بدھ، 31 مئی، 2023

Shortvideo -صرف اللہ کی عبادت آخر کیوں؟

Surah Al-Araf ayat 193-195 part-01.کیا ہمارا رخ اللہ تعالی کی طرف نہیں ہے

تواضع


 

تواضع

ارشاد باری تعالی ہے۔ـــــ

 ’’مومنین کے ساتھ انکساری سے پیش آئیں‘‘۔ حضرت زارع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ’’ اور وہ عبد القیس کے وفد میں شامل تھے ‘‘ فرمایا جب ہم مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اپنی سواریوں کو پیچھے چھوڑ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آ پ ؐ کے دست اقدس اور قدم مبارک کو بو سہ دینے لگے۔ (ابو د ائود )سر کار دو عالم ؐ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم اجمعین سے فرما یا ! کیا بات ہے کہ تم میں عبادت کی حلاوت کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ انہوں نے عرض کیا حضور ﷺ عبادت کی حلاوت کیا ہے؟ 

فرمایا عاجزی و انکساری۔ سرور دو عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ! جب تم میری امت میں عاجزی انکساری کرنے والے دیکھو تو تم بھی ان کے ساتھ انکساری سے پیش آ ئواور جب تم تکبر کر نے والے دیکھو تو ان سے تکبر کے ساتھ پیش آ ئو  ۔ یہ ان کے لیے ذلت و خواری کا باعث ہو گا۔ اور فرمایا ! تم افضل ترین عبادت ’’ تواضع سے غفلت بر تتے ہو ‘‘۔ حضرت قتا دہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ! جسے مال و دولت یا حسن و جمال یا بیان یا علم کی دولت عطا ہوئی ، پھر اس نے اس پر تواضع و انکساری اختیار نہ کی تو اس پر یہ قیامت کا روز وبال جان ہو گا۔

 سید الا نبیا ئؑ نے فرمایا ! جب بندہ تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ساتویں آسمان تک کی بلندی عطا فرماتا ہے۔حضرت مجاہد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ! اللہ تعالی نے جب نو ح علیہ السلام کی قوم کو غرق کیا تو پہاڑوں نے فخر کیا اور بلندی پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگے۔ جو دی پہاڑ نے تواضع اپنائی تو اللہ تعالی نے اسے تمام پہاڑوں پر فوقیت عطا کر دی اور کشتی نو ح کو وہاں ٹھہرا دیا۔فرمایا : نبی اکرم ﷺ نے جس نے کسی امیر آدمی کی عزت اس کی دولت کی بنا پر کی تو اس کے دین کا دو تہائی حصہ چلا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! میری طرف وحی کی اللہ تعالی نے کہ" تواضع اختیار کرو اور تم میں سے کوئی دوسرے پر زیادتی نہ کرے ‘‘۔

 حضرت لقمان علیہ السلام نے فرمایا : تواضع نعمت ہے جس پر حسد نہیں کیا جاتا اور تکبر ایک ایسی مشقت ہے جس پر رحم نہیں کیا جاتا اور عزت تو تواضع میں ہے جس نے اسے تکبر کے اندر تلاش کیا نہ پا سکا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ کون سا اسلام اسلام ہے۔ آ پ ؐنے فرمایا کہ تو کھانا کھلا اور سلام کہے واقف اور نا واقف کو ( بخاری )


Surah Al-araf ayat 188-192.کیا ہم عملا مشرک ہیں

Shortvideo - عبادت کی حقیقت

منگل، 30 مئی، 2023

اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے


 

اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے

ہر کام کا ایک جذبہ محرک ہوتا ہے جو اس کی انجام دہی میں سر گرمی پیدا کرتا ہے۔معاشرتی زندگی میں اسلام تلقین کرتا ہے کہ ہم اصلاح نیت کر لیں یعنی انسان شعوری طور پر یہ بات ذہن نشین رکھے کہ یہ کام اللہ تعالی کی رضا کے لیے کر رہا ہو ں۔ اگر اس طرح نیت کی اصلاح ہو جائے تو ہمارا ہر فعل عبادت کا مقام حاصل کر لے گا۔

ہر فعل کی انجام دہی آسان ہو جائے گی اور اس میں سر گرمی بھی پیدا ہوگی۔ نیت کے معنی قصد ،ارادہ اور عزم کے ہیں۔ نیت دل کے ارادہ کو کہتے ہیں۔اس حدیث مبارکہ میں نیت کی اہمیت کا تذکرہ ہے جو عمل کی بنیاد ہے کوئی کام اپنے نتیجہ کے لحاظ سے اتنا اچھا یا برا نہیں ہوتا جتنا نیت کے لحا ظ سے ہو تا ہے۔ قرآن مجید میں نیت کا معاملہ بڑے نمایا ں طور پر بیان کیا گیا ہے اور جگہ جگہ اخلاص اور حسن نیت کی ہدایت فرمائی ہے۔

 ارشاد باری تعالی ہے۔

’’ اور اس کو خالص فرمانبردار ہو کر پکارو ‘‘

 ایک اور جگہ ارشاد فرمایا 

’ پس آپ اللہ کے لیے اطاعت کو خالص کرتے رہئے اس کی عبادت کریں ‘‘

سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالی ہے:

 ’’ جو شخص دنیاوی اجر کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالی کے پا س دنیا و آخرت دونوں کے بدلے ہیں اور اللہ تعالی سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘ 

اس آیت مبارکہ میں سمیع و بصیر کے الفاظ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ وہ قادر و قدیر خدا تمہارے دلوں کی آواز کو سننے والا اور پوشیدہ رازوں کا جاننے والا ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مدینہ کی ام قیس نامی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے کہا کہ تم اگر مدینہ آ جائو تو میں تم سے نکا ح کر لو گی اور پھر جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہ شخص بھی مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آگیا اور اس نے اس عورت سے نکاح کر لیا۔ چنانچہ صحابہ کرام اس شخص کو مہاجر ام قیس کہ کر پکارتے تھے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے ایسی ہجرت کو لغو اور بے کار قرار دیا۔کیو نکہ یہ ہجرت دنیاوی کام کے حصول کے لیے تھی۔ اس لیے ہجرت جو عظیم عبادت ہے نیت کی خرابی کے باعث اجر و ثواب سے محروم ہو گئی۔نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا  ’’مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے‘‘  ایک اور جگہ ارشاد فرمایا’’ جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا یا نماز پڑھی یا دکھاوے کا صدقہ دیا شرک ہے‘‘


Surah Al-Araf ayat 187.کیا ہمیں قیامت پر یقین بالکل نہیں ہے

Shortvideo - کیا ہم فضول زندگی گزار رہے ہیں؟

پیر، 29 مئی، 2023

خوف خدا

 

خوف خدا

’ــ’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :

 (روز قیامت )اللہ تعالی فرمائے گا :

’’ دوزخ سے ایسے شخص کو نکال دو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا میرے خوف سے کبھی بھی مجھ سے ڈرا‘‘۔

 ’ــ’حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : 

دو آنکھوں کو (دوزخ کی ) آگ نہیں چھوئے گی : وہ آنکھ جو اللہ تعالی کے خوف سے روئی اور دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ تعالی کی راہ میں پہرا دے کر رات گزاری ہو ‘‘۔

’ــ’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : 

جس نے اللہ تعالی کو یاد کیا اور اس کے خوف سے اس کی آ نکھیں  اس قدر اشک بار ہوئیں کہ زمین تک اس کے آنسو پہنچ گئے تو اللہ تعالی قیامت کے دن عذاب نہیں دے گا ‘‘۔

’ــ’حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :

’’اللہ تعالی کو دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں : اللہ تعالی کے خوف سے (بہنے والے )  آنسوئوں کا قطرہ اور اللہ تعالی کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ ۔

 رہے دو نشان تو ایک (ہے) اللہ تعالی کی راہ  (میں چلنے ) کا نشانے

 اور (دوسرا ہے ) اللہ تعالی کے فرائض میں (پڑجانے والے)کسی فریضہ  (کی ادئیگی ) کا نشان ـ‘‘۔

’ــ’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : 

