جمعرات، 30 نومبر، 2023

Surah Al-Ra'd ayat 09-10 Part-02.کیا شیخ کامل کی صحبت ضروری ہے

Shortvideo - Kya hum apna maqsood-e-hayat zaat-e-baritaAllah ko nahi ban...

امر با لمعروف و نہی عن المنکر

 

 امر با لمعروف و نہی عن المنکر 

ارشاد باری تعالی ٰہے : تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم کرے اور گناہ سے منع کرے یہی لوگ کامیاب ہیں ۔( سورة آل عمران ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں دین سے متعلق تین کاموں کی خبر دی ہے ۔ ایک یہ کہ امر با لمعروف و نہی عن المنکر فرض ہے ۔ دوسرا یہ ایک فرض کفایہ ہے اگر بستی میں سے ایک آدمی بھی یہ فریضہ سر انجام دیتا ہے تو دوسرے لوگوں پر یہ حکم ساقط ہو جاتا ہے لیکن اگر پوری بستی غفلت کی نیند سوئی رہے تو قیامت کے دن سب کی باز پرس ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اور تیسرا یہ کہ کامیابی اور نجات انہی لوگوں کے لیے ہے جو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو قوم گناہوں میں مبتلا ہو جائے اور ان کو کوئی منع کرنے کی طاقت رکھتا ہو پھر وہ ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سے ختم کرے اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو اسے دل میں برا جانے۔ یہ سب سے کمزور ایمان ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب زمین پر گناہ کیا جائے اور وہاں موجود کوئی شخص اسے برا سمجھے تو گو یا وہ شخص وہاں موجود ہی نہیں ہے اور اگر کوئی شخص وہاں موجود نہ ہو اور وہ اس گناہ سے راضی ہو تو گویا وہ وہاں موجود ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو گے ۔ یا اللہ تعالیٰ تم پر بد ترین لوگ مسلط کر دے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا ئیں مانگیں گے مگر ان کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے برے اعمال پر عام لوگوں کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک کھلے عام گناہ نہ ہونے لگیں اور لوگ انہیں روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود نہ روکیں جب ایسا ہو تو اللہ تعالیٰ ہر خاص و عام کو عذاب دیتا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا فلاں شہر اس کے باسیوں پر الٹا دو ۔
انہوں نے عرض کی اے رب ! وہاں تیرا ایک نیک بندہ بھی ہے جس نے کبھی تیری نا فرمانی نہیں کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دوسروں کے ساتھ اسے بھی الٹا دو کیونکہ اسے اس پر غصہ نہیں آیا ۔ 

بدھ، 29 نومبر، 2023

Surah Al-Ra'd ayat 09-10 Part-01.کیا دنیا میں ہمیں جنت مل سکتی ہے

Surah Al-Ra'd ayat 8 Part-02.رب کی معرفت کیوں ضروری ہے

Shortvideo - Kya hum baydeen loog hain?

حسن اخلاق

 

 حسن اخلاق

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” درگزر سے کام لو ، بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے دور رہو ۔ ( سورة الاعراف ) ۔حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے : جو تم سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق قائم کرو جو محروم رکھے ، اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے ، اس سے در گزر کرو ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میزان میں سب سے پہلے حسن خلق اور سخاوت کو رکھا جائے گا جب اللہ نے ایمان کو پیدا کیا اس نے دعا مانگی مجھے قوت عطا فرما پس اللہ تعالی نے حسن خلق اور سخاوت کے ذریعے اسے قوت دی ۔ جب کفر کو پیدا کیا اس نے دعا مانگی مجھے قوت عطا فرما ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے بخل اور برے اخلاق سے قوت عطا کی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : انسان کو عزت دین سے اہمت سے عقل اور بزرگی اچھے اخلاق سے حاصل ہوتی ہے ۔ 
انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک دینداری کی وجہ سے معزز ہوتا ہے جبکہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مروت اور احسان اختیار کرے کیونکہ انسان عقل کے ذریعے سوچتا ہے کہ نیکی کروں یہ نیکی نہ ختم ہونے والی سعادت کے دیوان میں درج کر لی جائے گی ۔ اور انسان کو بزرگی اور شرف اچھے اخلاق کی وجہ سے ملتا ہے کیونکہ جو شخص علم ،حلم ، تقوی ، وفا اور عفت جیسی صفات جس قدر اختیار کرتا ہے مخلو ق میں اس قدر ہی لوگوں میں دلعزیز ہوجاتا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تین باتوں میں سے اگر ایک بھی موجود ہو تو باقی اعمال کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ تقویٰ نافرمانی سے بچاتا ہے ، حلم جس کے ذریعے جاہلوں سے در گزر کرے اور اچھے اخلاق کہ لوگوں کے ساتھ میل جول کرے ۔ کچھ دیہاتیوں نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کی : انسان کا بہترین عطیہ کیا ہے ۔ آپ ﷺنے فرمایا : حسن اخلاق انسان کا بہترین عطیہ ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : حسن خلق خطاؤ ں کو اس طرح پگھلاتا ہے جس طرح سورج کی گرمی برف اور یخ کو پگھلاتی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مومن اچھے اخلاق کے ذریعے ، قائم اللیل اور صائم النہار والے کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضور نبی کریم ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ !مجھے صحت ، عافیت اور اچھے اخلاق عطا فرما ۔ 

منگل، 28 نومبر، 2023

Shortvideo - Kamyabi ka raaz

Surah Al-Ra'd ayat 8 Part-01.کیا ہم نے حیات دنیا کو اصل زندگی سمجھ لیا ہے

Surah Al-Ra'd ayat 7.کیا ہمارا دماغ دنیا کی محبت میں پاگل ہے

اسلام اور ہم

 

اسلام اور ہم 

آج اس دور میں کچھ لوگ ا پنے مسائل اور پریشانیوں کا حل تلاش کرنے کے لیے مختلف لوگوں کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کے اقوال سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن بطور مسلمان اللہ کے فضل اور اس کی عنایت سے ہمارا ماننا یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کا اعلان آپ نے خطبہ حجة الوداع میں فرمایا : ” آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند فرمایا “۔
اگر ہمارے پاس احکام الٰہی اور حضور نبی کریم ﷺکی تعلیمات موجود ہیں تو ہم دوسرے لوگوں کی کتب پڑھ کر زندگی میں کیوں کامیابی تلاش کریں۔ ہمیں قرآن مجید اور حضور ﷺکی تعلیمات میں زندگی کے تمام معاملات میں رہنمائی ملتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں کو حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں تو ہماری دینی اور دنیوی زندگی میں انقلاب پیدا ہو جائے۔
 آج بد قسمتی سے ہم نے سرکار دو عالم ﷺکی تعلیمات کو صرف دینی اور اخروی زندگی تک محدود کر دیا ہے اور دنیا اور دین کو الگ الگ چیز سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ دوسرے مذاہب اور اسلام میں یہ ہی فرق ہے کہ دوسرے مذاہب اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی نہیں کرتے لیکن اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام معاملات میں چاہے وہ معاشرتی ہوں یا پھر معاشی ہر طرح کی رہنمائی موجو دہے۔ آج ہم مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو پوری طرح اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھالا۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
” دین میں پورے پورے داخل ہو جاؤ“۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی کو دینی اور دنیوی طور پر مکمل احکام الٰہی اور سیر ت نبوی ﷺ کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں تو ہم زندگی میں پیش آنے والی تمام مشکلات سے نکل آئیں گے۔ علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ بھی اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آج دنیا میں مسلمانوں کی ذلیل و رسوا ہونے کی وجہ قرآن پاک سے دوری ہے۔ وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر، اورہم خوا ر ہوئے تارک قرآں ہو کر۔
آج ہم مالی اور معاشی لحاظ سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشی مسائل کا حل احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی ﷺمیں تلاش کریں گے تو ہم معاشی لحاظ سے بہت بہتر ہو جائینگے۔ اسلام ہمیں محنت کرنے ، میانہ روی اختیار کرنے اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے : انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

پیر، 27 نومبر، 2023

Shortvideo - Kalima-e-tayyba ki haqeeqat

Surah Al-Ra'd ayat 5.کیا ہماری گردن میں ظاہر کا طوق پڑا ہوا ہے

غیبت

 

غیبت

اسلام میں غیبت ایک گناہ کبیرہ ہے یہ ایک ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے دوسری برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل تفصیل کے ساتھ اپنے ارشادات میں مسلمانوں کو غیبت کے نقصانات سے آگاہ کیا اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگو! تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا چیز ہے؟۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا اللہ تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرنا کہ اگر وہ یہ بات خود سن لیتا تو اس کو نا پسند کرتا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہو تو پھر تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر موجود نہ ہو تو پھر تو نے اس پر بہتان باندھا۔
اللہ تعالی سورة الھمزہ میں ارشاد فرماتا ہے : ”خرابی اور تباہی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب جوئی کرے اور پیٹھ پیچھے برائی کرے “۔ 
اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں غیبت کرنے والے کو وعید سنائی ہے کہ جس شخص نے یہ کا م کیا اس کو ذلت اور درد ناک عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے :” اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ یہ تو تمہیں بہت ناگوار ہو گا اور اللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والامہربان ہے “۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیبت بد کاری سے سخت تر ہے کیونکہ آدمی بدکاری کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو معاف فرما دیتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
 بد کار شخص توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو معاف فرما دیتا ہے اور غیبت کرنے والے کو اللہ تعالی اس وقت تک معاف نہیں فرماتا جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی تھی۔غیبت سے بچنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آدمی کی دنیاوی حیات اور اخروی حیات میں اس کی تباہی اور ہلاکت کا باعث چغلی ، بہتان طرازی اور غیبت جیسی لغزشیں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ زبان پہ قابونہ ہو نا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو خصلتیں پشت پر ہلکی اور میزان پر بھاری ہیں۔ ایک طویل خاموشی اور دوسری حسن خلق۔

Shorts - مومن کا مائنڈ سیٹ #shorts #maarifulquran #islam #tredning

اتوار، 26 نومبر، 2023

Shortvideo - Kalma-e-tayyba ka wazan

Surah Al-Ra'd ayat 4.کیا ہم سب طاغوتی زندگی گزار رہے ہیں

Surah Al-Ra'd ayat 3. کیا ہم اندھوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں

حسن اخلاق

 

حسن اخلاق

ارشاد باری تعالی ہے : ’’ درگزر سے کام لو ، بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے دور رہو ۔ ( سورۃ الاعراف ) 
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے : جو تم سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق قائم کرو جو محروم رکھے ، اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے ، اس سے در گزر کرو ۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میزان میں سب سے پہلے حسن خلق اور سخاوت کو رکھا جائے گا جب اللہ نے ایمان کو پیدا کیا اس نے دعا مانگی مجھے قوت عطا فرما پس اللہ تعالی نے حسن خلق اور سخاوت کے ذریعے اسے قوت دی ۔ جب کفر کو پیدا کیا اس نے دعا مانگی مجھے قوت عطا فرما ۔ پس اللہ تعالی نے اسے بخل اور برے اخلاق سے قوت عطا کی ۔ 
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : انسان کو عزت دین سے اہمت سے عقل اور بزرگی اچھے اخلاق سے حاصل ہوتی ہے ۔ 
انسان اللہ تعالی کے نزدیک دینداری کی وجہ سے معزز ہوتا ہے جبکہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مروت اور احسان اختیار کرے کیونکہ انسان عقل کے ذریعے سوچتا ہے کہ نیکی کروں یہ نیکی نہ ختم ہونے والی سعادت کے دیوان میں درج کر لی جائے گی ۔ اور انسان کو بزرگی اور شرف اچھے اخلاق کی وجہ سے ملتا ہے کیونکہ جو شخص علم ،حلم ، تقوی ، وفا اور عفت جیسی صفات  جس قدر اختیار کرتا ہے مخلو ق میں اس قدر ہی لوگوں میں دلعزیز ہوجاتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تین باتوں میں سے اگر ایک بھی موجود ہو تو باقی اعمال کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ تقوی نافرمانی سے بچاتا ہے ، حلم جس کے ذریعے جاہلوں سے در گزر کرے اور اچھے اخلاق کہ لوگوں کے ساتھ میل جول کرے ۔ 
کچھ دیہاتیوں نے حضور  ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کی : انسان کا بہترین عطیہ کیا ہے ۔ آپ ﷺنے فرمایا : حسن اخلاق انسان کا بہترین عطیہ ہے ۔ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : حسن خلق خطائو ں کو اس طرح پگھلاتا ہے جس طرح سورج کی گرمی برف اور یخ کو پگھلاتی ہے ۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مومن اچھے اخلاق کے ذریعے ، قائم اللیل اور صائم النہار والے کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔ 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضور نبی کریم ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے : اے اللہ !مجھے صحت ، عافیت اور اچھے اخلاق عطا فرما ۔ 

Shortvideo - Baiat kay taqazay

ہفتہ، 25 نومبر، 2023

Surah Al-Ra'd ayat 1-2.کیا ہمیں اپنے رب کی ملاقات پر یقین حاصل نہیں ہے

Surah Yusuf ayat 109-111.کیا ہمیں دنیا کا دھوکہ لگ چکا ہے

مومن اور متقی لوگوں کی صفات(۲)

 

 مومن اور متقی لوگوں کی صفات(۲)

بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کے مال اور جان خرید لیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے یہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں اس کے ذمہ کرم پر سچا وعدہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس پر خوشیاں مناﺅ اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ ( سورة التوبة ) 
توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے حمد کرنے والے روزہ رکھنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کاموں کا امر کرنے والے بری باتوں سے منع کرنے وا لے خدا کی حدود کی حفاظت کرنے والے ( یہی مومن لوگ ہیں ) اور اے پیغمبر مومنوں کی بہشت کی خوشخبری سنا دو ۔ ( سورة التوبة ) 
جو خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرا ر کو نہیں توڑتے ۔ اور جن ( رشتوں )کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان کو جوڑتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں اور برے حساب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اور وہ جو اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو (مال ) ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے لیے عاقبت کا گھر ہے ۔ ( سورة الرعد) 
بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے ۔ جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں ۔ اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑتے رہتے ہیں ۔ اور جو زکوة ادا کرتے ہیں ۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی ملک ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ اور جو ان دو کے سوا کچھ چاہیں وہ ہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ اور وہ اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوسکی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ( سور ة المﺅ منون ) 
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام ۔ اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ۔ا ور وہ جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھ بیشک اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے اور دوزخ ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں بلکہ کے اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔ ( سورة الفرقان ) 

جمعہ، 24 نومبر، 2023

Surah Yusuf ayat 108 Part-02. کیا ہم نے اللہ تعالی کے رسول کی دعوت پر لب...

Surah Yusuf ayat 108 Part-01.کیا ہماری منزل دنیا ہے

Shortvideo - Islam kay taqazay

مومن اور متقی لوگوں کی صفات(۱)

 

مومن اور متقی لوگوں کی صفات(۱)

اللہ تعالی اپنے محبوب اوربرگزیدہ بندوں کی صفات قرآن مجید میں بیان فرماتا ہے ۔ اور اللہ کے محبوب بندوں کو جو جو انعا م و اکرام ملیں گے اس کی خوشخبری بھی سناتا ہے ۔ ارشادباری تعالی ہے :
الم۔ یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ( کہ کلام خدا ہے ، خدا سے ) ڈرنے والوں کی رہنما ہے ۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ اور جو کتاب اے محمد (ﷺ) آپ پر نازل ہوئی اور جو کتابیں آپ سے پہلے نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں ۔ یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں ۔ (سورة البقرة ) 
لیکن جو ایمان والے ہیں وہ تو خدا ہی کے سب سے زیادہ دوست ہیں اور کاش ظالم لوگ جو بات عذاب کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت خدا ہی کوہے اور یہ کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے ۔(سورة البقرة ) 
جو خدا سے التجا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو ہمارے گناہ معاف فرما اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مشکلات میں صبر کرتے اور سچ بولتے اور عبادت میں لگے رہتے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور اوقات سحر میں گناہو ں کی معافی مانگا کرتے ہیں ۔ ( سورة آل عمران ) 
 اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑائی میں سب زمین و آسمان آ جائیں پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ وہ جو اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی اور غمی میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔ اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ تعالی کے سوا کون گناہ بخش سکتا ہے اور جان بوجھ کر اپنے کیے پر اڑے نہیں رہتے ۔ ( سورة آل عمران ) 
مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انھیں ا س کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں ۔ اور وہ نماز پڑھتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے ( نیک کاموں ) میں خرچ کرتے ہیں ۔ یہی سچے مومن ہیں اور ان کے لیے پروردگار کے ہاں بڑے بڑے درجے اور بخشش اور عزت کی روزی ہے ۔ (سورة الانفال ) 

Shortvideo - Islam kya hay?

Surah Yusuf ayat 102-107.کیا ہم حقیقی ایمان لانے کے لئے تیار نہیں ہیں

جمعرات، 23 نومبر، 2023

Surah Yusuf ayat 91-101.کیا ہم صالحین کی ٹولی میں شامل ہیں

مناجات (۲)

 

مناجات (۲)

 اے ہمارے رب ہم نے ایک منادی کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آﺅ توہم ایمان لائے اے ہمارے رب تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کر دے اور ہماری موت اچھوں کے ساتھ کر ۔ اے پروردگار ہمیں دے وہ جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے اپنے رسولوں کی معرفت سے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر ۔ بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ( سورة آل عمران ) ۔
اے ہمارے رب مجھے توفیق عطا فرما میں نماز پڑھتا رہو ں اور میری اولاد کو بھی یہ توفیق بخش ۔ اے میرے رب میری دعا قبول فرما ۔ اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہو گا ۔ (سورة ابراہیم ) 
اور یوں عرض کرو کہ اے ہمارے رب مجھے سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے جا اور مجھے اپنی طرف سے مدد گار غلبہ دے ۔ ( سورة بنی اسرائیل ) 
اے میرے رب میرے لیے میرا سینا کھول دے ۔ اور میرے لیے میرا کام آسان کر دے ۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ کہ وہ میری بات سمجھیں ۔ اور میرے گھر والوں میں سے میرا ایک وزیر ( یعنی مدد گار ) مقرر کر دے ۔ (سورة طہ ) 
اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما ۔ (سورة طہ) 
اے میرے پروردگار شیطانوں کے وسوسوںسے تیری پناہ مانگتا ہو ں ۔ اور اے میرے پروردگار میں اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہو ں وہ میرے پاس آئیں ۔ (سورة المﺅ منون ) 
اے میرے پروردگار مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے ۔ (سورة المﺅ منون) 
اے ہمارے رب ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور ہمیں بخش دے بیشک تو ہی عزت و حکمت والا ہے ۔ (سورة الممتحنہ)
اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب عورتوں کو اور کافروں کو نہ بڑھا مگر تباہی ۔ ( سورة نوح ) 
تم فرماﺅمیں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کی سب مخلوق کے شر سے ۔ اور اندھیری ڈالنے والے کے شر سے جب وہ ڈوبے۔ اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکتی ہیں ۔ اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے ملے ۔ ( سورة الفلق ) 
تم کہو میں اس کی پناہ میں آیا جو سب لوگوں کا رب ہے ۔ سب لوگوں کا باد شاہ ہے ۔ سب لوگوں کا خدا ۔ اس کے شر سے جو دل میں برے خطرے ڈالے اور دبک رہے ۔ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں ۔ جن اور آدمی ۔ ( سورة الناس ) ۔

بدھ، 22 نومبر، 2023

Surah Yusuf ayat 67-90.اللہ تعالی تقوی اور صبر کرنے والوں کا اجر ضائع نہ...

Surah Yusuf ayat 54-66.ہم کیسے اپنےآپ کو اللہ تعالی کی رحمت کا مستحق بنائیں

Shortvideo - Allah Tallah par yaqeen kaisay hasil karain?

اسلام اور ہم

 

اسلام اور ہم

آج اس دور میں کچھ لوگ ا پنے مسائل اور پریشانیوں کا حل تلاش کرنے کے لیے مختلف لوگوں کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کے اقوال سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن بطور مسلمان اللہ کے فضل اور اس کی عنایت سے ہمارا ماننا یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کا اعلان آپ ﷺ نے خطبہ حجة الوداع میں فرمایا : ” آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند فرمایا “۔
اگر ہمارے پاس احکام الٰہی اور حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات موجود ہیں تو ہم دوسرے لوگوں کی کتب پڑھ کر زندگی میںکیوں کامیابی تلاش کریں ۔ ہمیں قرآن مجید اور حضور ﷺ کی تعلیمات میں زندگی کے تمام معاملات میں رہنمائی ملتی ہے ۔ اگر ہم اپنی زندگیوں کو حضور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں تو ہماری دینی اور دنیوی زندگی میں انقلاب پیدا ہو جائے ۔ آج بد قسمتی سے ہم نے سرکار دو عالم ﷺ کی تعلیمات کو صرف دینی اور اخروی زندگی تک محدود کر دیا ہے اور دنیا اور دین کو الگ الگ چیز سمجھنا شروع کر دیا ہے ۔ 
دوسرے مذاہب اور اسلام میں یہ ہی فرق ہے کہ دوسرے مذاہب اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی نہیں کرتے لیکن اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام معاملات چاہے وہ معاشرتی ہو یا پھر معاشی ہر طرح کی رہنمائی موجو دہے ۔ آج ہم مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو پوری طرح اسلام کے سانچے میں نہیں ڈھانپا ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :” دین میں پورے پورے داخل ہو جاﺅ “۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی کو دینی اور دنیوی طور پر مکمل احکام الٰہی اور سیر ت نبوی ﷺ کی تعلیمات کے مطابق بسر کریں تو ہم زندگی میں پیش آنے والی تمام مشکلات سے نکل آئیں گے ۔ علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ بھی اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ آج دنیا میں مسلمانوںکی ذلیل و رسوا ہونے کی وجہ قرآن پاک سے دوری ہے ۔ 
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کرہم خوا ر ہوئے تارک قرآں ہو کر آج ہم مالی اور معاشی لحاظ سے بہت زیادہ پریشان ہیں اگر ہم اپنے معاشی مسائل کا حل احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی ﷺ میں تلاش کریں گے تو ہم معاشی لحاظ سے بہت بہتر ہو جائیں گے اسلام ہمیں محنت کرنے ، میانہ روی اختیار کرنے اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے : انسان کو وہی کچھ ملتا جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔

Shortvideo - Yaqeen zaat-e-baritallah kyoon zaroori hay?

منگل، 21 نومبر، 2023

Surah Yusuf ayat 53.کیا ہم نے اپنے نفس امارہ کو نفس مطمئنہ میں تبدیل کرا...

Surah Yusuf ayat 36-52. کیا ہم نے ایک الہ واحد کی بندگی سے عملا انکار کر...

غیبت

 

غیبت

اسلام میں غیبت ایک گناہ کبیرہ ہے یہ ایک ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے دوسری برائیاں بھی جنم لیتی ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے مکمل تفصیل کے ساتھ اپنے ارشادات میں مسلمانوں کو غیبت کے نقصانات سے آگاہ کیا اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لوگوں تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرنا کہ اگر وہ یہ بات خود سن لیتا تو اس کو نا پسند کرتا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہو تو پھر تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر موجود نہ ہو تو پھر تو نے اس پر بہتان باندھا ۔اللہ تعالیٰ سورة الھمزہ میں ارشاد فرماتا ہے : ” خرابی اور تباہی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب جوئی کرے اور پیٹھ پیچھے برائی کرے “۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں غیبت کرنے والے کو وعید سنائی ہے جس شخص نے یہ کام کیا اس کو ذلت اور درد ناک عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :” اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا یہ تو تمہیں بہت ناگوار ہو گا اور اللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والامہربان ہے “۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : غیبت بد کاری سے سخت تر ہے کیونکہ آدمی بدکاری کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتا ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بد کار شخص توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتا ہے اور غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک معاف نہیں فرماتا جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی تھی ۔غیبت سے بچنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ آدمی کی دنیاوی حیات اور اخروی حیات میں اس کی تباہی اور ہلاکت کا باعث چغلی ، بہتان طرازی اور غیبت جیسی لغزشیں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ زبان پہ قابونہ ہو نا ہے ۔حضور ﷺ نے فرمایا دو خصلتیں پشت پر ہلکی اور میزان پر بھاری ہیں ایک طویل خاموشی اور دوسری حسن خلق ۔

پیر، 20 نومبر، 2023

Surah Yusuf ayat 03-35.یوسف علیہ السلام کا واقعہ

Surah Yusuf ayat 01-02 Part-03.کیا ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے انکاری ہیں

Shortvideo - Allah TAllah kahan hay?

آداب دعوت(2)

 

آداب دعوت(2)

دعوت دینے والے کو چاہیے کہ وہ کسی رنگ و نسل ، قوم اور فرقے کی دعوت نہ دے بلکہ صرف اور صرف دین کے احکام ہر نسل ، ہر قوم اور ہر فرقے تک پہنچائے۔ حالات جیسے بھی ہوں دین الٰہی کو مکمل اور صحیح انداز میں لوگوں تک پہنچائے۔ کوئی بھی کام ہو اگر اس میں تسلسل جاری نہ رہے تو اس سے پوری طرح نتائج حاصل نہیں ہوتے۔حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کو کونسا عمل پسند ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : جس پر دوام کیا جائے اگرچہ وہ عمل کم ہی کیوں نہ ہو۔ دعوت کا کام بھی تسلسل سے جاری رہنا چاہیے۔ لگاتار جدو جہد کرتے رہنا ہی کامیابی کا راز ہے۔ انسان جب بھی کوئی کام کرتا ہے اس میں مشکلات آتی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ اگر یہ ہی مشکلات عبادت الٰہی میں آئیں تو بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔داعی کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں ، بدنی مشقتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ لیکن داعی کو چاہیے کہ ان مشکلات کو برداشت کرے اور دعوت دین کا کام جاری رکھے۔ دعوت کی راہ میں باتیں سننا ، دیوانہ کہلانا ، اپنوں سے دور ہونا اور پردیس میں پتھر کھانا حضور ﷺکی سنت مبارکہ ہے۔ اور یہی مشکلات آدمی کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بنا دیتی ہیں۔ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ دین کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں دکھاتا اور کسی بھی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ ارشاد باری تعالی ہے : ” وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں “۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کی تباہی اسی وجہ سے ہوئی کہ جب کوئی آدمی کسی کو برے کام کرتے دیکھتا تو اسے کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور اس کام کو چھوڑ دو۔ پھر جب وہ دوسرے دن اس کو ملتا تو جب ا سے کوئی برائی کرتے دیکھتا تو اس کو منع نہیں کرتا تھا اور اسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے سب کے دل ایک جیسے کر دیے۔ دعوت اس وقت اپنا اثر دکھاتی ہے جب داعی با عمل ہو۔ اگر داعی بے عمل ہو گا تو اس کی دعوت ایک رسم بن جائے گی اور اس کی بات لوگوں کے دلوں میں نہیں اترے گی۔حضور ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں۔

Surah Yusuf ayat 01-02 Part-02. کیا ہم نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو ...

Surah Yusuf ayat 01-02 Part-01.کیا قرآن سے ہم ہدایت نہیں لینا چاہتے

اتوار، 19 نومبر، 2023

Shortvideo - Deen-e-islam ki zid kya hay?

عمل اور حسن نیت

 

عمل اور حسن نیت

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول کریم  ٖﷺ   نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہ ہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔
حضور نبی کریمﷺ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ انسانی اعمال ظاہری طور پر کچھ بھی نظر آئیں ، دنیا اس کی بنیاد پر جو مرضی فیصلہ کرے اور کسی کی نیکی اور بدی کو معیار مقرر کرے۔ مگر اللہ کے نزدیک نیکی کا معیار صرف اور صرف خلوص نیت ہی ہے۔اللہ تعالی قادر مطلق ہے وہ انسان کے دلوں اور سینوں میں موجود نیتوں اور جذبوں کو خوب جانتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور ما ل و دولت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے خلوص نیت اور اس کی بنیاد پر کیے گئے عمل کو دیکھتا ہے۔ ایک دوسرے مقام ارشاد باری تعالی ہے : اللہ کو تمہاری قربانی کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ہی یہ اللہ کا مطلوب ہے بلکہ اللہ کو تمہاری خلوص نیت یعنی تقوی پہنچتا ہے اور یہ ہی اللہ کو مطلوب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا کہ : قیامت کے دن تین ایسے لوگوں کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا اور انہیں جہنم میں لے جانے کا حکم ہو گا جو دنیا میں نیکی اور حسن عمل کے بلند مرتبے پر تھے۔ مگر اللہ تعالی کے نزدیک ان کے نیک کاموں کا کوئی وزن نہ ہو گا۔ ان میں سے ایک شہیدہو گا جو کہہ گا کہ میں نے اللہ کی راہ میں جان دی۔ دوسرا قاری اور عالم ہو گا جو کہہ گا کہ میں نے اللہ ہی کے لیے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور تیسرا ایک مال دار شخص ہو گا جس کا دعوی یہ ہو گا کہ اس نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ تعالی ان سے فرمائے گا تم سب کے یہ دعوے بالکل جھوٹے ہیں۔ تم نے یہ سب کچھ میرے لیے نہیں کیا بلکہ دنیا میں اپنی شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے کیا۔ اس لیے اب آخرت میں تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ پتا چلا کہ اعمال کی قبولیت کا انحصار ظاہری کیفیات پر نہیں بلکہ انسان کے اندر موجودخلوص اور جذبات پر ہے۔اللہ تعالی کی بارگاہ میں صرف وہ ہی عمل قابل قبول ہو گا جو خلوص نیت اور اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔اللہ تعالی کی رضا کے بغیر بڑے سے بڑا عمل اور عبادت جو اخلاص سے خالی ہو اور جس کا مقصد صرف اور صرف دنیوی شان و شوکت کو حاصل کرنا ہو قیامت کے دن ایسے عمل کی کوئی حثییت نہیں ہو گی۔

Surah Hud ayat 116-119.کیا ہم جو کہتے ہیں وہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں

Shortvideo - Humaray leay deen-e-islam aeham kyoon nahi hay?

ہفتہ، 18 نومبر، 2023

بچوں کے محسنﷺ

 

 بچوں کے محسنﷺ

اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو تمام جہانوں کے لیے رحمة اللعالمین بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ تمام مخلوق کے سب سے بڑے محسن ہیں۔ آپﷺ نے بچوں کے ساتھ خصوصی شفقت فرمائی اور بچوں سے پیار محبت سے پیش آنے کا حکم فرمایا۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ بیٹا ہو یا بیٹی دونوں کی پیدائش پرایک جیسا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسلام سے قبل مفلسی کے ڈر سے لوگ بچوں کو قتل کر دیتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو حرام قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تم کو بھی رزق دیں گے اور ان (تمہاری اولاد ) کو بھی۔ اسلام سے قبل عرب کے لوگ بیٹی کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس عمل کو ختم فرمایا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے تین لڑکیوں یا ایک لڑکی کی بھی پرورش کی اور اس کی شادی کی اس کو میں جنت کی ضمانت دیتا ہو۔
بچے کی پیدائش پر اس کی صحت کے لیے ضروری اقدامات کرنا آپ ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ جب حضرت زبیر پیدا ہوئے تو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے دست مبارک سے ان کو گھٹی دی۔ زمانہ جاہلیت میں عرب معاشر ے میں بچوں کے عجیب و غریب نام رکھے جاتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اچھے نام بچوں کی شخصیت پر اچھے اثرات چھوڑتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بچوں کے نام اچھے معانی والے رکھنے کا حکم فرمایا۔آپﷺ نے بچے کی پیدائش پر عقیقہ کو سنت قرار دیا۔ بعض والدین اپنے بچوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ نہیں رکھتے۔ آپ ﷺ نے تمام بچوں کویکساں پیار و محبت دینے کاحکم فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو گود میں لے کر تشریف فرماتھے کہ اتنے میں آپﷺ کے غلام حضرت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بیٹے حضرت اسامہ کولے کر حاضر ہوئے آپ ﷺ نے ایک طرف حضرت ابراہیم کو اٹھا یا اور دوسری طرف حضرت اسامہ کو اور دونوں پر یکساں شفقت کی نظر فرماتے رہے۔
آپ ﷺ راہ چلتے بچوں کو سلام کرنے میں پہل فرماتے۔ اور ان کے سر پر دست شفقت رکھتے۔ اور اگر آپﷺ سواری پر سوار ہوتے تو بچے کو بھی اپنے ساتھ بٹھالیتے تھے۔ عرب میں یتیم بچوں سے بد سلوکی کی جاتی تھی۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس نے یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا جتنے بال اس کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنی ہی اسے نیکیاں ملیں گیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا بہترین صدقہ اولاد کی اچھی تربیت پر خرچ کرناہے۔

Shortvideo - Islam kya aur kyoon?

جمعہ، 17 نومبر، 2023

Surah Hud ayat 115.کیا نیکی کا اجر دنیا میں نہیں ملتا

Surah Hud ayat 111-114.کیا ہم ظالم لوگ ہیں

بہترین شخص

 

بہترین شخص

خیر خواہی ایک ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تمام اخلاق کی بنیاد رضائے الٰہی ہی ہے۔ مخلوق کے لیے اپنے دل میں ہمدردی اور خیر خواہی رکھنا ایک سنہری اصول ہے۔ حضور نبیءکریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”تمام مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک محبوب وہ ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے “۔ ( مشکوة شریف)۔
حضور نبی کریم ﷺنے ساری زندگی اللہ کی مخلوق کی خیر اور بھلائی چاہی۔ آپ کا مقصد حیات لوگوں کو نفع پہنچانا اور فیضیاب کرنا تھا۔آپ نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو انسانوں کو 
نفع پہنچاتا ہے۔فرمان مصطفی ﷺہے : اللہ تعالی تمام معاملات میں نرمی پسند کرتا ہے۔( بخاری شریف)
ہمیں ذاتی مفاد اور غرض کے بغیر لوگوں کو نفع پہنچانا چاہیے۔ رشتہ داروں سے بھی بھلائی کریں اور دوسرے حاجت مندوں سے بھی۔ اور جانوروں کے ساتھ بھی بھلائی کریں۔ بد سلوکی اور دوسروں کو نقصان پہنچانا 
ایک نا پسندیدہ عمل ہے اور آپ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا : اللہ تعالی کے نزدیک قیامت کے دن رتبے کے لحاظ سے وہ بد ترین شخص ہو گا جس کے شر کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں۔ (بخاری شریف) 
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرے۔ دوسروں کے ساتھ مہربانی ، لطف و عنایت ، نرم دلی اور خیر خواہی ایک اعلی انسان کی صفات ہیں۔ بوڑھوں ، یتیموں ، بیواﺅں، بچوں اور مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ خیر خواہی اور ان کا خیال رکھنا ہمار افرض ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : ” وہ تنگدستی کے باوجود دوسرے مسلمان بھائیوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔“( سورة الحشر )۔
حضرت ابو جہم بن حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ یرموک کے میدان میں اپنے زخمی بھائی کی تلاش میں نکلے جب پانی لے کر بھائی کے پاس پہنچے اسے پانی پلانے ہی لگے تھے کہ دوسرے زخمی کے کراہنے کی آواز آئی تو زخمی بھائی نے اپنے بھائی سے کہاکہ پہلے اسے پانی پلائیں۔ جب صحابی پانی لے کر اس کے پاس پہنچے تو تیسرے زخمی کی آواز آئی تو صحابی نے کہا کہ پہلے اسے پلائیں۔ جب صحابی پانی لے کر تیسرے صحابی کے پاس پہنچے وہ شہیدہو چکے تھے۔ واپس دوسرے کے پاس آئے تو وہ بھی شہیدہو چکے تھے پھر جب اپنے بھائی کے پاس پہنچے تو وہ بھی شہادت کا جام پی چکے تھے۔ یہ تھا صحابہ کرام کا اپنے بھائیوں کے لیے جذبہ ایثار۔آپ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ ہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔

جمعرات، 16 نومبر، 2023

Shortvideo - Tazkya-e-nafs magar kaisay?

Surah Hud ayat 108-109.کیا روز قیامت ہم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے

دین فطرت(۲)

 

دین فطرت(۲)

دین اسلام میں ہمارے لیے مکمل ضابطہ حیات موجود ہے۔ مسائل معاشی ہوں یا پھر معاشرتی دین اسلام سے ہمیں ہر طرح کی رہنمائی ملتی ہے۔ 
حقوق العباد: بندوں کے حقوق یعنی وہ حقوق جو انسانوں کے انسانوں پر ہوتے ہیں حقوق العباد کہلاتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ان حقوق کی ادائیگی پربہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ میں حقوق العباد کی ادائیگی کی اہمیت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ ان میں شوہر،بیوی ، بچوں ، والدین ، عزیزواقارب، استاد ، شاگرد ، ملازم اور پڑوسیوں کے حقوق شامل ہیں۔ اسلام ہی نے خواتین کو ان کے جائز حقوق دے کرمعاشرے میں احترام کا مقام دیا۔ حالت جنگ میں بوڑھوں ، بچوں ، عورتوں اور بیمار وں کو قتل کرنے سے سختی سے منع کیا گیا۔ 
غلامی کا خاتمہ : ظہور اسلام سے پہلے غلامی کا دور چلا آ رہا تھا۔ غلاموں پر بہت زیادہ ظلم و ستم کیے جاتے تھے۔ان سے ان کی طاقت سے بڑ ھ کام لیا جاتا تھا۔ اسلام نے غلاموں کو بھی مساوی حقو ق دیے۔ انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلائی۔ اسلام میں آقا اور غلام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو خود کھاتے ہو غلاموں کو بھی کھلاﺅ اور جو خود پہنتے ہو غلاموں کو بھی پہناﺅ۔ قرآن میں ظہار اور کفارہ میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔
زکوٰة کا نظام : بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات اسلامی نظامی زکوة کو دنیا کا بہترین نظام مالیات مانتے ہیں۔ سال بھر جمع شدہ رقم پر اس کا اڑھائی فیصد بطور زکوة ادا کرنا فرض ہے۔ اگر آج بھی دیانتداری کے ساتھ صاحب نصاب زکوة ادا کرنا شروع کر دیں تو کوئی غریب نظر نہیں آئے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور خلافت میں کوئی بھی زکوة لینے والا نہیں رہ گیا تھا زکوة کی صحیح تقسیم کی وجہ سے سب صاحب نصاب ہو گئے تھے۔ 
عدل و انصاف : اسلام میں عد ل وانصاف کا نظام تمام دنیا اور ہر زمانے کے لیے قابل تقلید ہے۔ قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر عدل و انصاف کرنے کی بڑی سخت تاکید فرمائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے : ”اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری کرو۔ ہم کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتے مگر اس کے مقدور بھر اور جب بات کرو تو انصاف کی کرو اگرچہ تمہارے رشتہ دار کا معاملہ ہو۔ ( سورة الانعام )۔ 
زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف کرنے کا حکم ہے خواہ خود ہمارے خلاف ہو ، ہمارے والدین یا اولاد کے خلاف ہو مگر فیصلہ حق پر ہی ہونا چاہیے۔ اگر معاشرے میں عدل و انصاف ہو گا تو اس کی برکت سے ایسا معاشرہ تشکیل پائے گا جس میں سب امن و امان کے ساتھ رہ سکیں گے۔

Shortvideo - Kya mushrik najis hay?

Surah Hud ayat 104-107.کیا ہم نے اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن بنا لیا ہے

Surah Hud ayat 103 Part-02. کیا ہمارے اعمال کا نتیجہ ضرور ہوگا

بدھ، 15 نومبر، 2023

دین فطرت(۱)

 

دین فطرت(۱)

اسلام کے لغوی معنی اطاعت کرنا گردن جھکانا شریعت کی اصطلاح میں دین محمدی ﷺ میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے تمام احکامات کی پوری تعمیل کرنے کا نام اسلام ہے ۔ دین اسلام کی تعلیمات ، احکامات و ہدایات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر ترقی یافتہ اور جدید دور کے لیے موزوں ترین اور بہترین دین دین اسلام ہی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا “۔
بہت سے غیر مسلم علماء، مفکرین اور محقیقن نے بھی اسلام کامطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کے اندر انسانی فطرت کی مطابقت ، حقانیت اور صداقت موجود ہے ۔ اور انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ قرآن مجید ہر قسم کے علوم کا خزانہ اور جدید سائنسی تحقیقات و ایجادات کی نشاندہی کرتا ہے ۔
آج کے دور میں بعض مسلما ن بھی اور دوسرے افراد کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب صرف چند مخصوص عبادات اور مذہبی رسوم کی ادائیگی کا نام ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی زندگی گزارنے کے طور طریقوں سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں ۔ حقیقت میں ایسے خیالات دینی علم نہ ہونے کی وجہ سے قطعی باطل ، بے بنیاد ، غیر منطقی اور غیر شرعی ہیں ۔ توحید و رسالت پر ایمان کامل اور دنیاوی زندگی حضور ﷺ کے بتائے ہوئے احکامات کے تحت بسر کرنا اصل منشا ہے ۔ خیر و شر ، نیک و بد اعمال کی جزا و سزا دنیا اور آخرت میں ملنے پر ایمان رکھنا دین کی اہم ترین جز کی بنیاد ہے ۔مومن کی زندگی کے تمام اعمال عبادت بن سکتے ہیں ۔ اگر وہ ہر کام اور ہر عمل اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو بجا لانے اور ان کی خوشنودی کے لیے کر رہا ہو ں تو دنیا اور آخرت میں اجر و ثواب کا مستحق ہو گا ۔اگر ہم کھانا کھائیں تو آداب سنت کے تحت کھائیں ، اگر پانی پئیں تو اداب سنت کے تحت پئیں ، والدین کی خدمت،بزرگوں اور اساتذہ کا احترام بیوی بچوں کی تربیت اور جو بھی کام ہیں اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں کریں گے تو وہ عبادت بن جائیں گے۔ہمارے لیے یہ بات نہایت افسوس اور ندامت والی ہے کہ ہم مسلمان قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہوئے بھی قرآنی احکام کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ اور ان احکامات پر عمل کر کے دنیا و آخرت کے فوائد حاصل کرنے سے محروم ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم غیر مسلموں سے پیچھے رہ گئے ہیں اور بہت سی ضروریا ت اور امور حکومت میں ان کے محتاج ہیں ۔

منگل، 14 نومبر، 2023

Shortvideo - Tazkya-e-nafs ki aehmiat

Surah Hud ayat 103 Part-01.کیا ہم آخرت کے عذاب سے بالکل نہیں ڈرتے

Surah Hud ayat 101-102. کیا ہم اپنے اوپر بہت بڑا ظلم کر رہے ہیں

پردے کے احکام (۲)

 

پردے کے احکام (۲)

پردے کے احکام کے بارے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
 ” بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں فحاشی کی باتیں پھیلیں۔ ان کے لیے دنیا و آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہے “۔
چونکہ بے پردگی فحاشی کا بڑا ذریعہ ہے اس لیے سب سے پہلے اس پر پابندی لگائی گئی۔ سورہ نور میں ارشاد باری تعالی ہے :
 ”اے ایمان والو اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں نہ داخل ہوا کریں جب تک کہ اہل خانہ کو تعارف نہ کروا لو اور ان پر سلام کہے بغیر داخل نہ ہوا کرو “۔ 
سورة الاحزاب میں اجازت لے کر داخل ہو نے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے ساتھ مخصوص تھا لیکن اس آیت مبارکہ میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ کوئی بھی کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہو۔ 
علامہ ابن یسار کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں گھر جاتے وقت اپنی ماں سے بھی اجازت طلب کرو ں گا۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا میں تو اس کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں تو آپ نے فرمایا پھر بھی اجازت لے کر جاﺅ۔ اس نے کہا میں ہی تو اس کی خدمت کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا پھر بھی اجازت لے کر جاﺅ۔ بلا اجازت کسی کے گھر میں داخل ہو نا یا کسی کے گھر میں جھانکنا پردے اور اسلامی احکام کےخلاف ہے۔ اس بارے میں ارشاد باری تعالی ہے :
” اے نبی ! مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظروں کو نیچے رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو یہ کام کرتے ہیں اللہ ان سے خبر دار ہے اور مومن عورتوں سے بھی کہ دیں کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور اپنے ڈوپٹے اپنے پہلں پر ڈال لیا کریں “۔ 
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”پہلی دفعہ کی نظر معاف ہے لیکن دوسری دفعہ کی معاف نہیں “۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی بار کسی پر نظر اچانک سے بھی پڑ سکتی ہے 
اس لیے پہلی نظر کی معافی کا کہا گیا ہے لیکن جب کوئی دوسری مرتبہ کسی کی طرف خود نظر اٹھا کر دیکھے گا اس کی معافی نہیں۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آنکھوں کا زنا نظر بازی ہے۔

پیر، 13 نومبر، 2023

Shortvideo - Daimi sakoon kaisay hasil hoo ga?

Surah Hud ayat 96-100 Part-02.کیا ہم ایک لعنتی قوم ہیں

Surah Hud ayat 96-100 Part-01.کیا ہم صرف اللہ تعالی کو مقصد حیات بنانے ک...

پردے کے احکام (۱)

 

پردے کے احکام (۱)

ہر مذہب میں کچھ احکامات ایسے ہوتے ہیں جو اس کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ اسلام جو کہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں دنیا کے تما م مسائل خواہ وہ انفرادی ہو ں یا اجتماعی ، نجی ہو ں یا پھر معاشرتی غرض یہ کہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کا حل اسلام میں موجود ہے ۔ ایک فرد ایک معاشرہ ، ریاست اور مذہب کے بہتر ہونے کا ثبوت اس میں موجود اخلاقی اقدار سے ظاہر ہوتا ہے ۔ پردہ کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس سے اخلاقیات کی تعمیر ہوتی ہے اور پردہ بے شمار برائیوں کو روکنے کا ذریعہ بنتا ہے ۔ ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی تمام مذہبی اقدار اور احکام کو احسن طریقے سے ادا کریں ۔ قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر پردے کے احکام موجود ہیں ۔
پردے کے حکم کا آغاز آپ ﷺ کے گھرانہ مبارک سے ہی کیا گیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے : 
” اے نبی ﷺ کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نرم لہجے میں بات نہ کیا کرو ایسا کرنے سے دل کی خرابی میں مبتلا شخص خوامخوا ہ کوئی غلط امید لگا بیٹھے گا لہٰذا اس سے عام دستور کے مطابق با ت کیا کرو اور اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹھہری رہو اور دور جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت ظاہر نہ کرو “۔ 
ان آیات کے نازل ہونے سے پہلے معاشرے میں پردے کا رواج نہیں تھا ۔ اللہ تعالی نے اصلاح کا آغاز آپ ﷺ کے گھر سے ہی کیا کیونکہ آپ ﷺ کو اللہ تعالی نے پوری امت مسلمہ کے لیے اسوئہ حسنہ بنا کر پیش کرنا تھا ۔
 ارشاد باری تعالی ہے:” اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو ۔ اور اگر تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو “۔
 اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے ان لوگوں پر پابندی لگا دی جو بغیر اجازت آپ ﷺ کے گھر میں داخل ہو جاتے تھے ۔ اور اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد امہا ت المﺅمنین نے اپنے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے ۔ اور اس عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی عمل نبوی کی پیروی کرتے ہوئے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے۔ پردے کے حکم کے بارے میں اللہ تعالی نے مزید ارشاد فرمایا :” اے نبی ﷺ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہ دو کہ وہ جب باہر نکلا کریں تو اپنے چہروں پر چادر ڈال کر گھونگھٹ نکال کر باہر نکلا کریں ۔ یہ امر ان کے لیے موجب شناخت ہو گا تو کوئی ان کو ایذا نہیں دے گا©“ ۔

Shortvideo - Deen-e-islam hee kyoon?

Surah Hud ayat 84-95. کیا ہم اپنے رب سے غلط مقصود حیات پر معافی مانگنے...

Surah Hud ayat 82-83.کیا ہمارے دل پتھر سے زیادہ سخت ہو چکے ہیں

اتوار، 12 نومبر، 2023

مسلمان عورت اور موجودہ حالات

 

مسلمان عورت اور موجودہ حالات

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے(اپنے جمالیاتی فریب کے ذریعے مرد کی نظر میں ) حسین بنا کر دکھاتا ہے۔ ( ترمذی ) 
عورت کا مقام و مرتبہ اسکے انسانی اور نسوانی حقوق و فرائض اسکی آزادی اور حرمت ، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسکی اہمیت ایک علمی اور فکری بحث ہے۔ عورت کی آزادی ، عورت کی ترقی اور مر د و عورت کی مساوات کے نام پر پیدا ہونےوالے فکری بحران نے بیسویں صدی میں مغرب کے غلبہ و اقتدار سے تقویت پا کر تمام انسانی معاشروں حتی کہ نہایت روایتی اور مذہبی جس میں مسلمان معاشرہ بھی شامل ہے کو زبر دست خلفشار سے دو چار کیا ہے۔ہمارے عظیم ثقافتی رویے ، ہماری تاریخی روایات ، ہماری مذہبی اقدار اور عقائد ایسے عوامل سے غافل ہو کر آج ہم گو مگو اور تذ بذب کا شکار ہیں۔ بقول شاعر مشر ق ” خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کامقام “۔ ہماری تاریخ اور ثقافت میں وہ توانائی اور امکانات موجود ہیں جس سے ہم اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں عورت ترقی و مساوات کے نعروں سے بہک کر تو ہین و تذلیل کے ایسے مقام تک آ گئی ہے جہاں سے اس کا پلٹنا بہت مشکل ہے۔بقول شاعر مشرق :
دیار مغرب ہوس میں غلطا ں 
شراب ارزاں ، شباب عریاں 
جسے بھی دیکھو غریق عصیاں 
ہم ا یسی تہذیب کیا کریں گے
مسلمان عورت ایک نہایت نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اگر مسلمان عورتیں اسلام کے نظام زندگی کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں اور اسے اجتماعی طور پر لاگو کرنے کے لیے مردوں کی شریک کار بننا چاہیں تو ان کا کام یہ ہے کہ اپنی پور ی توجہ نئی نسلوں پر صرف کریں تا کہ ان کی دی ہوئی تربیت سے خدا پر ایمان رکھنے والے ، قرآن کی تعلیمات کو سمجھنے والے ، دنیا کی بجائے آخرت پر نگاہیں جمانے والے ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے نمونے کا اخلاق رکھنے والے اور زندگی کے ہر میدان میں خدا کی رضا کو مقصو د بنا کر لوہا منوانے والے سپوت اسلامی معاشرے کی زینت بن سکیں۔مسلمان عورت کیلئے مشعل راہ وہ مقدس خواتین ہیں جن کوقرآن مجید میں ”مومنات“ اور ’صالحات‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ ان مبارک ہستیوں کے حالات اور ان کا طریقہ ، عمل ، اجتماعی اور انفرادی ، فکری اور مذہبی زندگی میں مسلمان عورت کیلئے بھر پور راہنمائی موجود ہے۔دنیا کی کوئی بھی عورت اس کا تعلق کسی بھی قوم ، نسل ، مذہب یا ملک سے ہواگر وہ عورت کیلئے اعلی اور مثالی اقدار کی تلاش میں ہے تو اس کیلئے حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمہ ، حضرت اسماء، حضرت حفصہ ، حضرت ام سلمہ اور دیگر صحابیات کی زندگیوں میں ان کیلئے مثالی نمونہ نظر آئے گا۔

ہفتہ، 11 نومبر، 2023

Surah Hud ayat 69-81. کیا ہم اللہ تعالی کی ناراضگی مول لے کر زندگی گزار...

Surah Hud ayat 63-68. کیا ہم اپنے رسول کی دعوت کو عملا تسلیم کرنے کے لئے...

Shortvideo - Deen-e-islam ki haqeeqat

ماحولیاتی آلودگی(۱)

 

ماحولیاتی آلودگی(۱)

اسلام ہمیں اپنے ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے اور صاف ستھرا رہنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : بیشک مراد کو پہنچا وہ شخص جس نے اسے ستھرا کیا۔ اور نامراد ہوا وہ شخص جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔ ( سورة الشمس )۔
ماحولیاتی آلودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ماحول کو صاف رکھنے کے متعلق اسلامی احکامات سے ناواقف ہیں۔اپنے گھر وں اور اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے سے متعلق حضور نبی کریم کے بہت سے احکامات موجود ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تین لعنت کا سبب بننے والی جگہوں سے بچو۔ (1) پانی کے گھاٹ پر پاخانہ کرنے سے (2) راستہ میں پاخانہ کرنے سے (3) سایہ دار جگہوں میں پاخانہ کرنے سے۔ (مسند ابو یعلی )۔ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا : ” تم اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھو ، اور ان یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو جو اپنے گھروں میں کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں “۔ ماحول کو آلودہ کرنے والی چیزوں میں فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں ، بسوں اور موٹر سائیکلوں وغیرہ سے نکلنے والا دھواں بھی شامل ہے۔ جب یہ زہریلا دھواں فیکٹریوں اور گاڑیوں وغیرہ سے نکل کر ہوامیں شامل ہوتا ہے تو اس سے پھیپھڑوں اور سانس کی مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں جس کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنانے اور پر فضا ماحول میں سانس لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول کو زہریلے دھوئیں سے بچائیں۔ فیکٹری مالکان کو چاہیے کہ اپنی فیکٹریوں میں ایسے فلٹر کا استعمال کریں جس سے دھوئیں میں موجود زہریلا مادہ ختم ہو جائے اور جب دھواں فضا میں جائے تو ہمارا ماحول آلودہ نہ ہو۔
 اس کے علاوہ بسوں ، کاروں اور ٹرکوں وغیرہ کے مالکان کو چاہیے کہ اپنی گاڑیوں کے موبلائل کو جلدی تبدیل کریں تاکہ گاڑیاں زیادہ دھواں چھوڑنے کا سبب نہ بنیں۔آج کل موٹر سائیکل کا استعمال بہت زیادہ ہو گیا ہے اگر ہم نے تھوڑے فاصلے پر بھی جانا ہو تو ہم مو ٹر سائیکل نکال لیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم موٹر سائیکل کا استعمال کم سے کم کریں اور پیدل چلنے کو ترجیح دیں۔ اس سے ہمارا ماحول بھی صاف رہے گا اور پیدل چلنے کی وجہ سے ہماری صحت بھی اچھی رہے گی۔
ہمارے کاشت کار بھائی گندم اور دھان کی فصل کو کاٹنے کے بعد اپنے کھیت میں آگ لگا دیتے ہیں جس سے کافی مقدار میں دھواں فضا میں شامل ہو جاتا ہے اور فضا میں آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ جس سے نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند بھی متاثر ہو تے ہیں اور فضا میں سموگ میں اضافہ ہو جاتا ہے جو کہ سانس اور آنکھوں کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ اس لیے کاشتکار بھائیوں کو چاہیے کہ اپنے کھیتوں میں موجود بقایاجات کو جلانے کی بجائے مناسب طریقے سے تلف کریں تا کہ ہمارا ماحول صاف ستھرا رہے۔

جمعہ، 10 نومبر، 2023

Shortvideo - Qalb-e-saleem kaisay hasil karain?

Surah Hud ayat 62.کیا ہم دین اسلام کو عملی طور پر قبول کرنا نہیں چاہتے

Surah Hud ayat 61.کیا ہم زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار رہے ہیں

علامہ محمد اقبال رحمة اللہ تعالیٰ علیہ

 

علامہ محمد اقبال رحمة اللہ تعالیٰ علیہ

حکیم الامت ، شاعر مشرق ، مفکر اسلام ، مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کا دل نور مصطفی ﷺ سے معمور رہا اور عشق مصطفیﷺ آپ کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے آپ ﷺ کو جتنا عقل سے سمجھا اس سے کہیں زیادہ عشق و محبت کی عینک سے دیکھا۔ ان کے لیے یہ تصور ہی راحت بخش تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ ان کے ہادی اور رہنما ہیں۔ آپ فرماتے ہیں :
سالا ر کارواں ہے میر حجاز اپنا 
اس نام سے ہے باقی آرا م جاں اپنا
مفکر اسلام علامہ محمد اقبال عشق مصطفی ﷺ میں اس قدر مستغرق تھے کہ ہر بات کو وہ عشق محمدیﷺکے حوالے سے دیکھتے تھے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے اپنے اردو اور فارسی کلام کے ذریعے عشق مصطفی کے پیغام کو عام کیا۔ آپ کی ایک ہی خواہش تھی کہ ملت کا ہر فرد حضور نبی کریمﷺ کو اپنا آئیڈیل سمجھے۔ اور اپنی زندگیوں کو سیرت طیبہ میں ڈھال لے۔ جب بھی حضور نبی کریم ﷺ کا نام آتا آپ رحمة اللہ علیہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگتے۔اور ان میں سوزو گداز کی ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی جس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ علامہ محمداقبال حضور نبی کریم ﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :
در دل مسلم مقام مصطفی است 
آبروئے ما زنام مصطفی است
بوریا ممنون خواب راحتش 
تاج کسری زیر پائے امتش
در شبستان حرا خلوت گزید 
قو م و آئین و حکومت آفرید
آں کہ بر اعداد و راحمت کشاد 
مکہ را پیغام را متثریب داد
مست چشم ساقی بطحا یتیم 
در جہاں مڑل مے و مینا مینم
علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کی تصوف سے لگن ، رومی ، جامی ، حضرت داتا گنج بخش، بابا فرید الدین مسعود ، سلطان الہند خواجہ غریب نواز ، نظام الدین اولیا ءرحمة اللہ علیھم اجمعین کے افکار و فرمودات سے میسر آئیں۔ڈاکٹر این میری شمل لکھتی ہیں کہ آپ داتا صاحب کے ماننے والے تھے اور صبح کی نماز مسجد داتا صاحب میں روحانی سکون اور عرفان کے لیے ادا کرتے تھے۔ پروفیسر محمود الحسن اپنی تصنیف ”داتا گنج بخش علیہ الرحمہ “ میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کو مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا خیال اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوا۔آپ حضور نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ 
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف