اتوار، 5 جولائی، 2020

صاحبِ خلقِ عظیم … (۳)

صاحبِ خلقِ عظیم … (۳)


ایک دن سرکاردوعالم ﷺ تشریف فرماتھے کہ ایک شخص دور دراز کا سفر طے کر کے آپکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ حضور اکرم ﷺ کی سخاوت کا شہرہ سنا توآپکے پا س پہنچا اور گزارش کی کہ یا رسول اللہ! ہمارا علاقہ کئی مہینوں سے قحط کا شکار ہے ، بارش کا ایک قطر ہ آسمان سے نہیں ٹپکا۔ غذا کیلئے کچھ بھی میسر نہیں۔ آپکی سخاوت کا چرچا سن کر حاضر ہوا ہوں مجھے کچھ عنایت فرمائیے ۔یہ اتفاق تھاکہ جس وقت اس شخص نے دستِ سوال درازکیا ۔ آپکے پاس تھوڑی سی کھجوریں موجود تھیں آپ نے فرمایا ساری کھجوریں تم لے لو ۔وہ توبہت زیادہ کی امید لے کر آیاتھا ۔بڑامایوس ہوا، اورچلانے لگا کہ میں آپکو بڑاسخی سمجھ کر حاضر ہوا تھا۔ آپ میر ے ساتھ کیاسلوک کررہے ہیں۔اس بدتہذیبی پر صحا بہ کرام کا طیش میں آنا ایک فطری عمل تھا انکے ہاتھ بے ساختہ تلواروں کے دستوں کی طرف گئے۔آپ نے صحابہ کے تیور دیکھے تو فرمایا اتنا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں یہ میر امہمان ہے ۔میں جانتا ہوں کہ اسکے ساتھ کیا سلوک کر نا ہے۔صحابہ کے ہاتھ رک گئے اور وہ شخص بڑبڑاتا ہوا مسجد سے باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اللہ رب العزت کے کرم سے کھجوروں سے لد ے بہت سے اونٹ آپکے پاس آگئے،اور کھجوروں کا ڈھیر لگ گیا۔آپ نے پوچھا تمھارا صبح والا بھائی کہاں ہے۔لوگوں نے کہا کہ وہ غصے کی حالت میں مسجد سے نکل گیا تھا آپ نے فرمایا اُسے تلاش کر کے لے آئو۔چنانچہ تلاش بسیار کے بعد اسے آپکی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے فرمایا کھجوروں کا ڈھیر دیکھ رہے ہو۔جتنا چاہو لے لو جب تم راضی ہوجاؤ گے پھر کسی اور کو ملے گا۔اور اگر تم سارابھی لے جاؤتو کوئی ممانعت نہیں ۔وہ خوشی سے پھولا نہیں سمایا ۔اپنے اونٹوںپر اتنا لاد لیا کہ ان کیلئے اُٹھنا دشوار ہوگیا ۔ پھراس نے بڑی وارفتگی سے جنا ب رسالت مآب کی تعریف شروع کردی ۔اسکے تعریفی کلمات سن کر صحابہ کرام کا انقباض دور ہوگیا اورانکے چہر ے پھولوں کی طرح کھل اُٹھے ۔حضور نے یہ منظر دیکھا تو صحابہ سے پوچھا ۔صبح جب یہ ناراض ہو رہاتھا ، اگر تم اسے قتل کردیتے تو اس کا ٹھکانہ کہاں ہوتا۔انھوں نے عرض کی بلاشبہ جہنم میں۔ آپ نے پوچھا اب اگر اسے موت آجائے تو اس کا مقام کہاں ہو گا۔ انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بلاشبہ جنت الفردوس کی بہاریں اسکی منتظر ہوں گی ۔

حضور نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔اے میر ے صحابہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کا اونٹ بھاگ گیا ۔لوگ اسے پکڑنے کیلئے دوڑ ے لیکن وہ لوگوں نے آوازیں سن کر مزید بدک کیا ۔ اتنے میں اس کا مالک آگیا اسے تمام حالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا اے لوگو! تم اپنی توانا ئیاں ضائع نہ کرو یہ میر ااونٹ ہے اور میں ہی جانتا ہوں کہ اسے کیسے پکڑنا ہے۔پھر اس نے سبز چارہ اپنی جھولی میں ڈالا اونٹ کو مخصوص انداز میں بلایا ،اونٹ نے مانوس آواز سنی تو فوراً پلٹ آیا ۔حضور نے فرمایا :تم بھی اس بھاگے ہوئے اونٹ کی طرح ہو اور میں اس مالک کی طرح ہوں، مجھے معلوم ہے تمھیں کس طرح اللہ کی بارگاہ میں لانا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں