میں آپکو بڑاسخی سمجھ کر حاضر ہوا تھا۔ آپ میر ے ساتھ کیاسلوک کررہے ہیں۔اس بدتہذیبی پر صحا بہ کرام کا طیش میں آنا ایک فطری عمل تھا انکے ہاتھ بے ساختہ تلواروں کے دستوں کی طرف گئے۔آپ نے صحابہ کے تیور دیکھے تو فرمایا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ میر امہمان ہے ۔میں جانتا ہوں کہ اسکے ساتھ کیا سلوک کر نا ہے۔صحابہ کے ہاتھ رک گئے اور وہ شخص بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اللہ رب العزت کے کرم سے کھجوروں سے لد ے بہت سے اونٹ آپکے پاس آگئے،اور کھجوروں کا ڈھیر لگ گیا۔آپ نے پوچھا تمھارا صبح والا بھائی کہاں ہے۔لوگوں نے کہا کہ وہ غصے کی حالت میں مسجد سے نکل گیا تھا آپ نے فرمایا اُسے تلاش کر کے لے آئو۔چنانچہ تلاش بسیار کے بعد اسے آپکی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے فرمایا کھجوروں کا ڈھیر دیکھ رہے ہو۔جتنا چاہو لے لو جب تم راضی ہوجاؤ گے پھر کسی اور کو ملے گا۔اور اگر تم سارابھی لے جاؤتو کوئی ممانعت نہیں ۔وہ خوشی سے پھولا نہیں سمایا ۔اپنے اونٹوںپر اتنا لاد لیا کہ ان کیلئے اُٹھنا دشوار ہوگیا ۔ پھراس نے بڑی وارفتگی سے جنا ب رسالت مآب کی تعریف شروع کردی ۔اسکے تعریفی کلمات سن کر صحابہ کرام کا انقباض دور ہوگیا اورانکے چہر ے پھولوں کی طرح کھل اُٹھے ۔حضور نے یہ منظر دیکھا تو صحابہ سے پوچھا ۔صبح جب یہ ناراض ہو رہاتھا ، اگر تم اسے قتل کردیتے تو اس کا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔انھوں نے عرض کی بلاشبہ جہنم میں۔ آپ نے پوچھا اب اگر اسے موت آجائے تو اس کا مقام کہاں ہو گا۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بلاشبہ جنت الفردوس کی بہاریں اسکی منتظر ہوں گی ۔
حضور نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔اے میر ے صحابہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کا اونٹ بھاگ گیا ۔لوگ اسے پکڑنے کیلئے دوڑ ے لیکن وہ لوگوں نے آوازیں سن کر مزید بدک کیا ۔ اتنے میں اس کا مالک آگیا اسے تمام حالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا اے لوگو! تم اپنی توانا ئیاں ضائع نہ کرو یہ میر ااونٹ ہے اور میں ہی جانتا ہوں کہ اسے کیسے پکڑنا ہے۔پھر اس نے سبز چارہ اپنی جھولی میں ڈالا اونٹ کو مخصوص انداز میں بلایا ،اونٹ نے مانوس آواز سنی تو فوراً پلٹ آیا ۔حضور نے فرمایا :تم بھی اس بھاگے ہوئے اونٹ کی طرح ہو اور میں اس مالک کی طرح ہوں، مجھے معلوم ہے تمھیں کس طرح اللہ کی بارگاہ میں لانا ہے۔
ہفتہ، 4 جولائی، 2020
صاحبِ خلقِ عظیم(۲)
صاحبِ خلقِ عظیم(۲)
حضور نبی رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایاتاکہ میں اخلاق حسنہ کودرجہ کمال تک پہنچادوں۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا اور میں نے بطریق احسن ادب سیکھ لیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں مشکوۃ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہونے کا موقع میسر آیا۔ آپکے خلق کے بارے میں کتنی پرمعنی اور گہری بات کرتی ہیں ’’حضورؐ کا خلق قرآن تھا، اسکے امر ونہی کی تعمیل حضور کی فطرت کا تقاضا تھا۔ اس بارے میں حضورؐ کو غور وفکر اور سوچ بچار کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ام المومنین نے حضوراکرم ﷺ کے خلق کو مزید تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا ’’اللہ کے پیارے رسولؐ سے زیادہ کوئی شخص بھی اخلاق حسنہ سے متصف نہیں تھا۔ حضورؐ کا خلق قرآن تھا جس سے قرآن راضی ہوتا اس سے حضورؐ راضی ہوتے جس سے قرآن ناراض ہوتاحضورؐ اس سے ناراض ہوتے حضورؐ فحش کلام نہ تھے اور نہ بازاروں میں شور کرنیوالے تھے۔ نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ حضورؐ کا شیوہ عفوو درگزر تھا۔ ان ارشادات کے بعد آپ نے سائل کو بتایاکہ وہ سورۃ المومنون کی پہلی دس آیتیں تلاوت کرے‘ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی زبان قدرت سے اپنے حبیب لبیب کے اخلاق مبارکہ کاذکر فرمایاہے‘‘ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب حضورؐ کے خلق کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا کان خلقہ القرآن آپ کا مقصد یہ تھاکہ حضورؐ کے اخلاق، اخلاق ربانیہ کا عکس جمیل ہیں لیکن بارگاہ خداوندی کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہا کہ حضور اخلاق ِ خداوندی سے متصف ہیں بلکہ فرمایا حضورؐ کا خلق قرآن کریم کے اوامرو نواہی کے عین مطابق تھا۔ ‘‘ حضور اکرم ﷺ کے خاص خدمت گزار حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں۔ میں نے اللہ کے پیارے رسولؐ کی دس سال خدمت کی (اس وقت انکی عمر آٹھ سال تھی اور وہ سفر حضر میں حضور کی خدمت میں رہا کرتے تھے) اس طویل عرصہ میں رحمت عالمؐ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔ جو کام میں کرتا اسکے بارے میں کبھی نھیں فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، جو کام نہ کرتا اسکے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ آپ نے کبھی میرے کسی کام میں نقص نہیں نکالا (بخاری ومسلم)۔
جمعہ، 3 جولائی، 2020
صاحبِ خُلقِ عظیم … (۱)
صاحبِ خُلقِ عظیم … (۱)
حضور اکرم ﷺاللہ رب العزت کی بارگاہِ عالیہ میں دستِ دعا درازکرتے سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ جس طرح تو نے میری ظاہری شکل وشباہت کو حسین و دلنواز بنایا اسی طرح میری خُلقْ کو بھی حسین وجمیل بنا دے۔ امام احمد اور ابن حبان نے یہ دعا بھی روایت کی ہے۔ ’’اے اللہ میر ے اخلاق کو دلکش وزیبا بنا دے کیونکہ خوبصورت اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی فرماتا ہے۔‘‘ ہم عام طور پر خُلقْ کے سرسری تصور سے آشنا ہیں، محض خندہ پیشانی، خوش طبعی اور مسکراہٹ سے مل لینے کو اخلاق گردانتے ہیں۔ ’’خُلقْ‘‘ کا معنی ومراد اپنے ذیل میں بڑی گہرائی رکھتا ہے۔ لغتِ عرب کے مشہور امام علامہ ابن منظور کہتے ہیں ۔ خُلقْ اور خَلقْ کا معنی فطرت اور طبیعت ہے۔ انسان کی باطنی صورت کو اور اسکے مخصوص اوصاف ومعانی کو خُلقْ کہتے ہیں۔علامہ یوسف الصالحی الشامی کہتے ہیں۔ حسن خُلقْ کی حقیقت وہ نفسانی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے افعال حمیدہ اور آداب پسندیدہ ہے عمل کرنا بالکل آسان ہو جاتا ہے اور یہ چیزیں (انسان) کی فطرت بن جاتی ہیں۔ امام محمد غزالی نے بڑی ہی خوبصورت وضاحت کی ہے ’’خُلقْ نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال بڑی سہولت اور آسانی سے صادر ہوتے ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانے میں کسی سوچ وبچار اور تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی یعنی وہ اعمال جو کسی سے اتفاقاً سرزد ہوتے ہیں یاکسی وقتی جذبہ اور عارضی جوش سے صادر ہوئے ہوں، خواہ کتنے ہی اعلیٰ وعمدہ ہوں انہیں خُلقْ نہیں کہا جائیگا۔ خُلقْ کا اطلاق ان خصائل حمیدہ اور عادات مبارکہ پر ہوگا جو پختہ ہوں اور جن کی جڑیں قلب و روح میں بہت گہری ہوں۔ ایسی محمود عادتیں فطری اور وہبی بھی ہو سکتی ہیں اور مسلسل تربیت، اکتساب اور صحبت صالحین کا نتیجہ بھی لیکن یہ ضروری ہے کہ انسان کی سرشت میں اس طرح رچ بس گئی ہوں۔ حسنِ خُلقْ میں مندرجہ ذیل امور کو شامل کیا جاتا ہے انسان بخل وکنجوسی سے پرہیز کرے جھوٹ نہ بولے دیگر اخلاق مذمومہ سے بچارہے۔ لوگوںسے ایسا کلام کرے اور ایسے کام کرے جو پسندیدہ ہوں کشادہ روئی کیساتھ سخاوت کرے۔ اپنوں بیگانوں سے خندہ پیشانی سے ملے۔ اور ہر مصیبت پر صبر کرے۔ اللہ نے اپنے محبو ب کے خُلقْ کے بارے میں فرمایا۔ ’’اور بیشک آپ عظیم الشان خُلقْ کے مالک ہیں (القلم)۔ اگرچہ یہ امور مشکل ہیں اور ہر موقع پر ان پر عمل پیر ہونا آسان نہیں لیکن اللہ کے محبوب بڑی سہولت اور آسانی سے تمام حالات میں ان پر عمل پیرارہتے ہیں۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
روزہ اور اس کے مقاصد(۲) روزے کا پانچواں مقصد ضبط نفس کا حصول ہے۔ بھوک اور جنسی خواہش کے ساتھ تیسری خواہش راحت پسندی بھی اس کی زد میں آ...