عمل اور حسن نیت
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول کریم ٖﷺ نے فرمایا : اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہ ہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔
حضور نبی کریمﷺ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ انسانی اعمال ظاہری طور پر کچھ بھی نظر آئیں ، دنیا اس کی بنیاد پر جو مرضی فیصلہ کرے اور کسی کی نیکی اور بدی کو معیار مقرر کرے۔ مگر اللہ کے نزدیک نیکی کا معیار صرف اور صرف خلوص نیت ہی ہے۔اللہ تعالی قادر مطلق ہے وہ انسان کے دلوں اور سینوں میں موجود نیتوں اور جذبوں کو خوب جانتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور ما ل و دولت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے خلوص نیت اور اس کی بنیاد پر کیے گئے عمل کو دیکھتا ہے۔ ایک دوسرے مقام ارشاد باری تعالی ہے : اللہ کو تمہاری قربانی کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ہی یہ اللہ کا مطلوب ہے بلکہ اللہ کو تمہاری خلوص نیت یعنی تقوی پہنچتا ہے اور یہ ہی اللہ کو مطلوب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا کہ : قیامت کے دن تین ایسے لوگوں کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا اور انہیں جہنم میں لے جانے کا حکم ہو گا جو دنیا میں نیکی اور حسن عمل کے بلند مرتبے پر تھے۔ مگر اللہ تعالی کے نزدیک ان کے نیک کاموں کا کوئی وزن نہ ہو گا۔ ان میں سے ایک شہیدہو گا جو کہہ گا کہ میں نے اللہ کی راہ میں جان دی۔ دوسرا قاری اور عالم ہو گا جو کہہ گا کہ میں نے اللہ ہی کے لیے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور تیسرا ایک مال دار شخص ہو گا جس کا دعوی یہ ہو گا کہ اس نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ تعالی ان سے فرمائے گا تم سب کے یہ دعوے بالکل جھوٹے ہیں۔ تم نے یہ سب کچھ میرے لیے نہیں کیا بلکہ دنیا میں اپنی شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے کیا۔ اس لیے اب آخرت میں تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ پتا چلا کہ اعمال کی قبولیت کا انحصار ظاہری کیفیات پر نہیں بلکہ انسان کے اندر موجودخلوص اور جذبات پر ہے۔اللہ تعالی کی بارگاہ میں صرف وہ ہی عمل قابل قبول ہو گا جو خلوص نیت اور اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔اللہ تعالی کی رضا کے بغیر بڑے سے بڑا عمل اور عبادت جو اخلاص سے خالی ہو اور جس کا مقصد صرف اور صرف دنیوی شان و شوکت کو حاصل کرنا ہو قیامت کے دن ایسے عمل کی کوئی حثییت نہیں ہو گی۔
حضور نبی کریمﷺ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ انسانی اعمال ظاہری طور پر کچھ بھی نظر آئیں ، دنیا اس کی بنیاد پر جو مرضی فیصلہ کرے اور کسی کی نیکی اور بدی کو معیار مقرر کرے۔ مگر اللہ کے نزدیک نیکی کا معیار صرف اور صرف خلوص نیت ہی ہے۔اللہ تعالی قادر مطلق ہے وہ انسان کے دلوں اور سینوں میں موجود نیتوں اور جذبوں کو خوب جانتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور ما ل و دولت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے خلوص نیت اور اس کی بنیاد پر کیے گئے عمل کو دیکھتا ہے۔ ایک دوسرے مقام ارشاد باری تعالی ہے : اللہ کو تمہاری قربانی کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ہی یہ اللہ کا مطلوب ہے بلکہ اللہ کو تمہاری خلوص نیت یعنی تقوی پہنچتا ہے اور یہ ہی اللہ کو مطلوب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا کہ : قیامت کے دن تین ایسے لوگوں کے خلاف فیصلہ سنایا جائے گا اور انہیں جہنم میں لے جانے کا حکم ہو گا جو دنیا میں نیکی اور حسن عمل کے بلند مرتبے پر تھے۔ مگر اللہ تعالی کے نزدیک ان کے نیک کاموں کا کوئی وزن نہ ہو گا۔ ان میں سے ایک شہیدہو گا جو کہہ گا کہ میں نے اللہ کی راہ میں جان دی۔ دوسرا قاری اور عالم ہو گا جو کہہ گا کہ میں نے اللہ ہی کے لیے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور تیسرا ایک مال دار شخص ہو گا جس کا دعوی یہ ہو گا کہ اس نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ تعالی ان سے فرمائے گا تم سب کے یہ دعوے بالکل جھوٹے ہیں۔ تم نے یہ سب کچھ میرے لیے نہیں کیا بلکہ دنیا میں اپنی شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے کیا۔ اس لیے اب آخرت میں تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔اس حدیث مبارکہ سے یہ پتا چلا کہ اعمال کی قبولیت کا انحصار ظاہری کیفیات پر نہیں بلکہ انسان کے اندر موجودخلوص اور جذبات پر ہے۔اللہ تعالی کی بارگاہ میں صرف وہ ہی عمل قابل قبول ہو گا جو خلوص نیت اور اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔اللہ تعالی کی رضا کے بغیر بڑے سے بڑا عمل اور عبادت جو اخلاص سے خالی ہو اور جس کا مقصد صرف اور صرف دنیوی شان و شوکت کو حاصل کرنا ہو قیامت کے دن ایسے عمل کی کوئی حثییت نہیں ہو گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں