بدھ، 24 اگست، 2022

عبادت اور نفی ءرہبانیت

 

عبادت اور نفی ءرہبانیت 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات آفریں پیغام کی وجہ سے زندگی کے سارے شعبے ہدایت کی روشنی سے منور ہوگئے۔ اسلام نے عبادت کے تصور کو بھی اعتدال و توازن عطاءکیا۔ اسلام سے قبل عبادت و ریاضت کی تعبیر ہی گویا کہ ترک دنیا، فاقہ کشی وغیرہ سے وابستہ ہوچکی تھی، سمجھا یہ جانے لگا تھا کہ بندہ کس قدر اذیت اور تکلیف اٹھاتا ہے اور خودکو آزار میں مبتلاءکرتا ہے، خدا اتنا ہی خوش ہوتا ہے۔ اور اس اذّیت رسانی سے ہی روح میں پاکیزگی آتی ہے اور اس کی قوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یونانی فکر میں اشراقیت ہندﺅوں میں جوگ، عیسائیوں میں رہبانیت اور بدھوں میں نروان کی خاطر شدید تپسیا کا ظہور اسی تصور کی پیدا وار تھا۔ اسلام نے ان تصورات کی نفی کی، عبادت کو زندگی کی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ایک دفعہ کسی غزوہ کے سفر میں ایک صحابی کا گزر ایک ایسے مقام پر ہوا، جہاں ایک غار تھا، قریب ہی ایک پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔ آس پاس کچھ ہریالی اور سبزہ بھی تھا۔ انہیں یہ گوشہ عافیت بہت بھلا لگا۔ وہ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! مجھے ایک غار کا سراغ ملا ہے۔ جہاں ضرورت کی ساری چیزیں بھی میسر ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میں گوشہ گیر ہو کر ترک دنیا کر لوں۔ آپ نے فرمایا میں یہودیت اور عیسائیت لے کر دنیا میں نہیں آیا ہوں (بلکہ) میں آسان، سہل اور روشن ابراہیمی دین لے کر آیا ہوں۔ (مسند امام احمد بن حنبل)ایک دفعہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ دیکھا ایک شخص چلچلاتی ہوئی دھوپ میں برہنہ سر گھردا ہوا ہے۔ آپ نے استفسار فرمایا یہ شخص کون ہے اور اس نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔ لوگوں نے بتایا اس کا نام ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں اور نہ سایہ میں آرام کرے گا اور نہ کسی سے کوئی بات کرے گا اور یہ بھی کہ مسلسل روزے رکھے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس سے کہو کہ بیٹھے، باتیں کرے، سایہ میں آرام لے اور اپنا روزہ پورا کرے۔ (بخاری)اپنے حج کے سفر میں آپ نے ایک ضعیف آدمی کو دیکھا جو خود چلنے کی طاقت نہ رکھتا تھا، اس کے بیٹے اس کو دونوں طرف سے پکڑکر چلا رہے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا۔ تو معلوم ہوا کہ اس نے پیدل حج کی نیت کی ہے۔ فرمایا اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ یہ اپنی جان کو اس طرح عذاب میں ڈالے اس کو سوار کرا دو۔ (ترمذی)اسی طرح آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک شخص اپنی ناک میں نکیل ڈالے ہوئے ہے اور دوسرا اس کو جانور کی طرح کھینچ رہا ہے، آپ نے اس کی نکیل کاٹ دی اور فرمایا اگر ضرورت ہو تو اسے ہاتھ سے پکڑکر طواف کراﺅ۔ (بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں