بدھ، 31 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah an-naba ayat 06-16 part-01.کیا ہم بے مقصد زندگی گ...

Shortclip - ایمان کا مطلب

فضیلت صلوٰة اور احادیث مبارکہ

 

فضیلت صلوٰة اور احادیث مبارکہ

جس طرح قرآن مجید میں نماز کا کثرت سے ذکر کیاگیا ہے۔ اس طرح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ نماز کی فضیلت، اہمیت اور اسکے متعلقہ مسائل کے ذکر سے معمور ہے۔ حدیثِ پاک کے کسی بھی مجموعے کا مطالعہ کیجئے۔کتاب الصلوٰة، ابواب الصلوٰة کے زیر عنوان نماز ہی کا ذکر ہے۔ احادیث مبارکہ میں نماز ہی کو مرکزِ عبادات کادرجہ حاصل ہے۔ ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز لوگوں سے ان کے اعمال میں سے سب سے اوّل حساب نماز کا لیا جائے گا۔ (سنن ابوداﺅد)

یہی حدیث مبارکہ الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ جامع الترمذی میں بھی موجود ہے جبکہ سنن نسائی میں اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں۔ ٭سو اگر نماز کا معاملہ درست ٹھہرا تو وہ بندہ فلاح ونجات پاگیا۔ اور یہی معاملہ بگڑگیا تو وہ نامراد اور خسارہ پانے والا ہوا۔ (سنن نسائی)امتحان کی پہلی منزل میں کامیابی نصیب ہوجائے تو یہ اگلی منزلوں میں بھی نجات کی توید ثابت ہوگی۔ اور اگر خدانخواستہ پہلے مرحلے ہی میں لغزش سامنے آجائے تو اسکے اثرات آئندہ کیلئے بھی بڑے ضرر رساں اور مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٭حضرت علی کر م اللہ وجہہالکریم فرماتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے وصال فرماتے ہوئے جو آخری کلام فرمایا وہ تھا۔ الصلوٰة، الصلوٰة اور یہ کہ تم اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ (سنن ابی داﺅد) حضور اکرم ﷺکے نزدیک فریضہءصلوٰة کی کتنی اہمیت ہے کہ آپ نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی اسکی تاکید بلکہ تاکید بالائے تاکید کو انتہائی ضروری سمجھا ۔ تعلق بااللہ کی اس استواری کے ساتھ آپ نے اس وقت معاشرے کے سب سے کمزور اور زےردست طبقے یعنی ”غلاموں“ کی خیر خواہی کا پیغام بھی ارشاد فرمایا ۔ یہ دین اسلام کی جامعیت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو اہمیت حاصل ہے اور توازن اور اعتدال کا پیغام ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ٭حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بڑے انہماک اور استواری سے) نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپکے دونوں قدم زخمی ہو جاتے۔آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ آپ یہ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کیلئے بخشش ہی کہ آپ پہلے بھی گناہوں سے محفوظ رہے  ہیں ا  ور آئندہ بھی رہیں گے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:۔ ”کیا میں (اپنے رب تعالیٰ کا ) شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔ (بخاری)٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نمازدین کا ستون ہے“۔ (شعب الایمان) 


Darsequran surah annaba ayat 01-05کیا ہم روز قیامت کو عملی طور پر نظر ان...

منگل، 30 اگست، 2022

shortclip - کیا ہمیں اندھے بن کر زندگی گزارنا اچھا لگتا ہے؟

Shortclip - بینائی کیسے حاصل کریں؟

قرآن اور نماز

 

قرآن اور نماز

قرآنِ مقدس میں نماز کا حکم اس کی تاکید، اس کی پابندی اور اس پر کاربند رہنے والوں کی فضیلت کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کثرتِ ذکر سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:۔٭اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰة اداکرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (البقرة ۴۳) ٭اور تم نماز قائم کرو اور شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوجاﺅ۔(الروم ۳۱)٭اور تم نمازوں کی حفاظت کرو اور نماز وسطیٰ کی، اور کھڑے ہو جاﺅ اللہ تعالیٰ کیلئے ادب کرنیوالے بن کر۔ (البقرة ۲۳۸) یہاں نماز سے وسطیٰ سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک نماز عصر ہے۔ ان آیات مبارکہ میں نماز اور زکوٰة کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔ اقامتِ صلوٰة کے حکم کے ساتھ ہی یہ فرمایا گیا کہ تم مشرکوں میں سے نہ ہو جاﺅ۔ یہ بڑا واضح انتباہ ہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک نماز کی اہمیت کیا ہے اور یہ کس قدر باعظمت فریضہ ہے۔ نماز کی نہ صرف یہ کہ مکمل پابندی کی جائی بلکہ اسے مکمل ،یکسوئی،اخلاص اورتوجہ سے اداءکیا جائے۔ اپنے آپ کو سراپا نیاز بناکر اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کیا جائے، اور نہ صرف یہ کہ تم خود اس کی پاسداری کرواور اسے پابندی سے اداکرتے رہوبلکہ آپ خاندان اورمعاشرے میں بھی اس کارِ خیر کو جاری کرو۔ اس روشنی کو اپنے ماحول اور معاشرے میں بھی پھیلاﺅ۔ ارشاد ہوتا ہے:۔٭اور تم اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر صبر واستقامت سے قائم رہو۔ (طہ ۱۳۲)قرآن کریم میں جہاں بھی اصحاب خیر کاذکر کیاگیا ہے بالعموم ان کی خصوصیا ت میں نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ٭وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے، نماز قائم کی اور زکوٰة اداکی ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (البقرة ۲۷۷) ٭(یہ ایمان والے وہ ہیں ) جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (الانفال ۳) ٭اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (الانعام ۹۲) 
٭اس نے نماز قائم کی اور زکوٰة اداکی ۔ (البقرة ۱۷۷) یہ اصحاب تسلیم ورضاءاللہ کریم کے حضور میں سجدہ ریزی کا احترام کرتے ہیں اور زندگی میں اگر انہیں کہیں کوئی دشواری نظر آئے اور کسی مصیبت کا سامنا ہو تو انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اس عظیم المرتبت عبادت کے ذریعے سے اپنے پاک پروردگار کی مدد حاصل کریں۔ ٭اور مدد لوصبر اور نماز سے اور بے شک یہ نماز بھاری ہے۔ مگر ان پر نہیں جو خشوع کرنے والے ہیں۔ (البقرة ۴۵)

پیر، 29 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-araf ayat 06-09 part-02. کیا ہم سے اللہ تعالی ...

Darsulquran urdu surah al-mursalat ayat 45-50.کیا ہم مجرم کی طرح کھا پی ...

Shortclip - ہم آنکھوں والے کیسے بنیں گے؟

۔۔۔۔ہمہ آفتاب است

 

۔۔۔۔ہمہ آفتاب است

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میری زوجیت میں دی اورمجھے سوار کراکے دار الہجرات لے گئے اوراپنے مال سے بلال کو آزاد کروایا اوراسلام میں کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے ۔ وہ حق کی کڑواہٹ کے باوجود حق ہی کہتے ہیں ۔ حق گوئی کی وجہ سے اس کا کوئی دوست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔ اس نے جیش العسرة کو سازو سامان سے آراستہ کیا اورہماری مسجد میں اضافہ کیا جس سے ہمیں وسعت حاصل ہوئی ، اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ جہاں علی جائے حق اس کے ساتھ ہو“۔ (ترمذی)

حضرت زید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : دس آدمی جنتی ہیں یعنی نبی ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر ، سعد بن مالک ، عبدالرحمان بن عوف اورسعید بن زید۔(سنن ابوداﺅد، احمد بن حنبل)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چارآدمیوں کی محبت منافق کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اورنہ ہی مومن کے سوا، کوئی ان سے محبت کرتا ہے یعنی ابوبکر ، عمر ، عثمان اورعلی سے۔(ابن عساکر)

حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰة والتسلیم حجة الوداع سے تشریف لائے تو منبر پر چڑھ کر حمد وثنا ءکے بعد فرمایا : اے لوگو ! ابوبکر نے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں دی اس بات کو اچھی طرح جان لو، اے لوگو! میں ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ، زبیر، سعد، عبدالرحمن بن عوف، مہاجرین اوراولین سے راضی ہوں ان کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لو۔ (طبرانی)اورطبرانی کی ایک روایت میں جو الاوسط میں بیان ہوئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر ہے اورسب سے زیادہ نرمی کرنے والا عمر ہے اورسب سے زیادہ حیادار عثمان ہے ۔ سب سے زیادہ اچھا فیصلہ کرنے والا علی بن ابی طالب ہے اورحلال وحرام کا زیادہ عالم معاذبن جبل ہے وہ قیامت کے دن علماءکے آگے آگے ہوگا۔ امت کا سب سے بڑا قاری ابی ابن کعب اورسب سے زیادہ فرائض کاجاننے والا زید بن ثابت ہے اورعمویمر یعنی ابو الدرداءکے حصے میں عبادت آئی ہے۔(رضی اللہ عنہم اجمعین )


اتوار، 28 اگست، 2022

Shortclip کیا ہم اندھے ہیں؟

Darsulquran urdu surah al-araf 06-09 part-01.کیا ہم سب دنیا دار لوگ ہیں

Darsulquran urdu surah al-mursalat ayat 38-44.کیا ہم نیکو کار بننے کی کو...

نماز کی فرصت

 

نماز کی فرصت

نماز جو ایمان اور کفر کے درمیان نشان امتیاز ہے۔ ابتدائے دعوت ہی سے مسلمانوں کا معمول رہی ۔لیکن اس کا حکم پانچ نمازوں کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کے سفر معراج کے دوران ہوا۔ نبی کریم ﷺ ابتداءہی سے نماز اداءفرماتے تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے طلوع فجر سے پہلے اور غروب آفتاب سے قبل کا ذکر کیا ہے۔ کبھی آپ صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو قریش آپ کو ایزاءدینے کی کو شش کرتے ۔ کبھی آپکی ہنسی اڑاتے،کبھی آپکی گردن مبارک میں پھندا ڈال دیتے ۔کبھی تو یہاں تک جسارت کرتے کہ عین حالت سجدہ میں آپکی پشت مبارک پر نجاست ڈال دیتے اور جب آپ اس بار نجاست کی وجہ سے اٹھنے میں دقت محسوس کرتے تو قہقہے لگاتے۔ عام مسلمان رات کے سائے میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز پڑھتے۔ ایک بار حضرت سعد ابن ابی وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت وہاں آگئی۔ اس نے اس نماز کو اچھا نہ سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام)معراج کا سفر گویا کہ ظلم و تشدد کے ایک دور کے خاتمے کی نوید تھا اور عروج وکامرانی کی بشارت بھی اس سفر میں تعلق بااللہ کے اس مستقل عمل کو حتمی شکل دے دی گئی اور عروج بندگی کا راستہ متعین کردیا گیا۔ حضرت انس بن مالک جناب رسالت مآب ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔”اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کردیں میں اسکے ساتھ واپس لوٹا جب حضرت موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا اللہ تعالیٰ نے آپ کےلئے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟میں نے کہا پچاس نمازیں کہنے لگے اپنے رب کے پاس واپس جائیے اس لئے کہ آپ کی امت انکی طاقت نہیں پائے گی ۔ سو میں نے مراجعت کی رب تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کردیا۔ میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ پروردگار نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ اپنے رب کے ہاں پھر واپس جائیے کیوں کہ آپکی امت اس کی طاقت بھی نہیں پائے گی۔ میں نے رب کی بارگاہ میں حاضری دی اللہ نے ان کا ایک حصہ بھی معاف فرما دیا لیکن میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جانے کا مشورہ دیا۔ اب پروردگار نے فرمایا یہ پانچ نمازیں ہیں اور یہ (دراصل) پچاس ہی ہیں میرے پاس فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا (یعنی پانچ نماز اپنے ضمن میں پچاس نمازوں کا اجر اور ثواب رکھیں گی) میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ ایک بار اور اپنے رب کی طرف رجوع فرمائیے لیکن میں نے کہا (اب) مجھے اپنے رب سے حیاءآتی ہے۔ (صحیح بخاری)

Shortclip - زندگی کیا ہے؟

Darsulquran urdu surah al-araf ayat 04-05.کیا ہمارے دِل یاد الہی سے غافل...

ہفتہ، 27 اگست، 2022

Shortclip - محبت الٰہی کی ضرورت

الصلوة

 

الصلوة

”عبادت “کی تشریح سے ہم پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوگئی کہ یہ اللہ کے سامنے اعتراف عجز ہے۔ اپنی ذات کی خیالات کی، رائے کی نفی ہے۔ جب انسان اپنے خالق کا حکم مان لیتا ہے اور اس کی مرضی اختیار کرلیتا ہے ،اور اس کے بتائے ہوئے طرززندگی کو اپنا لیتا ہے تو وہ عبادت کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ 

اس خالق کی حکمت نے اپنے محمود اعمال میں درجہ بندی فرمائی،کچھ اعمال ایسے ہیں جو مسلمانی کا خاص شعار قرار پائے، انکے بغیر ایمان اور اسلام کا تعارف ہی دشوار ہے۔ ان میں اہم ترین، نمایاں ترین اور سب سے زیادہ ضروری اور بنیادی عمل ”الصلوة “یعنی نماز ہے۔ ”صلوٰة “کا لفظی معنی دعائ، تسبیح، رحمت یا رحم وکرم کی تمنا ہے درود پاک کو بھی صلوٰة کہا جاتا ہے کہ یہ بھی رحمت وکرم کی تمنا کا اظہار ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق صلوٰة ایک مخصوص اور معروف عمل ہے جو خاص اوقات میں اور مخصوص انداز سے ادا کیا جاتا ہے۔ صلوٰ ة یعنی نماز ارکانِ اسلام میں دوسرا اور عبادات میں پہلا رکن ہے۔ اس کی بجا آوری ہر باشعور، بالغ مسلمان (عورت ہو یا مرد) پر فرض ہے۔“ (عقائد ارکان )

”نماز کیا ہے مخلوق کا اپنے دل زبان اور ہاتھ پاﺅں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار ، اس رحمان اور رحیم کی یا داور اس کے بے انتہاءاحسانات کا شکریہ، حسنِ ازل کی حمد وثنا ءاور اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار، یہ اپنے آقاءکے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے، یہ ہمارے اندرونی احساسات کا عرضِ نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تشفی اورمایوس دل کی آس ہے۔یہ فطرت کی آواز ہے اور یہ زندگی کا حاصل اور ہستی خلاصہ ہے۔ کسی غیر مرئی طاقت کے آگے سرنگوں ہونا، اس کے حضور میں دعاءفریا د کرنا اور اس سے مشکل میں تسلی پانا۔ انسان کی فطرت ہے ۔ قرآن نے جابجاانسانوں کی اسی فطری حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور پوچھا ہے کہ جب تمہارا جہاز بھنور میں پھنستا ہے تو خدا کے سوا کون ہوتا ہے جس کو تم پکارتے ہو۔ غرض انسان کی پیشانی کو خودبخود ایک مسجود کی تلاش رہتی ہے۔ جس کے سامنے وہ جھکے ۔ اندرونِ دل کی عرض نیاز کرے اور اپنی دلی تمناﺅں کو اس کے سامنے پیش کرے ۔غرض عبادت روح کے اسی فطری مطالبہ کا جواب ہے“۔ (سیرت النبی)اسلام کا اعجاز یہ ہے کہ اس نے انسان کو در در پر بھٹکنے سے بچا لیا۔ توحید کا واضح اور غیر مبہم سبق پڑھایا بندگی کا خوبصورت طریقہ سکھایا، جسے کو نماز کہتے ہیں۔ 

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

Darsulquran urdu surah al-araf ayat 03 part-02.کیا ہمارے دل پر کوئی نصیح...

Darsulquran urdu surah al-mursalat ayat 25-28.کیا ہم نے حق کو اپنے عمل ...

Shortclip - اللہ تعالیٰ کی یاد

جمعہ، 26 اگست، 2022

دشمنانِ رسالت کا انجام

 

دشمنانِ رسالت کا انجام

امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اربد بن قیس ، اورعامر بن الطفیل نجد سے مدینہ منورہ میں آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، اس وقت آپ بیٹھے ہوئے تھے، وہ دونوں آپ کے سامنے آکر بیٹھ گئے، عامر بن الطفیل نے کہا: اگر میں اسلام لے آﺅں تو کیا آپ اپنے بعد مجھے خلیفہ بنائیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، لیکن تم گھوڑوں پر بیٹھ کر جہاد کرنا۔ اس نے کہا : میرے پاس تو اب بھی نجد میں گھوڑے ہیں، پھر اس نے کہا: آپ دیہات میرے سپرد کردیں اورشہر آپ لے لیں، آپ نے فرمایا : نہیں ! جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھنے لگے تو عامر نے کہا : اللہ کی قسم ! میں آپ کے خلاف گھوڑے سواروں کو اورپیادوں کو جمع کروں گا۔ آپ نے فرمایا :اللہ تم کو اس اقدام سے باز رکھے گا۔ جب وہ دونوں وہاں سے واپس لوٹے تو کچھ دور جاکر عامر نے(چپکے سے)کہا : اے اربد، میں (سیدنا )محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو باتوں میں لگاتا ہوں تم تلوار سے ان کا سراڑا دینا، اورجب تم نے (سیدنا)محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو قتل کردیا تو زیادہ سے زیادہ یہ لوگ دیت کا مطالبہ کریں گے،اورہم سے جنگ کرنے کو ناپسند کریں گے، ہم ان کو دیت اداکردیں گے ، اربد نے کہا : ٹھیک ہے !پھر وہ دونو ں دوبارہ آپ کے پاس آئے، عامر نے کہا :یا محمد (صلی اللہ علیک وسلم )اٹھیں میں آپ کے ساتھ کچھ بات کرنا چاہتا ہوں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اوردونوں باتیں کرتے ہوئے دیوار کے پاس چلے گئے۔ وہاں اورکوئی نہیں تھا۔ عامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باتیں کرنے لگا اوراربد تلوار سونتنے لگا۔ جب اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھا تو اسکا ہاتھ مفلوج ہوگیا، اوروہ تلوار نہ نکال سکا۔ جب اربد نے دیر لگادی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑکردیکھا اورآپ نے دیکھ لیا کہ اربد کیا کرنے والا تھا، پھر آپ واپس چلے آئے۔ جب عامر اوراربد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے، اورحرئہ واقم میں پہنچے تو ان کو حضرت سعد بن معاذ اوراسید بن حضیر ملے ، انہوں نے کہا : اے اللہ کے دشمنو !ٹھہر جاﺅ! عامر نے پوچھایہ کون ہے؟حضرت سعد نے کہا :یہ اسید بن حضیر کا تب ہے ،حتیٰ کہ جب وہ مقام رقم پر پہنچے تو اللہ نے اربد پر بجلی گرادی جس سے اربد ہلاک ہوگیا۔اورعامر جب آگے گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم میں چھالے اورپھوڑے پیداکردیئے ۔ اس نے بنو سلول کی ایک عورت کے ہاں رات گزاری ، اس کے حلق تک پھوڑے ہوگئے اوران کی تکلیف کی وجہ سے وہ موت کی خواہش کرنے لگا، اورپھر مرگیا۔(طبرانی)


Shortclip - زندگی اللہ تعالیٰ کی یاد میں کیسے گزاریں؟

Darsulquran urdu surah al-mursalat ayat 19-24.کیا ہم اپنی حقیقت سے غافل ہیں

جمعرات، 25 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-araf ayat 03 part-01.کیا ہم دنیا کے دھوکے میں ...

Shortclip - اللہ تعالیٰ سے محبت کیوں ضروری ہے؟

لغزش اور اُس کا مداوا

 

لغزش اور اُس کا مداوا

 عمروبن جموع قبیلہ بنی سلمہ کا سردار تھا، اس نے اپنے گھر میں لکڑی کا ایک بت رکھا ہوا تھا، جسے اس نے ”منات“کا نام دے رکھا تھا۔ (منات نام کا ایک بڑا بت ساحل سمندر پر قدید کے مقام پر نصب تھا۔ جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک قصبہ تھا، قبیلہ اوس ،خزرج اور ازد اسکی پوجا کرتے تھے۔ حضور اکرم ﷺجب فتح مکہ کےلئے تشریف لائے تو آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اسے توڑ کر ریزہ ریزہ کرنے کا حکم دیا)۔ بنی سلمیٰ کے کئی نوجوان حج کے موقعہ پر عقبہ کے مقام پر مشرف با اسلام ہوگئے۔ ان میں حضرت معاذ بن جبل ، عمر و کا اپنا بیٹا جس کا نام بھی معاذ تھا اور کئی دوسرے نوجوان بھی شامل تھے۔ ان نوجوانوں کو معمول بن گیا کہ عمروبن جموع کے بت کو رات کی تاریکی میں اٹھا کر لے جاتے اور بنی سلمہ کے محلہ کے ان گڑھوں میں پھینک دیتے جہاں کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا تھا ۔صبح جب عمرو کا بت اپنی جگہ دکھائی نہ دیتا تو وہ کہتا تمہارا برا ہوآج رات کس نے ہمارے خدا کے ساتھ زیادتی کی پھر اسکی تلاش میں نکلتا ، وہ اسے کسی گڑھے میں اوندھا اور پراگندہ حالت میں ملتا ۔ اسے اٹھا کر گھر لے آتا، اسے صاف کرتا، دھو کر خوشبو سے معطر کرتا۔پھر کہتا ، اے میرے خدا اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے ساتھ کس نے یہ بے ادبی کی ہے تو میں اس کو ذلیل ورسواءکر کے چھوڑوں گا۔ لیکن ایسا کئی بار ہوا۔آخر ایک دن وہ اپنی تلوار لے آیا اور اسے اپنے بت کی گردن میں لٹکا دیا اور اسے مخاطب کر کے بولا ”بخدا میں نہیں جانتا کہ تیرے ساتھ ہر شب کو ن یہ گستاخی کرتا ہے اگر تجھ میں طاقت ہے تو اپنی حفاظت کرلے، میں اپنی تلوار تیرے پاس چھوڑکر جا رہا ہوں۔ لڑکوں نے اس رات اس بت کو تلوار سمیت اٹھا لیا اور ایک مرے ہوئے کتے کے ساتھ باندھ دیا اور ایک خشک کنویں میں نجاستوں کے ساتھ ڈال دیا ۔ عمروصبح بیدار ہوا، اپنے بت کے پاس گیا، وہ وہاں موجود نہ تھا۔ اسکی تلاش میں نکلا ،دیکھا کہ وہ ایک غلیظ اور بد بودار کنویں میں اوندھا پڑا ہوا ہے اور مردہ کتا اسکے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اپنے معبود کی یہ حالت زار دیکھی تو اسکی آنکھوں سے غفلت کے پردے چھٹ گئے۔ مسلمان نوجوانوں نے اسکو اس بت کی بے بسی کی طرف متوجہ کیا تو اس نے گذشتہ سے توبہ کی اور اسلام قبول کرلیا ۔ اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”بخدااگر تو خدا ہوتا تو کتے کے ساتھ ایک رسی میں بندھا ہوا کنویں میں نہ پڑا ہوتا“۔ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے جو سب سے بلند، احسان فرمانے والا، نعمتیں بخشنے والا، اور صحیح دین عطاءفرمانے والا ہے۔ وہی ہے جس نے مجھے اس سے پہلے کہ میں قبر کے اندھیروں میں رکھ دےا جاﺅں مجھے کفر سے نجات دی اپنے نبی احمد کے ذریعہ جو ہدایت یافتہ ہیں۔

بدھ، 24 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-mursalat ayat 15-18.کیا ہم مجرم ہیں

Shortclip - دین میں فرقہ کیوں ایجاد ہوا؟

عبادت اور نفی ءرہبانیت

 

عبادت اور نفی ءرہبانیت 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات آفریں پیغام کی وجہ سے زندگی کے سارے شعبے ہدایت کی روشنی سے منور ہوگئے۔ اسلام نے عبادت کے تصور کو بھی اعتدال و توازن عطاءکیا۔ اسلام سے قبل عبادت و ریاضت کی تعبیر ہی گویا کہ ترک دنیا، فاقہ کشی وغیرہ سے وابستہ ہوچکی تھی، سمجھا یہ جانے لگا تھا کہ بندہ کس قدر اذیت اور تکلیف اٹھاتا ہے اور خودکو آزار میں مبتلاءکرتا ہے، خدا اتنا ہی خوش ہوتا ہے۔ اور اس اذّیت رسانی سے ہی روح میں پاکیزگی آتی ہے اور اس کی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یونانی فکر میں اشراقیت ہندﺅوں میں جوگ، عیسائیوں میں رہبانیت اور بدھوں میں نروان کی خاطر شدید تپسیا کا ظہور اسی تصور کی پیدا وار تھا۔ اسلام نے ان تصورات کی نفی کی، عبادت کو زندگی کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ایک دفعہ کسی غزوہ کے سفر میں ایک صحابی کا گزر ایک ایسے مقام پر ہوا، جہاں ایک غار تھا، قریب ہی ایک پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ آس پاس کچھ ہریالی اور سبزہ بھی تھا۔ انہیں یہ گوشہ عافیت بہت بھلا لگا۔ وہ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے ایک غار کا سراغ ملا ہے۔ جہاں ضرورت کی ساری چیزیں بھی میسر ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میں گوشہ گیر ہو کر ترک دنیا کر لوں۔ آپ نے فرمایا میں یہودیت اور عیسائیت لے کر دنیا میں نہیں آیا ہوں (بلکہ) میں آسان، سہل اور روشن ابراہیمی دین لے کر آیا ہوں۔ (مسند امام احمد بن حنبل)ایک دفعہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ دیکھا ایک شخص چلچلاتی ہوئی دھوپ میں برہنہ سر گھردا ہوا ہے۔ آپ نے استفسار فرمایا یہ شخص کون ہے اور اس نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔ لوگوں نے بتایا اس کا نام ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں اور نہ سایہ میں آرام کرے گا اور نہ کسی سے کوئی بات کرے گا اور یہ بھی کہ مسلسل روزے رکھے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس سے کہو کہ بیٹھے، باتیں کرے، سایہ میں آرام لے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ (بخاری)اپنے حج کے سفر میں آپ نے ایک ضعیف آدمی کو دیکھا جو خود چلنے کی طاقت نہ رکھتا تھا، اس کے بیٹے اس کو دونوں طرف سے پکڑکر چلا رہے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا۔ تو معلوم ہوا کہ اس نے پیدل حج کی نیت کی ہے۔ فرمایا اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ یہ اپنی جان کو اس طرح عذاب میں ڈالے اس کو سوار کرا دو۔ (ترمذی)اسی طرح آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک شخص اپنی ناک میں نکیل ڈالے ہوئے ہے اور دوسرا اس کو جانور کی طرح کھینچ رہا ہے، آپ نے اس کی نکیل کاٹ دی اور فرمایا اگر ضرورت ہو تو اسے ہاتھ سے پکڑکر طواف کراﺅ۔ (بخاری)

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 165 . کیا ہم نے جنت جانے کی مکمل تی...

منگل، 23 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-mursalat ayat 08-14.کیا ہم دوبارہ زندہ ہونے پر...

Shortclip - قرآن میں کیا ہے؟

اسلامی عبادت کے امتیازات

 

اسلامی عبادت کے امتیازات

اسلام نے اپنے دائمی اور سرمدی پیغام کے ذریعے عبادت میں شرک کی ہرطرح کی آمیزش اور بے اعتدالی کوہمیشہ کیلئے  نفی کر دی۔ اسلام سے پہلے جبکہ انبیائے کرام کی تعلیمات ذہنوں سے محو ہوچکی تھیں، پوری دنیا، اصنام پرستی، مظاہر پرستی اورآباء پرستی میں مبتلاء ہوچکی تھی۔ حتیٰ کہ بہت مقامات پر تو حیوان تک معبودوں کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔’’جب انسان کاتعلق اپنے خالق حقیقی سے منقطع ہوجاتا ہے اور اس کی فطرت سلیمہ مسخ ہو جاتی ہے، اس کی عقل و فہم پر پردے پڑ جاتا ہے۔ اس کی چشم بصیرت بینائی  سے محروم ہو جاتی ہے۔ اپنی دانش مندی کے باوجود اس سے اس قسم کی حرکتیں سرزد ہوتی ہیںکہ احمق اور دیوانے بھی ان سے شرمندگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (ضیاء النبی)انسان کی فکری لغزش کا اندازا لگانا ہو تو اس بات سے لگائیے کہ ا ہل مکہ کے دو معبودوں کے نام اساف اور نائلہ تھے۔ یہ دو افراد اساف بن یعلیٰ اور نائلہ بنت زید تھے۔ جنہیں اللہ رب العزت نے بیت اللہ کی حرمت پامال کرنے کی وجہ سے اور وہاں ارتکاب گناہ کرنے کی وجہ سے پتھر بنا دیا تھا۔ لوگوں نے انہیں اٹھا کر باہر رکھ دیا تاکہ ان کے انجام سے عبر ت حاصل ہو لیکن رفتہ رفتہ ان دونوں کی بھی پوجا شروع ہوگئی۔ اسلام نے انسان کو ان تمام خود ساختہ معبودوں سے نجات بخشی اور صرف اور صرف ایک ہی ذات پاک کو عبادت کے لائق قرار دیا اور وہ ہے اللہ وحدہٗ لاشریک۔
 اسلام نے اللہ رب العز ت کی عبادت کو نہایت سہل اور سادہ انداز میں پیش کیا، اور بے مقصد رسوم و قیود کو یکسر مسترد کر دیا۔ نیت خالص ہو، جسم پاک ہو، لباس پاک ہو، اتنا ضرور ہو کہ ستر کو ڈھانپ لے، سجدہ گاہ پاک ہو اور تم اپنے معبود کے سامنے جھک جائو۔ بتوں کی، شمعوں کی، بخوروں کی، تصویروں کی اور سونے چاندی برتنوں یا مخصوص رنگ کے لباس کی کوئی قید نہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں مذہبی رسومات مخصوص افراد ہی ادا کرسکتے ہیں۔ یہودیوں میں کاہن و ربی، عیسائیوں میں پادری، پارسیوں میں موبد، ہندئوں میں برہمن، پروہت اور بچاری۔ لیکن یہاں ہر بندہ خدا سے اپنی مناجات خود کر سکتا ہے۔ اجتماعی عبادت کیلئے  امامت رنگ، نسل یا خاندان میں محصور نہیں بلکہ اس کا انحصار علم اور تقویٰ پر ہے۔ مذاہب نے اپنے مخصوص عبادت خانوں تک عبادتوں کو محدود رکھا، پوجا کیلئے بت خانہ، دعاء کیلئے گرجا، اور صومعہ آگ کیلئے آتش کدہ، لیکن اسلام کا تصور عبادت محدود نہیں۔ مسجدیں اللہ کا مبارک گھر ہیں اور مسلم معاشرے میں ان کا ایک تقدس اور اہمیت ہے۔ لیکن اللہ کی بندگی انھیں تک محدود نہیں بلکہ ارشاد ہوا، میرے لئے اللہ نے ساری زمین سجدہ گاہ بنادی ہے اور طاہر بنا دی ہے۔ مسلمان ہر جگہ پر اپنا ذوقِ بندگی پورا کرسکتا ہے۔ 

پیر، 22 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 164 part-05. کیا واقعی یوم آخرت ہوگا

Shortclip - عبادت الٰہی کامطلب

معاف کرنے کی عادت

 

معاف کرنے کی عادت

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہء کرم )پر ہے‘‘۔(الشوریٰ:۴۰)’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(الشوریٰ : ۴۳)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔(جامع الترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود)

میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ یحب المحسنین میمون نے کہا :میںتمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)


Darsulquran surah al-mursalat ayat 01-07 Part-03.کیا ہم ایک باغی قوم ہیں

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 164 part-04.کیا ہم صراط مستقیم سے ب...

Shortclip - دین اسلام ہی کیوں؟

اتوار، 21 اگست، 2022

اسلام اور اصلاحِ عبادات

 

اسلام اور اصلاحِ عبادات

مکہءمکرّمہ کی آبادی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے مبارک وجود کی وجہ سے شروع ہوئی۔ اللہ کے یہ پیغمبر دعوت توحید کے علمبردار تھے ۔ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی اولاد و احناف بھی ایک مدّت تک دین حنیف پر کاربند رہے۔ لیکن ایک شخص عمرو بن لحی الخزاعی سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوگیا۔ عمروبن لحی خانہ کعبہ کا متولی تھا، اسے سنگین نوعیت کا کوئی مرض لاحق ہوگیا ۔ کسی نے اسے بتایا کہ ملک شام میں بلقاءکے مقام پر گرم پانی کا ایک چشمہ ہے۔ اگر تم اسکے پانی سے غسل کروگے، تو صحت یاب ہو جاﺅ گے۔ وہ بلقاءپہنچا، غسل کیا اور صحت یاب ہوگیا۔ اس نے وہاں کے باسیوں کودیکھا کہ وہ بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ اس نے استفسار کیا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو، انہوں نے بتایا کہ ہم ان کے ذریعہ سے بارش طلب کرتے ہیں اور انکے ذریعے دشمن پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ اس نے کہا مجھے بھی ان بتوں میں سے چند ایک بت دے دو، انہوں نے اس کو چند بت دے دئیے وہ ان کو لے کر مکہ واپس آ گیا، اور انہیں خانہ کعبہ کے اردگرد نصب کر دیا، بقول ابن خلدون یہیں سے عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا، عمرو نے بت پرستی کے علاوہ بھی بہت سی نئی رسومات کا آغاز کیا اور عربوں نے انہیں مذہبی شعار سمجھ کر اختیار کرنا شروع کر دیا۔ بت پرستی کی یہ وباءاس شدت سے پھیلی کہ ہر قبیلے نے اپنا الگ الگ خدا بنا لیا۔ یہاں تک کہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب کردئیے گئے، اور اس کی وجہ یہ تھی عرب کے سارے قبائل کعبہ کا حج کرنے کے لئے ایسا کرتے تھے۔ اس لئے قریش نے ان تمام قبائل کے معبودوں کے بت یہاں یکجا کردئیے تھے تاکہ کسی قبیلہ کا آدمی بھی حج کرنے کی نیت سے مکہ میں آئے تو اپنے معبود کے بت کو یہاں دیکھ کر اس کی عقیدت میں اور اضافہ ہو اور اسے قریش کی سیادت کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہ ہو، کفّا ر و مشرکین کے ساتھ عرب میں یہودیوں اور نصاریٰ کی بھی ایک تعداد موجود تھی، لیکن یہ مذاہب بھی افراط وتقریظ کا شکار ہو چکے تھے۔
یہود اپنی بدعملی کے سبب بدنام ہو چکے تھے، جادو، ٹونہ اور عملیات کے توہمات میں گرفتار ہو چکے تھے۔ ان میں خدا پرستی ایثار اور روحانی خلوص نام کو بھی نہیں تھا۔ صرف ہفتہ کے دن کی تعظیم کو بڑا مذہبی شعار گردانتے تھے۔ عیسائیوں نے توحید خالص کو چھوڑ کر حضرت عیسٰی، حضرت مریم اور مسیحی اکابرین کے مجسمے اور تصویریں پوجنا شروع کر دی تھیں، اور رہبانیت کو اپنا مذہبی شعار بنا لیا تھا۔ ”یہود کا فسق دین میںکمی اور پستی کرنا اور نصاریٰ کا فسق دین میں زیادتی اور غلو تھا“۔ ایسے میں اسلام توحید، اعتدال اور توازن کا پیغام لے کر آیا۔

جمعہ، 19 اگست، 2022

Shortclip - دین کو فالو کیسے کریں؟

عبادت اور تقویٰ

 

عبادت اور تقویٰ

اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:۔اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے (انسانوں )کو پیدا کیا تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو۔(البقرۃ)

یہ آیت اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عبادت کی غر ض وغایت یہ ہے کہ وہ انسان کو منزلِ ’’تقویٰ ‘‘ کی طرف پہنچا دے۔اس آیۃ مبارکہ میں اللہ رب العز ت کے دو اوصاف کا بیان ہوا (۱)وہ تمہارا رب ہے(۲) اسی نے تمہیں تخلیق کیا۔رب وہ ذات ہے جس کی تربیت سے کوئی چیز اپنی استعداد کے مطابق ارتقاء کے تمام مراحل طے کر تی ہوئی درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ گویا کہ انسان بلکہ پوری کائنات ہر ہر مرحلے پر اور ہر لمحے لمحے میں اس کی نگہداری سے پروری پار ہی ہے اور اس کا وجود وارتقاء اور اس کے جملہ کمالات کا حصول اسی کا رھین منت ہے۔ وہ تخلیق نہ کرتا تو انسان پیدا ہی نہ ہوتا اور وہ تربیت نہ کرے تو زندگی کا سفر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔

جب ہم اسی کا دیا ہوا کھا رہے ہیں اور اسی کاعطاء کردہ اثاثہ استعمال کررہے ہیں تو پھر زندگی کے ایک ایک لمحے پر اس کا اختیار تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں کیوں نہیں ڈالتے؟

بیضاوی علیہ الرحمۃ نے یہ بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ نے اپنی عبادت کاحکم دیا تو اس کی علّت (وجہ)یہ بیان کی کہ وہ تمہارا خالق ہے اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ گویا ہم اپنی عمر بھر کی عبادت اور اطاعت کا صلہ اسی وقت وصول کرچکے ہیں۔ جب اس نے ہمیں ’’انسان ‘‘بناکر تخلیق کردیا ،جو مزدور اپنا معاوضہ پیشگی وصول کرچکا ہو۔ وہ اپنا کام مکمل کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔ ہم بھی عمر بھر اس کا حکم ماننے کے پابند ہوچکے ہیں۔ 

ایک ایک قطر ے کا مجھے دینا پڑا حساب

خونِ جگر ودیعت مژگانِ یار تھا

(غالب)

تقویٰ قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے جس سے برے کاموں سے اجتناب اورنیک کاموں کے انتخاب کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ تقویٰ کی جگہ یہ ہے(مسلم)جملہ عبادات سے مقصود اس کیفیت کاحصول ہے۔نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃتمام کی غرض وغایت لفظ تقویٰ سے بیان کی گئی اور ہر وہ کام جو خدا کی رضاء لیے ہیں چاہے وہ اس کے نام کی تسبیح پڑھنا ہو،جو چاہے اس کی ذات کی عبادت کرنا، چاہے اس کی خاطر اس کی مخلوق کی خدمت کرنا سب اسی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ 

Darsulquran urdu surah al-anam ayat 164 part-02.کیا ہم راہِ مستقیم سے بھ...

Darsulquran surah al-insan ayat 29-31. کیا ہم اللہ تعالی کے راستے پر چلن...

جمعرات، 18 اگست، 2022

وسعتِ عبادت

 

وسعتِ عبادت

عبادت کے مفہوم میں جو وسعت اور ہمہ گیری ہے، پروفیسر حبیب اللہ نے بڑے آسان اور عام فہم انداز میں اسکی طرف اشارہ کیا ہے۔ ’’اسلام میں عبادت کا مفہوم چند مخصوص افعال میں منحصر نہیں اسلامی نقطہ نظر کے مطابق جس طرح نماز ادا کرنا عبادت ہے ایسے ہی امانت داری سے تجارت کرنا بھی عبادت ہے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے ’’امانت داری سے تجارت کرنے والا قیامت کے دن انبیاء اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔‘‘جس طرح حج کرنے سے انسان کو اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے ایسے ہی روزی کمانے کیلئے محنت ومشقت کرنا بھی عبادت ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے الکاسب حبیب اللہ ’’مزدوری کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔‘‘ جیسے قرآن مجید کی تلاوت کرنا عبادت ہے ایسے ہی کسی کی حاجت پوری کرنا بھی عبادت ہے پیغمبر اسلام ﷺ فرماتے ہیں:  ’’جب تک ایک بندہ کسی بندے کی مشکل حل کرنے میں  لگا رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی مشکلیں آسان فرماتا رہتا ہے۔‘‘جہاں شرک ظلم عظیم ہے وہاں جھوٹی قسم کھانا اور جھوٹی گواہی دینا بھی بہت بڑا ظلم ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا کیا میں تمہیں سب بڑے گناہ نہ بتائوں ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! ﷺنے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا حضور سید عالم ﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خبردار جھوٹی گواہی دینا بھی شدید ترین گناہوں میں سے ہے اورآپ اس بات کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگیں کہ کاش آپ خاموش ہوجائیں۔ (ریاض الصالحین، ص 594)ایک بدو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگایا رسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم سب سے بڑا گناہ کون سا ہے تو آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس نے عرض کیا پھر تو فرمایا جھوٹی قسم کھانا۔ (ریاض الصالحین،ص650) جیسے روزہ توڑنا گناہ ہے ایسے ہی کسی لالچ یا خوف سے کسی بات کو چھپانا بھی گناہ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جس سے کوئی بات پوچھی گئی لیکن اس نے وہ بات چھپائی اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔ (ریاض الصالحین،ص528) جیسے اللہ کی عظمت کو نہ ماننا جرم ہے ایسے ہی غرباء فقراء کی مدد نہ کرنا بھی جرم ہے قیامت کے دن ایک مجرم کے متعلق فرمایا جائیگا۔ ’’اسے پکڑواسکے گلے میں طوق ڈالو۔ پھر اسے جہنم میں داخل کر دو پھر اسے ایسی زنجیر میں جکڑو جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے۔ بے شک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دیتا تھا۔‘‘ (الحاقہ :30:33) (روح عبادت)

بدھ، 17 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-insan ayat 27-28 Part-02.کیا ہم اپنے آپ کو بھو...

Shortclip - صرف دین اسلام ہی کیوں؟

عبادت، اعترافِ عجز (۴)

 

عبادت، اعترافِ عجز  (۴)

کتاب اللہ میں لفظ عبادت ’’تکبر‘‘کے متضاد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ٭(ملائکہ) جو اسکے پاس ہیں، وہ اُسکی عبادت سے غرور نہیں کرتے ۔ (الا نبیائ۔۲۰)٭میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیات  سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں،اور اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے۔ (السجدہ)٭غرور، تکبر اور استکبار کے معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، احساس ذات، خدا کے سامنے سرکشی، اور اسکی بارگاہِ جلالت میں گردن جھکانے سے عار و انکار کے ہیں۔ تو اس کے مقابلے میں عبادت اللہ کے سامنے سر جھکانے اور عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنے اور اسکے احکام کے سامنے اظہار اطاعت کے ہیں۔ اسی طرح کسی شخص سے بظاہر اچھے کام کا صدور تو لیکن اس اچھے کام سے اس مقصد اظہارِ عبودیت یا  اطاعتِ خداوندی نہ ہو تو وہ کام عبادت میں شمار نہیں ہو گا۔ کسی بھی اچھے کام کو عبادت میں شمار ہونے کیلئے اس کی نیت کا خالص اور پاک ہونا بے حد ضروری ہے اور یہی وہ نشانِ امتیاز ہے جو عبادت اور غیر عبادت کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ارشاداتِ خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔ ٭ (اللہ کے مخلص بندے کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ (کی رضائ)کیلئے تم کو (کھانا)کھلاتے ہیں۔ (الانسان۔۱۰)٭اس پرہیز گار کو دوزخ سے بچا  لیا جائیگا جو اپنا مال دل کی پاکیزگی (حاصل کرنے ) کیلئے دیتا ہے۔ اس پر کسی کا احسان باقی نہیں، جس کا بدلہ اس کو دینا ہو بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اس کا مقصود ہے۔ وہ عنقریب خوش ہو جائیگا۔ (اللیل ۔۱۰) ٭اور (اے اہل ایمان) تم صرف اللہ (رب العزت کی ذات)کی طلب کیلئے خرچ کرتے ہو۔ (البقرہ ۔ ۳۷)٭پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز (کی ادائیگی ) سے غافل ہیں، وہ جو ریاکاری کرتے ہیں، اور (مانگے بھی) نہیں دیتے روزمرّہ استعمال کی چیزیں۔ (الماعون ) ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا  اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔ اس میں کسی خاص کام اور طرز و طریقہ کی تخصیص نہیں ہے، بلکہ انسان کا ہر وہ جائز کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔ وہ ’’عبادت‘‘ ہے۔ اگر تم اپنی شہرت کیلئے کسی کو لاکھوں دے ڈالو، تو وہ عبادت نہیں لیکن خدا کی رضا جوئی اور اسکے حکم کی بجا آوری کیلئے چند کوڑیاں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔ تعلیم محمدی کی اس نکتہ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض وغایت بنا دیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔‘‘  (سیرت النبی)

منگل، 16 اگست، 2022

Darsulquran surah al-insan ayat 27-28 part-01.کیا ہم صرف دنیا کے دیوانے ہیں

عبادت (۳)

 

عبادت (۳)

قرآن مقدس کی رو سے انسان کی تخلیق بے مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی کا ایک واضع اور غیر مبہم مقصد ہے، اور وہ ہے ’’عبادت‘‘۔ لفظ ’’عبادت‘‘ سے ذہن فوراً کچھ ایسے معمولات کی طرف جاتا ہے۔ جو عام طور پر عبادت کے حوالے سے ’’متعارف‘‘ہیں۔ ان معمولات کے عبادت میں ہوتے ہیں کوئی شک وشبہ نہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں تصور عبادت ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔لغتِ عرب میں انتہائی انکساری اور عاجزی کو ’’عبادت‘‘کہا جاتا ہے۔ امام راغب اضفہانی کہتے ہیں عبادت کا معنی ہے غایۃُ التذلل یعنی انتہاء درجہ کی انکساری، صاحب لسان العرب ابن منظور لکھتے ہیں :معنی العبادۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع۔ عبادت کے معنی ایسی اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جائے۔

گویا کہ لفظ ’’عبادت‘‘ اپنی ذیل میں انتہائی عاجزی، انکساری اور اظہار فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مقدس میں عبادت کا متضاد لفظ ’’تکبر‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ٭جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (المومن 60)٭ اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا۔ (النساء 172)

عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت و الفت کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں: عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں۔ کہتے ہیں ’’طریق معبد‘‘ یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔ ’’بعید معبد‘‘ وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع و فرمابردار بن گیا  ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر) علامہ ابن قیم لکھتے ہیں۔ ’’عبادت کے دو جز ہیں۔ انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ‘‘۔

گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یا  انکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے، جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اس کے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے، اور ی۔ جذبہء تسلیم و رضا ء چند معمولات و رسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط  ہے۔ ہر وہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء و مقصود رضا ئے الہٰی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔ 

پیر، 15 اگست، 2022

Darsulquran surah al-an'am ayt 162-163 pt01.کیا ہم حکم الہی کے سامنے سر ...

Darsulquran urdu surah al-insan ayat 25-26. کیا ہم اپنے رب کے ساتھ رابطے...

Shortclip - زندگی میں کامیابی کی ضمانت اور اس کی شرائط

حکمت

 

حکمت

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابو الحسن ! مجھے کچھ نصیحت کرو۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا : آپ اپنے یقین کو شک نہ بنائیں (یعنی روزی کا ملنا یقینی ہے اس کی تلاش میں اس طرح اوراتنا منہمک نہ ہوں کہ گویا آپ کواس میں کچھ شک ہے) ،اپنے علم کو جہالت نہ بنائیں (جو علم پر عمل نہیں کرتاوہ اورجاہل دونوں برابر ہوتے ہیں )اوراپنے گمان کو حق نہ سمجھیں (یعنی آپ اپنی رائے کو وحی کی طرح حتمی نہ سمجھیں )اوریہ بات آپ جان لیں کہ آپ کی دنیا تو صرف اتنی ہے کہ جو آپ کو ملی اورآپ نے اسے آگے روانہ کردیایا تقسیم کرکے برابرکر دیا یا پہن کر پرانا کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے ابوالحسن ! آپ نے سچ کہا۔(ابن عساکر)

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! اگر آپ کی خوشی یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملیں توآپ اپنی امیدیں مختصر کریں اورکھانا کھائیں لیکن شکم سیر نہ ہوں اورلنگی بھی چھوٹی پہنیں اورکرتے پر پیوند لگائیں اوراپنے ہاتھ سے اپنی جوتی خود گانٹھیں اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جاملیں گے۔(بیہقی )

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :خیر یہ نہیں کہ تمہارا مال اورتمہاری اولاد زیادہ ہوجائے بلکہ خیر یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہواورتمہاری بربادی کی صفت بڑی ہواوراپنے رب کی عبادت میں تم لوگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ اگر تم سے نیکی کاکام ہوجائے تو اللہ کی تعریف کرواوراگر برائی سرزد ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرواوردنیا میں صرف دوآدمیوں میں سے ایک کے لیے خیر ہے ایک تو وہ آدمی جس سے کوئی گناہ ہوگیا اورپھر اس نے توبہ کرکے اس کی تلافی کرلی دوسرا وہ آدمی جو نیک کاموں میں جلدی کرتا ہو اورجو عمل تقویٰ کے ساتھ ہو وہ کم شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جو عمل اللہ کے ہاں قبول ہو وہ کیسے کم شمار ہوسکتا ہے ۔(ابونعیم ، ابن عساکر)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : توفیق خداوندی سب سے بہترین قائد ہے اوراچھے اخلاق بہترین ساتھی ہیں عقلمندی بہترین مصاحب ہے۔ حسن ادب بہترین میراث ہے اورعجب وخود پسند ی سے زیادہ سخت تنہائی اوروحشت والی کوئی چیز نہیں۔(بیہقی ، ابن عساکر)

اتوار، 14 اگست، 2022

Darsulquran surah al-insan ayat 23-24.کیا ہم لوگوں کواللہ تعالی کی بندگی...

ایمان اور اعمال صالحہ (۱)

 

ایمان اور اعمال صالحہ  (۱)

ایمان اور اعمالِ صالحہ لازم وملزوم ہیں۔ اسی طرح جس طرح پھول اور خوشبو، آفتاب اور روشنی، ایمان بنیاد ہے اور اعمالِ صالحہ اس بنیاد پر کھڑی ہونے والی عمارت، صرف بنیاد  رکھ دینا عمارت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح مضبوط ومستحکم بنیاد کے بغیر عمارت کی پائیداری اور استحکام بھی تصور میں نہیں آسکتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں بھی اہل ایمان کا تعارف کروایا گیا  ہے۔ وہ عمل صالح کا ذکر بھی ضرور نظر آتا ہے۔ الذین امنو اوعملوالصلحت (جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے) ۴۵ مقامات پر یکجا ذکر کیاگیا ہے۔ قرآن کریم کا منشاء ہے کہ مسلمان صرف اعتقاد کا نام نہ ہو بلکہ مومن اورمسلم کو ایک  روشن کردار کا مالک اور پختہ سیرت وکردار کا حامل بھی ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ انسان کے ظاہر و باطن اور ا سکے ماحول اور معاشرے میں انقلاب کردار عمل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔’’سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘ کے مصنف رقم طراز ہیں ۔’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو ہمارے ماد ی علل واسباب کے تابع فرمایا ہے، یہاں کی کامیابی اور فوز و فلاح بھی صرف ذہنی عقیدہ اور ایمان سے حاصل نہیں ہوسکتی، جب تک اس عقیدہ کے مطابق عمل بھی نہ کیا جائے، صرف اس یقین سے کہ روٹی ہماری بھوک کا قطعی علاج ہے۔ ہماری بھوک دفع نہیں ہوسکتی ، بلکہ اس کے لئے ہم کو جدوجہد کرکے روٹی حاصل کرنا اور اسکے چبا کر اپنے پیٹ میں نگلنا بھی پڑے گا۔ یہی صورت ہمارے دوسرے دنیاوی اعمال کی ہے۔ اس طرح اس دنیا میں عمل کے بغیر تنہا ایمان کامیابی کے حصول کیلئے بے کا رہے۔ البتہ اس قدر صحیح ہے کہ جو ان اصولوں کو صرف صحیح باور کرتا ہے، وہ اس سے بہرحال بہتر ہے۔ جو ان کو سرے سے نہیں مانتا کیوں کہ اول الذکر کے کبھی نہ کبھی راہ راست پر آجانے اور نیک عمل بن جانے کی امید ہو سکتی ہے۔ اور دوسرے کیلئے  اوّل پہلی ہی منزل باقی ہے اس لئے آخرت میں بھی وہ منکر کے مقابلے میں شاید اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا زیادہ مستحق قرار پائے کہ کم ازکم وہ اس کے فرمان کو صحیح باور کرتا ہے۔‘‘ (سیرت النبی) عمل صالح کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اسکے اندر انسانی اعمال کے تمام جزئیات شامل ہیں تاہم انکی جلی تقسیمات حسب ذیل ہیں، عبادات، اخلاق، معاملات۔ لفظ عبادت بڑی وسعت کا حامل ہے۔ اخلاق اور معاملات بھی حسن نیت سے انجام دئیے جائیں تو وہ بھی عبادت میں داخل ہیں۔  

Darsulquran urdu surah al-insan ayat 22. کیا ہم دنیا سے محبت کرنے والے ہیں

ہفتہ، 13 اگست، 2022

Shortclip - کیا زندگی مختصر ہے؟

انبیائے کرام کی دعوت توحید

 

انبیائے کرام کی دعوت توحید

کائنات کی ابتداء کب ہوئی، اسکی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔  اس کا انتظام وانصرام کس طرح ترتیب پانا ہے۔ اسے کب تک برقرار رہنا ہے؟ موت و حیات کس کے اختیار میں ہے؟ انسان کیا ہے؟ اس عظیم تر اور وسیع تر کائنات میں اسکی حیثیت کیا ہے؟ ایسے بے شمار سوالات  انسان کو اپنی گرفت میں لئے رہتے ہیں۔ کائنات کے خالق اور مالک نے ان سوالوں کا جواب دینے کیلئے اپنی رحمت سے انبیاء ورسل کا سلسلہ جاری کیا۔ ’’انبیاء کرام علہیم السلام نے انسان کو یقین دلایا  کہ ٭ یہ ساری کائنات اللہ نے پیدا فرمائی ہے کہ وہی خالق ہے۔٭اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے کائنات کو کب پیدا فرمایا کہ سلسلہء تخلیق کی ابتداء انسانی مہم کے احاطے میں نہیں آتی، مخلوق کی تخلیق اسکی خالقیت کا اظہار ہے اور جو کچھ موجود ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے یا محسوس ہوتا ہے۔ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے۔٭نظم کائنات اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جب تک چاہے گا اسے برقرار رکھے گا۔ ٭مناظر فطرت جیسے چمکتا سورج،  دمکتا چاند، ٹمٹماتے تارے، پھوٹتے چشمے کھلتے ہوئے پھول، گردش لیل و نہار روشنیوں کی چکا چوند اور اندھیروں کا محیط سا یہ سب اسکی خالق کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ ٭انسان خود اسی کی تخلیق ہے۔ یہ شہکار وجود ہے، اس کو پروردگار نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔آنکھ،کان، ناک، دل و دماغ اسکی عطا کا اظہار ہیں کہ ان سے وہ دیکھتے، سنتے، سونگھتے محسوس کرنے اور سوچنے کا کام لیتا ہے۔ رب کائنات نے ہی وجود عطاء کیا اور اسی نے اس کو قائم رہنے کی صلاحیت اور سہولت بخشی، نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا شعور دیا، تلاش و محنت سے ایجادات و انکشافات کی صلاحیت دی اور یہ کہ دیگر تمام مخلوق  پر فضیلت دی عقل و شعور سے مخفی خزانوں کی دریافت کا حوصلہ دیا اور زندگی کو پر بہار و باوقار بنانے کی ہمت دی۔

 ٭انسان صرف جسم کا نام نہیں بلکہ جسم کی رونق اس کی قوت سے ہے، جسے روح کہا جاتا ہے ،جسم کی حفاظت و قوت اور برداشت سے زیادہ ضروری روح کا استحکام وجلا ہے۔ احکام خالق کو تسلیم کرنے سے دنیا بھی پر بہار رہتی ہے اور بعد کی یعنی آخرت کی زندگی بھی کامیاب ہوتی ہے‘‘۔ (عقائد و ارکان )

ہدایت و رہنمائی کا یہ سلسلہ انسان اوّل یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوگیا، اور اللہ کی رحمت کاملہ نے ہر قوم اور ہر عہد میں رسول مبعوث کئے۔ حتیٰ کہ انسانیت اس قابل ہوگئی کہ اب اسے دائمی صحیفہ ہدایت اور عظیم تر داعی تھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے نوازا جائے۔ الہامی رہنمائی کی تکمیل ہوئی اور تمام انسانوں کو اسی ہادی اور ہدایت کا پابندکر دیا گیا۔ 

Darsulquran surah al-anam ayat 160.کیا ہم ہمیشہ کے لئے جنّت میں رہیں گے

Darsulquran urdu surah al-insan ayat 11-21.کیا ہم جنت جانے کے لیے تیاری ...

جمعہ، 12 اگست، 2022

Shortclip - زندگی کا مقصد

کلام الامام (۲)

 

کلام الامام (۲)

٭زمانہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردے تو تب بھی تو مخلوق کی طرف مائل نہ ہو۔ 

٭لوگوں کی حاجتوں کو تم سے متعلق ہونا یہ تمہارے اوپر خداکی بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا نعمتوں (صاحبان حاجت) کو رنج نہ پہنچائو،کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ وہ عطاء بلا سے بدل جائے۔

 ٭جس نے سخاوت کی اس نے سیادت حاصل کی، جس نے بخل کیا وہ ذلیل ہوا۔

 ٭جس کا مددگار خدا کے علاوہ کوئی نہ ہو،خبردار! اس پرظلم نہ کرنا۔

٭جو تم کو دوست رکھے گا (برائیوں سے) روکے گا، اور جو تم کو دشمن رکھے گا (برائیوں پر) ابھارے گا۔

 ٭عقل صرف حق کی پیروی کرنے سے ہی کامل ہوتی ہے۔ ٭اہل فسق و فجور کی صحبت بھی فسق و فجور میں داخل ہے۔ ٭جس فعل پر عذر خواہی کرنا پڑے وہ کام ہی نہ کرو، اس لئے کہ مومن نہ برا کام کرتا ہے اور نہ ہی عذر خواہی کرتا ہے، جبکہ منافق روز بروز برائی اور عذر خواہی کرتا ہے۔ 

٭غیر اہل فکر سے بحث و مباحثہ اسباب جہالت کی علامت ہے۔ ٭جب زمانہ تجھے تکلیف دے تو تو مخلوق کی طرف مائل نہ ہو بلکہ اپنے خالق سے رجوع کر۔٭اللہ کے سوا کبھی بھی کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہئے۔

 ٭جب اذیت کے لئے کوئی شخص کسی سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرنے والے بھی اسی جیسے ہیں ۔ 

٭اس قوم کو کبھی بھی فلاح حاصل نہیں ہو سکتی جس نے خدا کو ناراض کرکے مخلوق کی مرضی خرید لی ۔

 ٭قیامت کے دن اس کو امن و امان ہوگا جو دنیا میں خدا سے ڈرتا رہا ہو۔

 ٭لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبانوں کے لئے  ایک چٹنی ہے، جب تک (دین کے نام پر) معاش کا دارومدار ہے دین کا نام لیتے ہیں، لیکن جب وہ آزمائش میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر دین دار بہت ہی کم ہو جاتے ہیں۔ 

٭کیا تم نہیں دیکھ رہے ہوکہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے، اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جا رہی ہے، ایسی صورت میں مومن کوحق ہے کہ وہ لقائے الہٰی کی رغبت کرے۔ ٭میں موت کو سعادت اورظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں۔

 ٭اگرمال کا جمع کرنا چھوڑ جانے کے لئے ہے تو پھر شریف آدمی چھوڑ جانے والے مال کے لئے کیوں بخل کرتا ہے۔ 

جمعرات، 11 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-an'am ayat 159.کیا دین میں گروہ بندی حرام ہے

Darsulquran surah al-insan ayat 08-09.کیا ہمارے اندر نیکوکاروں کی صفات پ...

Shortclip - زندگی کیا اور کیوں؟

کلام الامام (۱)

 

کلام الامام (۱)

٭ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود ایک جرم ہے۔ 

٭عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ 

٭طاقت وقوت کینے کو ختم کر دیتی ہے۔ 

٭غیرت مندکبھی بے غیرتی کا کام نہیں کرتا! 

٭حکمرانوں کی بری عادات میں سے دشمنوں کے روبرو بزدلی، ضعیف وناتواں کے سامنے جرأت اور عطا کرنے میں بخل وکنجوسی ہیں۔

 ٭حاجت مند نے سوال کرنے سے پہلے اپنے چہرے کو محترم و مکرم نہیں سمجھا، لہٰذا تو اپنے چہرے کو سوال نہ کرنے سے محترم و مکرم قرار دے!

٭غیبت کرنے سے رک جا، کیونکہ  غیبت جہنم کے کتوں کا سالن ہے۔

٭جنت کی چاہ میں عبادت تاجرانہ ہے، جہنم کے خوف سے عبادت غلامانہ ہے اور ادائے شکر کے لئے عبادت آزادانہ اور باعث فضیلت ہے۔

 ٭حق قبول کرنے کی علامات میں سے ایک علامت اہل عقل کے پاس بیٹھنا ہے۔

 ٭اپنے اقوال وافعال کی جانچ پر کھ اور فکر ونظر کے حقائق جاننا عالم کی نشانیوں اور دلائل میں سے ہے۔ 

٭جو شخص اللہ کی عبادت ایسے کرے کہ جیسے اس کا حق ہے تو اللہ اسے امیدوں اور قدر کفایت سے بھی زیادہ عطا فرمائے گا! 

٭جس کام کو پورا کرنے کی ہمت نہ ہو اسے اپنے ذمہ مت لو۔ ٭جس چیز کو تم سمجھ سکتے ہو اور نہ ہی حاصل کر سکتے ہو اس کے درپے کیوں ہوتے ہو۔ ٭جب تم جان لو کہ تم حق پر ہو تو پھر نہ جان کی پروا کرو نہ مال کی ۔

٭جلد بازی حماقت ہے اور انسان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ۔٭جو کوئی اپنے مذہب کو قیاس کے ترازو میں تولتا ہے وہ ہمیشہ شکوک و شبہات میں پڑا رہتا ہے۔ 

٭اپنے کام کے صلے کی واجب سے زیادہ امید نہ رکھو!

 ٭بہترین سکون یہ ہے کہ خداکی اطاعت پر خوش رہو۔

 ٭عظمت و بزرگی کا بہترین ذریعہ سخاوت اور نیک عمل ہے۔ 

٭بے آسرا اور مایوس لوگوں کی مدد کرنے والا ہی اعلیٰ درجے کا فیاض ہے۔ 

٭انسانی اقدار کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرواور (معنوی) خزانوں کے لئے جلدی کرو!

Darsulquran surah al-insan ayat 05-07 part-02.کیا ہم دوزخ میں جانے کے لی...

Darsulquran surah al-an'am ayat 157-158.کیا ہمارے دل میں ایمان زرہ برابر...

منگل، 9 اگست، 2022

Darsulquran urdu surah al-insan ayat 05 part-01.کیا ہم نیکو کار لوگ ہیں

Shortclip - عرفانِ ذات کیوں ضروری ہے؟

حسین ابن علی جانِ اولیاء

 

حسین ابن علی جانِ اولیاء

برصغیر پاک وہند کی مصروف علمی و روحانی شخصیت حضر ت مخدوم علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔ 

٭آئمہ اہلِ بیت اطہار میں سے شمع آل محمد (ﷺ )  تمام دنیاوی علائق سے پاک و صاف، اپنے زمانہ کے امام و سردار ابوعبداللہ سیدنا امام حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما ہیں ۔آپ اہل ابتلاء کے قبلہ و رہنما ہیں اور شہید دشتِ کرب وبلا ہیں اور تمام اہل طریقت آپ کے حال کی درستگی پر متفق ہیں اس لئے کہ جب تک حق ظاہر وغالب رہا آپ حق کے فرمانبردار رہے اور جب حق مغلوب ومفقود ہوا تو تلوار کھینچ کر میدان میں نکل آئے،  اور جب تک راہ خدا میں اپنی جان عزیز قربان نہ کردی ، چین وآرام نہ لیا۔ آپ میں حضور اکرم ﷺ کی بیشتر نشانیاں تھیں جن سے آپ مخصوص ومزین تھے، چنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور اکرم ﷺکی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ نے (امام) حسین کو اپنی پشت مبارک پر سوار کر رکھا ہے۔ میں نے جب یہ حال دیکھا تو کہا، اے حسین کتنی اچھی سواری ہے آپکی، حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: اے عمر! یہ سوار بھی تو کتنا عمدہ ہے۔ سیدنا امام عالی مقام سے طریقت میں بکثرت کلامِ لطیف اور اسکے رموز و اسرار و معاملات منقول ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: اشفق الاخوان علیک دینک‘‘ تمہارے لئے سب سے زیادہ رفیق و مہربان تمہارا دین ہے اس لئے کہ بندے کی نجات دین کی پیروی میں ہے، اور اس کی ہلاکت ،اس کی مخالفت میں ہے، صاحبِ عقل وخرد وہی شخص ہے جو مہربان کے حکم کی پیروی کرے، اسکی شفقت کو ملحوظ رکھے اور کسی حالت میں اسکی متابعت سے روگردانی نہ کرے، برادرمشفق وہی ہوتا ہے جو اسکی خیر خواہی کرے  اور شفقت و مہربانی کا دروازہ اس پر بند نہ کرے۔ ایک روز ایک شخص نے حا ضر ہوکر آپ سے عرض کیا اے فرزندِ رسول ! میں ایک مفلس و نادار ہوں اور صاحب اہل وعیال ہوں مجھے اپنے پاس سے رات کے کھانے میں سے کچھ عنایت فرمائیے، آپ نے فرمایا: بیٹھ جائو، میرا رزق ابھی راستے میں ہے کچھ دیر بعد حضرت امیر معاویہ ؓکی طرف سے ایک ایک ہزار دینار کی پانچ تھیلیاں آئیں اور پیغام آیا کہ میں معذرت خواہ ہوں فی الحال انہیں اپنے خدّام پر خر چ فرمائیے، جلد ہی مزید حاضر خدمت کئے جائیں گے۔ آپ نے وہ تھیلیاں اس نادار شخص کو عنایت کر دیں اور فرمایا:  تمہیں بہت دیر انتظار کرنا پڑا اگر مجھے انداز ا ہوتا کہ اتنی قلیل مقدار ہے تو تمہیں انتظار کی زحمت ہی نہ دیتا، مجھے معذور سمجھنا،  ہم اہل ابتلاء ہیں۔ ہم نے دوسروں کیلئے اپنی تمام دنیاوی ضرورت کو چھوڑ دیا ہے اور راحت کو فنا کر دیا ہے۔ (کشف المحجوب )

اے دل بگیر دامنِ سلطان اولیاء 

یعنی حسین ابنِ علی جان اولیاء