جمعہ، 26 اپریل، 2024

حقیقت ِدین

 

حقیقت ِدین

انسانی زندگی میں اصل حاکم اس کی سوچ اور فکر ہوتی ہے ۔ انسان کے تمام اعمال اس کی سوچ اور فکر کے گرد گھومتے ہیں ۔ اگر انسان کی سوچ یہ ہو گی کہ غربا پروری ایک اچھا عمل ہے تو اس کی ساری زندگی غربا پروری میں گزر جائے گی اور اگر اس کی سوچ یہ ہو کہ لوٹ مار اور دو نمبری ہی میری زندگی کا اصل مقصد ہے تو وہ اپنی ساری عمر اسی کام میں گزار دے گا ۔ 
جب انسان کا اس بات پر پختہ یقین ہو جائے کہ فرشتے اس کے منہ سے نکلنے والی ہر بات کو لکھ رہے ہیں اور ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنی ساری زندگی میں کیے گئے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ تو پھر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرے وہ اس کے نام پہ اپنی ساری زندگی کا ما ل و متاع قربان کر دے جس کا کرم ہر قدم پر اس کی رہنمائی کرتا ہے ۔
 عبادات اسی وقت عبادات کہلاتی ہیں جب وہ اس سوچ اور تڑپ کا نتیجہ ہوں اگر کوئی اس سوچ اورتڑپ سے محروم ہے تو اس کی عبادات محض ایک عادت بن جائے گی اور اس کی زندگی اسلامی فکر کی مظہر نہیں ہو گی۔ 
فکر اور اعمال دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں اور آپس میں لازم و ملزوم ہیں ان کا ایک دوسرے کا ساتھ وہ ہی تعلق ہے جو طلوع آفتاب کا دن کے ساتھ ہے ۔ اگر انسان یتیم کے سر پر یہ سوچ کر ہاتھ رکھتا ہے کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے تو اس کا دست شفقت لازمی یتیم کے سر تک پہنچ جائے گا اور اگر وہ یتیم کے ساتھ ہمدردی اور پیار اس لیے کرے کہ اس کا مال لوٹا جائے تو اس نے یتیم کے سر پر جو ہاتھ رکھا ہے اسے دست شفقت نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کی تعبیر دھوکا اور فریب سے کی جائے گی ۔ 
اسلامی عبادات حقیقت میں فکر کا مظہر ہیں اس کے بغیر یہ صرف رسم یا پھر عادت بن کر رہ جائیں گی ارشاد باری تعالی ہے:” نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ تعالی ، روز قیامت ، فرشتوں آسمانی کتابوں اور سب انبیاءپر ایمان لائے ۔ اور اس کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ،مانگنے والوں اور قید یوں پر خرچ کرے ، اور نماز قائم کرے اور زکوة ادا کرے اور جب کوئی عہد کرے تو اسے پورا کرے ۔اور مشکل ، تنگی اور جنگ کی حالت میں استقامت دکھائے ، یہی سچے ہیں اور یہ ہی لوگ تقوی والے ہیں ۔ ( سورة البقرة )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں