عبادت (۳)
گویا کہ لفظ ’’عبادت‘‘ اپنی ذیل میں انتہائی عاجزی، انکساری اور اظہار فروتنی کا مفہوم رکھتا ہے۔ قرآن مقدس میں عبادت کا متضاد لفظ ’’تکبر‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ٭جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (المومن 60)٭ اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا۔ (النساء 172)
عبادت کا اصل مفہوم عاجزی اور انکساری ہے۔ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت و الفت کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔ یعنی عبادت الہٰی وہ عاجزی اور انکساری ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت الفت میں وارفتہ ہوکر کی جائے۔ امام ابن کثیر کہتے ہیں: عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں۔ کہتے ہیں ’’طریق معبد‘‘ یعنی وہ راستہ جو پامال ہوتا ہو۔ ’’بعید معبد‘‘ وہ اونٹ جو سرکشی چھوڑ کر مطیع و فرمابردار بن گیا ہو۔ شریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے۔ جس میں انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی خضوع اور خوف شامل ہو۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر) علامہ ابن قیم لکھتے ہیں۔ ’’عبادت کے دو جز ہیں۔ انتہائی محبت اور انتہائی عاجزی اور انتہائی پستی کے ساتھ‘‘۔
گویا کہ عبادت زبردستی کی عاجزی یا انکساری کا نام نہیں بلکہ دل کے میلان کا نام ہے، جو پورے شعور سے ایک بالاتر ہستی کا اعتراف کرے، اس کے جمال کی محبت سے سرشار ہوکر اور اس کے جلال کی ہیت سے مرعوب ہوکر پوری آمادگی کے ساتھ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے، اور ی۔ جذبہء تسلیم و رضا ء چند معمولات و رسومات تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کے تمام اعمال کو محیط ہے۔ ہر وہ عمل جو اللہ کے عطاء فرمودہ ضابطے کے مطابق ہو اور جس کا منشاء و مقصود رضا ئے الہٰی ہو ’’عبادت‘‘ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں