منگل، 25 اگست، 2020

سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

 

سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم 

اسلام کی تاریخ اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی تاریخ ہے۔ خدمت و مئودت کی تاریخ ہے ۔ایثار وقربانی کی تاریخ ہے۔ جاں فروشی وجاں سپاری کی تاریخ ہے۔ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے اور ماتھے پر یہ جھومر سجانے کی تاریخ ہے۔ قومیں اپنی تقویم کو قاعدے اور ضابطے میں رکھنے کیلئے مختلف اسالیب اختیار کرتی ہیں ۔ بالعموم ہر قوم  نے اپنی سہولت کیلئے کسی نہ کسی انداز کا ایک کیلنڈر ضرور اختیار کیا ہے۔ ہر قوم اپنے سال کے آغاز واختتام کو یادگار بنانے کا کوئی نہ کوئی اہتمام بھی ضرور کرتی ہے۔ اس اہتمام کا تصور عام طور پر مسرت ، شادمانی ، جشن رنگ و طرب ، اہتمام ھائوو ھو سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن  ؎ خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی، اسلام کا کیلنڈر ہجری تقویم کے مطابق ہے۔ ہجرت بذاتِ خود ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ وہ زمین جہاں انسان پیدا ہواہو۔وہ ماحول اور معاشرہ جہاں اسکی جڑیں بہت گہرائی تک اور تعلقات و مفادات کی شاخیں بہت وسعت تک پھیل چکی ہوں، اس زمین کو یک لخت خیرآباد کہنا پڑجائے اور امکانات کی ایک نئی دنیا کی تلاش میں نکلنا پڑے تو یہ کام قطعاً آسان نہیں ہوتا ۔ آبائی وطن سے محبت انسان کی شرست میں داخل ہے اور ہمیشہ دل میں موجود رہتی ہے۔ عربی کا مشہور شاعر ابو تمام کس کیفیت میں کہہ گیا ہے۔

کم منزلٍ فی العمر یالف الفتیٰ

وحنینہٗ ابداً لِاَوّلِ منزلٖ

 ’’ایک جواں مقاصد کی جستجو میں کتنی ہی منزلیں طے کرتا ہے ۔ لیکن اس کا رحجان طبع ہمیشہ اپنی جنم بھومی کی طرف رہتا ہے۔‘‘ 

سال ہجری ہمیشہ مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام کی عظیم الشان قربانی کی یاد دلاتا ہے۔سال کا آخری مہینہ ایک ’’ذبح عظیم ‘‘کو قولاً نہیں عملاً یاد دلاتا ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر نے صرف اور صرف اپنے پروردگار کو راضی کرنے کیلئے  اپنے جان سے پیارے لخت جگر کے حلقوم پر تیز دھار کی چھری رکھی اور آفرین ہے اس فرزندِ وفاء شعار پر جس نے سرتسلیم خم کردیا ۔  ذرا آگے بڑھئے۔حسن وحیاء کا ایک پیکر شہادت کو گلے سے لگا رہا اور اعلان کر رہا ہے کہ عثمان اپنی جان تو قربان کرسکتا ہے لیکن شہر رسول میں خون ریزی پسند نہیں کرسکتا ۔ سال ہجرت ختم ہو رہا ہے اور نئی سال کا سورج طلوع ہو رہا ہے تو اس کے ماتھے پر فاروق اعظم کی شہادت کا جھومر سجا ہوا ہے، اور شہادت وجاں فروش کی یہ روایت میدان کربلا میں پہنچتی ہے تو گویا اپنی معراج کو چھو لیتی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں