بدھ، 29 ستمبر، 2021

Shortclip - اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ

ہماری پریشان کی اصل وجہ کیا ہے؟

صحابہ کرام کا ذوق عبادت … (۱)

 

صحابہ کرام کا ذوق عبادت … (۱)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ، مبارک اور انسان ساز محبت نے سرزمین عرب میں ایک روحانی انقلاب پیدا کر دیا۔ وہ خطہ زمینی جہاں بتوں کی پرستش ہواکرتی تھی۔ اور خد کی یاد یاد تک دلوں سے محو ہوگئی تھی۔ اس سرزمین کے باسی عرفان وعبادت کے پیکر بن گئے۔ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا چین یاد الہٰی سے وابستہ ہوگیا۔ ان کے ہونٹ ذکر سے تر رہنے لگے۔ اور انکے خیالات کا رخ ہمہ وقت رضاء الہی کی طرف ہوگیا۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں انکے اس ذوق و شوق اور وارفتگی کی خود شہادت دی ہے۔٭ ’’ایسے لوگ جن کو کاروبار اور خرید وفرخت (کی مشغولیت بھی) خدا کی یاد سے غافل نہیں کرتی‘‘۔ (نور ۔5)٭ (یہ وہ لوگ ہیں) جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (بھی ) اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ (آل عمران۔ ۲۰۰) ٭(یہ وہ لوگ ہیں) جن کے پہلو (رات کو) خواب گاہوں سے علیحدہ رہتے ہیں اور وہ خوف اور امید (کی ملی جلی کیفیت) کے ساتھ اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں۔ (سجدہ ۔2) ٭آپ انہیں دیکھیں کہ (وہ) رکوع میں جھکے ہوئے، سجدہ میں پڑے ہوئے خدا کے فضل اور (اسکی ) رضاء کو تلاش کرتے ہیں۔ (فتح۔4) عرب کے وہ صحرا نشین جو بڑے سخت دل تھے، اور کہیں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کے دل سوزوگداز سے اس طرح معمور ہوگئے ہیں اور خشیت الہی نے ان کے دلوں میں اس طرح جگہ بنالی ہے کہ  ٭وہ لوگ کہ جب (ان کے سامنے) خدا کا نام لیا جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ (حج۔۵)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت صالحہ کا فیضان تھا کہ مکہ میں جہاں صحابہ کرام کے لیے کھل کر اپنے اعلان کا کرنا بھی دشوار تھا، وہاں بھی تنہائی اور خلوت ڈھنڈتے تھے ، اور اپنے رب کے حضور میں سجدہ ریز ہوجاتے تھے بالعموم اپنی رات کی تنہائیوں کو اللہ کے ذکر سے آباد کرلیتے۔ ٭آپ کا پروردگار جاتنا ہے کہ آپ دو تہائی رات کے قریب اور آدھی رات اور ایک تہائی رات تک (نمازمیں) کھڑے رہتے ہیں اور آپ کے ساتھ (اہل ایمان کی) ایک جماعت بھی اٹھ کر نماز پڑھتی ہے۔ (مزمل۔۲)
 اہتمام صلوٰ ۃ کی وجہ سے صحابہ کرام طہارت کا اہتمام کرتے اپنے جسم اور لباس کو پاک صاف رکھتے، قرآن مجید نے ان کے اس ذوق کی تحسین کرتے ہوئے یوں مدح فرمائی:اس مسجد میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف رہیں  اور اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (توبہ۔۱۳)

منگل، 28 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم دنیا دار ہیں

Shortclip - انسان کی کامیابی کیونکر

Shortclip.دین اصل میں کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1850 ( Surah Al-Hadid Ayat 11 Part-2 ) درس ق...

آنکھوں کی ٹھنڈک نماز

 

آنکھوں کی ٹھنڈک نماز

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا نماز آپ کیلئے محبوب بنادی گئی ہے۔ لہٰذا آپ اس میں سے جتنا چاہیں اپنا حصہ وصول فرمالیں۔ (احمد، طبرانی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفر مایا: خوشبو اور عورتیں میرے لئے محبوب بنادی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ (احمد، طبرانی)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن جلوہ افروز تھے اور لوگ بھی آپ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ  نے ہر نبی کو کسی نہ کسی عمل کا زیادہ شوق عطاء فرمایا ہے۔ مجھے رات کو نماز پڑھنے سے زیادہ رغبت ہے۔ اس لئے جب میں (اپنی رات کی نفل) نماز کیلئے کھڑا ہوجائوں تو کوئی میرے پیچھے نماز نہ پڑھے(کیونکہ اس کی طوالت کی وجہ سے اس کیلئے اقتداء مشکل ہوجائے گی) اور اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کیلئے آمدنی کا کوئی نہ کوئی ذریعہ بنایا تھا اور میری آمدنی کا ذریعہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ ہے۔ جب میرا وصال ہو جائے تو پھر یہ پانچواں حصہ میرے بعد خلفاء کیلئے ہے۔ (طبرانی)

اللہ رب کے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کس ذوق شوق اور انہماک سے نماز میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اس کا کچھ اندازہ درج ذیل روایت سے ہو سکتا ہے۔ 

٭ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (نفل) نماز میں شریک ہوگیا۔ آپ نے سورۃ بقرۃ شروع فرمائی میں نے کہا سوآیتوں پر رکوع کردیں گے۔ لیکن آپ پڑھتے رہے۔پھر میں نے کہا آپ اس سورۃ کو دورکعتوں میں پڑھیں گے لیکن آپ پڑھتے رہے۔ پھر میں نے کہا آپ اسے ختم کر کے رکوع کردیں گے۔ لیکن آپ نے سورۃ نساء شروع کر دی اسے ختم کرکے سورہ آل عمران شروع کر دی اور اسے بھی پورا پڑھ لیا۔آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتے تھے۔ جب آپ کسی ایسی آیت کی تلاوت فرماتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو آپ سبحان اللہ کہنے لگتے۔ جب خوف والی آیت سے گزرتے تو آپ پناہ مانگتے پھر آپ نے رکوع کیا اور سبحان ربی العظیم کا ورد کرنے لگے۔ آپ کا رکوع قیام جیسا طویل تھا۔ پھر سمیع اللہ لمن حمدہ فرماکر کھڑے ہوگئے، اور تقریباً رکوع جتناکھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا اور سبحان اللہ ربی الاعلیٰ کہنے لگے، آپ کا سجدہ بھی قیام جتنا ہی طویل تھا۔ (مسلم)


پیر، 27 ستمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1849 ( Surah Al-Hadid Ayat 11 Part-1 ) درس ق...

اپنی پہچان کیوں ضروری ہے؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شوقِ نماز

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شوقِ نماز

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت اور پُرسوز نمازاور کس کی ہوسکتی ہے۔ کون ہے جو آپ سے زیادہ اللہ کی معرفت کا جو یاں ہو اور آپ سے زیادہ نماز کی روحانی اسرار اور معنویت سے واقف ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ تو اس کیفیت کی اس طرح عکاسی فرماتی ہیں کہ نماز کا وقت شروع ہو جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں۔کبھی کبھی آپ پر نماز کے درمیان رقت طاری ہو جاتی، چشم مبارک سے موتیوں کی لڑی بہنے لگتی، ایک صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی منظر کشی کچھ یوں کی: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم ھائے مبارک سے آنسو جاری ہیں روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گویا کوئی چکی چل رہی ہے یا کوئی ہنڈیا ابل رہی ہے۔ (ترمذی)

رات کی خلوتوں میں آپ جس سوزوگداز اور آہ و بکا کے ساتھ اللہ کے حضور میں حاضر ہوتے اور کس انہماک سے قیام فرماتے اس کا ادراک سورۃ  مزمل کی تلاوت سے ہوسکتا ہے۔کس بلا کی وہ ریاضت تھی کہ خود رب نے کہامیرے محبوب توکیوں رات کو اکثر جاگے

’’رات کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر عجیب ذوق و شوق کا عالم طاری ہوتا تھا، قرآن پڑھتے چلے جاتے، جب خداکی عظمت کبریائی کا ذکر آتاسبحان اللہ کہتے، عذاب کاذکر آتا تو پناہ مانگتے۔ جب رحم وکرم کی آیتیں تو دعاء کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل) آپ نے فرمایا: کہ (رات کی نفل نماز) نمازدو دورکعت کرکے ہے، اور ہر دوسری رکعت میں تشہد ہے اور تضرع وزاری ہے،خشوع وخضوع ہے، عاجزی اور مسکنت ہے اور ہاتھ اٹھا کر اے رب کہناہے،جس نے ایسا نہ کہا تو اس کی نماز ناقص رہی ۔ (ابودائود)‘‘

آپ خود بھی نماز کے جملہ آداب بجا لاتے اور دوسروں کو ان کی تعلیم فرماتے۔ ایک بار کسی شخص نے مسجد نبوی میں آکر نہایت عجلت اور تیزی میں نماز پڑھی آپ ملاحظہ فرما رہے رہے۔ آپ نے فرمایا: اے شخص اپنی نماز پھر پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے دوبارہ اسی طرح نماز ادا کی، آپ نے پھر اسی طرح ارشاد فرمایا۔ جب تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا تو اس نے عرض کیا۔ یارسول اللہ میں کس طرح نمازادا کروں۔ ارشادہوا: اس طرح کھڑے ہو، اس طرح قرأت کرو، اس طرح اطمینان اور سکون کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرو۔ (بخاری)آپ نے ارشافرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا تو وہ خدا کی طرف پوری طرح متوجہ رہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوجائے اور نمازمیں ادھر ادھر نہ دیکھو کیونکہ جب تم نماز میں ہو خدا سے باتیں کر رہے ہو۔ (طبرانی)

اتوار، 26 ستمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1848 ( Surah Al-Hadid Ayat 10 Part-2 ) درس ق...

کیا ہم اپنے آپ سے بے خبر ہیں؟

Darsulquran Para-05 - منافق کون ہیں

ایمان اور اعمالِ صالحہ (۲)

 

ایمان اور اعمالِ صالحہ (۲)

٭ اور جو ایمان والے ہیں وہ اللہ( رب العز ت) سے سب سے زیادہ محبت کرنیوالے ہیں ۔(البقرہ : 165) ٭حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : یقینا ایمان اس شخص کے دل میں ٹھہرتا ہے جو اللہ سے محبت رکھتا ہو۔(الدیلمی ، ابن نجار )٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کیلئے محبت کرنے والا نہ بن جائے۔ (مسند امام احمد بن حنبل )

٭حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور انو ﷺنے ارشادفرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اسکی اولاد اسکے ماں باپ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبو ب نہ ہوجائوں۔ (بخاری، ابن ماجہ)٭حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسکی ہوائے نفس میری لائی ہوئی ہدایت کے تابع نہ ہوجائے۔ (شرح السنۃ) ٭حضرت  عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم ﷺنے فرمایا : سب سے اعلی ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے مامون ہوجائے۔ سب اعلی اسلام یہ ہے کہ انسانیت تیرے ہاتھ سے اور تیری زبان سے محفوظ ہوجائے اور سب سے اعلی ہجرت یہ ہے کہ تم برائیوں کو چھوڑدو، اور سب سے اعلیٰ جہاد یہ ہے کہ تم شہید ہو جائو، اور تمہارا گھوڑا زخمی ہوجائے۔ (طبرانی) ٭حضرت  عمر بن عبسہ روایت کرتے ہیں۔ حضور انو ر ﷺنے ارشاد فرمایا : افضل ایمان اچھا اخلاق ہے۔ (طبرانی) ٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺنے فرمایا : افضل اسلام والا وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ،اور سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، سب سے اچھی نماز وہ ہے جس میں قیام طویل ہو۔ اور سب سے افضل صدقہ اس شخص کا ہے جو خود تنگ دست ہو۔ (کنزالعمال ) ٭حضرت عبادہ ابن صامت روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :سب سے افضل ایمان یہ ہے کہ تمہیں یقین ہوجائے کہ تم جہاں بھی ہوا للہ تمہارے ساتھ ہے۔(ابو نعیم ، طبرانی)٭حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا : جس شخص نے لاالہ الا اللہ کی شہادت دی اور فجر کی نماز کی محافظت کی اور کسی ناجائز خون ریزی سے اپنے ہاتھ رنگین نہ کیے تو وہ جنت میں داخل ہوجائیگا۔ (کنز العمال)


Shortclip - انسان کی آخرت کی کامیابی کا طریقہ

Darsulquran para-05 - کیا ہم نے آخرت کے عوض دنیا کو خرید لیا ہے

ہفتہ، 25 ستمبر، 2021

آخرت کی زندگی کی حقیقت

ایمان اور اعمالِ صالحہ

 

ایمان اور اعمالِ صالحہ

٭حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں ۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان اور عمل دو بھائی دونوں ایک چیزیں ہیں ۔اللہ تعالیٰ کسی ایک کو دوسرے کے بغیر قبول نہیں فرمائے گا۔ (کنزالعمال )

٭حضرت اسید بن عبد اللہ روایت فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ تم میں سے کوئی اس وقت اس کے شر سے محفوظ نہ ہوجائے۔ (ابن عساکر)

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  بندہ اس وقت تک مشرف با یمان نہیں ہوسکتا ۔ جب تک کہ اس کی زبان اور دل یکساں نہ ہوجائیں،اور جب تک اس کا پڑوسی اس کی تکلیف سے محفوظ نہ ہوجائے اور نہ اس کا عمل اس کے قول کی مخالفت کرئے۔ (ابن نجار)

٭حضرت عمر بن حمق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بندہ اس حقیقت ایمان تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کی محبت اور نفرت اللہ ہی کے لئے نہ ہوجائے ۔پس جب وہ اللہ ہی کے لیے محبت اور نفرت کا خوگر ہوجائے تو وہ اللہ رب لعز ت کی طرف سے ولایت کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اور میر ے بندوں میں سے میرے اولیاء اورمیری مخلوق میں سے میرے محبوب بندے وہ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں ان کا ذکر کرتا ہوں۔ (مسند امام احمد بن حنبل ،طبرانی)

٭حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جس نے تین خصلتوں کو جمع کرلیا بلاشبہ اس نے ایمان کی خصلتوں کو (اپنے وجود میں ) جمع کرلیا۔ 1:۔تنک دستی میں خرچ کرنا ، 2:۔ اپنے آپ سے (بھی)انصاف کرنا اور عالم کو سلام کرنا ۔(طبرانی ، بزار ،ابو نعیم )

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان صبر اور فیاضی کا نام ہے۔ (مسند ابو یعلی ،طبرانی)

٭محمد ابن نصرالحارثی رحمتہ اللہ علیہ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایمان حرام اشیاء (سے اجتناب )اور نفسانی خواہشات سے عفت وپاک دامنی کا نام ہے۔(ابو نعیم )

٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایمان دونصف حصوں کا نام ہے۔ نصف صبر میں ہے اور نصف شکر میں ۔ (شعب الایمان ۔امام بہیقی )

جمعہ، 24 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم دین کے معاملے میں سستی کرتے ہیں

Shortclip - انسان کی کامیابی کا راستہ

زندگی کا مقصد

محافظ فرشتے

 

 محافظ فرشتے

کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اوریہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر(حاکم)ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اورجب تم ایک برائی کرتے ہوتو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پوچھتا ہے ، میں لکھ لوں؟وہ کہتا ہے نہیں !ہوسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اورتوبہ کرلے !جب وہ تین مرتبہ پوچھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو!ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اوریہ اللہ سے کس قدر کم حیاکرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’وہ زبان سے جو بات بھی کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔‘‘(ق: ۱۸)اوردو فرشتے تمہارے سامنے اورتمہارے پیچھے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اس کے لیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اوراس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘‘(الرعد:۱۱)اورایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہوتو وہ تمہیں سربلند کرتا ہے اورجب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہوتو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے ، اوردوفرشتے تمہارے ہونٹوں پر ہیں وہ تمہارے لیے صرف محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر صلواۃ کی حفاظت کرتے ہیں اورایک فرشتہ تمہارے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اوردوفرشتے تمہاری آنکھوں پر مقررہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتوں پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتو ں کے علاوہ ہیں ، ہر آدمی پر یہ بیس فرشتے مقرر ہیں اورابلیس دن میں ہوتا ہے اوراس کی اولاد رات میں ہوتی ہے۔(جامع البیان :طبری ،تفسیر ابن کثیر )

 مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے، جو نیند اور بیداری میں اس کی جنات، انسانوں اورحشرات الارض سے حفاظت کرتا ہے، سوااس چیز کے جو اللہ کے اذن سے اس کو پہنچتی ہے ۔(جامع البیان )

 ابومجاز بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مراد(ایک جگہ )سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس نے کہا : آپ اپنی حفاظت کرلیں کیونکہ مراد کے لوگ آپ کے قتل کی سازش کررہے ہیں۔ حضرت علی نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ دوفرشتے ہیں جو ان مصائب سے تمہاری حفاظت کرتے ہیں جو تمہارے لیے مقدر نہیں کیے گئے اورجب تقدیر آجاتی ہے تو وہ مصائب کا راستہ چھوڑدیتے ہیں اورموت بہت مضبوط ڈھال ہے۔(طبری)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1846 ( Surah Al-Hadid Ayat 09 Part-2 ) درس ق...

جمعرات، 23 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم نفسانی خواہشات کے بندے ہیں

Shortclip - کیا ایمان کا کوئی ذائقہ بھی ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبث بنایا ہے؟

اہل تقویٰ کی علامات

 

 اہل تقویٰ کی علامات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرنا تناجش (کسی کو پھنسانے کے لیے زیادہ قیمت لگانا)نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اللہ کے بندوں بھائی بھائی بن جائو، مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہ کرے، اس کو رسوانہ کرے ، اس کو حقیر نہ جانے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، کسی شخص کے برے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے اس کا خون اس کا مال اوراس کی عزت ۔(صحیح مسلم)

 حضرت عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں سے شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ کسی بے ضرر چیز کو اس اندیشے سے نہ چھوڑدے کہ شاید اس میں کوئی ضرر ہو۔(جامع ترمذی)

 حضرت میمون بن مہران نے کہا : بندہ اس وقت تک متقی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنا اس طرح حساب نہ کرے، جس طرح اپنے شریک کا محاسبہ کرتا ہے کہ اس کا کھانا کہاں سے آیا اوراس کے کپڑے کہاں سے آئے۔(جامع ترمذی)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب یہ فرماتا ہے کہ میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے، سو جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کو بخش دوں ۔(سنن دارمی)

 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے ایک ایسی آیت کا علم ہے کہ اگر لوگ صرف اسی آیت پر عمل کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہوجائے گی’’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے‘‘۔ (سنن دارمی )

 ابو نضر ہ بیا ن کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ سنا اس نے یہ حدیث بیان کی ، آپ نے فرمایا : اے لوگو! سنو! تمہارا رب ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے ، سنو ! کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے، مگر فضیلت صرف تقویٰ سے ہے۔(مسنداحمدبن حنبل)

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شاید اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کروگے، حضرت معاذ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے صدمہ میں رونے لگے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا : میرے سب سے زیادہ قریب متقی ہوں گے خواہ وہ کوئی ہوں اورکہیں ہوں۔(مسند احمد بن حنبل)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1845 ( Surah Al-Hadid Ayat 09 Part-1 ) درس ق...

بدھ، 22 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اللہ تعالی کے راستے سے بھٹک چکے ہیں

Shortclip - زندگی کا مقصد کیا ہے؟

کیا ہماری پیدائش فضول ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1844 ( Surah Al-Hadid Ayat 07 - 08 Part-2 ) ...

اوصافِ مومنانہ(۲)

 

اوصافِ مومنانہ(۲)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی خوشبو سے بہتر کوئی خوشبو نہیں اور اسکی خوشبو سارے آفاق میں مہکتی ہے اور اسکی خوشبو اس کا عمل اور (اس عمل کی توفیق پر) اس کا (اظہارِ) شکر ہے۔ (الحلیۃ، امام ابونعیم ) ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال ایسی ہے جیسے بظاہر کوئی اُجڑا ہوا گھر ہو۔ اگر تم اس میں داخل ہو جائو تو اسے بڑا آراستہ اور سنورا ہوا پائو اور فاسق کی مثال رنگین اور اونچی عمارت کی طرح دیکھنے والی کو بڑی دلکش لگے۔ مگر اسکے اندر (جھانکو تو) وہ بدبو سے پُر ہو۔ (الحلیۃ، امام ابونعیم) ٭ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت فرماتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن مومن ہوسکتا ہے اور نہ اس کا ایمان کا مل ہوسکتا ہے۔ جب تک اس میں تین خصلتیں پیدا نہ ہوجائیں۔ تحصیل علم (کا شوق اور جستجو) مصائب پر صبر اور نرمی (کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا) اور تین علامات منا فق ہی میں پائی جاسکتی ہیں۔ جب بھی بات کرے جھوٹ بولے، وعدہ تو کرے، وفا نہ کرے اور کوئی امانت اسکے سپر د کردی جائے تو اس میں خیانت کا ارتکاب کرے۔ (الحلیۃ، امام ابونعیم) ٭حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص (کامل ایمان والا) مومن نہیں ہوسکتا، جو مصیبت کو نعمت اور نرمی وآسانی کو مصیبت نہ سمجھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا! یا رسول اللہؐ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا : ہر مصیبت کے بعد نرمی اور فراخی اورہر نرمی اور فراخی کے بعد کوئی بلا ومصیبت تو آتی ہی ہے۔ (لہٰذا دونوں کے نتیجہ کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے اور مومن کی نظر آئندہ پر بھی ہوتی ہے۔ وہ صرف موجود صورت کو ہی نہیں دیکھتا) پھر ارشاد فرمایا: مومن حالت نماز میں کمال ایمان پر ہوتا ہے کیونکہ اس وقت وہ مکمل سنجیدگی اور غم میں ہوتا ہے۔ عرض کیا گیا وہ کیسے آپ نے ارشادفرمایا: اس لئے کہ بندہ حالت نماز میں اللہ سے مناجات کرتا ہے اور غیرنماز میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے محو گفتگو ہوتا ہے۔ (طبرانی) تقریباً تمام مستند کتب حدیث میں یہ روایت درج ہے۔ اس کا اقتضاء یہ ہے کہ مومن کو صاحبِ بصیرت، سمجھ دار اور بیدار مغز ہونا چاہیے۔ آج ہم سوچیں کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پے درپے غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن کسی بھی واقعہ سے نہ ہمیں عبرت حاصل ہوتی ہے اور نہ بصیرت۔ 

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے

کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ 

Darsulquran para-05 - کیا ہمارا اللہ تعالی پر یقین نہیں ہے

منگل، 21 ستمبر، 2021

Shortclip - ایمان کا ذائقہ کیسے حاصل کریں؟

مصیبت آزمائش ہے کہ عذاب؟

معلم کامل

 

 معلم کامل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا: میں تمہارے لیے باپ کی طرح ہوں۔ (جس طرح باپ اپنے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اسی طرح )میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔ تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء میں داخل ہوتو قبلہ کی طرف نہ تورخ کرے اورنہ پشت اورنہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے۔(سنن نسائی)

 حضرت معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے کسی شخص کو چھینک آئی۔ اس پر میں نے کہا: یرحمک اللہ۔ لوگوں نے میری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ میں نے کہا: اس کی ماں اسے روئے ، تمہیں کیا ہوگیا کہ تم میری طرف دیکھ رہے ہو۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کردیے ۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرانے کی کوشش کررہے ہیں تو (میں نے مزاحمت کا ارادہ کیا)لیکن پھر میں خاموش ہوگیا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز پڑھ چکے تو ، میرے ماں باپ آپ پر فداہوں، میں نے آپ سے اچھا استاد نہ آپ سے پہلے دیکھا اورنہ آپ کے بعد، جو آپ سے بہتر تعلیم دے سکے۔ خدا کی قسم ،آپ نے نہ مجھے جھڑکا ، نہ مجھے مارا پیٹا اورنہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپ نے(صرف یہ)فرمایا: اس نماز میں کوئی انسانی بات مناسب نہیں ہے۔ نماز تو تسبیح ، تکبیر اورقرآن حکیم کی تلاوت کا نام ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمارا زمانہ ، زمانہ جاہلیت سے قریب ہے اوراللہ تعالیٰ اسلام کو لے آیا ہے ۔ ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ (ہمارے لیے کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا : تم ان کے پاس نہ جایا کرو۔میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ فال لیتے ہیں۔(اس کا کیا حکم ہے ؟)فرمایا: یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا خیال ان کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے ، البتہ یہ فال انہیں کوئی کام کرنے سے باز نہ رکھے۔۔۔میں نے کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں (اس کا کیا حکم ہے؟)فرمایا: انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی لکیریں کھینچا کرتے تھے ۔جس شخص کی لکیریں ان کی لکیروں کے موافق ہوں ان کا ایسا کرنا صحیح ہے۔(صحیح مسلم)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1843 ( Surah Al-Hadid Ayat 07 - 08 Part-1 ) ...

پیر، 20 ستمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1842 ( Surah Al-Hadid Ayat 05 - 06 ) درس قرآ...

انسان کی کامیابی کیسے ممکن؟

Shortclip - ہم نور کے دائرہ میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں؟

اوصافِ مومنانہ(۱)

 

اوصافِ مومنانہ(۱)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (انھیں مومن کے اوصافِ حمید ہ سے یوں مطلع ) فرمایا: ’’اے معاذ مومن حق کے ہاتھوں اسیر ہوتا ہے ۔وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس کے کان ، نگاہ ، زبان ،ہاتھ پائوں ،شکم اور شرم گاہ پر بھی ایک نگہبان ہے۔بے شک مومن کو قرآن نے اکثر خواہشات سے روک رکھا ہے ۔ اور(وہ) اللہ کے حکم سے ازخود اپنے اور اپنی مہلک خواہشات کے درمیان رکاوٹ بن چکا ہے۔ یقینا مومن کا دل اللہ کے عذاب کی طرف مطمئن نہیں ہوتا نہ اس کا ہیجان سکون پذیر ہوتاہے، اور نہ اس کی اضطرابی کیفیت کو تسکین ملتی ہے اور وہ (مسلسل) اسی حالت میں پریشان رہتا ہے حتیٰ کہ وہ پل صراط سے پار ہوجائے ۔ اس کو صبح وشام موت کا کھٹکا لگارہتا ہے۔ پس (ایسے میں )تقویٰ اس کا ہم سفر رفیق (دم ساز) ہے۔ قرآن اس کا رہنما ہے، خوف اس کا تازیانہ ہے، شوق اس کی سواری ہے۔ تدبیر و احتیاط اس کا ساتھی ہے۔ اللہ سے ڈرنا اس کا شعار ہے۔ نماز اس کی پناہ گاہ ہے۔روزہ اس کی ڈھا ل ہے ۔ صدقہ اس کی جان کا نذرانہ ہے۔ سچائی اور راست بازی (کا شعار) اس کا امیر وفرمانروا ہے۔ (طریق)حیاء اس کا وزیر ہے اور (حقیقت تویہ ہے) کہ ان تمام باتوں کے پس پردہ اس کا پروردگار گھات لگائے ہوئے (اس کا نگران ) ہے۔ اے معاذ قیامت کے روز مومن سے اس کی تمام کاوشوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حتیٰ کہ اس کی آنکھ میں سرمہ لگانے کے متعلق بھی استفسار کیا جائے گا۔ اے معاذ میں تیرے لیے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں ،اور تجھے بھی ان چیزوں سے باز رکھنا چاہتا ہوں ۔ جن سے جبرئیل نے مجھے باز رکھا، پس قیامت کے روز میں تمہیں ایسی صورت میں نہ پائوں کہ جس کا م کی تمہیں خدا کی طرف سے توفیق ملی ہے۔ اس کی انجام دہی میں کوئی تم سے زیادہ سعادت مند ہو۔‘‘(الحلیہ ، امام ابو نعیم)حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں حضور انو رصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس دنیا میں تین قسم کے مومن ہیں۔پہلے وہ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور کبھی کسی شک وشبہ میں مبتلا نہ ہوئے، اور جنہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا ۔دوسرے وہ لوگ جن کے (حسنِ کردار کی وجہ سے دوسرے )انسان اپنے اموال اور جان کے بارے میں مطمئن ہوں۔ تیسرے وہ جن کے سامنے کوئی لالچ پیش ہو،مگر وہ اللہ رب العزت کی رضا ء کی خاطر اس کو کسی خاطر میں نہ لائیں۔ (مسند امام احمد بن حنبل )

اتوار، 19 ستمبر، 2021

ابواب ِ خیر

 

ابواب ِ خیر

حضرت عباس ابن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس( شخص )نے ایمان کاذائقہ چکھ لیا، جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد (ﷺ) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا۔ (مسلم) حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، حضور انور ﷺ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے درمیان میں تھے۔آپ نے ان سے فرمایا: مجھ سے بیعت کرو،اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے پر، چوری نہ کرنے پر، بدکاری سے اجتناب کرنے پر، اپنی اولاد کو قتل نہ کرنے پر، کسی پر خود ساختہ بہتان نہ لگانے پر، اور خیرکے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرنے پر۔(یادرکھو) تم میں جو ایفائے عہد کرے گا۔ اس کا ثواب اللہ کے ذمہ کرم پر ہے۔ اور جو ان میں سے کچھ کر بیٹھے اور دنیا میں اس کی سزا پالے تو وہ سزا کفارہ ہے، اور جو ان میں کچھ کر بیٹھے اور اللہ اس کی پردہ پوشی کرے(یعنی اس کا گناہ چھپارہے اور کسی پر عیاں نہ ہو) تو وہ اللہ کے سپرد ہے۔ چاہے تو وہ اسے معافی عطاکرے اور چاہے تو اسکی پاداش میں اسکی گرفت کرے،  لہٰذا ہم سب نے (اس فرمان پر اور ان شرائط پر)آپ سے بیعت (کی سعادت حاصل ) کرلی ۔ (بخاری، مسلم) حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) مجھے ایسے کام سے مطلع فرمادیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے اور جہنم سے دور کردے۔ ارشادفرمایا: تم نے مجھ سے ایک ’’امرِ عظیم ‘‘ کے بارے میں سوال کیا، ہاں ! اللہ جس پر اسے سہل کردے اس کیلئے آسان (بھی )ہے۔ (سنو) اللہ کی پرستش کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو۔ نماز قائم کرو ،زکوٰۃ دو ،رمضان کے روزے رکھو، حج بیت اللہ کرو، پھر فرمایا : کیا میں تم کو خیر کے دروازے نہ بتا دوں،(سنو) روزہ ڈھال ہے۔ خیرات گناہوں کو ایسا سرد کرتی ہے جسے پانی آگ کو، نصف شب کو اٹھ کر انسان کا نماز پڑھنا (بھی خیر ہے) پھر آپ نے آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ’’انکے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں‘‘۔اسکے بعد ارشاد فرمایا: میں تمہیں ساری چیزوں کا راس الامر ، ستون اورکوھان کی بلند ی نہ بتادوں میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ضرور، فرمایا: تمام چیزوں کا راس (سر)اسلام ہے۔ اس کا ستون نماز اور کوھان کی بلند ی جہاد ہے۔ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں ان سب کی اصل نہ بتادوں میں نے عرض کیا :ضرور ، حضور نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: کہ اسے قابو میں رکھو، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ کیازبانی کلامی گفتگو پر بھی ہمار ی گرفت ہوگی ۔ فرمایا: اے معاذ تمہاری ماں تمہیں روئے (محاورئہ عرب)یہ زبانوں کی غارت ہی لوگوں کواوندھے منہ آگ میں گراتی ہے ۔(ترمذی ،ابن ماجہ، احمد )

Darsulquran Para-05 - کیا ہم مومن کہلانے کے مستحق ہیں

Shortclip - اپنے دل کو نورانی کیسے بنائیں؟

کیا بندگیِ رب ضروری ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1841 ( Surah Al-Hadid Ayat 02 - 04 ) درس قرآ...

ہفتہ، 18 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے سے عملا انکاری ہیں

Shortclip-انسان نورالٰہی کیسے حاصل کرسکتا ہے؟

شیخ سے محبت کیوں؟

آدابِ مجلس

 

آدابِ مجلس

٭حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (پہلے سے) بیٹھے ہوئے دوآدمیوں کے درمیان جدائی ڈالنا (یعنی ان کے درمیان میں گھس کر بیٹھ جانا)جائز نہیں (ہوسکتا ہے وہ آپس میں کوئی ضروری بات کر رہے ہوں ، اور کسی معاملے میں کسی تیسرے کی مداخلت پسند نہ کرتے ہوں ) ہاں اگر وہ وہاں بیٹھنے کی اجازت دے دیں تو جائز ہے ۔(ابو دائود ) 

٭حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا: جب تین افراد کسی جگہ ہوں تو ان میں سے دوافراد (تیسرے کونظر اند از کرکے) آپس میں سرگوشیاں نہ کریں تاکہ وہ تیسر ا فرد رنجید ہ نہ ہو ۔ البتہ اگر مجلس میں زیادہ افراد ہوں تو (کسی دو کا آپس میں گفتگو کر لینے میں ) کوئی مضائفہ نہیں ۔(مسلم)

٭حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جس نے جمعہ کے دن (اجتماع میں ) لوگوں کی گردنوں کو پھلانگا وہ جہنمیوں کے لیے پل بنا دیا گیا۔(ترمذی )

٭حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو متفرق ومنتشر بیٹھا ہواپا تا ہوں (ابودائود) (یعنی ہر شخص کا الگ الگ اپنی اپنی دھن میں محو ہوکر بیٹھنا مناسب نہیں ، مسلمانوں کو آپس میں قریب ہوکر بیٹھنا چاہیے اور مفید گفتگو کرنی چاہیے تاآنکہ کسی محفل کا صدرنشین آجائے یا باقاعدہ کاروائی شروع ہوجائے)

٭حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جب کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ جاتا رہے اور اسکے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ سایہ میں ہو تو اس شخص کو وہاں سے اُٹھ جانا چاہیے۔(ابو دائود ) 

٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بازاروں میں بیٹھنے سے اجتناب کرو، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہاں بیٹھے بغیر تو چارہ کار نہیں ، ہم وہاں (کاروباری ) معاملات طے کرتے ہیں ۔ آپ نے ارشادفرمایا اگر تمہیں وہاں بیٹھنا ہی ہے تو پھر گزر گاہ کا حق ادا کرو ۔صحابہ کرام نے استفسار کیا ،یا رسول اللہ گزر گاہ کا حق کیا ہے۔ آپ نے ارشادفرمایا: نظر جھکا کر رکھنا ، کسی دوسرے کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا ، بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔ (بخاری)


Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1840 ( Surah Al-Hadid Ayat 01 - 04 Part-2 ) ...

Darsulquran Para-05 - کیا ہم اپنے ایمان لانے کے بارے میں سچے ہیں

shortclip - ہم نورالٰہی سے کیسے مستفیض ہوسکتے ہیں؟

جمعہ، 17 ستمبر، 2021

ہمارا رہنما کون ہونا چاہیے؟

برکاتِ ایمان

 

برکاتِ ایمان

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ قیامت کے دن میری امت کے ایک فرد کو تمام مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا۔ پھر اس کے اعمال ناموں کے ننانوے دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے۔ ہر دفتر انتہائے نظر تک پھیلا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس شخص سے استفسار فرمائیں گے۔ کیا تو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے۔ وہ عرض کرے گا، اے میرے رب نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے پھر فرمائیں گے۔ شاید اعمال نامہ لکھنے والے فرشتوں نے کچھ ظلم کردیا ہو،وہ عرض کر ے گا: اے میر ے پاک پروردگار ایسا بھی نہیں ہوا ۔ اللہ رب العزت فرمائیں گے کیا تیر ے پاس (ان نامہ ہائے اعمال میں موجود لغزشوں کا )کوئی عذر موجود ہے۔ وہ آدمی خوف زدہ ہوکر عرض کر ے گا، اے میر ے مالک میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائیں گے ،لیکن ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے اور آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا،پھر کاغذ کا ایک پرزہ نکالا جائے گا۔ جس پر اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد ا عبد ہ ٗ ورسولہ ٗ درج ہوگا۔ اللہ رب العزت ارشاد فرمائیں گے(یہ تیری اخلاص سے پڑھی ہوئی شہادت ہے)۔ جا اور اس کا وزن بھی کروالے۔ بندہ عرض کرے گا۔ پروردگار اتنے عظیم دفتر وں کے مقابلے میں یہ اتنا سا پرزہ کیا کرے گا۔ کہا جائے گا، آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ اور پھر تما م دفتروں کو ایک پلڑے میں اور اس کاغذ کے پرزے کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔پھر کاغذ کا وہ پرزہ اس قدر وزنی ہوجائے گاکہ اس کا پلڑا جھک جائے گا۔دوسرے دفتروں والا پلڑا بلند ہوجائے گا۔ (بخاری ، احمد ، مستدرک)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )اسلام کے دس حصے ہیں ،اور خائب وخاسر ہو۔ وہ شخص جس کے پاس کوئی حصہ نہیں ۔پہلا :۔ لاالہ الا اللہ کی شہادت ہے۔ دوسرا :۔ نماز اور وہ پاکیزگی ہے۔ تیسرا:۔ زکوٰۃ ہے اور وہ فطرت ہے۔ چوتھا:۔ روزہ ہے اور وہ جہنم سے ڈھال ہے۔ پانچواں :۔ حج ہے ، اوروہ شریعت ہے ۔ چھٹا :۔ جہاد ہے اور وہ غزوہ (اظہار دین ) ہے ۔ ساتواں :۔ امربالمعروف (نیکی کی تلقین ) ہے اوروہ وفاداری ہے۔ آٹھواں :۔نہی عن المنکر (برائی سے منع کرنا )اور وہ حجّت ہے۔ نواں:۔ جماعت ہے اور وہ الفت ہے۔دسواں :۔ اطاعت ہے اور وہ حفاظت ہے۔(ابونعیم)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1839 ( Surah Al-Hadid Ayat 01 - 04 Part-1 ) ...

Darsulquran Para-05 - کیا اللہ تعالی ہماری تمام باتوں کو سن رہا ہے ہمارے...

جمعرات، 16 ستمبر، 2021

ہم کسی کو دین میں رہنما کیوں بنائیں؟

کلمہ طیبہ کی حرمت

 

کلمہ طیبہ کی حرمت

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں ،جناب رسول اللہ ﷺنے مشرکین کے مقابلے کیلئے ایک لشکر روانہ فرمایا: میں بھی اس میں شریک تھا۔ اس معرکے میں بڑی شدت کی خون ریزی ہوئی ۔ جنگ کے دوران ایک مسلمان سپاہی ایک مشرک پر حملہ آور ہوا، وہ مشرک اسکی گرفت میں آگیا۔ مشرک نے فورا بآواز بلند کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ پڑھا اور پکارا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوںلیکن اس مسلمان نے اپنے وار جاری رکھے اور بالآخر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بعدمیں وہ شخص حضوراکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور سارا ماجرا بیان کیا۔آپ نے سارا واقعہ سن کر ارشاد فرمایا : تم نے کیوں نہیں اس کاشکم چاک کرکے دیکھ لیا کہ وہ سچے دل سے کلمہ پڑھ رہا ہے؟ (یا جھوٹ بول رہاہے یعنی شدید اظہارِناگواری فرمایا )جب تم کو اس کے دل کا (صحیح) حال معلوم نہ تھا تو کیوں تم نے اس کی زبان پر اعتبار نہیں کیا؟آپ نے دوتین مرتبہ اس طرح ارشادفرمایا ، پھر آپ نے سکوت فرمالیا(اس شخص نے اپنے اس عمل پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا اور سچے دل سے توبہ نہیں کی، جناب رسالت مآب ﷺ کے باربار اظہارِناگواری کے بعد اس پر یہ باتیں ضروری تھیں۔ یقینا اسکے دل میں نفاق تھاورنہ صحابہ کرام توحضور اکر م ﷺکے اشارہ ابرو کو بھی سمجھ جاتے تھے اور انھیں کسی بھی معاملے میں آپکی ناراضگی کا شائبہ بھی ہوتا تو وہ بے چین ہوجاتے تھے اور اسکے ازالے کی بھر پور کوشش کیا کرتے تھے۔)(راوی کہتے ہیں)کچھ عرصہ بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔ ہم نے اسے سپردِ خاک کردیا۔ مگر اگلے دن ہمیں خبر ملی کہ اس شخص کی نعش زمین سے باہر پڑی ہے۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید کسی دشمن نے اپنی عداوت کی وجہ سے ایسے حرکت کا ارتکاب کیا ہے۔ ہم نے اسے دوبارہ دفن کردیا۔ اور اپنے غلاموں کو اس کی قبر کی نگرانی پر مامور کردیا تاکہ دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ لیکن اگلے روز پھر اسی طرح ہوا، اور اس کی نعش زمین سے باہر پائی گئی۔ ہم نے سوچا کہ شاید نگرانوں کی آنکھ لگ گئی ہوگی اور کسی نے ان کی غفلت سے فائد ہ اٹھا کر دوبارہ اپنا انتقام پورا کیا۔ لہٰذا ہم نے اسے پھر دفن کردیا اور اس بار غلاموں کیساتھ ساتھ خود بھی نگرانی کرتے رہے مگر جب سپیدئہ سحر نمودار ہوا تو اسکی نعش کو دوبارہ زمین سے باہرپایا گیا۔ اب ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ قدرت کی طرف سے ہے۔ یہ لاالہ الا اللہ کے ایک قائل کو قتل کرنے کی پاداش میں ہے۔ ہم نے یہ واقعہ جناب رسالت مآب ﷺکے گوش گزار کیا توآپ نے ارشاد فرمایا : زمین تو اس سے بدتر کو بھی قبول کرلیتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی منشاء یہ ہے کہ لاالہ الااللہ کی عظمت وحرمت عیاں ہو۔(سنن ابن ماجہ،کنزالعمال )

بدھ، 15 ستمبر، 2021

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1837 ( Surah Al-Waqia Ayat 82 - 75 Part-2 ) ...

کیا انسان کو مرشد کی ضرورت ہے؟

فلاح کا راستہ

 

فلاح کا راستہ

حضرت طلحہ بن عبید اللہ فرماتے ہیں : علاقہ نجد کا رہنے والا ایک شخص جس کے بال پر اگندہ تھے۔ جناب رسول اللہ ﷺکی طرف آیا،وہ کچھ کہہ رہا تھا کہ ہم اس کی بھنبھنا ہٹ تو سن رہے تھے ۔مگر اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ جب وہ بالکل قریب آگیا تو ہم نے سناکہ وہ سوال کر رہا ہے کہ مجھے اسلام کے ان خاص احکام سے مطلع فرمائیے ۔جن پر عمل کر نا بحیثیت مسلمان میرے لیے اور سب کیلئے ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا : پانچ تو نمازیں ہیں دن اور رات میں ، اس نے عرض کیا کہ انکے علاوہ کوئی اور نماز بھی میرے لیے ضروری ہوگی؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، البتہ تم اپنی خوشی سے جتنے نوافل چاہو اداکرو۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا : ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں ۔اس نے عرض کیا ،کیا رمضان کے علاوہ کوئی روزہ بھی میرے لیے لازم ہے۔ آپ نے فرمایا : نہیں ،لیکن تم نفلی روزے رکھ سکتے ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے اس شخص کوفریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے روشناس کروایا۔ اس نے پوچھا :کیا زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ بھی اداکر نا ضروری ہے۔ آپ نے ارشادفرمایا : نہیں ،مگر تم اپنے دل کی خوشی سے اللہ کی راہ میں نفلی صدقہ دے سکتے ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ جنابِ رسالت مآب ﷺنے اس شخص کو شریعت اسلامیہ کے احکام بتائے(یعنی تمام بنیادی باتوں سے باخبر کیا)۔اسکے بعد وہ شخص لوٹ گیا اور وہ کہتا جارہا تھا کہ مجھے رسول اللہ ﷺنے جو بتایا میں اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کروں گا۔رسول اللہ ﷺ نے اسکی بات سن کر فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو اس نے فلاح (دونوں جہانوں کی کامیابی ) پالی ۔ (بخاری، مسلم)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺایک سفر میں تھے کہ ایک بدوی سامنے آکھڑا ہوا اور بڑی بے تکلفی سے آپکی اونٹی کی مہار پکڑ لی،اور کہا : اے اللہ کے رسول مجھے وہ بات بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور جہنم سے دور کردے۔ حضور اکرم ﷺ ٹھہر گئے۔ آپنے اپنے رفقاء کی طرف دیکھا فرمایا :اس شخص کو اچھی (بات پوچھنے کی ) توفیق ملی پھر آپ نے اس سائل سے فرمایا : ذرا پھر سے کہنا تم نے کیا کہا ،اس نے اپنا سوال دہرادیا۔ (مجھے وہ بات تلقین فرمائیے جو جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے)حضور نے ارشاد فرمایا : اللہ کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائو ۔ نماز قائم کرتے رہو۔ زکوٰۃ اداکرتے رہواور صلہ رحمی کرو(یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو،اور ان کے حقوق اداکرو)۔یہ بات ختم فر ما کر حضور نے اس اعرابی سے (بڑی خوش طبعی سے ) فرمایا : (بھئی) اب ہماری اونٹی کی مہار چھوڑدو۔(مسلم)

منگل، 14 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا زندگی اللہ تعالی کی امانت ہے

ابتلا وآزمائش ضروری ہے؟

Shortclip - پریشانیوں سے جھٹکارا کیسے؟

ایمان کا ثمرہ

 

ایمان کا ثمرہ 

غزوہ تبوک سے واپسی کے ایّا م میں لشکر اسلام میں خوراک کا سامان ختم ہوگیااور لوگوں کو بھوک ستانے لگی ۔ رسول اللہ ﷺکی خدمت عالیہ میں ایک تجویز پیش کی گئی کہ اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو ہم پانی لانے والے اونٹوں کو ذبح کرلیں۔ ان سے خوراک کا سامان بھی بہم پہنچا ئیں اور روغن بھی حاصل کر یں۔ (اسباب ظاہر کے اعتبار سے اس وقت یہی ممکنہ حل تھا۔لہٰذا نبی کریم ﷺنے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور اس تجویز پر صاد کیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس مشاورت کی خبر ہوئی۔ وہ جنابِ رسالت مآب ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور (بصدادب) گزارش کی،یا رسول اللہ ! اگر ایسا کیا گیا (یعنی اونٹ ذبح کر دیے گئے ) تو سواریاں کم ہوجائیں گی اور اس طویل اور دشوار گزار سفر میں ہمیں بڑی دقّت ودشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ( تو پھر اس کا حل آپ کے خیال میں کیا ہے) انھوں نے اس موقع پر ایک ایسی تجویز پیش کی جس کا تعلق اسبا بِ ظاہر ی کے ساتھ بالکل نہیں تھا بلکہ ایک صاحبِ الہام ’’محدَّ ث ‘‘ کی باطنی بصیرت سے تھا۔ انھوں نے عرض کیا ۔ آپ لوگوں کو ان کے بچے کچھے سامانِ خوراک کے ساتھ بلا لیجئے ۔وہ اسے ایک جگہ جمع کردیں۔ آپ اللہ رب العزت سے اس سامان میں برکت کی دعا فرمائیے ۔اللہ کریم کے بے پایاں کرم سے امیدِ واثق ہے کہ وہ ضرور مہربانی فرمائے گا (اور اپنے حبیب کے دستِ دعا کو سرفراز فرمائے گا)۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپ نے چمڑے کا بڑا دستر خوان طلب فرمایا ، اسے بچھا دیا گیا ۔ پھر آپ نے لوگوں کا بچھا کچھا سامانِ خوردنوش طلب فرمایا ،یہ سن کر کوئی آدمی ایک مٹھی بھر چنے لئے آرہا ہے ، کوئی مٹھی بھر کجھوریں،تو کوئی روٹی کا ایک ٹکڑاہی لئے چلا آرہا ہے۔ حتیٰ کہ دستراخوان پر تھوڑی سی مقدار میں یہ چیزیں جمع ہوگئیں ۔ اب رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی ۔اس کے بعد فرمایا: اب تم سب اپنے اپنے برتنوں کو بھر لو چنا نچہ سب نے اپنے اپنے برتنوں کو بھرنا شروع کردیا ۔حتیٰ کہ قریباً ۳ ہزار کے اس لشکر میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہا ،جس کے تمام برتن خوراک سے لبریز نہ ہوگئے۔ راوی (حضرت ابوہریرہ ،حضرت ابو سعید خدری)کہتے ہیں کہ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا اور پھر بھی بہت سی خوراک فاضل بچ گئی ۔ اس پر حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور کوئی بندہ ایسا نہیں جو کامل یقین سے ان دوشہادتوں کے ساتھ اللہ کے سامنے جائے، اور پھر وہ جنت میں جانے سے روک دیا جائے (یعنی اسے ضرور داخلِ جنت کیا جائیگا)۔(مسلم شریف)

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1836 ( Surah Al-Waqia Ayat 75 - 81 Part-1 ) ...

Darsulquran Para-05 - کیا ہم نے اللہ تعالی کی امانت اس کو واپس لوٹا دی ہے

پیر، 13 ستمبر، 2021

Shortclip - کیا ہم ظاہر دنیا کے دھوکے میں آگئے ہیں؟

اصل کامیابی کیا ہے؟

بد گمانی سے بچو

 

بد گمانی سے بچو

صحابہ کرام حضور اکرم ﷺکی ذات والا تبار سے محبت کرتے تھے اور آپکی اطاعت کیلئے کوشاں رہتے تھے ۔ آپکے وجودِ مسعود کو اپنے لیے خیرات وبرکات کا سبب سمجھتے تھے۔ آنجناب بھی انکے جذبہ ء محبت واطاعت کی قدر دانی فرمایا کرتے تھے لیکن اسکے ساتھ آپ انکی تعلیم وتربیت کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں فرماتے تھے۔ ذیل میں شیخین (امام بخاری وامام مسلم) کا روایت کردہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے ۔عتبان بن مالک الانصاری (جو بدری صحابہ کرام میں سے ہیں ) حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ۔ میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں،لیکن اب میری بینائی کمزور ہوگئی ہے، جب بارش ہوتی ہے تو میں مسجد تک نہیں جا سکتا کیونکہ میرے گھر اور اسکے درمیان ایک نالہ حائل ہے جو بہنے لگتا ہے۔ یا رسول اللہ ! میری آرزو ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کواپنی مستقل نماز گاہ بنالوں ۔ حضور اکرم ﷺنے فرمایا : انشاء اللہ تعالیٰ میں ایسا کرونگا۔ عتبان فرماتے ہیں، کہ دوسرے دن صبح کو جب ابھی کچھ دن چڑھا تھا،جنا ب رسول کریم اور حضرت ابوبکر صدیق میرے یہاں تشریف لے آئے اور آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی ،میں نے آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ اندر تشریف لائے توبیٹھے نہیں،بلکہ مجھ سے فرمایا: تم نے اپنے گھر کی کون سی جگہ منتخب کی ہے کہ میں وہاں نماز اداکروں ۔ میں نے ایک جانب نشاندہی کی ،آپ وہاں کھڑے ہوئے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کردی ہم بھی آپکے پیچھے صف باند ھ کر کھڑے ہوگئے ۔ آپ نے دورکعتیں ادا فرمائیں اور سلام پھیردیا۔  ہم نے آپکو ضیافت کیلئے روک لیا۔ آپکی اطلاع پاکر محلہ والوں میں سے بھی چند افراد جمع ہوگئے، انہی میں سے کسی نے کہا۔ مالک ابن دخشن کہاں ہے؟ انہی میں سے کسی نے تبصرہ کردیا۔’’وہ تو منافق ہے،اسے اللہ اور اسکے رسول سے کوئی محبت نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایسا مت کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہے۔ اور اس سے وہ اللہ کی رضاء ہی چاہتا ہے ۔ اس شخص نے کہا : اللہ اور اسکے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ اسکی خیر خواہی منافقو ں کی طرف ہے۔ آپ نے ارشا د فرمایا : یقینا اللہ عزوجل نے دوزخ کی آگ پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جس نے اخلاص کیساتھ لا الہ الا اللہ کہا ہو اور اس کا ارادہ اس کلمہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا مند ی حاصل کر نا ہی ہو‘‘۔مالک ابن دخشن بھی بدری صحابی ہیں۔ کچھ معروضی معاملات کی وجہ سے انھیں ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہوگی جنہیں دوسرے مسلمان اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے ۔ اُنکی نیت یہ ہوگی کہ وہ اپنے حسنِ معاملات سے اُنکے دل اسلام کی طرف مائل کریں ۔رسو ل اللہ نے انکے اخلاص کے پیش نظر انکے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا ۔

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1835 ( Surah Al-Waqia Ayat 74 ) درس قرآن سُو...

اتوار، 12 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم جنت میں جائیں گے

زندگی میں کامیابی کیسے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1834 ( Surah Al-Waqia Ayat 71 - 73 ) درس قرآ...

ارکانِ اسلام اور جنت

 

ارکانِ اسلام اور جنت 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمیں ممانعت کردی گئی کہ ہم نبی کریم ﷺسے سوال پوچھیں ۔ ایسے میں ہم منتظر رہتے تھے کہ کوئی سمجھ دار بادیہ نشین دیہاتی حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہو اور سوال پوچھے اور ہم سنیں انھیں ایاّم میں ایک بدوی حاضر خدمت ہوا اور آپکی بارگاہ میں عرض کیا۔ میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں ،مگر اثنائے سوال میرا رویہ سخت ہو تو آپ محسوس نہ فرمائیں۔حضور نے فرمایا: جو تمہارے جی میں آئے پوچھو۔اس نے پوچھا:اے محمد(ﷺ )! آپ کا قاصد ہمارے پاس پہنچا تھا۔ اس نے ہم سے بیان کیا کہ آپ کا یہ کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ حضور نے فرمایا : اس نے تم سے ٹھیک کہا۔بدوی نے پوچھا: تو بتائے کہ یہ آسمان کس نے بنایا ؟آپ نے فرمایا : اللہ نے ،اس نے کہا: زمین کس نے بنائی ؟ فرمایا : اللہ نے، اس نے کہا : زمین پر یہ پہاڑ کس نے ایستادہ کیے اور ان پہاڑوں میں جو کچھ ہے اسے کس نے خلق کیا؟ارشاد ہوا: اللہ نے، اس(بدوی)نے کہا،سو!قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بنایا، زمین بنائی اور اس پر پہاڑ نصب کیے کیا اللہ ہی نے آپکو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا : بے شک مجھے اللہ ہی نے بھیجا ہے۔ اس نے کہا:آپکے اُس قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا تھا کہ ہم پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں ۔آپ نے فرمایا : درست ہے،بدوی نے کہا : آپکو بھیجنے والے کی قسم کیا اللہ نے ہی آپ کو یہ حکم دیا ہے ۔ ارشاد ہوا: ہاں! یہ اسی کا حکم ہے۔ اس نے کہا : آپ کے قاصد نے بیان کیا ہے کہ ہمارے مالوں میں زکوٰۃ مقرر کی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ بھی درست ہے۔ اعرابی نے کہا:قسم آپکو بھیجنے والے کی ، یہ بھی اللہ کا حکم ہے؟ارشاد ہوا:ہاں! (پھر اسی طرح ماہ رمضان کے بارے میں سوال وجواب ہوئے) اسکے بعد اس اعرابی نے کہا: آپ کے قاصد نے ہم سے یہ بھی بیان کیا کہ ہم میں سے جو بھی مکہ پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ۔ آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا۔ (اور یہ بھی اللہ کا حکم ہے) یہ سوال وجواب ختم کرکے وہ اعرابی چل دیا اور چلتے ہوئے اس نے کہا میر ا نام ضمام بن ثعلبہ ہے ۔ میں قبیلہ سعد بن بکر کا ایک فرد ہوں اور میں اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ بن کرآیا ہوں ۔ اس ذات کی قسم ،جس نے آپکو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ میں ان (تعلیمات کے ابلاغ میں اور ان کی ادائیگی میں )نہ کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی ۔ رسول اکر م ﷺنے ارشادفرمایا:اگر یہ سچا ہے تو ضرور جنت میں جائیگا۔(بخاری ومسلم)

قبولِ اسلام کے بعد حضرت ضمام بن ثعلبہ نے اپنی قوم میں پہنچ کر بڑی تند ہی اور سرگرمی سے اسلام کی تبلیغ کی انکے بعض رشتہ داروں نے انھیں ڈرایا کہ دیوتائوں کی مخالفت کی وجہ سے کہیں تم برص ،کوڑھ جنون میں مبتلا نہ ہوجائو ۔ لیکن وہ ڈٹے رہے اور جلد ہی سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔

جو نہ تھے خود راہ پر اُوروں کے ہادی بن گئے

اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا

Shortclip - انسان نور کو کیسے حاصل کرسکتا ہے؟

Darsulquran para-05 - اس وقت کیا ہم اللہ تعالی کی لعنت میں گرفتار ہیں

ہفتہ، 11 ستمبر، 2021

Shortclip - انسان کو نور کی کیا ضرورت ہے؟

اطاعتِ الٰہی کیوں؟

دائمی مسرت

 

دائمی مسرت

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کی ناک خاک آلود ہ ہو، اس کی ناک خاک آلودہ ہو، اس کی ناک خاک آلودہ ہو، پوچھا: کس کی ؟ یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا : جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کا بڑھاپاپایا ، اس کے باوجود جنت میں داخل نہیں ہوا۔(مسلم)

 حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے اوراللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔(ترمذی ، ابن حبان ، حاکم ، طبرانی)

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرے اس کے لیے طوبیٰ (جنت کا ایک سایا دار درخت )ہے ، اوراللہ تعالیٰ اس کی زندگی دراز کرتا ہے۔(طبرانی )

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ایک شخص حاضرہوا اورکہا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم )! میں نے بہت بڑا گناہ کرلیا ہے ، کیا اس کی کوئی توبہ ہے؟ آپ نے فرمایا : کیا تمہاری ماں ہے؟ اس نے کہا : نہیں ، فرمایا : کیا تمہاری خالہ ہے؟ اس نے کہا : ہاں ! فرمایا : اس کے ساتھ نیکی کرو۔(ترمذی ، ابن حبان ، حاکم)

 حضرت عمر بن مرہ جہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اوراس نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اوربے شک آپ اللہ کے رسول ہیں اورپانچ نمازیں پڑھتا ہوں، اپنے مال کی زکوٰۃ دیتا ہوں، رمضان کے روزے رکھتا ہوں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اس عمل پر فوت ہوگیا ، وہ قیامت کے دن نبیوں ، صدیقوں اورشہداء کی رفاقت میں ہوگا، پھر آپ نے دونوں انگلیاں کھڑی کرکے فرمایا : بشرطیکہ اس نے ماں باپ کی نافرمانی نہ کی ہو۔(احمد، طبرانی)

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پانچ سو میل کی مسافت سے جنت کی خو شبو آئے گی،اپنے کام کا احسان جتانے والے کو ،ماں باپ کے نافرمان کواور عادی شرابی کو یہ خوشبو نصیب نہیں ہو گی۔(طبرانی)


جمعہ، 10 ستمبر، 2021

Darsulquran para-05 - کیا ہمارا اللہ تعالی پر ایمان نہیں ہے

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کیوں؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1832 ( Surah Al-Waqia Ayat 63 - 67 ) درس قرآ...

احادیثِ ایمان

 

احادیثِ ایمان 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری ومسلم) ٭ حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس میں تین خصلتیں ہوں‘ وہ ایمان کی لذّت (وحلاوت) کو پالے گا۔ اللہ اور اس کا رسول اسے تمام ماسواء سے زیادہ پیارے ہوں‘ جو (کسی) بندے سے صرف (اور صرف) اللہ ہی کیلئے محبت کر ے اور یہ کہ کفر کی طرف لوٹ کر جانا (جبکہ اللہ نے اسے کفر سے نکال لیا ہے) اسے ایسا ہی ناپسند ہو جیسا کہ آگ میں ڈالا جانا۔ (بخاری ومسلم)
 ٭حضرت سفیان ابن عبداللہ ثقفی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ مجھے اسلام کے متعلق ایسی بات بتا دیجئے کہ آپ کے بعد اسکے متعلق کسی سے نہ پوچھوں (دوسری روایت میں ہے کہ آپ کے سواکسی سے نہ پوچھوں) ارشادہوا: کہو، میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر استقامت اختیارکرو۔ (مسلم) ٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دیہات کا رہنے والا ایک شخص حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے ایک ایسے کام کی ہدایت کیجئے کہ اس کو بجا لانے کے بعد میں جنتی ہوجائوں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو، نماز قائم کرو، عائد کردہ زکوٰۃ اداکرو اور رمضان کے روزے رکھو وہ کہنے لگا۔ قسم (اس رب) کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ میں اس ہدایت میں کبھی کوئی کمی بیش نہ کروں گا۔ جب وہ (اجازت لے کر ) واپس چل دیئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو (کسی ) جنتی مرد کو دیکھنا چاہے وہ اسے دیکھ لے۔ (بخاری، مسلم) ٭حضرت معاذبن جبل فرماتے ہیں‘ میں ایک دراز گوش پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اس طرح سوار تھا کہ میرے اور آپؐ کے درمیان پالان کی لکڑی کے سوا کچھ نہ تھا۔ آپ نے پوچھا معاذکیا جانتے ہو۔ اللہ کا حق اپنے بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے۔ عرض کیا: اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جا نتے ہیں۔ فرمایا: اللہ کا حق تو بندوں پر یہ ہے کہ اسکی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے وہ ایسے بندے کو بخش دے۔ میں نے عرض کیا میں سب لوگوں کو یہ بشارت دے دوں؟ فرمایا: نہیں ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کرینگے۔ (بخاری، مسلم) 

Shortclip - کیا انسان نور کا محتاج پیدا ہوتا ہے؟

جمعرات، 9 ستمبر، 2021

Darsulquran para-05 - کیا ہم عملی طور پر شرک میں مبتلا ہیں

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1831 ( Surah Al-Waqia Ayat 60 - 62 ) درس قرآ...

اَدب کیسے؟

آثارِ قیامت (حدیثِ جبریل ۵)

 

آثارِ قیامت (حدیثِ جبریل ۵)

حدیثِ جبریل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وقوع قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا توآنجناب نے ارشادفرمایا :’’اس بارے میں جواب دینے والا سوال کرنیوالے سے زیادہ نہیں جانتا ‘‘۔قیامت کے متعین دن کااظہار قرآن وحدیث میں نہیں ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :’’تم پرقیامت اچانک ہی آئیگی ۔(اعراف ۱۸۷)اس کا اچانک آنا ہی مشیت ایزدی ہے۔عقل سلیم کے حوالے سے بھی اس پر غور وفکر کیا جائے تو یہی بات حکمت بالغہ کے مطابق دکھائی دیتی ہے کہ انسان کو ہمیشہ موت اور قیامت کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اپنے ایمان و عقیدہ اورکردار وعمل کو ہر وقت آراستہ رکھنا چاہیے۔ توبہ کو اپنا مستقل شعار بنانا چاہیے۔ کیا خبر کہ امرِ الہٰی کس وقت نافذالعمل ہوجائے اور اسے اپنے خالق و مالک کے سامنے اپنا نامہء اعمال لے کر پیش ہونا پڑے ۔قیامت کے بارے میں استفسار کے بعد سائل نے آنجناب کی خدمت میں گزارش کی کہ پھر قیامت کی کچھ علامات کے بارے میں نشاندہی کردی جائے ۔ اسکے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر دو خاص نشانیوں کا ذکر فرمادیا ۔ ایک یہ کہ باندی اپنی مالکہ اور آقا کو جنم دے گی،دوسری یہ کہ مفلس ونادارننگے ، بھوکے لوگ اوربکریوں کو چرانے والے بڑی بڑی شان دار عمارتیں بنوائیں گے‘‘۔پہلی بات کی اکثر شارحینِ حدیثِ نے یہ تشریح کی ہے کہ قیامت کے نزدیک ماں باپ کی نافرمانی بلکہ توہین بہت عام ہوجائے گی ۔ حتٰی کہ بیٹیاں جو صنف نازک سے تعلق رکھتی ہیں اورجن کی سرشت ہی میں اطاعت ، محبت اور والدین سے وابستگی کا جذبہ ہوتاہے۔وہ سرکش و بدتہذیب ہوجائینگے نہ صرف یہ کہ ان کے احکام کی نافرمانی کرینگے بلکہ الٹا ان پر اپنا حکم چلائیں گی۔ جس طرح کہ مالکہ اپنی ملازمہ یا باندی پر حکم چلاتی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا کے ماحول اور ہر معاشرے میں یہ کیفیت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ 
برہنہ تن، برہنہ پا چرواہوں کے ہاتھ دولت کا لگ جانا اور مفاخرت کیلئے ان کا بلند وبالا عمارتیں بنانا فراوانی دولت کی پیش گوئی بھی ہے ، دولت کے بے مقصد خرچ اور بدترین اسراف کی طرف نشاندہی بھی اور اس امر کی طر ف بھی کہ قربِ قیامت میں اختیار ،اقتدار اور وسائل پر نااہل لوگوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ دولت جب کم ظر ف کے ہاتھ میں آجائے تو اس سے حرص بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی ۔حسد کی بیماری عام ہوجاتی ہے عدل معاشرے سے مفقود ہونے لگتا ہے اور مریضانہ، قسم کی مسایقت شروع ہوجاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال بلاغت سے ان علامتوں کے ذیل میں درآنی والی ہزار ہا خرابیوں کی نشاندہی فرمادی ۔

Shortclip - کیا انسان مردہ پیدا ہوا ہے؟

بدھ، 8 ستمبر، 2021

Darsulquran Para-05 - کیا ہم سیدھے راستے سے بھٹک چکے ہیں

اَدب کیوں؟

Shortclip - ہماری اصل کامیابی کیا ہے؟

Dars-e-Quran Urdu. Dars No 1830 ( Surah Al-Waqia Ayat 58 - 59 ) درس قرآ...

پسندیدہ عمل

 

پسندیدہ عمل

 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز کو وقت پر پڑھنا ، میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل ؟ فرمایا : ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا۔ (بخاری ، مسلم)

 حضرت معاویہ بن جاھمہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت جاھمہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورکہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے جہاد کا ارادہ کیا ہے ، میں آپ کے پاس مشورہ کے لیے آیا ہوں، آپ نے فرمایا : کیا تمہاری ماں (زندہ )ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ وابستہ رہو، کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(ابن ماجہ ، نسائی )

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اورحضرت عمر اس کو ناپسند کرتے تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا : اس کو طلاق دے دو، میں نے انکار کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو طلاق دے دو۔ (ابودائود ، ترمذی ، نسائی )

 اس حدیث پاک میں جہاں والدین کی فرمانبرداری کا پہلو ہے اوراس پر تاکید ہے، وہاں یہ امر بھی مدنظر رہے کہ حضرت امیر المومنین عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مردم شناسی میں ایک خاص ملکہ رکھتے تھے اگر انھیں اس خاتون کے انتخاب پر اتفاق نہیں تھا تو اس کی کچھ دیگر وجوہات ضرور ہوں گی اوروہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ معاملہ مزاجوں کے تفاوت وغیرہ کی وجہ سے ممکن ہے کسی ناگوار صورت حال کا باعث بنے ۔یہ حکم گویا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اورمعاملہ فہمی پر اعتماد کا اظہار ہے ، اس زمانے میں نکاح اورطلاق کے معاملات بہت سادگی سے انجام پایا کرتے تھے ، معاشرے میں بیوہ اورمطلقہ کی دوسری یا تیسری شادی بھی کوئی خاص معاملہ نہیں تھا جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسے حالات نہیں ہیں ۔اس لیے گھریلو اورعائلی معاملات میں کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بہت غور وفکر کرنا چاہیے، بالعموم والدین اوراولاد دونوں محض جذباتی رویہ اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان معاملات میں بہت زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں