بدھ، 17 اگست، 2022

عبادت، اعترافِ عجز (۴)

 

عبادت، اعترافِ عجز  (۴)

کتاب اللہ میں لفظ عبادت ’’تکبر‘‘کے متضاد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ ٭(ملائکہ) جو اسکے پاس ہیں، وہ اُسکی عبادت سے غرور نہیں کرتے ۔ (الا نبیائ۔۲۰)٭میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیات  سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں،اور اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے۔ (السجدہ)٭غرور، تکبر اور استکبار کے معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، احساس ذات، خدا کے سامنے سرکشی، اور اسکی بارگاہِ جلالت میں گردن جھکانے سے عار و انکار کے ہیں۔ تو اس کے مقابلے میں عبادت اللہ کے سامنے سر جھکانے اور عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنے اور اسکے احکام کے سامنے اظہار اطاعت کے ہیں۔ اسی طرح کسی شخص سے بظاہر اچھے کام کا صدور تو لیکن اس اچھے کام سے اس مقصد اظہارِ عبودیت یا  اطاعتِ خداوندی نہ ہو تو وہ کام عبادت میں شمار نہیں ہو گا۔ کسی بھی اچھے کام کو عبادت میں شمار ہونے کیلئے اس کی نیت کا خالص اور پاک ہونا بے حد ضروری ہے اور یہی وہ نشانِ امتیاز ہے جو عبادت اور غیر عبادت کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ارشاداتِ خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔ ٭ (اللہ کے مخلص بندے کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ (کی رضائ)کیلئے تم کو (کھانا)کھلاتے ہیں۔ (الانسان۔۱۰)٭اس پرہیز گار کو دوزخ سے بچا  لیا جائیگا جو اپنا مال دل کی پاکیزگی (حاصل کرنے ) کیلئے دیتا ہے۔ اس پر کسی کا احسان باقی نہیں، جس کا بدلہ اس کو دینا ہو بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اس کا مقصود ہے۔ وہ عنقریب خوش ہو جائیگا۔ (اللیل ۔۱۰) ٭اور (اے اہل ایمان) تم صرف اللہ (رب العزت کی ذات)کی طلب کیلئے خرچ کرتے ہو۔ (البقرہ ۔ ۳۷)٭پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز (کی ادائیگی ) سے غافل ہیں، وہ جو ریاکاری کرتے ہیں، اور (مانگے بھی) نہیں دیتے روزمرّہ استعمال کی چیزیں۔ (الماعون ) ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا  اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔ اس میں کسی خاص کام اور طرز و طریقہ کی تخصیص نہیں ہے، بلکہ انسان کا ہر وہ جائز کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اس کے احکام کی اطاعت ہے۔ وہ ’’عبادت‘‘ ہے۔ اگر تم اپنی شہرت کیلئے کسی کو لاکھوں دے ڈالو، تو وہ عبادت نہیں لیکن خدا کی رضا جوئی اور اسکے حکم کی بجا آوری کیلئے چند کوڑیاں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔ تعلیم محمدی کی اس نکتہ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض وغایت بنا دیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔‘‘  (سیرت النبی)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں