بد گمانی سے بچو
صحابہ کرام حضور اکرم ؐ کی ذات والا تبار سے محبت کرتے تھے اور آپکی اطاعت کیلئے کوشاں رہتے تھے۔ آپکے وجودِ مسعود کو اپنے لیے خیرات وبرکات کا سبب سمجھتے تھے۔ آنجناب بھی انکے جذبہ واطاعت کی قدر دانی فرمایا کرتے تھے لیکن اسکے ساتھ آپ انکی تعلیم وتربیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ ذیل میں شیخین (امام بخاری وامام مسلم) کا روایت کردہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔عتبان بن مالک الانصاری (جو بدری صحابہ کرام میں سے ہیں ) حضور اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں،لیکن اب میری بینائی کمزور ہوگئی ہے، جب بارش ہوتی ہے تو میں مسجد تک نہیں جا سکتا کیونکہ میرے گھر اور اسکے درمیان ایک نالہ حائل ہے جو بہنے لگتا ہے۔ یا رسول اللہ ! میری آرزو ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کواپنی مستقل نماز گاہ بنالوں۔ حضور اکرم ؐنے فرمایا : انشاء اللہ تعالیٰ میں ایسا کرونگا۔ عتبان فرماتے ہیں، کہ دوسرے دن صبح کو جب ابھی کچھ دن چڑھا تھا،جنا ب رسول کریم اور حضرت ابوبکر صدیق میرے یہاں تشریف لے آئے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی ،میں نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ اندر تشریف لائے توبیٹھے نہیں،بلکہ مجھ سے فرمایا: تم نے اپنے گھر کی کون سی جگہ منتخب کی ہے کہ میں وہاں نماز اداکروں۔ میں نے ایک جانب نشاندہی کی ، آپ وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردی ہم بھی آپکے پیچھے صف باند ھ کر کھڑے ہوگئے۔ آپ نے دورکعتیں ادا فرمائیں اور سلام پھیردیا۔ ہم نے آپکو ضیافت کیلئے روک لیا۔ آپکی اطلاع پاکر محلہ والوں میں سے بھی چند افراد جمع ہوگئے، انہی میں سے کسی نے کہا۔ مالک ابن دخشن کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے تبصرہ کردیا۔ ’’وہ تو منافق ہے،اسے اللہ اور اسکے رسول سے کوئی محبت نہیں۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا : ایسا مت کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہے۔ اور اس سے وہ اللہ کی رضاء ہی چاہتا ہے۔ اس شخص نے کہا : اللہ اور اسکے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اسکی خیر خواہی منافقو ں کی طرف ہے۔ آپ نے ارشا د فرمایا : یقینا اللہ عزوجل نے دوزخ کی آگ پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جس نے اخلاص کیساتھ لاالہ الا اللہ کہا ہو اور اس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا مند ی حاصل کر نا ہی ہو‘‘۔مالک ابن دخشن بھی بدری صحابی ہیں۔ کچھ معروضی معاملات کی وجہ سے انھیں ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہوگی جنہیں دوسرے مسلمان اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اْنکی نیت یہ ہوگی کہ وہ اپنے حسنِ معاملات سے اْنکے دل اسلام کی طرف مائل کریں۔رسو ل اللہ نے انکے اخلاص کے پیش نظر انکے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں