بدھ، 19 اگست، 2020

عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ

 

عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ

امیر المومنین مرادِ رسول حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ اسلام کے ایک آفتاب ِنیم روز ہیں ۔ حضرت عمر ؓ کا تعلق بنو عدی سے ہے ۔ عدی کی طرف منسوب ہونے کی بنا پرحضرت عمر کو’’ العدوی‘‘ کہاجاتاہے ۔ قریش مختلف قبیلوں میں منقسم ہوئے ان میں دس قبائل بڑے ممتاز گردانے جاتے تھے ۔قبیلہ بنو عدی بھی ان میں شامل تھا ، حضرت عمر کے شجرہ نسب میں آٹھویں پشت پر عدی کانام ملتا ہے، عمربن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی۔ کعب بن لوئی پر حضرت عمر کا سلسلہ نسب حضور اکرم ﷺسے مل جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے اہم قبائل کوکچھ خاص مناصب موروثی طور پر سپردکردیے گئے تھے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں ’’سفارت ‘‘اور ’’فیصلہ منافرہ‘‘ کے منصب تھے ۔ جب کبھی قریش کہیں کوئی سفارت بھیجنا چاہتے یا قریش کی کسی ایک یا متعدد قبیلوں سے جنگ چھڑ جاتی تو مذکرات کیلئے اورمعاملات طے کرنے کیلئے قریش خاندان بنو عدی کے سربراہ کو یااسکے نامزد نمائندے کو سفیر بناکر بھیجتے تھے ،اسی طرح بعض اوقات یوں ہوتا کہ دو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے سے شرف نجابت یا دیگر فضائل میں ایک دوسرے سے برترہونے کے مسئلے پر نزاع پیدا ہوجاتا ۔ ایسی صورت میں فیصلہ کرنیوالے کو ’’منافر‘‘ کہتے ۔ قریش اپنے ’’منافرہ ‘‘ کافیصلہ بھی بنو عدی کے افراد سے کرواتے تھے ۔ جب بنو ہاشم کے سربراہ عبدالمطلب اوربنو امیہ کے رئیس حرب بن امیہ کے درمیان منافرہ کی صورت پیدا ہوئی تو حضرت عمر کے دادا نفیل حکم مقرر ہوئے اور انہوں نے فریقین کے دلائل سن کرحضرت عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔ حضرت عمر کے والد خطاب قبیلہ کے سردار تھے, جو سیادت و قیادت کی اعلی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ شاعری اورنسب دانی کے حوالے سے بھی بڑی شہرت کے حامل تھے قبیلہ بنو عدی کے ایک اور نامور فرزند زید بن عمرو بن نفیل ہیں ۔ جنہوں نے دورجاہلیت میں غور وفکر اور اپنی فطرت سلیمہ کے باعث بت پرستی سے بیزاری کا اظہارکردیا، یہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کی بات ہے اس پر انہیں بڑی اذیتیں اٹھانا پڑی اوروہ شام کی طرف ہجرت کرگئے جہاں انہیں عیسائیوں نے قتل کردیا۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں انہی کے لختِ جگر ہیں۔ حضرت عمر کے بھائی زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کاشمار ممتاز صحابہ میں کیاجاتاہے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں