منگل، 14 ستمبر، 2021

ایمان کا ثمرہ

 

ایمان کا ثمرہ 

غزوہ تبوک سے واپسی کے ایّا م میں لشکر اسلام میں خوراک کا سامان ختم ہوگیااور لوگوں کو بھوک ستانے لگی ۔ رسول اللہ ﷺکی خدمت عالیہ میں ایک تجویز پیش کی گئی کہ اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو ہم پانی لانے والے اونٹوں کو ذبح کرلیں۔ ان سے خوراک کا سامان بھی بہم پہنچا ئیں اور روغن بھی حاصل کر یں۔ (اسباب ظاہر کے اعتبار سے اس وقت یہی ممکنہ حل تھا۔لہٰذا نبی کریم ﷺنے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور اس تجویز پر صاد کیا)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس مشاورت کی خبر ہوئی۔ وہ جنابِ رسالت مآب ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور (بصدادب) گزارش کی،یا رسول اللہ ! اگر ایسا کیا گیا (یعنی اونٹ ذبح کر دیے گئے ) تو سواریاں کم ہوجائیں گی اور اس طویل اور دشوار گزار سفر میں ہمیں بڑی دقّت ودشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ( تو پھر اس کا حل آپ کے خیال میں کیا ہے) انھوں نے اس موقع پر ایک ایسی تجویز پیش کی جس کا تعلق اسبا بِ ظاہر ی کے ساتھ بالکل نہیں تھا بلکہ ایک صاحبِ الہام ’’محدَّ ث ‘‘ کی باطنی بصیرت سے تھا۔ انھوں نے عرض کیا ۔ آپ لوگوں کو ان کے بچے کچھے سامانِ خوراک کے ساتھ بلا لیجئے ۔وہ اسے ایک جگہ جمع کردیں۔ آپ اللہ رب العزت سے اس سامان میں برکت کی دعا فرمائیے ۔اللہ کریم کے بے پایاں کرم سے امیدِ واثق ہے کہ وہ ضرور مہربانی فرمائے گا (اور اپنے حبیب کے دستِ دعا کو سرفراز فرمائے گا)۔ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپ نے چمڑے کا بڑا دستر خوان طلب فرمایا ، اسے بچھا دیا گیا ۔ پھر آپ نے لوگوں کا بچھا کچھا سامانِ خوردنوش طلب فرمایا ،یہ سن کر کوئی آدمی ایک مٹھی بھر چنے لئے آرہا ہے ، کوئی مٹھی بھر کجھوریں،تو کوئی روٹی کا ایک ٹکڑاہی لئے چلا آرہا ہے۔ حتیٰ کہ دستراخوان پر تھوڑی سی مقدار میں یہ چیزیں جمع ہوگئیں ۔ اب رسول اللہ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی ۔اس کے بعد فرمایا: اب تم سب اپنے اپنے برتنوں کو بھر لو چنا نچہ سب نے اپنے اپنے برتنوں کو بھرنا شروع کردیا ۔حتیٰ کہ قریباً ۳ ہزار کے اس لشکر میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہا ،جس کے تمام برتن خوراک سے لبریز نہ ہوگئے۔ راوی (حضرت ابوہریرہ ،حضرت ابو سعید خدری)کہتے ہیں کہ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا اور پھر بھی بہت سی خوراک فاضل بچ گئی ۔ اس پر حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور کوئی بندہ ایسا نہیں جو کامل یقین سے ان دوشہادتوں کے ساتھ اللہ کے سامنے جائے، اور پھر وہ جنت میں جانے سے روک دیا جائے (یعنی اسے ضرور داخلِ جنت کیا جائیگا)۔(مسلم شریف)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں