اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
بدھ، 31 اگست، 2022
فضیلت صلوٰة اور احادیث مبارکہ
فضیلت صلوٰة اور احادیث مبارکہ
جس طرح قرآن مجید میں نماز کا کثرت سے ذکر کیاگیا ہے۔ اس طرح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ نماز کی فضیلت، اہمیت اور اسکے متعلقہ مسائل کے ذکر سے معمور ہے۔ حدیثِ پاک کے کسی بھی مجموعے کا مطالعہ کیجئے۔کتاب الصلوٰة، ابواب الصلوٰة کے زیر عنوان نماز ہی کا ذکر ہے۔ احادیث مبارکہ میں نماز ہی کو مرکزِ عبادات کادرجہ حاصل ہے۔ ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز لوگوں سے ان کے اعمال میں سے سب سے اوّل حساب نماز کا لیا جائے گا۔ (سنن ابوداﺅد)
یہی حدیث مبارکہ الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ جامع الترمذی میں بھی موجود ہے جبکہ سنن نسائی میں اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں۔ ٭سو اگر نماز کا معاملہ درست ٹھہرا تو وہ بندہ فلاح ونجات پاگیا۔ اور یہی معاملہ بگڑگیا تو وہ نامراد اور خسارہ پانے والا ہوا۔ (سنن نسائی)امتحان کی پہلی منزل میں کامیابی نصیب ہوجائے تو یہ اگلی منزلوں میں بھی نجات کی توید ثابت ہوگی۔ اور اگر خدانخواستہ پہلے مرحلے ہی میں لغزش سامنے آجائے تو اسکے اثرات آئندہ کیلئے بھی بڑے ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٭حضرت علی کر م اللہ وجہہالکریم فرماتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے وصال فرماتے ہوئے جو آخری کلام فرمایا وہ تھا۔ الصلوٰة، الصلوٰة اور یہ کہ تم اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ (سنن ابی داﺅد) حضور اکرم ﷺکے نزدیک فریضہءصلوٰة کی کتنی اہمیت ہے کہ آپ نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی اسکی تاکید بلکہ تاکید بالائے تاکید کو انتہائی ضروری سمجھا ۔ تعلق بااللہ کی اس استواری کے ساتھ آپ نے اس وقت معاشرے کے سب سے کمزور اور زےردست طبقے یعنی ”غلاموں“ کی خیر خواہی کا پیغام بھی ارشاد فرمایا ۔ یہ دین اسلام کی جامعیت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو اہمیت حاصل ہے اور توازن اور اعتدال کا پیغام ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ٭حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بڑے انہماک اور استواری سے) نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپکے دونوں قدم زخمی ہو جاتے۔آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ آپ یہ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کیلئے بخشش ہی کہ آپ پہلے بھی گناہوں سے محفوظ رہے ہیں ا ور آئندہ بھی رہیں گے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:۔ ”کیا میں (اپنے رب تعالیٰ کا ) شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔ (بخاری)٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نمازدین کا ستون ہے“۔ (شعب الایمان)
منگل، 30 اگست، 2022
قرآن اور نماز
قرآن اور نماز
پیر، 29 اگست، 2022
۔۔۔۔ہمہ آفتاب است
۔۔۔۔ہمہ آفتاب است
حضرت زید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دس آدمی جنتی ہیں یعنی نبی ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر ، سعد بن مالک ، عبدالرحمان بن عوف اورسعید بن زید۔(سنن ابوداﺅد، احمد بن حنبل)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چارآدمیوں کی محبت منافق کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اورنہ ہی مومن کے سوا، کوئی ان سے محبت کرتا ہے یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان اورعلی سے۔(ابن عساکر)
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰة والتسلیم حجة الوداع سے تشریف لائے تو منبر پر چڑھ کر حمد وثنا ءکے بعد فرمایا : اے لوگو ! ابوبکر نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں دی اس بات کو اچھی طرح جان لو، اے لوگو! میں ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن بن عوف، مہاجرین اوراولین سے راضی ہوں ان کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔ (طبرانی)اورطبرانی کی ایک روایت میں جو الاوسط میں بیان ہوئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر ہے اورسب سے زیادہ نرمی کرنے والا عمر ہے اورسب سے زیادہ حیادار عثمان ہے ۔ سب سے زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا علی بن ابی طالب ہے اورحلال وحرام کا زیادہ عالم معاذبن جبل ہے وہ قیامت کے دن علماءکے آگے آگے ہوگا۔ امت کا سب سے بڑا قاری ابی ابن کعب اورسب سے زیادہ فرائض کاجاننے والا زید بن ثابت ہے اورعمویمر یعنی ابو الدرداءکے حصے میں عبادت آئی ہے۔(رضی اللہ عنہم اجمعین )
اتوار، 28 اگست، 2022
نماز کی فرصت
نماز کی فرصت
ہفتہ، 27 اگست، 2022
الصلوة
الصلوة
”عبادت “کی تشریح سے ہم پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اللہ کے سامنے اعتراف عجز ہے۔ اپنی ذات کی خیالات کی، رائے کی نفی ہے۔ جب انسان اپنے خالق کا حکم مان لیتا ہے اور اس کی مرضی اختیار کرلیتا ہے ،اور اس کے بتائے ہوئے طرززندگی کو اپنا لیتا ہے تو وہ عبادت کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
اس خالق کی حکمت نے اپنے محمود اعمال میں درجہ بندی فرمائی،کچھ اعمال ایسے ہیں جو مسلمانی کا خاص شعار قرار پائے، انکے بغیر ایمان اور اسلام کا تعارف ہی دشوار ہے۔ ان میں اہم ترین، نمایاں ترین اور سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی عمل ”الصلوة “یعنی نماز ہے۔ ”صلوٰة “کا لفظی معنی دعائ، تسبیح، رحمت یا رحم وکرم کی تمنا ہے درود پاک کو بھی صلوٰة کہا جاتا ہے کہ یہ بھی رحمت وکرم کی تمنا کا اظہار ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق صلوٰة ایک مخصوص اور معروف عمل ہے جو خاص اوقات میں اور مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ صلوٰ ة یعنی نماز ارکانِ اسلام میں دوسرا اور عبادات میں پہلا رکن ہے۔ اس کی بجا آوری ہر باشعور، بالغ مسلمان (عورت ہو یا مرد) پر فرض ہے۔“ (عقائد ارکان )
”نماز کیا ہے مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ پاﺅں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار ، اس رحمان اور رحیم کی یا داور اس کے بے انتہاءاحسانات کا شکریہ، حسنِ ازل کی حمد وثنا ءاور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار، یہ اپنے آقاءکے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرضِ نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اورمایوس دل کی آس ہے۔یہ فطرت کی آواز ہے اور یہ زندگی کا حاصل اور ہستی خلاصہ ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا، اس کے حضور میں دعاءفریا د کرنا اور اس سے مشکل میں تسلی پانا۔ انسان کی فطرت ہے ۔ قرآن نے جابجاانسانوں کی اسی فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تمہارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو۔ غرض انسان کی پیشانی کو خودبخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے۔ جس کے سامنے وہ جھکے ۔ اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمناﺅں کو اس کے سامنے پیش کرے ۔غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے“۔ (سیرت النبی)اسلام کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے انسان کو در در پر بھٹکنے سے بچا لیا۔ توحید کا واضح اور غیر مبہم سبق پڑھایا بندگی کا خوبصورت طریقہ سکھایا، جسے کو نماز کہتے ہیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جمعہ، 26 اگست، 2022
دشمنانِ رسالت کا انجام
دشمنانِ رسالت کا انجام
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اربد بن قیس ، اورعامر بن الطفیل نجد سے مدینہ منورہ میں آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس وقت آپ بیٹھے ہوئے تھے، وہ دونوں آپ کے سامنے آکر بیٹھ گئے، عامر بن الطفیل نے کہا: اگر میں اسلام لے آﺅں تو کیا آپ اپنے بعد مجھے خلیفہ بنائیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، لیکن تم گھوڑوں پر بیٹھ کر جہاد کرنا۔ اس نے کہا : میرے پاس تو اب بھی نجد میں گھوڑے ہیں، پھر اس نے کہا: آپ دیہات میرے سپرد کردیں اورشہر آپ لے لیں، آپ نے فرمایا : نہیں ! جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھنے لگے تو عامر نے کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ کے خلاف گھوڑے سواروں کو اورپیادوں کو جمع کروں گا۔ آپ نے فرمایا :اللہ تم کو اس اقدام سے باز رکھے گا۔ جب وہ دونوں وہاں سے واپس لوٹے تو کچھ دور جاکر عامر نے(چپکے سے)کہا : اے اربد، میں (سیدنا )محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو باتوں میں لگاتا ہوں تم تلوار سے ان کا سراڑا دینا، اورجب تم نے (سیدنا)محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو قتل کردیا تو زیادہ سے زیادہ یہ لوگ دیت کا مطالبہ کریں گے،اورہم سے جنگ کرنے کو ناپسند کریں گے، ہم ان کو دیت اداکردیں گے ، اربد نے کہا : ٹھیک ہے !پھر وہ دونو ں دوبارہ آپ کے پاس آئے، عامر نے کہا :یا محمد (صلی اللہ علیک وسلم )اٹھیں میں آپ کے ساتھ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اوردونوں باتیں کرتے ہوئے دیوار کے پاس چلے گئے۔ وہاں اورکوئی نہیں تھا۔ عامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باتیں کرنے لگا اوراربد تلوار سونتنے لگا۔ جب اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھا تو اسکا ہاتھ مفلوج ہوگیا، اوروہ تلوار نہ نکال سکا۔ جب اربد نے دیر لگادی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑکردیکھا اورآپ نے دیکھ لیا کہ اربد کیا کرنے والا تھا، پھر آپ واپس چلے آئے۔ جب عامر اوراربد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے، اورحرئہ واقم میں پہنچے تو ان کو حضرت سعد بن معاذ اوراسید بن حضیر ملے ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے دشمنو !ٹھہر جاﺅ! عامر نے پوچھایہ کون ہے؟حضرت سعد نے کہا :یہ اسید بن حضیر کا تب ہے ،حتیٰ کہ جب وہ مقام رقم پر پہنچے تو اللہ نے اربد پر بجلی گرادی جس سے اربد ہلاک ہوگیا۔اورعامر جب آگے گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم میں چھالے اورپھوڑے پیداکردیئے ۔ اس نے بنو سلول کی ایک عورت کے ہاں رات گزاری ، اس کے حلق تک پھوڑے ہوگئے اوران کی تکلیف کی وجہ سے وہ موت کی خواہش کرنے لگا، اورپھر مرگیا۔(طبرانی)
جمعرات، 25 اگست، 2022
لغزش اور اُس کا مداوا
لغزش اور اُس کا مداوا
بدھ، 24 اگست، 2022
عبادت اور نفی ءرہبانیت
عبادت اور نفی ءرہبانیت
منگل، 23 اگست، 2022
اسلامی عبادت کے امتیازات
اسلامی عبادت کے امتیازات
پیر، 22 اگست، 2022
معاف کرنے کی عادت
معاف کرنے کی عادت
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہء کرم )پر ہے‘‘۔(الشوریٰ:۴۰)’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(الشوریٰ : ۴۳)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔(جامع الترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود)
میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ یحب المحسنین میمون نے کہا :میںتمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)
اتوار، 21 اگست، 2022
اسلام اور اصلاحِ عبادات
اسلام اور اصلاحِ عبادات
ہفتہ، 20 اگست، 2022
جمعہ، 19 اگست، 2022
عبادت اور تقویٰ
عبادت اور تقویٰ
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:۔اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں )کو پیدا کیا تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو۔(البقرۃ)
یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عبادت کی غر ض وغایت یہ ہے کہ وہ انسان کو منزلِ ’’تقویٰ ‘‘ کی طرف پہنچا دے۔اس آیۃ مبارکہ میں اللہ رب العز ت کے دو اوصاف کا بیان ہوا (۱)وہ تمہارا رب ہے(۲) اسی نے تمہیں تخلیق کیا۔رب وہ ذات ہے جس کی تربیت سے کوئی چیز اپنی استعداد کے مطابق ارتقاء کے تمام مراحل طے کر تی ہوئی درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان بلکہ پوری کائنات ہر ہر مرحلے پر اور ہر لمحے لمحے میں اس کی نگہداری سے پروری پار ہی ہے اور اس کا وجود وارتقاء اور اس کے جملہ کمالات کا حصول اسی کا رھین منت ہے۔ وہ تخلیق نہ کرتا تو انسان پیدا ہی نہ ہوتا اور وہ تربیت نہ کرے تو زندگی کا سفر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔
جب ہم اسی کا دیا ہوا کھا رہے ہیں اور اسی کاعطاء کردہ اثاثہ استعمال کررہے ہیں تو پھر زندگی کے ایک ایک لمحے پر اس کا اختیار تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں کیوں نہیں ڈالتے؟
بیضاوی علیہ الرحمۃ نے یہ بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ نے اپنی عبادت کاحکم دیا تو اس کی علّت (وجہ)یہ بیان کی کہ وہ تمہارا خالق ہے اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ گویا ہم اپنی عمر بھر کی عبادت اور اطاعت کا صلہ اسی وقت وصول کرچکے ہیں۔ جب اس نے ہمیں ’’انسان ‘‘بناکر تخلیق کردیا ،جو مزدور اپنا معاوضہ پیشگی وصول کرچکا ہو۔ وہ اپنا کام مکمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ ہم بھی عمر بھر اس کا حکم ماننے کے پابند ہوچکے ہیں۔
ایک ایک قطر ے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعت مژگانِ یار تھا
(غالب)
تقویٰ قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے جس سے برے کاموں سے اجتناب اورنیک کاموں کے انتخاب کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ تقویٰ کی جگہ یہ ہے(مسلم)جملہ عبادات سے مقصود اس کیفیت کاحصول ہے۔نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃتمام کی غرض وغایت لفظ تقویٰ سے بیان کی گئی اور ہر وہ کام جو خدا کی رضاء لیے ہیں چاہے وہ اس کے نام کی تسبیح پڑھنا ہو،جو چاہے اس کی ذات کی عبادت کرنا، چاہے اس کی خاطر اس کی مخلوق کی خدمت کرنا سب اسی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔
جمعرات، 18 اگست، 2022
وسعتِ عبادت
وسعتِ عبادت
بدھ، 17 اگست، 2022
عبادت، اعترافِ عجز (۴)
عبادت، اعترافِ عجز (۴)
منگل، 16 اگست، 2022
عبادت (۳)
عبادت (۳)
گویا کہ لفظ ’’عبادت‘‘ اپنی ذیل میں انتہائی عاجزی، انکساری اور اظہار فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مقدس میں عبادت کا متضاد لفظ ’’تکبر‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ٭جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (المومن 60)٭ اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا۔ (النساء 172)
عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت و الفت کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں: عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں۔ کہتے ہیں ’’طریق معبد‘‘ یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔ ’’بعید معبد‘‘ وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع و فرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر) علامہ ابن قیم لکھتے ہیں۔ ’’عبادت کے دو جز ہیں۔ انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ‘‘۔
گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یا انکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے، جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اس کے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے، اور ی۔ جذبہء تسلیم و رضا ء چند معمولات و رسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہر وہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء و مقصود رضا ئے الہٰی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔
پیر، 15 اگست، 2022
حکمت
حکمت
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوں اورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)
اتوار، 14 اگست، 2022
ایمان اور اعمال صالحہ (۱)
ایمان اور اعمال صالحہ (۱)
ہفتہ، 13 اگست، 2022
انبیائے کرام کی دعوت توحید
انبیائے کرام کی دعوت توحید
٭انسان صرف جسم کا نام نہیں بلکہ جسم کی رونق اس کی قوت سے ہے، جسے روح کہا جاتا ہے ،جسم کی حفاظت و قوت اور برداشت سے زیادہ ضروری روح کا استحکام وجلا ہے۔ احکام خالق کو تسلیم کرنے سے دنیا بھی پر بہار رہتی ہے اور بعد کی یعنی آخرت کی زندگی بھی کامیاب ہوتی ہے‘‘۔ (عقائد و ارکان )
ہدایت و رہنمائی کا یہ سلسلہ انسان اوّل یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوگیا، اور اللہ کی رحمت کاملہ نے ہر قوم اور ہر عہد میں رسول مبعوث کئے۔ حتیٰ کہ انسانیت اس قابل ہوگئی کہ اب اسے دائمی صحیفہ ہدایت اور عظیم تر داعی تھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا جائے۔ الہامی رہنمائی کی تکمیل ہوئی اور تمام انسانوں کو اسی ہادی اور ہدایت کا پابندکر دیا گیا۔
جمعہ، 12 اگست، 2022
کلام الامام (۲)
کلام الامام (۲)
٭زمانہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردے تو تب بھی تو مخلوق کی طرف مائل نہ ہو۔
٭لوگوں کی حاجتوں کو تم سے متعلق ہونا یہ تمہارے اوپر خداکی بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا نعمتوں (صاحبان حاجت) کو رنج نہ پہنچائو،کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ وہ عطاء بلا سے بدل جائے۔
٭جس نے سخاوت کی اس نے سیادت حاصل کی، جس نے بخل کیا وہ ذلیل ہوا۔
٭جس کا مددگار خدا کے علاوہ کوئی نہ ہو،خبردار! اس پرظلم نہ کرنا۔
٭جو تم کو دوست رکھے گا (برائیوں سے) روکے گا، اور جو تم کو دشمن رکھے گا (برائیوں پر) ابھارے گا۔
٭عقل صرف حق کی پیروی کرنے سے ہی کامل ہوتی ہے۔ ٭اہل فسق و فجور کی صحبت بھی فسق و فجور میں داخل ہے۔ ٭جس فعل پر عذر خواہی کرنا پڑے وہ کام ہی نہ کرو، اس لئے کہ مومن نہ برا کام کرتا ہے اور نہ ہی عذر خواہی کرتا ہے، جبکہ منافق روز بروز برائی اور عذر خواہی کرتا ہے۔
٭غیر اہل فکر سے بحث و مباحثہ اسباب جہالت کی علامت ہے۔ ٭جب زمانہ تجھے تکلیف دے تو تو مخلوق کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اپنے خالق سے رجوع کر۔٭اللہ کے سوا کبھی بھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہئے۔
٭جب اذیت کے لئے کوئی شخص کسی سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرنے والے بھی اسی جیسے ہیں ۔
٭اس قوم کو کبھی بھی فلاح حاصل نہیں ہو سکتی جس نے خدا کو ناراض کرکے مخلوق کی مرضی خرید لی ۔
٭قیامت کے دن اس کو امن و امان ہوگا جو دنیا میں خدا سے ڈرتا رہا ہو۔
٭لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبانوں کے لئے ایک چٹنی ہے، جب تک (دین کے نام پر) معاش کا دارومدار ہے دین کا نام لیتے ہیں، لیکن جب وہ آزمائش میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر دین دار بہت ہی کم ہو جاتے ہیں۔
٭کیا تم نہیں دیکھ رہے ہوکہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے، اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جا رہی ہے، ایسی صورت میں مومن کوحق ہے کہ وہ لقائے الہٰی کی رغبت کرے۔ ٭میں موت کو سعادت اورظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں۔
٭اگرمال کا جمع کرنا چھوڑ جانے کے لئے ہے تو پھر شریف آدمی چھوڑ جانے والے مال کے لئے کیوں بخل کرتا ہے۔
جمعرات، 11 اگست، 2022
کلام الامام (۱)
کلام الامام (۱)
٭ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود ایک جرم ہے۔
٭عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔
٭طاقت وقوت کینے کو ختم کر دیتی ہے۔
٭غیرت مندکبھی بے غیرتی کا کام نہیں کرتا!
٭حکمرانوں کی بری عادات میں سے دشمنوں کے روبرو بزدلی، ضعیف وناتواں کے سامنے جرأت اور عطا کرنے میں بخل وکنجوسی ہیں۔
٭حاجت مند نے سوال کرنے سے پہلے اپنے چہرے کو محترم و مکرم نہیں سمجھا، لہٰذا تو اپنے چہرے کو سوال نہ کرنے سے محترم و مکرم قرار دے!
٭غیبت کرنے سے رک جا، کیونکہ غیبت جہنم کے کتوں کا سالن ہے۔
٭جنت کی چاہ میں عبادت تاجرانہ ہے، جہنم کے خوف سے عبادت غلامانہ ہے اور ادائے شکر کے لئے عبادت آزادانہ اور باعث فضیلت ہے۔
٭حق قبول کرنے کی علامات میں سے ایک علامت اہل عقل کے پاس بیٹھنا ہے۔
٭اپنے اقوال وافعال کی جانچ پر کھ اور فکر ونظر کے حقائق جاننا عالم کی نشانیوں اور دلائل میں سے ہے۔
٭جو شخص اللہ کی عبادت ایسے کرے کہ جیسے اس کا حق ہے تو اللہ اسے امیدوں اور قدر کفایت سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا!
٭جس کام کو پورا کرنے کی ہمت نہ ہو اسے اپنے ذمہ مت لو۔ ٭جس چیز کو تم سمجھ سکتے ہو اور نہ ہی حاصل کر سکتے ہو اس کے درپے کیوں ہوتے ہو۔ ٭جب تم جان لو کہ تم حق پر ہو تو پھر نہ جان کی پروا کرو نہ مال کی ۔
٭جلد بازی حماقت ہے اور انسان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ۔٭جو کوئی اپنے مذہب کو قیاس کے ترازو میں تولتا ہے وہ ہمیشہ شکوک و شبہات میں پڑا رہتا ہے۔
٭اپنے کام کے صلے کی واجب سے زیادہ امید نہ رکھو!
٭بہترین سکون یہ ہے کہ خداکی اطاعت پر خوش رہو۔
٭عظمت و بزرگی کا بہترین ذریعہ سخاوت اور نیک عمل ہے۔
٭بے آسرا اور مایوس لوگوں کی مدد کرنے والا ہی اعلیٰ درجے کا فیاض ہے۔
٭انسانی اقدار کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرواور (معنوی) خزانوں کے لئے جلدی کرو!
بدھ، 10 اگست، 2022
منگل، 9 اگست، 2022
حسین ابن علی جانِ اولیاء
حسین ابن علی جانِ اولیاء
برصغیر پاک وہند کی مصروف علمی و روحانی شخصیت حضر ت مخدوم علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔
٭آئمہ اہلِ بیت اطہار میں سے شمع آل محمد (ﷺ ) تمام دنیاوی علائق سے پاک و صاف، اپنے زمانہ کے امام و سردار ابوعبداللہ سیدنا امام حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ہیں ۔آپ اہل ابتلاء کے قبلہ و رہنما ہیں اور شہید دشتِ کرب وبلا ہیں اور تمام اہل طریقت آپ کے حال کی درستگی پر متفق ہیں اس لئے کہ جب تک حق ظاہر وغالب رہا آپ حق کے فرمانبردار رہے اور جب حق مغلوب ومفقود ہوا تو تلوار کھینچ کر میدان میں نکل آئے، اور جب تک راہ خدا میں اپنی جان عزیز قربان نہ کردی ، چین وآرام نہ لیا۔ آپ میں حضور اکرم ﷺ کی بیشتر نشانیاں تھیں جن سے آپ مخصوص ومزین تھے، چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور اکرم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ نے (امام) حسین کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر رکھا ہے۔ میں نے جب یہ حال دیکھا تو کہا، اے حسین کتنی اچھی سواری ہے آپکی، حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: اے عمر! یہ سوار بھی تو کتنا عمدہ ہے۔ سیدنا امام عالی مقام سے طریقت میں بکثرت کلامِ لطیف اور اسکے رموز و اسرار و معاملات منقول ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: اشفق الاخوان علیک دینک‘‘ تمہارے لئے سب سے زیادہ رفیق و مہربان تمہارا دین ہے اس لئے کہ بندے کی نجات دین کی پیروی میں ہے، اور اس کی ہلاکت ،اس کی مخالفت میں ہے، صاحبِ عقل وخرد وہی شخص ہے جو مہربان کے حکم کی پیروی کرے، اسکی شفقت کو ملحوظ رکھے اور کسی حالت میں اسکی متابعت سے روگردانی نہ کرے، برادرمشفق وہی ہوتا ہے جو اسکی خیر خواہی کرے اور شفقت و مہربانی کا دروازہ اس پر بند نہ کرے۔ ایک روز ایک شخص نے حا ضر ہوکر آپ سے عرض کیا اے فرزندِ رسول ! میں ایک مفلس و نادار ہوں اور صاحب اہل وعیال ہوں مجھے اپنے پاس سے رات کے کھانے میں سے کچھ عنایت فرمائیے، آپ نے فرمایا: بیٹھ جائو، میرا رزق ابھی راستے میں ہے کچھ دیر بعد حضرت امیر معاویہ ؓکی طرف سے ایک ایک ہزار دینار کی پانچ تھیلیاں آئیں اور پیغام آیا کہ میں معذرت خواہ ہوں فی الحال انہیں اپنے خدّام پر خر چ فرمائیے، جلد ہی مزید حاضر خدمت کئے جائیں گے۔ آپ نے وہ تھیلیاں اس نادار شخص کو عنایت کر دیں اور فرمایا: تمہیں بہت دیر انتظار کرنا پڑا اگر مجھے انداز ا ہوتا کہ اتنی قلیل مقدار ہے تو تمہیں انتظار کی زحمت ہی نہ دیتا، مجھے معذور سمجھنا، ہم اہل ابتلاء ہیں۔ ہم نے دوسروں کیلئے اپنی تمام دنیاوی ضرورت کو چھوڑ دیا ہے اور راحت کو فنا کر دیا ہے۔ (کشف المحجوب )
اے دل بگیر دامنِ سلطان اولیاء
یعنی حسین ابنِ علی جان اولیاء
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۲) جب امام حسینؓ نے کوفہ روانہ ہونے کا ارادہ کیا توحضرت عبداللہ بن عباسؓ نے آپؓ کو روکا کہ آپ وہاں نہ...
-
دنیا میں جنت کا حصول دنیا میں عورت ماں کے روپ میں ایک ایسی عظیم ہستی ہے جس کی وجہ سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ ماں گھر کی زینت ہوتی ہے اور م...