’’اللہ تعالی نے فرمایا : مجھے اپنی عزت کی قسم ـ! میں اپنے بندے پر دو خوف اور دو امن اکھٹے نہیں کروں گا  اگر وہ مجھ سے دنیا میں خوف رکھے گا تو میں اسے قیامت کے روزامن میں رکھوں گا اور اگر وہ مجھ سے دنیا میں بے خوف رہا تو  میں اسے قیامت کے روز خوف میں مبتلا کروں گا ‘‘۔ 

اللہ پاک ہم سب کو خوف خدا میں رونے والی آنکھ نصیب فرمائے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم دنیا آخرت میں سر خرو ہو سکیں ۔ 

Surah Al-Araf ayat 186.کیا ہم سب سیدھے راستے سے بھٹک چکے ہیں

Shortvideo - کیا ہم نے جنت میں اپنا گھر بنا لیا ہے؟

اتوار، 28 مئی، 2023

اتباع رسول ﷺ

 

اتباع رسول ﷺ

فیض ہو کہ در جہ عرفان ، دولت کشف ہو خواہ نعمت انواریا اسرا ر الٰہی ، یہ سب سعادت دارین میں شامل ہیں اور تمام اکابر اولیا ء اللہ اور صاحب تقوی حضرات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دین دنیا کی کوئی نعمت ودولت سعادت رسول اللہ کی اتباع کامل کے بغیر حاصل و میسر نہیں ہو سکتی۔ قرآن حکیم کی متعدد آیات کریمہ اسکی تائید میں ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’فرما دیجیے (اے محمد ﷺ ) کہ اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تم اللہ کے محبوب ہو جائوگے‘‘ شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب شر ح فتوح الغیب میں اس آیت کے معنی بیان کیے ہیں کہ اے محمدﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے محب اور میرے محبوب اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو اور بارگاہ خدا وندی میں خاص مرتبہ پانے کے خواہش مند ہو کہ خدا تمہارا ہو جائے اور تمہیں دوست رکھے تو تم میری پیروی کرو۔ پس ثابت ہوا کہ اتباع رسول ﷺ ہی سب کچھ ہے۔ بعض اس حکم کی تائید درج ذیل آیت سے کرتے ہیں :ترجمہ : ’’ اور اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘۔ملا حسین واعظ کاشفی نے تفسیر حسینی میں صراحتا لکھا ہے کہ اس آیت شریفہ کا مطلب واضح ہے۔ یعنی سب مل کر رسول اللہ ﷺکی پیروی کریں ، کیو نکہ جب تک آپ ؐ کی ظاہری و باطنی پیروی نہ کی جائیگی ، مطلوب حقیقی حاصل نہ ہو گا۔عبد الکریم چشتی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ میں لکتھے ہیں کہ از روئے حدیث اتباع رسول ؐ کی تین قسمیں ہیں۔’’الشر یعۃ اقوالی ، والطرقۃ افعالی والحقیقۃ احوالی ‘‘ اور احکام قرآن و حدیث دو قسم کے ہیں : اچھے اور بہت اچھے ، پہلی قسم کو’’ شریعت" کہتے ہیں اور دوسری کو ’’الطریقت ‘‘ شریعت اور طریقت دونوں کا نتیجہ ’’حقیقت‘‘ کہلاتا ہے اور یہ تیسری قسم ہے۔ کوئی سالک جب شریعت و طریقت دونوں میں مکمل ہو جاتا ہے تو حقیقت اس پر منکشف ہو جاتی ہے۔اور اسکی عمدہ اور نفیس ترین مثال خیرالتابعین سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ، جو اتباع رسول ﷺ کی تصویر کامل تھے۔ مشاغل جلالی میں لکھا ہے کہ حضرات شیوخ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ بھی اتباع رسول ﷺ ہی تھا ، جس کی تین صورتیں ہیں۔ اول : آپ ؐ کے اعمال کی نہایت استقامت کیساتھ اتباع کرنا۔اور یہ کام اعضا ء کا ہے۔دوم: اخلاق رسول ﷺ پر قائم رہنا۔ اور یہ کام دل کا ہے۔ سوم : آپ ؐ کے احوال کی پیروی۔ اور یہ کام روح کا ہے احوال پر استقامت انتہائی سعادت کا درجہ ہے اور یہ بغیر پیروی اخلاق اور اخلاق بغیر پیروی حاصل نہیں ہو سکتا ، اس لیے کہ اخلاق کی اعمال کیساتھ ایسی نسبت ہے جیسی کہ طہارت کی وضو کیساتھ ، اور اخلاق احوال کیلئے اتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ وضو نما کیلئے۔ پھر متابعت اعمال کا مطلب ہے کہ احکام الٰہی کی بحسن و خوبی بجا آوری میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا جائے اور منکرات و ممنوعات سے مجتنب رہا جائے۔

Shortvideo - کیا آج کا مسلمان گمراہ ہے؟

فضائل حج و عمرہ

 

  فضائل حج و عمرہ 

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا : جس نے اس گھر (کعبہ ) کا حج کیا پس وہ نہ تو عورت کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو (تمام گناہوں سے پاک ہو کر ) اس طرح لوٹا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا‘‘۔ 

’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ؐنے فرمایا : 

’’ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے ، اور حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے‘‘

’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ؐنے فرمایا :

’’جس شخص کو فریضہ حج میں کی ادائیگی میں میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم باد شاہ یا روکنے والی بیماری نہ روکے اور وہ پھر بھی حج نہ کرے اور مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالی کو اس کی کوئی فکر نہیں )‘‘ 

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ؐنے فرمایا : 

’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کے مہمان ہیں ، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے ‘‘۔

’ ’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے حجر اسود سے متعلق فرمایا : ’’اللہ تعالی کی قسم ! قیامت کے دن اللہ تعالی اسے دو آنکھیں عطا فرمائے گا جن سے یہ دیکھے گا اور ایک زبان عطا فرمائے گا جس سے یہ بولے گا اور ہر اس شخص کے متعلق گواہی دے گا جس نے حالت ایمان میں اسے بوسہ دیا ‘‘۔

 ’ ’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا : ’’اے لوگو ! تم پر حج فرض کر دیا گیا ہے پس حج کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ آپ ؐ خاموش رہے یہاں تک کہ تین مرتبہ اس نے یہ ہی عرض کیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : اگر میں ہاں کہ دیتا تو (ہرسال ) فرض ہو جاتا اور پھر تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا : میری اتنی بات پر اکتفا کیا کرو جس پر میں تمہیں چھوڑوں ، اس لیے کہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیا ء سے اختلاف کرنے کی بناء پر ہی ہلاک ہوئے تھے ، لہٰذا جب میں تمہیں کسی شے کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے بجا لائو اور جب کسی شے سے منع کروں تو اسے چھوڑ دیا کرو ‘‘۔


جمعہ، 26 مئی، 2023

Shortvideo - کیا ہم مومن ہیں؟

درود پاک کے لیے حکم الٰہی

 

درود پاک کے لیے حکم الٰہی

ارشاد ربانی ہے : ’’ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے آپ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو تم بھی نبی کریم ﷺ پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور ﷺ خوشی سے اپنے حجرئہ مبارک سے باہر تشریف لے آئے اور فرمانے لگے میرے صحابہ مجھے مبارک پیش کرو کیو نکہ میرے بارے میں اس وقت ایسی آیت مبارکہ نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا و مافیھما سے بہتر ہے پھر سرور کائنات نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ۔ میں آقا کریم ﷺ کا چہرہ مبارک انار کے دانوں کی طرح چمکتا ہوا اور ہشاش بشاش دیکھا ۔پھر میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ کو مبارک ہو اس کے بعد صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اس آیت مبارکہ کی حقیقت سے آگاہ فرمائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوںنے مجھ سے یہ پوشیدہ اور راز کی بات پوچھ لی ۔ اگر نہ پوچھتے تو میں تازندگی اظہار نہ کرتا ۔ اب سن لو کہ اللہ تعالی نے ہر شخص کے لیے دو دو فرشتے مقرر کر رکھے ہیں کہ جب کوئی بندہ مومن مجھ پر درود بھیجتا ہے تو دونوں فرشتے بول اٹھتے ہیں کہ اللہ پاک تمہاری بخشش فرمائے ۔ ان دو فرشتوں کی دعا پر اللہ تعالی خود فرشتوں کے ساتھ جوابا فرماتا  ـ’’ آمین‘‘۔اس طرح جب کسی بندہ مومن کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے تو اس وقت وہ دو فرشتے کہتے ہیں کہ اللہ تمہاری مغفرت نہ کرے ۔ تو جوابا اللہ بھی ان کے ساتھ کہتا ہے’’ آمین ــ‘‘۔ پس بندے کا درود شریف پڑھنا اپنی مغفرت کی درخواست کی قبولیت پر خود اللہ تعالی کی طرف سے مہر کا لگ جانا ہے اور محمد ﷺ کا نام مبارک سن کر درود شریف نہ پڑھنے سے اپنی مغفرت کی ناقبولیت پر خود خدا کی طرف سے مہر لگ جانے کے مترادف ہے ۔منقول ہے کہ بنی اسرائیل کے زمانے میں ایک سخت بد کار ، فاسق و فاجر شخص تھا ۔ جب وہ فوت ہوا تو لوگو ں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ظالم شخص سے نجا ت حاصل ہوئی اسے غلاظت اور ناپاکی کے ڈھیر پر ڈال آئے ۔حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کی بارگا ہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میرے بندے کو غلاظت سے اٹھائو اور اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کر اور اعلان کرو جو اس کے جنازے میں شرکت کرے گا االلہ پاک اس کے گنا ہ معاف کر دے گا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں عرض کی میرے مالک یہ معاملہ کیا ہے تو اللہ پاک نے فرمایا میرے بندوں نے اس کی خطائیں دیکھی ہیں ۔ مگر جب یہ تورات کی تلاوت کرتا تھا تو جب نبی کریم ﷺ کا نام آتا تو ادب سے اس کو بار بار چومتا مجھے اس کا یہ عمل پسند آیا تو میں نے اس کے گناہ معاف کر دیے اوراس کی بخشش فرما دی ۔

جمعرات، 25 مئی، 2023

Surah Al-araf ayat 180-183 .کیا ہم اسفل سافلین میں سے ہیں

جرأتِ اظہار

جرأتِ اظہار

بعثت مبارکہ کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد ۳۸ ہوگئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت مآب علیہ التحیۃ الثناء میں عرض کی کہ اب ہمیں کھل کر میدان میں آنا چاہیے اورتبلیغ اسلام کا فریضہ پوری قوت سے انجام دینا چاہیے ، آپ نے ارشاد فرمایا، اے ابوبکر ابھی ہماری تعداد کم ہے، لیکن ان کا اصرار جاری رہا تو آپ نے اس پر صادفرمادیا ، مسلمان آپ کی معیت میں دارارقم سے صحن حرم میں آگئے ، جب لوگ بیٹھ گئے، توحضرت سیدنا ابوبکر صدیق خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے ، یہ اسلام کی طرف سے پہلا اعلانیہ خطبہ تھا، جس کی سعادت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہو رہی تھی، کفار نے یہ خطبہ سناتو آگ بگولہ ہوگئے ، مشتعل ہوکر ، مسلمانوں پر دھاوا بول دیا، خاص پر حضرت ابوبکر صدیق کو اپنے بیمانہ تشدد کا نشانہ بنالیا، آپ کو دھکادیکر زمین پر گرادیا، اوپر چڑھ کرپائوں سے لتارنے لگے اورڈنڈوں سے زردکوب کرنا شروع کردیا، اتنے میں بدبخت سردار عتبہ بن ربیعہ آگیا ، اس نے اپنے بھاری بھرکم جوتے اتارلیے اوران سے آپکے چہرہ اقدس پر پے درپے ضربیں لگانے لگا اورآپ کے پیٹ پر چڑھ کر کودنے لگا، آپ کا چہرہ اس طرح سوج گیا، کہ اسکی سوزش میں ناک نظر بھی نہیں آہی تھی ، آپ کے قبیلہ بنو تیم کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے دوڑے آئے، آپکو مشرکین کے نرغے سے نکالاایک کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے آئے، اوراعلان کردیا کہ اگر ان کی ہلاکت ہوگئی تو ہم عتبہ کو ضرور تہہ تیغ کردینگے، حضرت ابوبکر صدیق پر سارا دن غشی طاری رہی ، شام کے وقت کچھ ہوش آیا تو سب سے پہلا سوال یہ کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے۔ یہ سن کر آپکے قبیلے والے بہت ناراض ہوئے اورآپ کو ملامت کرنے لگے اورآپکے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے، آپکی والدہ آپکے پاس اکیلی رہ گئیں، تو انھوں نے آپ تقاضہ کیا کہ کچھ بولیئے، آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا کہ جناب رسالت مآب ﷺ کا کیا حال ہے، انھوں نے کہا مجھے تو کچھ خبر نہیں، آپ نے فرمایا: ام جمیل بنت خطاب سے دریافت کرکے آئیں، وہ آپ کی والدہ کوکچھ بتانے کی بجائے ان کے ساتھ آپ کے گھر آگئیں، انھوں نے آپ کی حالت زار کو دیکھا تو بہت بے قرار ہوئیں، لیکن آپ نے ان سے بھی وہی سوال کیا، انھوںنے کہا ، حضور دارارقم میں خیروعافیت سے ہیں، آپ نے فرمایا: بخدا میں اس وقت تک کچھ کھائوں گا اورنہ پیئوں گا جب تک اپنے آقاکریم کی زیارت نہ کرلوں ، رات سناٹا چھاگیا توآپ اپنی والدہ کا سہارا لے کر گھر سے نکلے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوگئے، آپ کی حالت دیکھ کر حضور پر رقت وگداز طاری ہوگیا، آپ نے مرض میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے جوتوں کی ضربوں کے علاوہ کوئی تکلیف محسوس نہیں ہورہی ،پس حضور میری والدہ کے اسلام کے لیے دعاء فرمادیں ۔ وہ اُسی وقت ایمان لے آئیں۔(ابن کثیر)

 

Surah Al-araf ayat 179 . کیا ہم عقل سے پیدل بن کر زندگی گزار رہے ہیں

Shortvideo - دین اسلام کیا ہے؟

بدھ، 24 مئی، 2023

بدگمانی بچو


 

بدگمانی بچو

صحابہ کرام حضور اکرم ؐ کی ذات والا تبار سے محبت کرتے تھے اور آپکی اطاعت کیلئے کوشاں رہتے تھے۔ آپکے وجودِ مسعود کو اپنے لیے خیرات وبرکات کا سبب سمجھتے تھے۔ آنجناب بھی انکے جذبہ ء ت واطاعت کی قدر دانی فرمایا کرتے تھے لیکن اسکے ساتھ آپ انکی تعلیم وتربیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ ذیل میں شیخین (امام بخاری وامام مسلم) کا روایت کردہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔عتبان بن مالک الانصاری (جو بدری صحابہ کرام میں سے ہیں ) حضور اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں،لیکن اب میری بینائی کمزور ہوگئی ہے، جب بارش ہوتی ہے تو میں مسجد تک نہیں جا سکتا کیونکہ میرے گھر اور اسکے درمیان ایک نالہ حائل ہے جو بہنے لگتا ہے۔ یا رسول اللہ ! میری آرزو ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کواپنی مستقل نماز گاہ بنالوں۔ حضور اکرم ؐنے فرمایا : انشاء اللہ تعالیٰ میں ایسا کرونگا۔ عتبان فرماتے ہیں، کہ دوسرے دن صبح کو جب ابھی کچھ دن چڑھا تھا،جنا ب رسول کریم اور حضرت ابوبکر صدیق میرے یہاں تشریف لے آئے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی ،میں نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ اندر تشریف لائے توبیٹھے نہیں،بلکہ مجھ سے فرمایا: تم نے اپنے گھر کی کون سی جگہ منتخب کی ہے کہ میں وہاں نماز اداکروں۔ میںنے ایک جانب نشاندہی کی ، آپ وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردی ہم بھی آپکے پیچھے صف باند ھ کر کھڑے ہوگئے۔ آپ نے دورکعتیں ادا فرمائیں اور سلام پھیردیا۔ ہم نے آپکو ضیافت کیلئے روک لیا۔ آپکی اطلاع پاکر محلہ والوں میں سے بھی چند افراد جمع ہوگئے، انہی میں سے کسی نے کہا۔ مالک ابن دخشن کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے تبصرہ کردیا۔ ’’وہ تو منافق ہے،اسے اللہ اور اسکے رسول سے کوئی محبت نہیں۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا : ایسا مت کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہے۔ اور اس سے وہ اللہ کی رضاء  ہی چاہتا ہے۔ اس شخص نے کہا : اللہ اور اسکے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اسکی خیر خواہی منافقو ں کی طرف ہے۔ آپ نے ارشا د فرمایا : یقینا اللہ عزوجل نے دوزخ کی آگ پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جس نے اخلاص کیساتھ لاالہ الا اللہ کہا ہو اور اس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا مند ی حاصل کر نا ہی ہو‘‘۔مالک ابن دخشن بھی بدری صحابی ہیں۔ کچھ معروضی معاملات کی وجہ سے انھیں ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہوگی جنہیں دوسرے مسلمان اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اْنکی نیت یہ ہوگی کہ وہ اپنے حسنِ معاملات سے اْنکے دل اسلام کی طرف مائل کریں۔رسو ل اللہ نے انکے اخلاص کے پیش نظر انکے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا۔

Surah al-araf ayat 175-176 part-02.کیا ہم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ...

Shortvideo - کیا ہم نے نقصانِ عظٰیم کا سودا کر لیا ہے؟

منگل، 23 مئی، 2023

حضور اکرم ؐ اوردین کی حکیمانہ ترویج

 

حضور اکرم ؐ اوردین کی حکیمانہ ترویج

حضور اکرم ؐ،اللہ رب العزت کے فرستادہ رسول ہیں، آپؐ ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں تشریف لائے جس میں جاہلیت کی روایتیں مکمل طور پر راسخ ہوچکی تھیں ، صرف وہی معاشرہ نہیں پوری دنیا کے احوال پراگندہ ہوچکے تھے ، ایسے میں اللہ رب العزت کے احکام کو نافذ کرنا اورمعاشرے کو اس پر آمادہ کرناکوئی سہل کام نہیں تھا۔اللہ رب العزت نے اپنے رسول کر حکمت اوربصیرت سے بہرورفرمایا اورحضور نے بتدریج پورے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔ آپؐ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام بھی اسی شعور اورتدبر کے حامل تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی بناکر بھیجا اورفرمایا: آپؐ ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہیں جو اہل کتاب ہیں۔ تم سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ (پر ایمان اوراس )کی عبادت کی دعوت دو۔ جب وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں تو ان کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن اوررات میں، پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کرلیں تو ان کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگو ں سے وصول کرو اورلوگوں کے عمدہ ترین مال کو (بطور زکوٰ? )وصول کرنے سے اجتناب کرو۔ (صحیح بخاری )حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں ان ہدایات کا ذکرہے جو حضور ؐ کسی امیرلشکرکو کسی مہم پر بھیجتے وقت دیا کرتے تھے۔اس حدیث پاک میں یہ الفاظ بھی ہیں: اگر وہ چاہیںکہ تم ان سے خدا اور خدا کے رسول کے عہد پر صلح کرو توانہیں خدا اور رسول خدا کی طرف سے عہد نہ دوبلکہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے عہد دو۔ کیونکہ اگر تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد کی خلاف ورزی کربیٹھو تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم خدا اور رسول خد ا کے عہد کو توڑو(یہ آپکی حکیمانہ پیش بندی ہے ناکہ عہد شکنی کی تحریک)اور اگر تم کسی قلعے کا محاصرہ کرو اور اہل قلعہ چاہیں کہ(وہ اس شرط پر ہتھیارپھینکنے کو تیار ہیں کہ)تم ان میں خدا کا حکم نافذ کرو گے تو تم انکی یہ شرط نہ مانوبلکہ ان کو اپنے حکم کے مطابق ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرو۔کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تم ان میں خدا کے حکم کو نافذکر پائو گے یا نہیں۔(جامع ترمذی)حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ بیان فرما تے ہیں:میں نے حضرت جابر سے قبیلہ بنوثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھاتو حضرت جابر نے فرمایا:انہوں (بنو ثقیف)نے(اسلام قبول کرتے وقت )یہ شرط رکھی تھی کہ وہ نہ زکوٰ?دیں گے اور نہ جہاد کرینگے۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہا انہوں نے بعد میںحضورؐ کو یہ فرماتے بھی سنا: جب وہ اسلام لے آئینگے تو (یقینا)زکوٰاۃ بھی دینگے اور جہاد بھی کریں گے۔(سنن ابی دائود)

Surah Al-araf ayat 175-176 Part-01.کیا ہم نے اللہ تعالی کی تمام نشانیوں ...

پیر، 22 مئی، 2023

انسان کی محدود سمجھ !


 

انسان کی محدود سمجھ !

مولانا جلال الدین رومی ’’ مثنوی معنوی میں ایک سپیر ے کا واقعہ بیان کرتے ہیں : کسی گائوں میں ایک سپیر ا رہا کرتا تھا۔ اس کے پاس بڑی اعلیٰ نسل کے سانپ تھے۔ اپنی اس انفرادیت کی وجہ سے وہ بہت مشہور تھا۔ لیکن جو چیز کسی کیلئے وجہء شہرت ہوتی ہے وہی حسد اور عداوت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ سوداگر کے دوسرے سپیر ے اس سے حسد کرنے لگے اور اسی حسد نے ایک سپیر ے کو چور بننے پر مجبور کردیا۔واقعہ کچھ یوں ہوا کہ اس سپیر ے کے ہاتھ ایک نایاب سانپ لگ گیا۔اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جسے ڈس لیتا وہ فوراًہی دم توڑ دیتا اور اس کے جسم کا سارا خون بہہ جاتا اور کوئی بھی تریاق یا بندش کا م نہ دیتی۔ایک دوسرے سپیر ے کو خبر ہوئی تو وہ اس کی تاک میں رہنے لگا اور ایک رات کے پچھلے پہر اسے چراکر لے گیا۔صبح سپیر ے کو چوری کا علم ہوا تو بڑا رنجیدہ خاطر ہوا۔ اسکے دل کو گہرا صدمہ پہنچا۔اتنا نایاب سانپ جو کئی سال کی محنت وجستجو کے بعد ہاتھ لگا تھا، اسے اتنی آسانی سے گنوادیا۔ سپیر ابہت اداس رہنے لگا۔ کسی دوسرے سانپ کو ہاتھ نہ لگاتا۔ بس اسی سانپ کے خیالوں میں کھویا رہتا۔ اسے کھوجتا پھرتا اور اللہ کے دربار میں اس کی بازیابی کی دعائیں کرتا رہتا۔اسی کیفیت میں کئی دن گز ر گئے۔ سپیرے نے کوئی کام دھندا نہ کیا اور خود کو اس سانپ کے لیے ہلکان کرلیا۔ اس پر ایک دیوانگی سی طاری ہوگئی اور وہ اللہ تعالیٰ سے شکوٰے کرنے لگا۔اسی طرح ایک باروہ سارا دن جنگل میں پھرتا رہا۔ جب رات کو واپس آیا تو گائوں میں ایک کہرام برپا دیکھا۔ استفسارپر معلوم ہواکہ فلاں سپیر ے کی سانپ ڈسنے سے موت واقع ہوگئی ہے۔
 سپیر افوراً وہاں پہنچا۔لوگ سپیر ے کی لاش کے اردگرد جمع تھے، سپیر ے کا کپڑا ہٹا کردیکھا تو اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ اور بولا اسے یقیینامیر ے والے سانپ نے ڈسا ہے۔جس کی وجہ اس نے فوراً ہی دم توڑ دیا۔ دیکھو اس کے جسم سے سارا خون بہہ نکلا ہے۔ اور کسی طور پر بند نہیں ہورہا۔ یہ خصوصیت میرے گم شدہ سانپ کے زہرہی میں پائی جاتی ہے۔ سپیرا فوراً اپنے گھر بھاگا۔گھر آکر سب سے پہلے وضو کیا۔شکرانے کے دونفل ادا کیے۔اور خداوندِ کریم سے اپنی گریہ زاری اور شکوٰہ ، شکایت کی معافی مانگی۔ سپیرے نے کہا :اے میرے پروردگار تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میرا سانپ چوری ہوگیا۔ اگر وہ سانپ  میر ے پاس ہوتا تو آج اس سپیر ے کی جگہ میری لاش پڑی ہوتی۔میں نادان تھا کہ اپنی موت کے لیے خود دعائیں مانگ رہاتھا۔ بلکہ جنگل بیابان میں اسے تلاش کررہاتھا۔جسے میں نے اپنا نقصان سمجھا میر ے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ ناقص انسان عقل کا دعوے دار بن جاتا ہے اور فوراً ہی اپنے حکیم اور خبیر پروردگار سے شکوٰہ شروع کردیتا ہے۔ 

اتوار، 21 مئی، 2023

Shortvideo - محبت الٰہی کیسے حاصل کریں؟

جرأتِ مومنانہ

 

جرأتِ مومنانہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا کہ اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش کرنا چھوڑدو اور صرف اسی کی عبادت کرو جو ہمارا حقیقی معبود ہے،لیکن وہ اپنی ضدِ اورہٹ دھرمی پر اڑے رہے۔ آپ نے انکے بتوں کی بے بسی کو آشکارا کرنے کیلئے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جس نے اِنکی ساری دلیلوں کو بوداثابت کردیا۔ایک دفعہ ان کا قومی تہوار تھا انہوں نے اپنے بڑے صنم کدے کو بڑی شان وشوکت سے سجایااورچھوٹے بڑے تمام بتوں کے سامنے لذیذ اور تازہ مٹھائیوں کے تھال بھر کر رکھ دیے،پھر ساری قوم اپنے رواج کیمطابق شہر سے باہر کسی کھلے میدان میں جمع ہوگئی اوربت کدہ ،پجاریوں اورپروہتوں سے خالی ہوگیا۔حضرت ابراہیم انکے ساتھ نہ گئے بلکہ آپ بت خانے میں آئے، اللہ کی تائید اورنصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے دل کو ہر قسم کے خوف وہراس سے بے نیاز کرکے بتوں کی جانب بڑھے ،ایک وزنی اورتیز کلہاڑا آپ کے ہاتھ میں تھا ان جھوٹے خدائوں پر آپ حقارت بھری نظر ڈالتے ہیں کسی کا کان ،کسی کی ناک ، کسی کابازئو،کسی کی ٹانگ کاٹتے چلے جاتے ہیں آخرمیں انکے سامنے رکھی ہوئی مٹھائیوں کی تھال اٹھا کر بڑے بت کے سامنے رکھ دیتے ہیں اورکلہاڑا اسکے کاندھے پر سجادیتے ہیں۔اپنا کام مکمل کرنے کے بعد واپس تشریف لاتے ہیں اورکفر کی طاغوتی قوتوں کے ردِ عمل کا سامنا کرنے کیلئے قوم کی واپسی کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔شام کو جب بت کدے کے پجاری اور خدمت گار واپس آتے ہیں تواپنے بتوں کی یہ حالتِ زار دیکھ کر اْن پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح چشمِ زدن میں سارے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم اورانکے نظریات سے یہ تمام لوگ واقف تھے،ذہن فوراً انکی طرف منتقل ہوئے ، کہنے لگے یہ ضرور اْسی جوان کا کام ہے جس کانام ابراہیم ہے۔یہ بات عمائدین سلطنت تک بھی پہنچتی ہے وہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ اْسے پکڑکرسب لوگوں کے روبرو لائو ،شاید وہ اسکے متعلق کوئی شہادت دیں۔ آپ کو پکڑکر لایا گیااور استفسار کیا گیا کیا ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ حرکت آپ نے کی آپ نے فرمایا: اے عقل کے اندھو!مجھ سے کیا پوچھتے ہوکیا تم دیکھتے نہیں سارے مٹھائی کے تھال بڑے بت نے اپنے سامنے رکھ لیے ہیں اورکلہاڑا بھی اسی کے کاندھے پر موجود ہے،اسی نے انکی یہ درگت بنائی ہوگی ،مجھ سے کیا پوچھتے ہو،اس سے پوچھو،اگر وہ حقیقت سے پردہ اٹھا سکتا ہے تو اٹھا دے۔یہ سن کروہ دم بخود ہوگئے ،کہنے لگے اے ابراہیم! آپ جانتے ہیں کہ یہ بول نہیں سکتے۔ آی نے اْن سے پوچھا کیا تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر اْن بتوں کی عبادت کرتے ہوجو نہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اورنہ نقصان،تف ہے تم پر نیز ان بتوں پر جن کو تم پوجتے ہواللہ کے سوائ۔(الانبیائ:۷۶،۶۶)

ہفتہ، 20 مئی، 2023

نماز کی تاکید

 

نماز کی تاکید

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور نماز قائم رکھو اورتم مشرکوں میں سے نہ ہوجائو‘‘۔(الروم : ۱۳)’’(جنتی مجرموں سے سوال کرینگے )تم کوکس چیز نے دوزخ میں داخل کردیا؟ وہ کہیں گے : تم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے‘‘۔ (المدثر: ۳۴۔۲۴)حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی ؐ نے فرمایا: کسی شخص اوراسکے کفر اورشرک کے درمیان (فرق) نماز کو ترک کرنا ہے۔ (صحیح مسلم)یعنی نماز کو ترک کرنا کافروں اورمشرکوں کا کام ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا: بندہ سے قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائیگا وہ نماز ہے ، اگر وہ مکمل ہوئی تو مکمل لکھی جائیگی اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو کہا جائیگا دیکھو کیا اس کی کچھ نفلی نمازیں ہیں جن سے اسکے فرض کی کمی کو پورا کردیا جائے ، پھر باقی اعمال کا اسی طرح حساب لیا جائیگا۔(سنن نسائی )حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)عمرو بن شعیب اپنے والد سے اوروہ اپنے دادا رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی رحمت ؐنے فرمایا : سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اوردس سال کی عمر میں ان کو سرزنش کر کے ان سے نماز پڑھوائو ، اورانکے بستر الگ الگ کردو۔ (سنن ابودائود )حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں رسول ؐ کا وصال ہوا اس میں آپ بار بار فرماتے تھے : نماز اورغلام۔(سنن ابن ماجہ)ابوعثمان بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سلمان فارسی کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، انہوں نے ایک خشک شاخ پکڑ کر اس کو ہلایا حتیٰ کہ اسکے پتے گرنے لگے، پھر انہوں نے کہا: اے ابو عثمان ! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا: آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ انہوں نے ارشاد فرمایا: رسول اللہؐ نے اسی طرح کیا تھا، میں آپ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا، آپ نے ایک شاخ کو پکڑکر اسے ہلایا حتیٰ کہ اسکے پتے جھڑنے لگے ، آپ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم مجھ سے سوال نہیں کرو گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے عرض کیا : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے اورپانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گررہے ہیں ،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ’’اوردنکے دونوں کناروں اوررات کے کچھ حصوں میں نماز کوقائم رکھو، بے شک نیکیاں ، برائیوں کو مٹادیتی ہیں ، یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں ‘‘۔(ھود: ۴۱۱)(مسند احمد)

Shortvideo - انسان سے محبت کیوں ضروری ہے؟

جمعہ، 19 مئی، 2023

اہل تقویٰ کی علامات


 

اہل تقویٰ کی علامات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا تناجش (کسی کو پھنسانے کے لیے زیادہ قیمت لگانا)نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اللہ کے بندوں بھائی بھائی بن جائو، مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوانہ کرے ، اس کو حقیر نہ جانے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، کسی شخص کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے اس کا خون اس کا مال اوراس کی عزت۔(صحیح مسلم)

حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں سے شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ کسی بے ضرر چیز کو اس اندیشے سے نہ چھوڑدے کہ شاید اس میں کوئی ضرر ہو۔(جامع ترمذی)

حضرت میمون بن مہران نے کہا : بندہ اس وقت تک متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا اس طرح حساب نہ کرے، جس طرح اپنے شریک کا محاسبہ کرتا ہے کہ اس کا کھانا کہاں سے آیا اوراس کے کپڑے کہاں سے آئے۔ (جامع ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب یہ فرماتا ہے کہ میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، سو جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔(سنن دارمی)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسی آیت کا علم ہے کہ اگر لوگ صرف اسی آیت پر عمل کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہوجائے گی’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے‘‘۔ (سنن دارمی )

ابو نضر ہ بیا ن کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ سنا اس نے یہ حدیث بیان کی ، آپ نے فرمایا : اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے ، سنو ! کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے، مگر فضیلت صرف تقویٰ سے ہے۔(مسنداحمدبن حنبل)


Shortvideo - کیا قیامت ضروری ہے؟

جمعرات، 18 مئی، 2023

معلم کامل

 

 معلم کامل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشادفرمایا: میں تمہارے لیے باپ کی طرح ہوں۔ (جس طرح باپ اپنے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اسی طرح )میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ تم میں سے جب کوئی بیت الخلاءمیں داخل ہوتو قبلہ کی طرف نہ تورخ کرے اورنہ پشت اورنہ دائیں ہاتھ سے استنجاءکرے۔(سنن نسائی)

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ،ایک بارمشرکین ہم سے کہنے لگے : ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)تمہیں ہر چیز حتیٰ کہ بیت الخلاءتک کی تعلیم دیتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے(فخریہ) ان سے فرمایا : ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ آپ نے ہمیں دائیں ہاتھ کے ساتھ استنجاءکرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے ہمیں (قضائے حاجت کے وقت)قبلہ کی طرف رخ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے ہمیں استنجاءکے لیے لیداور ہڈیوں کے استعمال سے بھی منع فرمایا ہے اورآپ نے ہمیں یہ حکم بھی دیا ہے کہ کوئی شخص استنجاءکے لیے تین سے کم ڈھیلے استعمال نہ کرے۔(صحیح مسلم)

حضرت معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے کسی شخص کو چھینک آئی۔ اس پر میں نے کہا: یرحمک اللہ۔ لوگوں نے میری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ میں نے کہا: اس کی ماں اسے روئے ، تمہیں کیا ہوگیا کہ تم میری طرف دیکھ رہے ہو۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کردیے ۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرانے کی کوشش کررہے ہیں تو (میں نے مزاحمت کا ارادہ کیا)لیکن پھر میں خاموش ہوگیا۔ جب حضور علیہ الصلوٰة والسلام نماز پڑھ چکے تو ، میرے ماں باپ آپ پر فداہوں، میں نے آپ سے اچھا استاد نہ آپ سے پہلے دیکھا اورنہ آپ کے بعد، جو آپ سے بہتر تعلیم دے سکے۔ خدا کی قسم ،آپ نے نہ مجھے جھڑکا ، نہ مجھے مارا پیٹا اورنہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپ نے(صرف یہ)فرمایا: اس نماز میں کوئی انسانی بات مناسب نہیں ہے۔ نماز تو تسبیح ، تکبیر اورقرآن حکیم کی تلاوت کا نام ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمارا زمانہ ، زمانہ جاہلیت سے قریب ہے اوراللہ تعالیٰ اسلام کو لے آیا ہے ۔ ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ (ہمارے لیے کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا : تم ان کے پاس نہ جایا کرو۔میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ فال لیتے ہیں۔(اس کا کیا حکم ہے ؟)فرمایا: یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا خیال ان کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے ، البتہ یہ فال انہیں کوئی کام کرنے سے باز نہ رکھے۔۔۔میں نے کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں (اس کا کیا حکم ہے؟)فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں کھینچا کرتے تھے ۔جس شخص کی لکیریں ان کی لکیروں کے موافق ہوں ان کا ایسا کرنا صحیح ہے۔(صحیح مسلم)

Surah Al-Araf Ayat 172-174 Part-01.کیا ہم سے اللہ تعالی نے کوئی وعدہ لیا ہے

Shortvideo - جہاد فی سبیل اللہ کی اقسام

Shortvideo کیا جہاد سبیل اللہ فرض عین ہے؟

بدھ، 17 مئی، 2023

دروغ گوئی سے اجتناب

 

دروغ گوئی سے اجتناب

حضرت سمر ہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ جبرائیل اورمیکائیل میرے پاس آئے اورمیرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ارض مقدسہ میں لے گئے ، میں نے دیکھا وہاں ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اوردوسرا آدمی اس کے پاس کھڑا ہواتھا جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا تھا اس نے وہ آنکڑا اس کی باچھ میں داخل کیا اور آنکڑے سے اس کی باچھ کو کھینچ کر گدی تک پہنچادیا، پھر وہ آنکڑا دوسری باچھ میں داخل کیا اوراس باچھ کو گدی تک پہنچادیا، اتنے میں پہلی باچھ مل گئی اوراس نے پھر اس میں آنکڑا ڈال دیا، (الی قولہ )جبرئیل نے کہا: 

جس شخص کی باچھ پھاڑ کر گدی تک پہنچائی جارہی تھی یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ بولتا تھا ، پھر اس سے وہ جھوٹ نقل ہوکے ساری دنیا میں پھیل جاتا تھا ، اس کو قیامت تک اسی طرح عذاب دیا جاتا رہے گا۔(صحیح بخاری)

حضرت ابو حفص بن عاصم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بیان کردے۔(صحیح مسلم)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے آپ کو جھوٹ سے بچائو، کیونکہ جھوٹ فجور (گناہ )تک پہنچاتا ہے اورفجور دوزخ تک پہنچاتا ہے ، ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کے مواقع تلاش کرتا ہے ، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(سنن ابودائود )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس وقت تک بندہ کا ایمان مکمل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ جھوٹ کو ترک نہ کردے حتیٰ کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے اورریا کوترک کردے خواہ وہ اس میں صادق ہو۔(مسند احمد بن حنبل)

حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین صورتوں کے سواجھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ (۱)ایک شخص اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لیے جھوٹ بولے

(۲)جنگ میں جھوٹ بولنا

 (۳)لوگوں میں صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔ (جامع ترمذی)


Shortvideo - کیا تزکیہ نفس بہت مشکل ہے؟

منگل، 16 مئی، 2023

والدین کی خدمت بھی جہادہے

 

والدین کی خدمت بھی جہادہے

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی الصلوٰۃ والسلام کے پاس ایک شخص نے آکر جہاد کی اجازت طلب کی ، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟اس نے کہا: ہاں ! فرمایا: ا ن کی خدمت میں جہاد کرو۔ (بخاری ،مسلم، ابودائود ، نسائی)

حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی سفر کررہے تھے۔ان کو بارش نے آلیا۔ انہوں نے پہاڑ کے اندر ایک غار میں پناہ لی ، غار کے منہ پر پہاڑ سے ایک چٹان ٹوٹ کرآگری اورغار کا منہ بندہوگیا ، پھر انہوںنے ایک دوسرے سے کہا: تم نے جو نیک عمل اللہ کے لیے کیے ہوں ان کے وسیلہ سے اللہ سے دعاکر و، شاید اللہ غار کا منہ کھول دے، ان میں سے ایک نے کہا:اے اللہ ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اورمیری چھوٹی بچی تھی ، میں جب شام کو آتا تو بکری کا دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا، پھر اپنی بچی کو پلاتا ، ایک دن مجھے دیر ہوگئی میں حسب معمولی دودھ لے کر ماں باپ کے پاس گیا، وہ سوچکے تھے ، میںنے ان کو جگانا ناپسند کیا اوران کے دودھ دینے سے پہلے اپنی بچی کو دودھ دینا ناپسند کیا ، بچی رات بھر بھوک سے میرے قدموں میں روتی رہی اورمیں صبح تک دودھ لے کر ماں باپ کے سرہانے کھڑا رہا۔ اے اللہ ! تجھے خوب علم ہے کہ میں نے یہ فعل صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا ، تو ہمارے لیے اتنی کشادگی کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ لیں ،اللہ عزوجل نے ان کے لیے کشادگی کردی حتیٰ کہ انہوں نے آسما ن کو دیکھ لیا۔ (بخاری ، مسلم)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھتے ہوئے فرمایا : آمین‘ آمین‘ آمنین۔ آپ نے فرمایا : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورکہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پایا اوران کے ساتھ نیکی کیے بغیر مرگیا ، وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہئے آمین تو میں نے کہا: ا?مین، پھر کہا: یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! جس نے رمضان کا مہینہ پایا اورمرگیا اوراس کی مغفرت نہیں ہوئی (یعنی اس نے روزے نہیں رکھے)وہ دوزخ میں داخل کیا جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے )دور کردے ، کہیے آمین تو میںنے کہا: آمین ، اورجس کے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے اوروہ ا?پ پر درود نہ پڑھے وہ دوزخ میں جائے اوراللہ اس کو (اپنی رحمت سے ) دور کردے، کہیے آمین، تو میں نے کہا: آمین (طبرانی ، ابن حبان ، امام حاکم)


پیر، 15 مئی، 2023

ہمہ آفتاب است

 

ہمہ آفتاب است

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی اورمجھے سوار کراکے دار الہجرات لے گئے اوراپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا اوراسلام میں کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے۔ وہ حق کی کڑواہٹ کے باوجود حق ہی کہتے ہیں۔ حق گوئی کی وجہ سے اس کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اس نے جیش العسرۃ کو سازو سامان سے آراستہ کیا اور ہماری مسجد میں اضافہ کیا جس سے ہمیں وسعت حاصل ہوئی ، اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ جہاں علی جائے حق اس کے ساتھ ہو‘‘۔ (ترمذی)حضرت زید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐنے فرمایا کہ : دس آدمی جنتی ہیں یعنی نبی ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر ، سعد بن مالک ، عبدالرحمان بن عوف اورسعید بن زید۔(سنن ابودائود، احمد بن حنبل)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا کہ چارآدمیوں کی محبت منافق کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اورنہ ہی مومن کے سوا، کوئی ان سے محبت کرتا ہے یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان اورعلی سے۔ (ابن عساکر)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی محتشم ؐ نے فرمایا کہ ابوبکر عمر، ابوعبیدہ بن الجراح، اسید بن حضیر، ثابت بن قیس بن شماس، معاذ بن جبل ، معاذ بن عمر و بن الجموح اورسہیل بن بیضاء کیا ہی اچھے آدمی ہیں۔ (بخاری ، نسائی، ترمذی)حضرت سہل سے روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم حجۃ الوداع سے تشریف لائے تو منبر پر چڑھ کر حمد وثنا ء کے بعد فرمایا : اے لوگو ! ابوبکر نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں دی اس بات کو اچھی طرح جان لو، اے لوگو! میں ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن بن عوف، مہاجرین اوراولین سے راضی ہوں انکے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔ (طبرانی) اورطبرانی کی ایک روایت میں جو الاوسط میں بیان ہوئی ہے اسکے الفاظ یہ ہیں کہ میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنیوالا ابوبکر ہے اورسب سے زیادہ نرمی کرنیوالا عمر ہے اورسب سے زیادہ حیادار عثمان ہے سب سے زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا علی بن ابی طالب ہے اورحلال وحرام کا زیادہ عالم معاذبن جبل ہے وہ قیامت کے دن علماء کے آگے آگے ہوگا۔ امت کا سب سے بڑا قاری ابی ابن کعب اورسب سے زیادہ فرائض کاجاننے والا زید بن ثابت ہے اورعمویمر یعنی ابو الدرداء کے حصے میں عبادت آئی ہے۔(رضی اللہ عنہم اجمعین )

اتوار، 14 مئی، 2023

Shortvideo - نفس اَمارـہ کی ضرورت

بد گمانی سے بچو


 

بد گمانی سے بچو

صحابہ کرام حضور اکرم ؐ کی ذات والا تبار سے محبت کرتے تھے اور آپکی اطاعت کیلئے کوشاں رہتے تھے۔ آپکے وجودِ مسعود کو اپنے لیے خیرات وبرکات کا سبب سمجھتے تھے۔ آنجناب بھی انکے جذبہ واطاعت کی قدر دانی فرمایا کرتے تھے لیکن اسکے ساتھ آپ انکی تعلیم وتربیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ ذیل میں شیخین (امام بخاری وامام مسلم) کا روایت کردہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔عتبان بن مالک الانصاری (جو بدری صحابہ کرام میں سے ہیں ) حضور اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں،لیکن اب میری بینائی کمزور ہوگئی ہے، جب بارش ہوتی ہے تو میں مسجد تک نہیں جا سکتا کیونکہ میرے گھر اور اسکے درمیان ایک نالہ حائل ہے جو بہنے لگتا ہے۔ یا رسول اللہ ! میری آرزو ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کواپنی مستقل نماز گاہ بنالوں۔ حضور اکرم ؐنے فرمایا : انشاء اللہ تعالیٰ میں ایسا کرونگا۔ عتبان فرماتے ہیں، کہ دوسرے دن صبح کو جب ابھی کچھ دن چڑھا تھا،جنا ب رسول کریم اور حضرت ابوبکر صدیق میرے یہاں تشریف لے آئے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی ،میں نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ اندر تشریف لائے توبیٹھے نہیں،بلکہ مجھ سے فرمایا: تم نے اپنے گھر کی کون سی جگہ منتخب کی ہے کہ میں وہاں نماز اداکروں۔ میں نے ایک جانب نشاندہی کی ، آپ وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردی ہم بھی آپکے پیچھے صف باند ھ کر کھڑے ہوگئے۔ آپ نے دورکعتیں ادا فرمائیں اور سلام پھیردیا۔ ہم نے آپکو ضیافت کیلئے روک لیا۔ آپکی اطلاع پاکر محلہ والوں میں سے بھی چند افراد جمع ہوگئے، انہی میں سے کسی نے کہا۔ مالک ابن دخشن کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے تبصرہ کردیا۔ ’’وہ تو منافق ہے،اسے اللہ اور اسکے رسول سے کوئی محبت نہیں۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا : ایسا مت کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہے۔ اور اس سے وہ اللہ کی رضاء  ہی چاہتا ہے۔ اس شخص نے کہا : اللہ اور اسکے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اسکی خیر خواہی منافقو ں کی طرف ہے۔ آپ نے ارشا د فرمایا : یقینا اللہ عزوجل نے دوزخ کی آگ پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جس نے اخلاص کیساتھ لاالہ الا اللہ کہا ہو اور اس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا مند ی حاصل کر نا ہی ہو‘‘۔مالک ابن دخشن بھی بدری صحابی ہیں۔ کچھ معروضی معاملات کی وجہ سے انھیں ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہوگی جنہیں دوسرے مسلمان اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اْنکی نیت یہ ہوگی کہ وہ اپنے حسنِ معاملات سے اْنکے دل اسلام کی طرف مائل کریں۔رسو ل اللہ نے انکے اخلاص کے پیش نظر انکے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا۔

ہفتہ، 13 مئی، 2023

وہ ایک سجدہ


 

وہ ایک سجدہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کررہا ہو پس تم (سجدہ میں )بہت دعاکیا کرو۔ (صحیح مسلم،سنن داﺅد )

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وہ عمل بتائیے جس سے اللہ مجھے جنت میں داخل کردے یا میں نے عرض کیا : مجھے وہ عمل بتائیے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ خاموش رہے۔ میں نے پھر سوال کیا، آپ خاموش رہے ، جب میں نے تیسری بار سوال کیا تو آپ نے فرمایا : تم اللہ تعالیٰ کے لیے کثرت سے سجدے کیا کرو، کیونکہ تم جب بھی اللہ کے لیے سجدہ کرو گے تو اللہ اس سجدہ کی وجہ سے تمہارا ایک درجہ بلند کرے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹادے گا۔ (صحیح مسلم، ترمذی) حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، میں آپ کے وضو اورطہارت کے لیے پانی لایا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: سوال کرو، میں نے عرض کیا میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : اورکسی چیز کا ؟میں نے عرض کیا مجھے یہ کافی ہے۔ آپ نے فرمایا : پھر کثرت سے سجدے کرکے اپنے نفس کے اوپر میری مددکرو۔ (صحیح مسلم ، سنن ابوداﺅد )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب ابن آدم سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرکے سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ جاکر روتا ہے اورکہتا ہے ہائے میرا عذاب !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کیا سواس کو جنت ملے گی، اورمجھے سجدہ کرنے کا حکم دیاگیا تو میں نے انکار کیا سومجھے دوزخ ملے گی۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اعضاءسجود کے جلانے کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ پر حرام کردیا ہے۔(صحیح بخاری، سنن نسائی)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ کا جو حال اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بندہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھے اوراس کا چہرہ مٹی میں لتھڑا ہواہو۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں افلح نامی ہمارا ایک غلام تھا، جب وہ سجدہ کرتا تو مٹی کو پھونک مارکر اڑاتا، آپ نے فرمایا : اے افلح! اپنے چہرے کو خاک آلودہ کرو۔(سنن الترمذی)

جمعہ، 12 مئی، 2023

انوکھا غلام

 

انوکھا غلام

حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اپنی سخاوت اوردریا دلی کے حوالے سے بہت مشہور ہیں ایک بار آپ کا گزر مدینہ منورہ کے ایک باغ پر ہوا، آپ نے دیکھا کہ باغ کا رکھوالا حبشی غلام روٹی کھا رہا ہے  پاس میں ایک کتا بیٹھا ہوا ہے، جب وہ غلام اپنے منہ میں روٹی کا لقمہ رکھتا توایک لقمہ بنا کر اس کتے کے سامنے بھی ڈال دیتا، حضرت عبداللہ اس منظر کو دیکھتے رہے، جب غلام کھانے سے فارغ ہوا تو آپ اسکے قریب تشریف لے گئے اوراس سے پوچھا :تم کس کے غلام ہو ؟ اس نے کہا : میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ورثاء کا غلام ہوں، ا?پ نے فرمایا : میں نے تمہاری ایک عجیب وغریب بات دیکھی ہے ، اس نے پوچھا وہ کیا ، آپ نے فرمایا : جب تم ایک لقمہ تناول کرتے تھے ، تو ساتھ میں ایک لقمہ اس کتے کو بھی دیتے تھے، اس نے عرض کیا ،یہ کتاکئی سال سے باغ کی رکھوالی میں میرا ساتھی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ میں اسے کھانے میں بھی اپنا ساتھی ہی رکھوں، آپ نے فرمایا : کتے کے لیے تو اس سے کم درجہ کی کوئی چیز بھی بہت کافی تھی۔ غلام نے عرض کیا ، مجھے اللہ رب العزت سے غیر ت آتی ہے کہ میں کھاتا رہوں اورایک جاندار آنکھ مجھے دیکھتی رہے ، آپ اس غلام سے گفتگو کرکے واپس شہر آئے تو حضرت عثمان کے ورثاء سے ملے، اورفرمایا : میں اپنی ایک غرض سے تمہارے پاس آیا ہوں ، انہوں نے کہا، آپ ارشادفرمائیںکہ کیا حکم ہے، آپ نے فرمایاکہ فلاں باغ میرے ہاتھ فروخت کردیجئے ورثاء نے کہا، وہ باغ جناب کی خدمت میں ہدیہ ہے اس کو بلا قیمت قبول فرمالیں، آپ نے فرمایا میں بغیر قیمت کے وہ باغ نہیں لینا چاہتا ، قیمت کا تعین ہوا اورمعاملہ طے پاگیا ، حضرت عبداللہ بن جعفر نے فرمایا : اس باغ میں جو غلام کام کرتا ہے میں اس کو بھی خریدنا چاہتا ہوں ، انہوںنے عذر کیا، وہ غلام پچپن سے ہمارے ہی پاس پلا بڑھا ہے اسکی جدائی ہمارے لیے شاق ہے مگر آپ نے اصرار کیا تو اس غلام کو بھی آپ کے ہاتھ فروخت کردیا گیا۔یہ سودا طے کرکے آپ باغ میں تشریف لے گئے اوراس غلام سے فرمایا :میں نے باغ کو اورتم کو خرید لیا ہے ، اس نے کہا : اللہ رب العزت آپ کو یہ خریداری مبارک کرے اورمزید خیروبرکت سے نوازے ، البتہ مجھے اپنے مالکوں سے جدائی کا بہت رنج ہوا ہے ، انھوںنے پچپن سے مجھے بڑے ہی پیار ومحبت سے پالا ہے، آپ نے فرمایا : میں تمہیں آزاد کرتا ہوں اوریہ باغ تمہاری نذر ہے۔ اس نے کہا : آپ گواہ رہیں یہ باغ میںنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وارثوں کیلئے وقف کردیا ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس غلام کی اس سخاوت پر میں بہت ہی حیران ہوا اوراسے برکت کی دعائیں دے کرواپس آگیا۔ 

Shortvideo - علامات مومن

جمعرات، 11 مئی، 2023

مسجد سے محبت

 

مسجد سے محبت

٭             حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جو شخص صبح کو مسجد میں جائے یا شام کو مسجد میں جائے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لئے ہر صبح وشام جنت سے ضیافت تیار کرتا ہے ۔ (بخاری ، مسلم)

٭             حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : انسان کو اپنے گھر میں نماز اداکرنے سے ایک نماز کا اجر ملتا ہے اورقبائل کی مسجد میں نماز پڑھنے سے پچیس نمازوں کا اجر ملتا ہے اورجامع مسجد میں نماز پڑھنے سے پانچ سو نمازوں کا اجر ملتا ہے ۔مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے پچاس ہزار نمازوں کا اجر ملتا ہے اورمیری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز پڑھنے سے پچاس ہزار نمازوں کا اجر ملتا ہے ا ورمسجد حرام میں نماز پڑھنے سے ایک لاکھ نماز وں کا اجر میسر آتا ہے ۔(سنن ابی ماجہ)٭حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : اللہ فرماتا ہے مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! میں زمین والوں کو عذاب دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن جب میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو میرے گھر کو آباد رکھتے ہیں اور جو میری وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں اورجو سحر کے وقت اٹھ کر مجھ سے استغفار کرتے ہیں تو میں ان سے عذاب کو پھیر دیتا ہوں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سات افراد ایسے ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن اللہ کے سواءاورکسی کا سایہ نہیں ہوگا۔ ۱:۔ امام عادل، ۲:۔ جو شخص اللہ کی عبادت میں جوان ہوا،۳:۔ جس شخص کا دل مسجد سے نکلنے کے بعد بھی مسجد ہی میں معلق رہا حتی کہ وہ دوبارہ مسجد میں آگیا، ۴:۔ وہ دوافراد جو اللہ کی محبت میں جمع ہوئے اوراللہ ہی کی محبت میں الگ الگ ہوئے، ۵:۔ جس شخص نے تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کیا اوراس کی آنکھوں میں آنسو آگئے،۶:۔ جس شخص کو کسی خوبصورت اورمقتدر عورت نے دعوت گناہ دی اوراس نے کہا میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں ، ۷:۔ جس شخص نے چھپا کر اس طرح صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ہے۔(بخاری ، مسلم)

٭             حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کے گرد ایک جگہ خالی ہوئی تو بنو سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان سے فرمایا : مجھے یہ اطلاع پہنچی ہے کہ تم لوگ مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کر رہے ہو اورانہوں نے عرض کی یارسول اللہ ! ہمارا ارادہ ہے آپ نے فرمایا : اے بنوسلمہ! اپنے گھروں میں ہی رہو تم جس قدر قدم اٹھاتے ہو تمہاری اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں (پھر فرمایا) اپنے گھر وں میں ہی رہو تم جس قدر قدم اٹھاتے ہو تمہاری اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔(صحیح مسلم)