اتباع رسول ﷺ
فیض ہو کہ در جہ عرفان ، دولت کشف ہو خواہ نعمت انواریا اسرا ر الٰہی ، یہ سب سعادت دارین میں شامل ہیں اور تمام اکابر اولیا ء اللہ اور صاحب تقوی حضرات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دین دنیا کی کوئی نعمت ودولت سعادت رسول اللہ کی اتباع کامل کے بغیر حاصل و میسر نہیں ہو سکتی۔ قرآن حکیم کی متعدد آیات کریمہ اسکی تائید میں ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : ’’فرما دیجیے (اے محمد ﷺ ) کہ اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تم اللہ کے محبوب ہو جائوگے‘‘ شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب شر ح فتوح الغیب میں اس آیت کے معنی بیان کیے ہیں کہ اے محمدﷺ آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے محب اور میرے محبوب اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو اور بارگاہ خدا وندی میں خاص مرتبہ پانے کے خواہش مند ہو کہ خدا تمہارا ہو جائے اور تمہیں دوست رکھے تو تم میری پیروی کرو۔ پس ثابت ہوا کہ اتباع رسول ﷺ ہی سب کچھ ہے۔ بعض اس حکم کی تائید درج ذیل آیت سے کرتے ہیں :ترجمہ : ’’ اور اللہ کی رسی کو مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘۔ملا حسین واعظ کاشفی نے تفسیر حسینی میں صراحتا لکھا ہے کہ اس آیت شریفہ کا مطلب واضح ہے۔ یعنی سب مل کر رسول اللہ ﷺکی پیروی کریں ، کیو نکہ جب تک آپ ؐ کی ظاہری و باطنی پیروی نہ کی جائیگی ، مطلوب حقیقی حاصل نہ ہو گا۔عبد الکریم چشتی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ میں لکتھے ہیں کہ از روئے حدیث اتباع رسول ؐ کی تین قسمیں ہیں۔’’الشر یعۃ اقوالی ، والطرقۃ افعالی والحقیقۃ احوالی ‘‘ اور احکام قرآن و حدیث دو قسم کے ہیں : اچھے اور بہت اچھے ، پہلی قسم کو’’ شریعت" کہتے ہیں اور دوسری کو ’’الطریقت ‘‘ شریعت اور طریقت دونوں کا نتیجہ ’’حقیقت‘‘ کہلاتا ہے اور یہ تیسری قسم ہے۔ کوئی سالک جب شریعت و طریقت دونوں میں مکمل ہو جاتا ہے تو حقیقت اس پر منکشف ہو جاتی ہے۔اور اسکی عمدہ اور نفیس ترین مثال خیرالتابعین سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ، جو اتباع رسول ﷺ کی تصویر کامل تھے۔ مشاغل جلالی میں لکھا ہے کہ حضرات شیوخ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ بھی اتباع رسول ﷺ ہی تھا ، جس کی تین صورتیں ہیں۔ اول : آپ ؐ کے اعمال کی نہایت استقامت کیساتھ اتباع کرنا۔اور یہ کام اعضا ء کا ہے۔دوم: اخلاق رسول ﷺ پر قائم رہنا۔ اور یہ کام دل کا ہے۔ سوم : آپ ؐ کے احوال کی پیروی۔ اور یہ کام روح کا ہے احوال پر استقامت انتہائی سعادت کا درجہ ہے اور یہ بغیر پیروی اخلاق اور اخلاق بغیر پیروی حاصل نہیں ہو سکتا ، اس لیے کہ اخلاق کی اعمال کیساتھ ایسی نسبت ہے جیسی کہ طہارت کی وضو کیساتھ ، اور اخلاق احوال کیلئے اتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ وضو نما کیلئے۔ پھر متابعت اعمال کا مطلب ہے کہ احکام الٰہی کی بحسن و خوبی بجا آوری میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا جائے اور منکرات و ممنوعات سے مجتنب رہا جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں