اتوار، 30 اگست، 2020

Zabt-e-Nafs Ki Aehmiat - ضبطِ نفس کی اہمیت

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 94 ( Surah Al-Baqara Ayat 91-95 ) درس القرآن...

Zikar-e-Elahi Ki Haqeeqat

حسین ابن علی جانِ اولیاء

 

حسین ابن علی جانِ اولیاء

برصغیر پاک وہند کی مصروف علمی و روحانی شخصیت حضر ت مخدوم علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔ 

٭آئمہ اہلِ بیت اطہار میں سے شمع آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)  تمام دنیاوی علائق سے پاک و صاف، اپنے زمانہ کے امام و سردار ابوعبداللہ سیدنا امام حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ہیں ۔آپ اہل ابتلاء کے قبلہ و رہنما ہیں اور شہید دشتِ کرب وبلا ہیں اور تمام اہل طریقت آپ کے حال کی درستگی پر متفق ہیں۔ اس لئے کہ جب تک حق ظاہر وغالب رہا آپ حق کے فرمانبردار رہے اور جب حق مغلوب ومفقود ہوا تو تلوار کھینچ کر میدان میں نکل آئے،  اور جب تک راہ خدا میں اپنی جان عزیز قربان نہ کردی ،چین وآرام نہ لیا۔

 آپ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیشتر نشانیاں تھیں جن سے آپ مخصوص ومزین تھے، چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ نے (امام) حسین کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر رکھا ہے۔ میں نے جب یہ حال دیکھا تو کہا، اے حسین کتنی اچھی سواری ہے آپ کی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عمر! یہ سوار بھی تو کتنا عمدہ ہے۔ سیدنا امام عالی مقام سے طریقت میں بکثرت کلامِ لطیف اور اسکے رموز و اسرار و معاملات منقول ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: 

اشفق الاخوان علیک دینک‘‘ تمہارے لئے سب سے زیادہ رفیق و مہربان تمہارا دین ہے اس لئے کہ بندے کی نجات دین کی پیروی میں ہے، اور اس کی ہلاکت ،اس کی مخالفت میں ہے، صاحبِ عقل وخرد وہی شخص ہے جو مہربان کے حکم کی پیروی کرے، اسکی شفقت کو ملحوظ رکھے اور کسی حالت میں اسکی متابعت سے روگردانی نہ کرے، برادرمشفق وہی ہوتا ہے جو اسکی خیر خواہی کرے،  اور شفقت و مہربانی کا دروازہ اس پر بند نہ کرے۔ ایک روز ایک شخص نے حا ضر ہوکر آپ سے عرض کیا اے فرزندِ رسول ! میں ایک مفلس و نادار ہوں اور صاحب اہل وعیال ہوں مجھے اپنے پاس سے رات کے کھانے میں سے کچھ عنایت فرمائیے، آپ نے فرمایا: 

بیٹھ جائو، میرا رزق ابھی راستے میں ہے کچھ دیر بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک ہزار دینار کی پانچ تھیلیاں آئیں اور پیغام آیا کہ میں معذرت خواہ ہوں فی الحال انہیں اپنے خدّام پر خر چ فرمائیے، جلد ہی مزید حاضر خدمت کئے جائینگے۔ آپ نے وہ تھیلیاں اس نادار شخص کو عنایت کر دیں اور فرمایا:  

تمہیں بہت دیر انتظار کرنا پڑا اگر مجھے انداز ا ہوتا کہ اتنی قلیل مقدار ہے تو تمہیں انتظار کی زحمت ہی نہ دیتا، مجھے معذور سمجھنا،  ہم اہل ابتلاء ہیں۔ ہم نے دوسروں کیلئے اپنی تمام دنیاوی ضرورت کو چھوڑ دیا ہے اور راحت کو فنا کر دیا ہے۔ (کشف المحجوب )

اے دل بگیر دامنِ سلطان اولیاء 

یعنی حسین ابنِ علی جان اولیاء  

(شاہ نیازؒ)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1489 (Surah Ash-Shura Ayat 1-6 Part-2)درس قرآ...

ہفتہ، 29 اگست، 2020

Insaan Apni Meraaj Ko Kaisay Hasil Kar Sakta Hay? -انسان اپنی معراج کو ک...

Insaan Dunya Main Kyoon Aya Hay?

تلقین بوترابی (۳)

 

تلقین بوترابی (۳)

  ٭ کمینوں کی دوستی سے پرہیز رکھو اور ان شرفاء کے پاس آمدورفت رکھنا جو شرفاء کی اولاد ہیں۔٭ زمانے پر کبھی بھی اعتماد نہ کرنا اس لئے کہ اس کا نظام درہم برہم ہونیوالا ہے۔ کسی قوم کی نعمت پرحسد کا شکار نہ ہونا بلکہ ان سے اخوت تمہیں دارالسلام کا حق دار بنا دیگی۔ ٭بیٹا!اپنے اللہ پر اعتماد کر جو تیرا بلند مرتبہ رب ہے اور بڑے بڑے احسانا ت اور عظیم نعمتوں کا مالک ہے۔٭علم کی خاطر دامن طلب دراز کر اور اس میں بحث کراور حلال وحرام کی (ہر ممکن) تحقیق کر۔ ٭بیہودہ باتوں کو زبان پر نہ نہ لائیو بلکہ ایسے (پاکیزہ ) کلام کو اپنا شعار بنائو جس سے اللہ راضی ہو۔ ٭ کوئی دوست خیانت کا مرتکب ہو تو جواباً خیانت نہ کرنا بلکہ باربار درگزر کرنا تاکہ تمہیں گناہوں سے نجات مل سکے۔ ٭دوستوں سے کینہ اختیار نہ کرنا باربار درگزر سے تم (بہت سے )گناہوں سے چھٹکارا پا لوگے۔ ٭اے حسین! جب تم کسی شہر میں اجنبی کی حیثیت  سے رہو تو اسکے آدابِ (معاشرت)کو ملحوظ خاطر رکھو۔ انکے سامنے اپنے فہم و بصیرت پر فخر نہ جتائو اس لئے کہ ہر جماعت کی عقل الگ الگ نوعیت کی ہوتی ہے اور (ہر ایک کا طرز فکر منفرد ہوتا ہے)۔ تم بے شک اپنے عذر خواہوں اور قابل اعتماد مددگاروں سے استفادہ کرو لیکن (اصل وثوق) اس خدا پر ہو جو تمہیں دنیا بھرکی خیرو برکت عطاء فرماتا ہے۔ نہ دنیا کے اسباب سے اترنا اور نہ ہی اسکے مصائب سے گھبرانا۔ ٭آنیوالے کل کو گزرے ہوئے کل پر قیاس کر لو تاکہ تم آرام واستراحت پا سکو دنیا کی طرف رغبت کرنے والوں کی طرح سعی وکاوش نہ چاہو۔ گویا کہ اس وقت میں اپنی اولاد سمیت کربلا اور اسکے میدان جدال میں موجود ہوں۔ ٭ہماری ڈاڑھیاں دلہن کے کپڑوں کی طرح لہو میں رنگی ہوئی ہیں۔ (عزیز من) میں اس واقعہ کو (واضح انداز میں ) دیکھ رہا ہوں لیکن ان ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ مجھے (حقائق کے) دروازوں کی کنجیاں ودیعت کی گئی ہیں۔ ٭یہ مصائب تم پر ضرور آئینگے سو تم ان کے پہنچنے سے پہلے پوری طرح تیاری کر لو۔ اے حسین وہی (اللہ) ہمارا انتقام لے گا تمہارا بھی سوتم صبر کا دامن ہاتھ سے ہر گز نہ چھوڑنا ۔ ہر خون کے عوض ہزار خون ہونگے اور ا سکی جماعت کے قتل میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔ اس وقت ظالموں کی عذر خواہی اورخوشامد کچھ بھی نفع بخش نہ ہوگی۔ ٭اے حسین جدائی سے گھبرانا مت اس لئے کہ تمہاری یہ دنیا پیدا ہی ویرانی کیلئے گئی ہے۔ ان مکانوں سے تو پوچھو اور یہ کیا خوب وضاحت کرنیوالے ہیں کہ ارباب دنیا کیلئے (کوئی) بقا نہیں۔ 

جمعہ، 28 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1486 (Surah Fussilat Ayat 53-54)درس قرآن سُوۡ...

Rooh Ki Ghiza Kya Hay?

Kya Zindagi Hum Apni Marzi Say Guzar Saktay Hain?-کیا زندگی ہم اپنی مرضی...

تلقین بوترابی(۲)

 

تلقین بوترابی(۲)

٭ (اے عزیز) جب تم ایسی نشانیوں کے پاس سے گزرو جن کے بیان میں وسیلہ اور حیرت فزاء نعیم جنت کا وصف کیا گیا ہے۔ تو اپنے اللہ سے اخلاص اورتوجہ کے ساتھ جنت کی دعا اور اس شخص کا سا سوال طلب کرو جو تقرب کا خواستگار ہے اور طلب میں کوشاں رہو شاید تمہیں اس ارض ابد تاب میں نزول کا موقع مل جائے اور ان دائمی مسرتوں سے ہم کنار ہو سکو جن کی تخریب ممکن نہیں ۔

٭ تمہیں ایسی حیات جادوانی مل جائے، جس کے زمانہ میں انقطاع نہیں اور ایسی باکرامت ملکیت سے نوازے جائو جو تم سے کبھی سلب نہ ہوگی۔ ٭ جب نیک کام کا ارادہ کرو تو اپنی خواہش نفسانی پر جلدی سبقت لے جائو وسوسوں کے خوف سے، کہ یہ بھی آنے جانے والے ہیں۔ اور برائی کی طرف رغبت ہوتو اس سے آنکھ بند کرلو ۔ جس کام سے اجتناب ضروری ہو اس سے مجتنب رہنے ہی میں عافیت ہے۔ اپنے دوست کے لئے منکسر ہوجائو اور ایسا سلوک رواء رکھو جیسا کہ مہربان باپ اپنی اولاد سے رکھتا ہے۔ ٭مہمان کی اس قدر تعظیم کرو کہ وہ تمہیں اپنا وارث نسبی خیال کرنے لگے۔ ٭ اپنا دوست اس نیک خوکو بنائو کہ جو بنائے اخوت استوار ہونے کے بعد اس مواخات کی محافظ کرے اور اس خاطر جنگ (سے بھی گریز نہ) کرے۔ ٭ ایسے دوستوں کی طلب یوں کرو، جس طرح مریض شفاء (کاملہ)کا طالب ہوا کرتا ہے، اور جھوٹے کی صحبت ترک کر دو کہ اس کی مصاجت میں کچھ (خیر) نہیں۔ ٭ہر موقع پر اپنے دوست کی حفاظت کرو اور اس مرد حق گو کی رفاقت تلاش کرو جو جھوٹ سے مجتنب رہنے والا ہو۔٭ جھوٹے سے دشمنی رکھو اور اس کے قرب وجوار سے بچو (حق یہ ہے )کہ دروغ گو اپنے ہم جلیس کو بھی آلودہ کردیتا ہے۔ جھوٹا آدمی زبانی کلامی تو تمہیں امیدوں اور تمنائوں سے بھی (کہیں بڑھ کر) عطاء کر دیتا ہے لیکن (وقت پڑنے پر) لومڑی کی طرح کنّی کترا جاتا ہے۔٭چاپلوسوں اورکمینہ خصلت لوگوںسے بھی بچ کر رہنا اس قماش کے لوگ (مصائب کی) آگ میں مزید ایندھن جھونکنے لگتے ہیں۔ جب تک ان کی طمع پوری ہوتی رہتی ہے وہ اردگرد رہتے ہیں اور اگر (خدا نخواستہ) زمانہ ناموافق ہو جائے تو تتر بتر ہوجاتے ہیں۔٭ فرزند عزیز! میں نے تمہیں (مقدور بھر) نصیحت کردی ہے، اگر تم میرے پند و نصائح کو قبول کر لو تو یہ تمہارے لئے بیع وہبہ کی تمام اشیاء سے زیادہ ارزاں (اورگرانمایہ) ثابت ہوگی۔

جمعرات، 27 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1485 (Surah Fussilat Ayat 51-52)درس قرآن سُوۡ...

Humari Kamyabi Ka Rasta -ہماری کامیابی کا راستہ

لبیک الھم لبیک

تلقین بوترابی (۱)

 

تلقین بوترابی (۱) 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم عرصہ حکمت و بلاغت کے شہسوار تھے نظم ونثر میں آپ کا کلام معجز نظام اپنی مثال آپ ہے۔ ذیل میں آنجناب کے کچھ اشعار کے مفاہیم درج کئے جاتے ہیں ، جو آپ نے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائے ۔ ایسے عظیم المرتبت مربی نے جو کچھ تلقین کیا یقیناً اس کا عکس جمیل امام عالیٰ مقام رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں منعکس ہوا،گویا کہ یہ اشعار آپ کی سیرت اطہر کا خوب صورت تعارف ہیں۔

٭اے حسین! میں تمہیں نصیحت کر رہا ہوں اور ادب سکھا رہا ہوں، سو میری باتوں پر تامل کرو اس لئے کہ (درحقیقت ) عقلمند وہی ہے جو ادب پذیر ہو۔ 

٭اور اپنے اس پدر مہربان کی وصیت کو بھول نہ جانا، جو تمہاری پرورش (بہترین )آداب سے کرتا ہے تاکہ تم ہلاکت کا شکار نہ ہوجائو۔

٭اے فرزند عزیز! تم جو کچھ بھی طلب کرو حسن وخوبی سے طلب کرو اس لئے کہ روزی کی کفالت کر لی گئی ہے۔

٭ فقط مال وزرہی کو اپنی کمائی قرار نہ دو بلکہ خدا خوفی اور تقویٰ کو اپنا اکتساب بنائو۔ (اور دیکھو) اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کے رزق کا کفیل ہے جبکہ مال تو عاریت اور آنے جانے والی شے ہے اور (روزی کی فکر نہ کرو) جب اسباب کا ظہور ہو جائے تو روزی پلک جھپکنے سے پہلے انسان تک پہنچ جاتی ہے۔

٭ (ہاں ہاں) سیل رواں کے قرار گاہ تک پہنچنے اور پر ندوں کے آشیانوں سے نزول سے بھی بیشتر (رزق انسان تک پہنچ جاتا ہے)۔

٭بیٹے لاریب قرآن میں نصیحتیں ہیں۔  پس وہ کون (خوش بخت)  ہے، جو اس کی نصیحتوں سے ادب آشنا ہونا چاہتا ہے اپنی پوری (ذہنی و فکری توانائی) سے اس کتاب کو پڑھو اور ان لوگوں میں ہوکر اس کی تلاوت کرو جو اس کو اپنے ذمے لئے ہوئے ہیں اور اس کے فہم میں پوری طرح کوشاں ہیں۔ کامل تفکر اورکمال فروتنی و انکساری، اور محض حصول تقریب کے لئے (مصروف عمل ہیں) بے شک مقرب وہی ہوا ہے جو تقرب کا خواستگار ہو۔

٭کمال اخلاص سے اپنے بزرگیوں والے اللہ کی عبادت کرو اور عبرت و موعظت کے لئے (جو امثال بیان کی جائیں انہیں پوری توجہ سے سنو)

٭اور جب کبھی ایسی ڈرائونی نشانی کے پاس سے گزرو جو کہ عذاب کو ظاہر کرتی ہوں تو ذرا دیر ٹھہر جائو اور اشک (ہائے عبر ت) بہا لو۔


منگل، 25 اگست، 2020

Insaan Ko Allah Tallah Nay Kyoon Paida Kiya?

Kya Humari Manzil Sirf Dunya Hay?

سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

 

سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم 

اسلام کی تاریخ اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی تاریخ ہے۔ خدمت و مئودت کی تاریخ ہے ۔ایثار وقربانی کی تاریخ ہے۔ جاں فروشی وجاں سپاری کی تاریخ ہے۔ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے اور ماتھے پر یہ جھومر سجانے کی تاریخ ہے۔ قومیں اپنی تقویم کو قاعدے اور ضابطے میں رکھنے کیلئے مختلف اسالیب اختیار کرتی ہیں ۔ بالعموم ہر قوم  نے اپنی سہولت کیلئے کسی نہ کسی انداز کا ایک کیلنڈر ضرور اختیار کیا ہے۔ ہر قوم اپنے سال کے آغاز واختتام کو یادگار بنانے کا کوئی نہ کوئی اہتمام بھی ضرور کرتی ہے۔ اس اہتمام کا تصور عام طور پر مسرت ، شادمانی ، جشن رنگ و طرب ، اہتمام ھائوو ھو سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن  ؎ خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی، اسلام کا کیلنڈر ہجری تقویم کے مطابق ہے۔ ہجرت بذاتِ خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ وہ زمین جہاں انسان پیدا ہواہو۔وہ ماحول اور معاشرہ جہاں اسکی جڑیں بہت گہرائی تک اور تعلقات و مفادات کی شاخیں بہت وسعت تک پھیل چکی ہوں، اس زمین کو یک لخت خیرآباد کہنا پڑجائے اور امکانات کی ایک نئی دنیا کی تلاش میں نکلنا پڑے تو یہ کام قطعاً آسان نہیں ہوتا ۔ آبائی وطن سے محبت انسان کی شرست میں داخل ہے اور ہمیشہ دل میں موجود رہتی ہے۔ عربی کا مشہور شاعر ابو تمام کس کیفیت میں کہہ گیا ہے۔

کم منزلٍ فی العمر یالف الفتیٰ

وحنینہٗ ابداً لِاَوّلِ منزلٖ

 ’’ایک جواں مقاصد کی جستجو میں کتنی ہی منزلیں طے کرتا ہے ۔ لیکن اس کا رحجان طبع ہمیشہ اپنی جنم بھومی کی طرف رہتا ہے۔‘‘ 

سال ہجری ہمیشہ مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام کی عظیم الشان قربانی کی یاد دلاتا ہے۔سال کا آخری مہینہ ایک ’’ذبح عظیم ‘‘کو قولاً نہیں عملاً یاد دلاتا ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر نے صرف اور صرف اپنے پروردگار کو راضی کرنے کیلئے  اپنے جان سے پیارے لخت جگر کے حلقوم پر تیز دھار کی چھری رکھی اور آفرین ہے اس فرزندِ وفاء شعار پر جس نے سرتسلیم خم کردیا ۔  ذرا آگے بڑھئے۔حسن وحیاء کا ایک پیکر شہادت کو گلے سے لگا رہا اور اعلان کر رہا ہے کہ عثمان اپنی جان تو قربان کرسکتا ہے لیکن شہر رسول میں خون ریزی پسند نہیں کرسکتا ۔ سال ہجرت ختم ہو رہا ہے اور نئی سال کا سورج طلوع ہو رہا ہے تو اس کے ماتھے پر فاروق اعظم کی شہادت کا جھومر سجا ہوا ہے، اور شہادت وجاں فروش کی یہ روایت میدان کربلا میں پہنچتی ہے تو گویا اپنی معراج کو چھو لیتی ہے۔ 

پیر، 24 اگست، 2020

Kya Dunya Hee Humara Maqsood Hay ?

حکمت

 

حکمت 

 حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوںاورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)

Dunya Main Insaan Ki Kamyabi-دنیا میں انسان کی کامیابی

اتوار، 23 اگست، 2020

فردِ فرید (۲)

 

فردِ فرید (۲)

حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا وصال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق بابافرید الدین مسعود کو ان کا جانشین مقرر کیاگیا۔ دلّی اس وقت مسلم برصغیر کا مرکزی شہر بن گیاتھا۔ سلاطین وہلی کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی، شہر میں بہت سے اہل علم وفضل جمع ہوچکے تھے۔ تاتاری یورشوں کی وجہ سے سمر قند ،بخارا اور ماورالنہر کے بہت سے صاحبانِ فضل وکمال دلّی کا رخ کر رہے تھے۔ایسے میں باباصاحب نے اپنے تبلیغی وتربیتی دائرے کو وسعت دینے کا سوچا ،آپ وہاں سے ہجرت کرکے قصبہ ہانسی میں آگئے اورکچھ دن قیام کے بعد آپ نے اجودھن (موجودہ پاکپتن ) کو اپنا مرکز ومستقر بنالیا۔ بہت زیادہ آبادی والے شہرمیں اکثر اوقات جمعیت کی خاطر میسر نہیں آتی اور انسان اپنی مرضی کا لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکتا ہے۔ اجودھن عام گزر گاہ سے ذرا ہٹ کر تھا ۔وہاں تعلیم ،تربیت اور تزکیہ کا پرسکون ماحول میسر تھا۔ لیکن تبلیغی حوالے سے نقل وحرکت کی سہولت یوں موجود تھی کہ ایک تو یہ دریا کے کنارے پر تھا، جو اس زمانے میں ایک ذریعہ نقل وحمل تھا دوسرا اسکے قریب ہی قصبہ دیپال پور،اس وقت کی معروف شاہراہ پر واقع تھا۔ جس پر ہند اور بیرون ہند ہر طرف کے قافلے رواں دواں رہتے تھے۔ آپکے علاوہ اس خطے میں تین اور معروف مبلغ کار خدمت انجام دے رہے تھے۔ حضر ت بہائو الدین زکریاملتان میں، حضرت جلال الدین سرخ بخاری اوچ میں، اور حضرت عثمان المروندی سند ھ میں ،بابا فرید کے ان تمام سے انتہائی گہرے تعلقات تھے اور اکثر یہ چاروں بزرگ مل کر تبلیغی سفر پر جاتا کرتے تھے۔ اللہ رب العز ت نے انکے سلسلہ تبلیغ میں بے حد برکت عطا ء فرمائی ۔پنجاب کی اکثر اقوام اور قبائل اپنے قبول اسلام کا انتساب آپ ہی کی طرف کرتے ہیں ۔ان قوموں کی تعداد ستر سے زائد بتائی جاتی ہے۔ تبلیغ کے ساتھ مسلم تہذیب وثقافت کو آپکی بھر پور علمی اور سماجی شخصیت سے بہت فائد ہ ہوا، آپ نے مقامی زبانوں سے بھی آشنائی پیداکی، بہت سے اشلوک آپکی طرف منسوب کیے جاتے ہیں، کہاجاتا ہے کہ اردو زبان کا سب سے پہلا کلمہ آپ ہی کی زبان سے ادا ہوا تھا۔ خدمت خلق آپ کا وطیرہ تھا، مزاج میں بے حد نرمی اور ملاطفت تھی۔ ہر آنے والا بلا تکلف اپنا دُکھ آپ سے بیان کرتا اور آپ اسکی ہر ممکن دادرسی فرماتے ۔ بعض اوقات لوگوں کی بپتا آدھی آدھی رات تک دراز ہوجاتی لیکن آپ سب کی سنتے اور فرماتے کسی کہنے والے کے دل میں خلش رہ جائے تو مجھے مصلے پر حضوری کی کیفیت ہی نصیب نہیں ہوتی۔ 

ہفتہ، 22 اگست، 2020

Maqsad-e-Hayat Kyoon Aur Kaisay?

فردِ فرید (۱)

 

فردِ فرید (۱)

اللہ رب العزّت نے جہاں فاروق اعظم عمر ابنِ خطاب کی حیات ِمبارکہ کو مسلمانوں کیلئے ثمر بار بنایا، وہیں پر آپکی اولادِ امجاد کو بھی آپ کیلئے صدقہ جاریہ بنایا، آپکی اوّلاد میں بڑے بڑے صاحبانِ کمال پیدا ہوئے۔ برصغیر پاک وہند کی مسلم تہذیب کو دوبڑے فاروقی بزرگوں سے فیض اٹھا نے کا موقع ملا، (۱) حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ،(۲) حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ ۔ بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر کے بیٹے شیخ جمال الدین کی شادی ملّا وجیہہ الدین کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی ۔جن کے  بطن سے (۵۷۱ ہجری میں) حضرت فرید الدین مسعود کا تولّد ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی ، جوانتہائی عابدہ، صالحہ اور کاملہ تھیں۔ بعدازاں ملتان آگئے اور سرائے حلوانی کے قریب جامع مسجد میں قیام کیا اور مولانا منہاج الدین ترمذی سے درس فقہ لینا شروع کیا اور قرآن پاک بھی حفظ کیا۔اسی مسجد میں انکی ملاقات اپنے زمانے کے نہایت مشہور بزرگ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے ہوئی ان سے بہت متاثر ہوئے اور انکے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے،اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپکے ساتھ دہلی جانا چاہتا ہوں لیکن خواجہ صاحب نے عبادت ، ریاضت اور روحانیت میں مشغولیت سے پہلے علمِ ظاہری کی تکمیل کی ہدایت فرمائی۔ اس ہدایت کے بعد آپ نے بڑے مراکز علم کا رخ کیا۔ قندھار، سیستان ، غزنی ،بخارا،سیوستان اور بد خشاںمیں نامور اہلِ علم کے پاس حاضری دی اور اکتساب کیا ،پھر بغداد میں وقت کی نہایت عظیم المرتبت علمی اور روحانی شخصیت حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مشہور زمانہ کتاب ’’عوارف المعارف‘‘کا درس لیا۔ آپ نے انکے انداز ِتدریس کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔کہتے ہیں کہ شیخ اس قدر خوش اسلوبی سے پڑھاتے تھے کہ مجھ پر بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ فرماتے ہیں کہ شیخ کے پاس روزانہ دس ہزار درہم سے زیادہ رقم آتی تھی لیکن وہ اسے شام سے پہلے راہِ خدامیں خرچ کردیتے تھے۔ تکمیلِ علوم کے بعد بہت سے نامور اہلِ علم وفضل سے ملاقات کرتے ہوئے اپنے مربی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ان کی ہدایات کی روشنی میں اذکا روعبادات میں مشغول ہوگئے۔ دہلی میں انھیں برصغیر کے نامور بزرگ حضر ت خواجہ معین الدین اجمیری کی زیارت اور اکتساب کا شرف بھی حاصل ہوا ،خواجہ صاحب نے آپکی استعداد کی بہت تعریف کی اور فرمایا : فرید ایک ایسی شمع ہے جس سے خانوادئہ درویشاں منّور ہوگا۔

Kamyabi Asal Main Kya Hay?-کامیابی اصل میں کیا ہے؟

جمعہ، 21 اگست، 2020

طاقتور کون؟

 

طاقتور کون؟

غصہ ضبط کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی غصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اورغیظ وغضب کے اظہار اورسزادینے اورانتقام لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ ضبط کرنے اورجوش غضب ٹھنڈا کرنے کے طریقوں کی ہدایت دی ہے۔ 

 حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑرہے تھے ۔ ان میں سے ایک شخص بہت شدید غصہ میں تھا اوریوں لگتا تھا کہ غصہ سے اس کی ناک پھٹ جائے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسے کلمہ کا علم ہے اگر یہ کلمہ پڑھ لے گا تو اس کا غضب جاتارہے گا ، حضرت معاذ نے پوچھا کہ رسول اللہ ! وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : وہ یہ کہے اللھم انی اعوذ بک من الشیطن الرجیم ۔

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ہواوروہ کھڑا ہوا ہو تو بیٹھ جائے، پھر اگر اس کا غصہ دور ہوجائے تو فبہاورنہ پھر وہ لیٹ جائے۔

 عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غضب شیطان (کے اثر)سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اورآگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو جب تم میں سے کوئی شخص غضب ناک ہوتو وہ وضو کرلے۔(سنن ابودائود )

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ ضبط کرلیا حالانکہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا، اللہ تعالیٰ اس کو امن اورایمان سے بھردے گا۔ (جامع البیان )

 حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے غصہ کو ضبط کرلیا باوجودیہ کہ وہ اس کے اظہار پر قادر تھا اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سامنے اس کو اختیار دے گا وہ جس حور کو چاہے لے لے۔

 حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے نزدیک پہلوانی کا کیا معیار ہے؟ صحابہ نے کہا جو لوگوں کو پچھاڑنے اوراس کو کوئی نہ پچھاڑ سکے، آپ نے فرمایا: نہیں ، بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(سنن ابودائود )

 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے غصہ کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے عذاب کودور کردے گا، اورجس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔ (مجمع الزوائد )

 حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے ایسا عمل بتلائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے ، حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم غصہ نہ کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔(مجمع الزوائد)


جمعرات، 20 اگست، 2020

Dunya Main Kamyabi Kaisay Mumkin Hay?دنیا میں کامیابی کیسے ممکن ہے؟

Kya Hum Dunyadar Hain?

حق و باطل میں فرق کرنے والا

 

 حق و باطل میں فرق کرنے والا

عمر اپنے قبولِ اسلام کے سفرمیں پہلے بہنوئی سعید بن زید کے گھر پہنچے اور وہاں قرآن مقدس کی ضربت کاری سے گھائل ہوگئے تو دارِ ارقم کا رخ کیا اندر موجود لوگوں کو تشویش ہوئی کہ عمر دروازے پر ہیں ، اور ہاتھ میں برہنہ تلوار بھی ہے، خدا خیر کرے! اللہ کے شیر حمزہ (رضی اللہ عنہ ) نے کہا ، اندیشہ نہ کرو دروازہ کھول دو، اگر تو ارادے نیک ہوئے توخیر بصورتِ دیگر اسی کی تلوار سے اسکی گردن نہ اتار دوں تو حمزہ نام نہیں ۔ لیکن عمر کے ارادے بہت ہی نیک تھے۔ اسلام کی سعادت حاصل کی،رسولِ تطہیر وتزکیہ علیہ الصلوٰۃ التحیہ نے اپنا مبارک ہاتھ آپکے سینہ پر رکھا اور اللہ کی بارگاہِ مقلبِ القلوب میں گزارش کی ،اے اللہ ! یہ عمر ہے ،اسکے سینے میں جو غل وغش ہے اسے نکال دے اور اسے ایمان سے بدل دے ۔ اللہ کے محبوب کی دعاء عمر کی تقدیر ابدی بن گئی۔ قبول اسلام کے فوراً بعد حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں ،یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں ،اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بلاشبہ ہم حق پر ہیں،تو پھر اے رسولِ مکرم ! کیوں نہ اسلام کے پیغام حق ہدایت کی تبلیغ کھلم کھلا کی جائے؟ حضور اکرم ﷺ کی تو پہلی ہی یہ روش تھی ۔ہاں ابھی عام مسلمان اعلانیہ تبلیغ وعبادت انجام نہیں دیتے تھے۔ آپ نے اجازت دی اور فرمایا : ہاں ! اب تم کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ کرسکتے ہو۔ یہ اجازت پاکر مسلمان دوقطاروں میں باہر آگئے ایک کی قیادت حمزہ کر رہے تھے اور دوسرے کی قیادت عمر فرمارہے تھے اور پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلمانوں نے مسجد حرام میں اعلانیہ نماز ادا کی۔ اسی دن قاسم خزانہ قدرت نے عمر ابن خطاب کو’’فاروق ‘‘کے لقب سے سرفراز فرمایا۔’’اللہ نے عمر کے دل اور زبان کو حق سے زینت بخش دی ہے۔وہ ’’فاروق ‘‘ہے،اور مولا ئے قدوس نے اسکے وجودِ مسعود کے ذریعے حق اور باطل کے درمیان فرق واضح کردیا ہے‘‘۔ ’’جب عمر اسلام لائے تو اسلام کوغلبہ نصیب ہوا۔ ہم حلقے باندھ کر کعبہ کے اردگرد بیٹھنے لگے ،بیت اللہ کا طواف کرنے لگے اور زیادتی کا بدلہ لینے کے قابل ہوگئے۔ (صہیب بن سنان )’’حضرت عمر کا اسلام ہمارے لیے فتح مبین تھی۔ آپکی ہجرت نصرت الہٰی اور آپکی خلافت سراپا رحمت ۔ میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں، جب ہم بیت اللہ کے نزدیک نمازادا نہیں کرسکتے تھے ، عمر اسلام لائے تو انھوں نے کفار سے مقابلہ کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھنے کی آزادی دیدی۔(عبداللہ بن مسعود ،ابن سعد ،طبرانی)

بدھ، 19 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1477 ( Surah Fussilat Ayat 43 )درس قرآن سُوۡر...

عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ

 

عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ

امیر المومنین مرادِ رسول حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ اسلام کے ایک آفتاب ِنیم روز ہیں ۔ حضرت عمر ؓ کا تعلق بنو عدی سے ہے ۔ عدی کی طرف منسوب ہونے کی بنا پرحضرت عمر کو’’ العدوی‘‘ کہاجاتاہے ۔ قریش مختلف قبیلوں میں منقسم ہوئے ان میں دس قبائل بڑے ممتاز گردانے جاتے تھے ۔قبیلہ بنو عدی بھی ان میں شامل تھا ، حضرت عمر کے شجرہ نسب میں آٹھویں پشت پر عدی کانام ملتا ہے، عمربن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی۔ کعب بن لوئی پر حضرت عمر کا سلسلہ نسب حضور اکرم ﷺسے مل جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے اہم قبائل کوکچھ خاص مناصب موروثی طور پر سپردکردیے گئے تھے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں ’’سفارت ‘‘اور ’’فیصلہ منافرہ‘‘ کے منصب تھے ۔ جب کبھی قریش کہیں کوئی سفارت بھیجنا چاہتے یا قریش کی کسی ایک یا متعدد قبیلوں سے جنگ چھڑ جاتی تو مذکرات کیلئے اورمعاملات طے کرنے کیلئے قریش خاندان بنو عدی کے سربراہ کو یااسکے نامزد نمائندے کو سفیر بناکر بھیجتے تھے ،اسی طرح بعض اوقات یوں ہوتا کہ دو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے سے شرف نجابت یا دیگر فضائل میں ایک دوسرے سے برترہونے کے مسئلے پر نزاع پیدا ہوجاتا ۔ ایسی صورت میں فیصلہ کرنیوالے کو ’’منافر‘‘ کہتے ۔ قریش اپنے ’’منافرہ ‘‘ کافیصلہ بھی بنو عدی کے افراد سے کرواتے تھے ۔ جب بنو ہاشم کے سربراہ عبدالمطلب اوربنو امیہ کے رئیس حرب بن امیہ کے درمیان منافرہ کی صورت پیدا ہوئی تو حضرت عمر کے دادا نفیل حکم مقرر ہوئے اور انہوں نے فریقین کے دلائل سن کرحضرت عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔ حضرت عمر کے والد خطاب قبیلہ کے سردار تھے, جو سیادت و قیادت کی اعلی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ شاعری اورنسب دانی کے حوالے سے بھی بڑی شہرت کے حامل تھے قبیلہ بنو عدی کے ایک اور نامور فرزند زید بن عمرو بن نفیل ہیں ۔ جنہوں نے دورجاہلیت میں غور وفکر اور اپنی فطرت سلیمہ کے باعث بت پرستی سے بیزاری کا اظہارکردیا، یہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کی بات ہے اس پر انہیں بڑی اذیتیں اٹھانا پڑی اوروہ شام کی طرف ہجرت کرگئے جہاں انہیں عیسائیوں نے قتل کردیا۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں انہی کے لختِ جگر ہیں۔ حضرت عمر کے بھائی زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کاشمار ممتاز صحابہ میں کیاجاتاہے ۔ 

Kya Zahir Dunya Hi Humara Maqsood-e-Hayat Hay?

Dil Ko Arsh-e-Elahi Kaisay Banain?

منگل، 18 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1476 (Surah Fussilat Ayat 42)درس قرآن سُوۡرَة...

Allah Tallah Ki Mohabat Kaisay Paida Karain?

Dunya Aur Sirf Dunya

فراستِ مومنانہ

 

فراستِ مومنانہ

پیغمبر علم وآگہی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی صحبت وتربیت ،حکمت قرآن پرگہراغوروفکر ، زندگی کے عملی تجربات اور پھر خلوص اور حسنِ نیت نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ’’فراستِ مومنانہ‘‘کا شہکار بنادیاتھا۔ آپ کی زبانِ فیض ترجمان سے جو گہر پارے نکلتے وہ حکمت ودانائی کے انمول شہپارے ہوتے ، آپ ارشاد فرماتے ہیں۔ 

٭اے انسان اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے لیے پیداکیا ہے اور تو دوسروں کا ہونا چاہتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو اللہ تعالیٰ کو حق جانتا ہے اور پھر غیروں کا ذکر کرتا ہے۔ ٭زبان کی لغزش قدموں کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہے۔ ٭کسی سے کوئی امید نہ رکھو بجز اپنے رب کے اور کسی چیز سے خوف زدہ نہ ہوبجز اپنے گناہ کے ۔٭اپنابوجھ خلقت میں سے کسی پر نہ ڈالو خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ ٭عقل مند کہتا ہے میں کچھ نہیں جانتا لیکن بے وقوف کہتا ہے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ٭حقیر سے حقیر پیشہ ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے۔ ٭دنیا جس کے لیے قید ہے قبراس کے لیے قرار گاہ ہے۔ ٭بعض اوقات جرم معاف کردینا مجرم کو زیادہ خطرناک بنا دیتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو حساب کو حق جانتا ہے اور پھر مال بھی جمع کرتا ہے۔ ٭تعجب ہے اس شخص پر جو جہنم کو حق سمجھتا ہے اور پھر گناہ کاارتکاب بھی کرتا ہے۔ ٭حاجت مند غرباء کا تمہارے پاس آنا تم پر خدا کا انعام ہے۔ ٭خاموشی غصے کا بہترین علاج ہے۔ ٭اگرآنکھیں بینا ہیں تو ہر روز روزِ محشر ہے۔ ٭متواضع ومنکسرشخص دنیا اورآخرت میں جو چیز بھی چاہے گا اسے مل جائے گی۔ ٭عیال دار کے اعمال مجاہدین کے اعمال کے ساتھ آسمان پر جاتے ہیں ۔ ٭(خوشامد کے متمنی )دولت مندوں سے عالموں اور زاہدوں کی دوستی ریا کاری کی دلیل ہے۔ ٭جس نے دنیا کو جس قدر پہچانا ،اسی قدر اس سے بے رغبت ہوگیا۔ ٭دنیا کی محبت دل کا اندھیرا اور دین کی محبت دل کا نور ہے۔٭مسلمان کی ذلت اپنے دین سے غفلت میں ہے نہ کہ بے زر ہونے میں ۔ ٭اللہ کے سچے بندے کی پہچان یہ ہے کہ اس کے دل میں خدا کا خوف اور اس کے رحم کی امید ہو، زبان پر حمد وثنا ء ہو، آنکھوں میں شرم وحیاء ہو، دنیا اوراہلِ دنیا سے بے نیازی اور اپنے مولا کی طلب ہو۔ ٭فقیر کا ایک درہم ، غنی کے لاکھ درہم (صدقہ کرنے)سے بہتر ہے۔٭نفس کی تونگری انسان کو بے پرواہ بنادیتی ہے خواہ اس کو کیسی ہی تنگ دستی ہو۔ 

پیر، 17 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1475 (Surah Fussilat Ayat 41)درس قرآن سُوۡرَة...

Batin Ka shock Kaisay Paida Hoo?

Kya Dunya Hee Humara Maqsood , Matloob Hay?

 

حکمت 

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوں اورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بردبادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)

اتوار، 16 اگست، 2020

Allah Tallah Ki Mulaqat Ka Shooq Kaisay Paida Hota Hay

Kya Allah Tallah Nay Humain Abas Yani Bay-maqsad Paida Kya Hay?

…خوش رسمے

 

…خوش رسمے

حضرت عثمان غنی کی مدّت خلافت تقریباً ۱۲ سال ہے۔ ابتدائی 6سال نہایت سکون وعافیت سے گزرے اور اصلاحات وفتوحات کا دائرہ وسیع ہوتا رہا، اسکے بعد مملکت اسلامیہ میں فتنہ وفساد کے ایک دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک تمام علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں تھا۔ جس میں سینکڑوں قومیں آباد تھیں،ان محکوم قوموں میں فطرۃًمسلمانوں کیخلاف جذبہ انتقام موجود تھا اس لیے انھوں نے سازشوں کا جال پھیلایا۔(شرح صحیح مسلم) ان سازشوں کا مقصد مملکت اسلامیہ میں افتراق وانتشار پھیلانا تھا۔ حضرت عثمان ؓنے اس موقع پر جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ ایک پیغمبر کی حسن تربیت کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے اور یہیں سے ایک خلیفہ اور ایک آمر وجابر حکمران کا فرق واضح ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ آپ کو اس فتنہ کی خبر دے چکے تھے۔ حضرت مرّہ بن کعب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں کا بیان کررہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص کا گزر ہوا جو کپڑااوڑھے جارہا تھا ۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا :فتنوں کے وقت یہ شخص ہدایت پر ہوگا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان تھے۔ (ترمذی) حضور نے انھیں صبر واستقامت کی تلقین بھی فرمائی تھی اور یہ تاکید بھی فرمائی تھی کہ اللہ انھیں ایک قمیص (خلافت)پہنائے گا وہ اسے باغیوں کے مطالبے پر ہر گز نہ اتاریں۔ حضرت عثمان ؓاپنے آقاکے حکم سے کیسے روگردانی کرسکتے تھے۔۳۵ہجری میں تقریباً دوہزار مفسدین نے کاشانہ خلافت کا گھیرائو کرلیااور کھانے پینے کی اشیاء پانی تک کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایسے پر آشوب وقت پر حضرت حسنین کریمین کو آپکے گھر کی حفاظت کے لیے بھیج دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر بھی اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ آگئے۔  مدینہ میں اس وقت وہ لوگ موجود تھے جو اکیلے صفوں کی صفیں پلٹنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سات سوافراد آپ کی حویلی کے احاطے میں موجود تھے لیکن آپ نے اپنی ذات کی خاطر کسی شخص کو تلوار اٹھا نے کی اجازت نہ دی، نہ آپ نے مدینہ منورہ سے باہر جانا منظور فرمایا ،گھر میں آپ کے 20غلام موجود تھے اُن سب کو بھی آزاد فرمادیا۔ مفسدین کو محسوس ہوا یہ معاملہ اور طول پکڑگیا تو آپ کے جاں نثارہمارے خلاف ازخود کوئی کاروائی نہ شروع کردیں۔ ان میں سے کچھ افراد پڑوس کے گھر میں داخل ہوئے ،وہاں سے آپ کے گھر میں کود گئے اور آپ کو شہید کردیا۔  

ہفتہ، 15 اگست، 2020

جامع القرآن

 

جامع القرآن

حضرت عمر ؓپر قاتلانہ حملہ ہوا، انتہائی گہرے زخموں کے باعث انکی زندگی کی امیدباقی نہ رہی۔ انھوں نے اپنی نیابت کا فیصلہ ایک کونسل پر چھوڑ دیا۔ یہ وہ چھ افراد تھے، جن سے رسول اللہ ﷺاپنی حیاتِ مبارکہ میں راضی رہے، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد ابن ابی وقاص، حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم آپ نے حکم فرمایا کہ میرے بعد خلافت ان چھ افراد سے کسی ایک کے پاس ہوگی اور اس کا فیصلہ بھی یہی افراد باہمی صلاح و مشورہ سے کرینگے۔ تین دن طویل مشاورت ہوئی، احتیاطاً لوگوں سے بھی رائے لی گئی اور اتفاق رائے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو امیرالمومنین منتخب کیا گیا۔ جناب رسول اللہ ﷺنے آپکو اس منصب کی بشارت بھی عطاء فرمائی تھی، حضرت عثمان غنی رعایا کے حق میں ایک نہایت مہربان اور شفیق حکمران ثابت ہوئے۔ آپ نے اپنے عہدِ خلافت میں بیت المال سے تنخواہ یا کوئی اور اضافی مراعات حاصل نہیں کی، بلکہ اپنے ذاتی وسائل بھی امت کی فلاح وبہبود کیلئے وقف کردیئے۔ آپ نے نظم مملکت کو بڑی دانائی اور حکمت سے استوار کیا۔ عدل فاروقی کی روایت کو قائم ودائم رکھا۔ علم کی ترویج اشاعت کا سلسلہ جاری رہا، آپ خود بھی مجتہدانہ بصیرت کے حامل تھے خاص طور پر وراثت اورحج کے مسائل میں، آپکی رائے کو درجہ استناد حاصل تھا۔ خود بھی حدیث نبوی کی روایت فرماتے لیکن اس معاملے میں بڑی حزم واحتیاط سے کام لیتے۔ آپ نے لوگوں کیلئے جاگیریں مقرر فرمائیں اور جانوروں کیلئے چراگائیں قائم کیں۔ نظم ونسق کیلئے محکمہ پولیس قائم کیا اور اسکے عہدے دار مقرر کیے۔ مسجد نبوی شریف میں توسیع ہوئی اور اسکی تزئین وآرائش کی گئی۔ مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ وسائل کی ایسی فراوانی ہوئی کہ لوگ فکرِ معاش سے آزاد ہوگئے۔ مملکت اسلامیہ کی سرحدی حدود میں توسیع کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلم مملکت کا رقبہ کم وبیش 24 لاکھ مربع میل تھا، حضرت عثمان کے زمانے میں یہ رقبہ کم و بیش 48 لاکھ مربع میل تک وسعت اختیار کر گیا اور سندھ سے کابل، لبیا سے لیکر یورپ تک کا علاقہ اس میں شامل تھا۔ آپ نے مفتوحہ علاقوں میں چھاونیاں قائم کیں اور پوری مملکت میں سڑکیں، پل اور مسافر خانے بنوائے۔ پہلی بار بحری بیڑہ قائم کیا۔ آپ کی حیات مبارکہ کا اہم ترین کارنامہ خدمتِ قرآن کے حوالے سے ہے۔ 

Zindagi Ka Maqsad Banana Kyoon Zaroori Hay?

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1473 (Surah Fussilat Ayat 37-38)درس قرآن سُوۡ...

Allah Tallah Ka Deedar Kaisay Mumkin Hay?

جمعہ، 14 اگست، 2020

Kya Hum Allah Tallah Ko Daikh Saktay Hain?

Allah Tallah Say Mulaqaat Ki Tayari Kaisay?

کامل الحیا ء والا یمان

 

کامل الحیا ء والا یمان

حضور سید عالم ﷺ کی صحبت ، تربیت اور توجہات نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اوصاف ومحاسن کا ایک شہکار جمیل بنا دیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ معرفتِ خداوندی اور احساسِ بندگی سے معمور تھے۔ آپ کی آنکھیں خوفِ خداوندی سے اکثر مصروف گریہ رہا کرتی تھیں۔ موت قبر اور عاقبت کوہمیشہ یادرکھتے تھے۔ قبروں سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہوجاتی لوگ کہتے کہ جنت وجہنم کے ذکر سے آپ پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔ آخر ان قبر وں میں کیاخاص بات ہے کہ انھیں دیکھ کر آپ بے قرار ہوجاتے ہیں ۔ فرماتے کہ حضور اکرم ﷺ وسلم کا ارشاد ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے ۔ اگر یہ معاملہ آسانی سے طے ہوگیا تو پھر تمام مرحلے آسان ہیں ،اور اگر اس میں دشواری پیش آئی تو پھر تمام منزلیں دشوار ہوجائیں گی۔ کوئی جنازہ آپ کے سامنے سے گزرتا تو آپ اسکے احترام میں کھڑے ہوجاتے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آتے۔ شب بیداری اورتہجد گزاری آپ کا معمول تھا۔ بعض دفعہ آپ ساری رات بیدار رہتے ۔کبھی کبھی حضور وسرور کی ایسی کیفیت طاری ہوتی کہ ایک رکعت میں پورا قرآن پاک ختم کرلیتے ۔ حج بیت اللہ کے انتہائی مشتاق تھے۔ زمانہ خلافت میں کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل نہ کی ۔ حیات مبارک کے آخری سال میں باغیوں نے آپکے گھر کا محاصر ہ کر رکھا تھا ، اور یہ ذوالحج کا مہینہ تھا ۔ ایسے میں آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس کو بہت زور دے کر کہا کہ وہ آپ کی طرف سے امیر حج بن کر جائیں۔ جناب رسول اللہ ﷺ کی ذات والا تبار سے آپ کی محبت اور وابستگی کا عالم الفاظ میں رقم نہیں ہوسکتا ۔ محبت کی پاکیزہ کیفیت کے ساتھ ساتھ جذبہ اطاعت رسول سے سرشار تھے۔ اور قدم قدم پر اس کا خیال دامن گیر رہتا تھا۔ جس ہاتھ سے جناب رسالت مآب علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کی، کبھی بھی اسے کسی نجاست یا محلِ نجاست سے مس نہ ہونے دیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ میں سفیر بن کر بھیجے گئے تو مکہ والوں نے پہلے عمرہ کی پیش کش کی۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ابھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف نہیں فرمایا ۔ ایسے میں عثمان کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرے۔ایک بار وضو کرنے کے بعد مسکرانے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا : میں نے ایک بار حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضو ر کے اہلِ خانہ سے اصرارکرتے کہ گھر میں ضروریات زند گی کا کوئی معاملہ ہو تو انھیں ضرور مطلع کیا جائے۔ حیاء ، سخاوت،ایثار اور صلہ رحمی میں آپ ضرب المثل ہیں ۔ ان کی حیا ء کے بارے میں حضور ﷺ کا قول فیصل ہے کہ ’’آسمان کے فرشتے بھی عثمان سے حیاء کرتے ہیں‘‘۔ سینکڑوں لوگ آپکی سخاوت سے فیض یا ب ہوئے۔ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے دو لاکھ اشرفی مالیت کی جائیداد مسلمانوں کیلئے وقف تھی۔ حضور اکر م ﷺنے آپ کو آنے والے فتنوں سے خبر دار کیا اور صبر واستقامت کی تلقین فرمائی آپ نے بڑی جرأت اور پامردی سے اس حکم پر عمل کیا ۔ 

جمعرات، 13 اگست، 2020

Shirk Kya Hay?-

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1471 (Surah Fussilat Ayat 31 Pt-2)درس قرآن سُ...

Dunya Kya Hay?

ذوالبشارتین

 

ذوالبشارتین

حضرت غنی ؓ حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ سے دوبار براہِ راست جنت کی بشارت سے نوازے گئے۔ پہلی بار اس وقت جب آپ نے بئر رومہ (پانی کا کنواں ) خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ دوسری بار غزوہ تبوک کے موقع پر ’’ہجرت کے آٹھویں سال ماہ ذی الحجہ میں سرکار دوعالم ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے شام میں لشکر جرار اکٹھا کر لیا ہے اور وہ مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے کیلئے زبر دست تیاریوں میں مصروف ہیں انکے متعدد فوجی دستے ’’بلقائ‘‘کے شہر تک پہنچ گئے ہیں ۔وہاں انہوں نے پڑائو ڈال لیا ہے‘‘۔اب مسلمانوں کے پاس دو صورتیں تھیں ایک یہ کہ وہ مدینہ میں رہ کر رومی عساکر کا انتظار کریں یا پھر یہ کہ وہ آگے بڑھ کر دشمن کے سیلِ رواں کے سامنے بند باندھ دیں ۔اللہ کے غیر ت مند رسول نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا،اور اس مہم کا اعلان عام کردیا ۔اتفاق سے وہ زمانہ بڑی عسرت اور تنگ دستی کا تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا، عرصہ دراز سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ قحط سالی کا عالم تھا۔ ایسے میں نبی اکرم ﷺنے امت کے اغنیاء اور اصحاب ثروت کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے راستے میں دل کھول کر مالی اعانت کریں۔ صحابہ کرام نے اس موقع پر ایثار وقربانی کی بے مثال داستانیں رقم کیں۔ ایسے میں حضرت عثمان  ؓنے کمالِ فیاضی کا ثبوت فراہم کیا ۔آپ حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپکی آستین میں دس ہزار دینا ر تھے۔ آپ نے فخر دوعالم ﷺکی جھولی میں پلٹ دیے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ حضور ان دیناروں کو الٹ پلٹ رہے تھے اور ساتھ ہی دعا فر مارہے تھے۔ ’’اے اللہ عثمان سے راضی ہوجا میں اس سے راضی ہوں ‘‘۔پھر انہیں دعاد ی ’’اے عثمان اللہ تمہاری مغفرت کرے اس دولت پر جو تم نے مخفی رکھی اور جس کا تم نے اعلان کیا ،اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، عثمان کو کوئی پروا نہیں کہ آج کے بعدوہ کوئی عمل کرے۔(مسند امام احمد بن حنبل )حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا اور جنت میں میرا رفیق عثمان ہے۔ (ترمذی ،ابن ماجہ)٭حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت پر مامور فرمایا ۔ پس ایک آدمی نے آکر اند ر آنے کی اجازت طلب کی ، حضور نے فرما یا : اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ دیکھا تو وہ حضرت ابو بکر صدیق  ؓ تھے۔ 

بدھ، 12 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1470 (Surah Fussilat Ayat 31 Pt-1)درس قرآن سُ...

Dunya Ki Haqqeqat

Bandagi Kya Hay?-بندگی کیا ہے؟

ذوالنورین

 

ذوالنورین 

ہجرت مدینہ منورہ کے بعد جب مواخات (ایک دوسرے کا بھائی بنانے )کا سلسلہ قائم ہوا تو حضرت عثمان غنی ؓ کو حضرت اوس بن ثابت المنذر کا بھائی قرار دیا گیا ۔ آپ نے مدینہ منورہ میں بھی زراعت اور تجارت کے ذریعے سے اپنے مالی معاملات کو بہت مستحکم کرلیا ۔مدینہ منورہ میں ان دنوں پانی کی شدید قلت تھی ۔ لوگ ’’بئر رومہ‘‘نامی ایک کنویں سے پانی خرید کر استعمال کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنی نے پہلے اس کنویں کا نصف خرید لیا اور پھر بقیہ حصہ بھی خرید کر اللہ کے رستے میں وقفِ عام کردیا۔ اللہ اور اسکے رسول کی بارگاہ میں یہ عمل نہایت ہی مقبول ہوا اور حضرت عثمان غنی ؓ جنت کی بشارت سے خورسند ہوئے۔ 2ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا۔ جن دنوں مسلمان اس سفر کیلئے نکل رہے تھے۔ حضرت رقیہ ؓ کی صحت مبارکہ نہایت ناساز تھی۔ حضور اکرم ﷺنے حضرت عثمان کو مدینہ منورہ میں ٹھہر کر تیماداری کا حکم دیا۔ حضرت رقیہ اس مر ض میں وصال فرما گئیں۔ جب مدینہ منورہ میں فتح کی خبر پہنچی تو اس وقت آپ کی تدفین ہورہی تھی۔ جب مجاہدین بدر میں مال غنیمت کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمانؓ  کا حصہ بھی الگ کیا کیونکہ آپ اللہ اور اسکے رسول کے کام میں مصروف تھے۔ (بخاری، ابو دائود )اس طرح آپ اصحاب بدر میں بھی شمار کیے جاتے ہیں ۔حضرت رقیہ ؓکے وصال نے حضرت عثمان کر بہت غمزدہ کردیا ۔ ایک تو وفاء شعا ر اور غم گسار اہلیہ کی جدائی پھر رسول اللہ ﷺ سے نسبتِ دامادی کا انقطاع۔ حضور انور ﷺنے آپکو اداس وملول دیکھا تو اپنی دوسری صاجزادی حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح آپ سے فرما دیا ، ارشاد ہوا۔’’اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی بیٹی کی شادی عثمان سے کردوں‘‘۔ (احمد ، طبرانی)اس قرابتِ عظیمہ کی وجہ سے صحابہ کرام نے آپ کو ’’ذوالنورنین ‘‘(دونوروں والے) کا لقب دیا جب ۹ ہجری میں حضرت ام کلثوم بھی وصال فرماگئیں تو حضور اکرم ﷺنے فرمایا : عثمان کی شادی کرادو،اگر میرے پاس تیسری (ایسی ) بیٹی ہوتی (جس کا ابھی نکاح نہ ہوا ہوتا )تو اس کا نکاح بھی عثمان کے ساتھ کردیتا (طبرانی )ایک روایت میں ۴۰ کا عدد بھی آیا ہے کہ میں انھیں یکے بعد دیگر ے حضرت عثمان کے نکاح میں دے دیتا ۔ حدیبیہ کے مقام سے آپ کو سفیر بناکر مکہ بھیجا گیا لیکن یہ افواہ اڑ گئی کہ اہلِ مکہ نے آپ کو شہید کردیا ہے۔ اس پر حضور اکر م ﷺنے صحابہ کرام سے بیعت لی کہ خبر صحیح ہونے کی صورت میں ہم خونِ عثمان کا بدلہ لیں گے۔ اسے ’’بیعت رضوان ‘‘کہتے ہیں۔

منگل، 11 اگست، 2020

Deen-e-Islam Kya Hay?

Insaan Kamyab Kaisay Ho Sakta Hay?

ذوالہجرتین

 


ذوالہجرتین 

حضور اکرم ﷺ کی دعوت توحید کی جیسے جیسے اشاعت زیادہ ہونے لگی ویسے ویسے کفارِ مکہ کے مظالم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ ’’رحمت عالم ﷺنے جب شمع توحید کے ان پروانوں پر کفر وشرک کے سرغنوں کے بے انداز مظالم دیکھے تو سرکار دوعالم ﷺنے اپنے جاں نثار غلاموں کو اجازت دے دی کہ ظلم وستم کی اس بستی سے ہجرت کرکے حبشہ چلے جائیں کیونکہ وہاں کے بادشاہ (نجاشی ) کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بڑا رحم دل اور انصاف پسند ہے چنانچہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب میں مہاجر ین کا پہلا قافلہ اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر حبشہ جیسے دور افتادہ ملک کی طرف روانہ ہوا تاکہ اس پر امن فضا میں وہ جی بھر کر اپنے رب کریم کی عبادت کرسکیں ۔ اپنے عقیدہ کیمطابق آزادی سے زندگی بسر کرسکیں۔ یہ قافلہ بارہ مردوں اور چار خواتین پر مشتمل تھا۔ انکے قافلہ سالار حضرت عثمان بن عفان ﷺ تھے۔ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہ (جو رحمتہ للعالمین کی لخت جگر تھیں ) ﷺ آپ کے ساتھ تھیں۔ سرکار دوعالم نے اسی جوڑے کے بارے میں فرمایا ’’ابراہیم اور لوط علیہماالسلام کے بعد یہ پہلا گھر انہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی‘‘۔ حضرت رقیہ کی خدمت گزاری کیلئے حضرت ام ایمن بھی ساتھ گئیں (ضیاء النبی )حضور رحمت عالم ہجرت کے بعد اپنے اصحاب کی خیریت کی اطلاع کے منتظر رہاکرتے تھے۔ حبشہ میں ان لوگوں کو امن وعافیت میسر آئی ۔چند ماہ کے بعد وہاں یہ اطلاع پہنچی کہ اہلِ مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے،اور اب وہاں مکمل امن وامان ہے۔ اس پر چند لوگوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ایک روایت کیمطابق حضرت عثمان بھی واپس آنے والوں میں شامل تھے۔ لیکن واپسی کے بعد اہلِ مکہ کے بارے میں اطلاع غلط ثابت ہوئی،اور کفار نے ان لوگوں سے پہلے سے بھی زیادہ مظالم شروع کردیے۔ طعن وتشنیع اور طنز وتمسخر کا بازار گرم کردیا۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے انھیں دوبارہ ہجرت کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ اس دفعہ کئی دوسرے مسلمان بھی اس قافلہ میں شریک ہوگئے اور ان کی تعداد تراسی ہوگئی،ہجرت کرتے ہوئے ،حضرت عثمان نے بڑے تائسف کا اظہار کیا کہ سرکار دوعالم ﷺ تو مکہ میں ہیں اور ہم دوسری باربھی آپ کے بغیر ہجرت پر جارہے ہیں ۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا ۔ ’’(افسوس مت کرو) تمہاری یہ دونوں ہجرتیں اللہ تعالیٰ کی طرف اور میری طرف ہیں‘‘یہ سن کر حضرت عثمان نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ اگر ایسا ہے تو پھر ہم راضی ہیں ہمیں اتنا ہی کافی ہے‘‘۔ (طبقات ابن سعد)

پیر، 10 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1468 (Surah Fussilat Ayat 30 Pt-1)درس قرآن سُ...

Insaan Ki Meraaj Kya Hay?

Danai Aur Nadani Bhi Qismat Say Hay?

اہل تقویٰ کی علامات

 

اہل تقویٰ کی علامات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا تناجش (کسی کو پھنسانے کے لیے زیادہ قیمت لگانا)نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اللہ کے بندوں بھائی بھائی بن جائو، مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوانہ کرے ، اس کو حقیر نہ جانے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، کسی شخص کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے اس کا خون اس کا مال اوراس کی عزت ۔(صحیح مسلم)

حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں سے شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ کسی بے ضرر چیز کو اس اندیشے سے نہ چھوڑدے کہ شاید اس میں کوئی ضرر ہو۔(جامع ترمذی)

 حضرت میمون بن مہران نے کہا : بندہ اس وقت تک متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا اس طرح حساب نہ کرے، جس طرح اپنے شریک کا محاسبہ کرتا ہے کہ اس کا کھانا کہاں سے آیا اوراس کے کپڑے کہاں سے آئے۔(جامع ترمذی)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب یہ فرماتا ہے کہ میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، سو جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔(سنن دارمی)

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسی آیت کا علم ہے کہ اگر لوگ صرف اسی آیت پر عمل کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہوجائے گی’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے‘‘۔ (سنن دارمی )

 ابو نضر ہ بیا ن کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ سنا اس نے یہ حدیث بیان کی ، آپ نے فرمایا : اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے ، سنو ! کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے، مگر فضیلت صرف تقویٰ سے ہے۔(مسنداحمدبن حنبل)


اتوار، 9 اگست، 2020

Emaan Ki Bunyad Aur Mazbooti Part-2

Dunya Main Insaan Apni Meraaj Kaisay Pa Sakta Hay?دنیا میں انسان اپنی مع...

سعادتِ ایمان اور آزمائش

 

سعادتِ ایمان اور آزمائش 

حضور اکرم ﷺکی بعثت مبارکہ کے بعد سب سے پہلے آپکی تصدیق کا شرف ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ کو حاصل ہوا، اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ اس سعادت سے مشرف ہوئے ان حضرات کے بعد اسلام کی نعمتِ عظمیٰ حضرت عثمان ؓکے مقدر میں آئی ۔ اس طرح آپ السابقون الاوّلون میں نمایاں مقام کے حامل ٹھہرے۔ قبولِ اسلام کے بعد انھیں دوسرے مسلمانوں کی طرح ابتلاء اور آلام کے مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ آپکے خاندان نے آپکے قبولِ اسلام کی سخت مخالفت کی اور آپ کو عملاً بھی بڑے جبر وتشد د کا نشانہ بنایا گیا ۔ لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی، اور آپ اپنے موقف پر بڑی استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ’’آپکے چچا کا یہ معمول تھا کہ جانور کے کچے بدبودار چمڑے میں انہیں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتا ۔ نیچے سے تانبے کی طرح تپتی ریت اوپر سے عرب کے سورج کی آتشیں کرنیں ۔ اس پر کچے چمڑے کی بدبو ایک عذاب میں اس بڈھے نے بیسوئوں عذابوں کو یکجا کردیا تھا۔ اس طرح اپنے سگے بھتیجے پر وہ دل کی بھڑاس نکالتا پھر بھی دل سیر نہ ہوتا۔‘‘(ضیاء النبی) مکہ میں آپ کو حضور اکرم ﷺ کی دامادی کا شر ف حاصل ہوا۔ بعثت سے قبل حضور کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے ہوگیا تھا جبکہ رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی۔ آپ کی دعوت رسالت کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دیں۔ اس طلاق کے بعد حضور اکرم ﷺنے اپنے صاجزادی حضرت رقیہ ؓکا نکاح حضرت عثمان غنی سے کردیا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ مکہ کاخوبصورت ترین ازدواجی جوڑا تھا اور لوگ انکے باہمی تعلق پر رشک کیا کرتے تھے۔ خود حضور انور ﷺ کو اس جوڑے کی روحانی اور جمالیاتی اہمیت کا بڑا احساس تھا ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓکہتے ہیں حضور اکرم ﷺنے مجھے ایک دیگچے میں گوشت دیا اور فرمایا کہ یہ عثمان کے گھر پہنچادو۔ میں انکے گھر میں داخل ہوا ۔ وہاں حضرت رقیہ بھی تشریف فرماتھیں۔ میں نے زوجین میں ان سے بہتر کوئی جوڑا نہیں دیکھا۔ میں کبھی حضرت عثمان کے چہرے کودیکھتا اور کبھی انکی باوقار اور پرانور اہلیہ کو (اور اس جوڑے کے ملکوتی حسن وتقدس کودیکھ کر حیران ہوتا) جب واپس آئے تو حضور اکرم ﷺنے (بڑے اشتیاق سے )مجھ سے پوچھا کیاتم وہاں گئے تھے۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں،آپ نے فرمایا: کیا تم نے ان سے اچھا کوئی جوڑا دیکھا ہے میں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ نہیں ۔میں کبھی حضرت عثمان کی طرف دیکھتا اور کبھی حضرت رقیہ کی طرف۔(ابن عساکر)

ہفتہ، 8 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1466 (Surah Fussilat Ayat 26-28 )درس قرآن سُو...

Main Nay Jana Kahan Hay?-

حضرت عثمان بن عفان

 

       حضرت عثمان بن عفان

حضور اکرم ﷺکے خلیفہ راشد حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کی شخصیت اپنے وجود میں ان گنت محاسن کی جامع ہے۔ آپ کا شمار ان خوش نصیب افراد میں ہوتا ہے جو انبیائے کرام کے بعد بر گزیدہ ترین ہیں ۔آپ کو ہر وہ اعزاز حاصل ہے جو اسلام میں کسی بھی شخص کیلئے فضیلت وتقر ب کا باعث ہوسکتا ہے۔ آپ خلفاء راشد ین میں سے ہیں ،عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ آپ کو اصحاب بدر میں شمار کیا گیا۔ بیعت ِ رضوان کے انعقاد کا سبب ہی آپ ہیں ۔ نبی کریم ﷺکی دوشہزادیوں سے آپکا نکاح ہوا اور آپ ذوالنورین کہلائے۔ آپ کا اسم گرامی عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی ہے۔ عبد مناف پر آپ کا شجر ہ نسب حضور اکرم ﷺ سے مل جاتا ہے۔آپ کا قبیلہ بنو امیہ قریش کا ایک معزز اور بڑا خاندان شمار ہوتا تھا۔ بنوہاشم کے سوا کوئی اور قبیلہ ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرتا تھا۔ قریش کا مشہور عہدہ ’عقاب‘(یعنی فوجی نشان)کی علمداری اسی خاندان کے پاس تھی۔ حضرت عثمان غنی عام الفیل کے چھٹے سال (ہجرت سے تقریباً ۴۷ سال) قبل پید ا ہوئے ۔بچپن ہی میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیاتھا۔ آپکا ذریعہ معاش تجارت تھا ۔ آپ کے والد عفان نے ترکے میں بہت مال ودولت چھوڑا، آپ نے اپنی حکمت اور تدبر سے اپنے کا روبار کو بڑی ترقی دی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اپنی امانت ،دیانت ، راست گوئی اور حسنِ معاملہ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ دولت وثروت کی وجہ سے غنی کے نام سے مشہور تھے لیکن تمام اسباب ووسائل کا حامل ہونے کے باوجود سیر ت وکردار میں انتہائی پاکیزگی تھی۔ زمانہ جاہلیت کی برائیوں میں سے کوئی بھی آپکی ذات میں نہیں پائی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ بتوں کی پرستش سے بھی ہمیشہ گریزاں رہے۔ کردار کی پاکیزگی کیساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے آپ کو نہایت حسین وجمیل صورت سے نوازاتھا۔ سفید رنگت میں سرخی جھلکتی تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی جسے حناء سے رنگین رکھتے تھے۔ چہر ے پر قدرے چیچک کے نشان تھے ۔ میانہ قد تھے، آپکی ہڈی چوڑی تھی، پنڈلیاں بھری بھری تھیں۔ ہاتھ لمبے لمبے اور سر کے بال گھنگھریالے تھے۔ دونوں شانوں میں زیادہ فاصلہ تھا۔ دانت بڑے خوبصورت تھے۔۔ خود حضور ﷺنے آپ کو حضرت ابر اہیم علیہ السلام سے مشابہ قرار دیا۔ حضرت عبد اللہ بن حزم کاقول ہے کہ میں نے حضرت عثمان کے بعد کسی بھی مرداور عورت کو ان سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے آپکی مجالست بھی اپنے ہی جیسے لوگوں میں سے تھی حضرت ابوبکر صدیق ؓسے آپ کے بہت گہرے مراسم تھے اور یہی اعتباروتعلق آپکے قبول اسلام کا باعث بنا۔ 

جمعہ، 7 اگست، 2020

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1465 (Surah Fussilat Ayat 24-25)درس قرآن سُوۡ...

Insaan Ki Meraaj -

آں خنک شہرے ۔۔۔۔

 


آں خنک شہرے ۔۔۔۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ اہل مدینہ کا معمول تھا کہ جب انکے باغوں میں پہلا پھل پکتا تو اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت میں پیش کرتے ۔حضور اکرم ﷺاس پھل کو لیکر اپنی مبارک آنکھوں پر رکھتے اور یوں دعاء فرماتے۔ ’’اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں برکت دے اور ہمارے مدینہ میں بھی برکت دے، ہمارے صاعوں میں بھی برکت دے اور ہمارے مدّ میں بھی برکت دے (یعنی پیمانوں اور وزنوں میں) اے اللہ بے شک ابراہیم تیرا بندہ تیرا خلیل اور تیرا نبی تھا اور اس نے مکہ کیلئے دعا ء کی تھی اور میں مدینہ کیلئے تیری بارگاہ میں التجاء کرتا ہوں۔ جس طرح ابر اہیم نے مکہ کیلئے دعاء کی تھی ۔اسکے ساتھ اسکی مثل اور۔ (صحیح مسلم) ٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ کو سامنے احد کا پہاڑ نظر آیا تو آپ نے فرمایا : یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ اے اللہ بے شک ابر اہیم ؑ نے مکہ مکرّمہ کو حرم بنا یا تھا اور میں ان دوپہاڑوں کے درمیان کو حرم بنارہا ہوں ۔ (سنن ترمذی) ٭حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو مدینہ منورہ میں مر سکے تو ایسا کر ے کیونکہ بے شک میں (اسکے حق میں ) گواہی دوں گا ۔ جو یہاں مر جائیگا۔(ابن ماجہ ) ٭امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ یوں دعاء مانگا کرتے تھے۔ ’’اے اللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما اور مجھے اپنے رسول ﷺکے شہر میں موت عطا فرما۔ (بخاری) ٭محمد بن مسلمہ ؒ بیان کر تے ہیں ۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں میں خلیفہ مہدی سے ملا قات کیلئے گیا تو اس نے کہا مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے میں نے کہا : میں تجھے اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس بات کی کہ رسول اللہ ﷺکے شہر کے باشندوں ،حضور کے پڑوسیوں کے ساتھ لطف وعنایت سے پیش آئو۔ کیونکہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مدینہ میری ہجرت گاہ ہے، قیامت کے روز یہیں سے اُٹھا یا جائوں گا۔ یہاں میری قبر ہوگئی، اسکے باشندے میرے پڑوسی ہیں اورمیری امت پر لازم کہ وہ میرے پڑوسیوں کی حفاظت کرے۔ جو میری وجہ سے ان کی حفاظت کریگا، میں قیامت کے روز اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا،اور جو میرے پڑوسیوں کے بارے میں میری وصیت کی حفاظت نہیں کریگا۔ اللہ اسے دوزخ کا نچوڑپلائے گا۔ (ترتیب المدارک ، قاضی عیاض)

حقیقت ِدین

  حقیقت ِدین انسانی زندگی میں اصل حاکم اس کی سوچ اور فکر ہوتی ہے ۔ انسان کے تمام اعمال اس کی سوچ اور فکر کے گرد گھومتے ہیں ۔ اگر انسان کی سو...