بدھ، 15 ستمبر، 2021

فلاح کا راستہ

 

فلاح کا راستہ

حضرت طلحہ بن عبید اللہ فرماتے ہیں : علاقہ نجد کا رہنے والا ایک شخص جس کے بال پر اگندہ تھے۔ جناب رسول اللہ ﷺکی طرف آیا،وہ کچھ کہہ رہا تھا کہ ہم اس کی بھنبھنا ہٹ تو سن رہے تھے ۔مگر اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ جب وہ بالکل قریب آگیا تو ہم نے سناکہ وہ سوال کر رہا ہے کہ مجھے اسلام کے ان خاص احکام سے مطلع فرمائیے ۔جن پر عمل کر نا بحیثیت مسلمان میرے لیے اور سب کیلئے ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا : پانچ تو نمازیں ہیں دن اور رات میں ، اس نے عرض کیا کہ انکے علاوہ کوئی اور نماز بھی میرے لیے ضروری ہوگی؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، البتہ تم اپنی خوشی سے جتنے نوافل چاہو اداکرو۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا : ماہِ رمضان کے روزے فرض ہیں ۔اس نے عرض کیا ،کیا رمضان کے علاوہ کوئی روزہ بھی میرے لیے لازم ہے۔ آپ نے فرمایا : نہیں ،لیکن تم نفلی روزے رکھ سکتے ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے اس شخص کوفریضہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے روشناس کروایا۔ اس نے پوچھا :کیا زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ بھی اداکر نا ضروری ہے۔ آپ نے ارشادفرمایا : نہیں ،مگر تم اپنے دل کی خوشی سے اللہ کی راہ میں نفلی صدقہ دے سکتے ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ جنابِ رسالت مآب ﷺنے اس شخص کو شریعت اسلامیہ کے احکام بتائے(یعنی تمام بنیادی باتوں سے باخبر کیا)۔اسکے بعد وہ شخص لوٹ گیا اور وہ کہتا جارہا تھا کہ مجھے رسول اللہ ﷺنے جو بتایا میں اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کروں گا۔رسول اللہ ﷺ نے اسکی بات سن کر فرمایا: اگر یہ سچا ہے تو اس نے فلاح (دونوں جہانوں کی کامیابی ) پالی ۔ (بخاری، مسلم)
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺایک سفر میں تھے کہ ایک بدوی سامنے آکھڑا ہوا اور بڑی بے تکلفی سے آپکی اونٹی کی مہار پکڑ لی،اور کہا : اے اللہ کے رسول مجھے وہ بات بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور جہنم سے دور کردے۔ حضور اکرم ﷺ ٹھہر گئے۔ آپنے اپنے رفقاء کی طرف دیکھا فرمایا :اس شخص کو اچھی (بات پوچھنے کی ) توفیق ملی پھر آپ نے اس سائل سے فرمایا : ذرا پھر سے کہنا تم نے کیا کہا ،اس نے اپنا سوال دہرادیا۔ (مجھے وہ بات تلقین فرمائیے جو جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے)حضور نے ارشاد فرمایا : اللہ کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائو ۔ نماز قائم کرتے رہو۔ زکوٰۃ اداکرتے رہواور صلہ رحمی کرو(یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو،اور ان کے حقوق اداکرو)۔یہ بات ختم فر ما کر حضور نے اس اعرابی سے (بڑی خوش طبعی سے ) فرمایا : (بھئی) اب ہماری اونٹی کی مہار چھوڑدو۔(مسلم)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں