حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ
امیر المﺅ منین خلیفة المسلمین داماد رسول شیر خدا خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت سے 23 سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے ہاشمی ہیں اور ساری نسل آدم کے دیگر تمام خاندانوں پر بنی ہاشم کو جن امتیازی صفات اور جسمانی علامات کی بنا پر فوقیت حاصل تھی آپ کی ذات مبارکہ ان تمام صفات و علامات کا مرقع تھی ۔
سرکار دو عالم ﷺ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے والدین سے جو انس و محبت تھی اس کا یہ تقاضا تھا کہ آپ ﷺ نے زمانہ قحط میں اپنے محسن چچا ابو طالب کی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے ان کا معاشی بوجھ ہلکا کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا اس وقت آپکی عمر پانچ سال تھی ۔آغاز نبوت کے دور میں جب یہ آیت نازل ہوئی ” وانذر عشیرتک الاقربین“ تو رب ذولجلال کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے بنی ہاشم کے سارے افراد کو مدعو کیا ۔ کھانا پیش کرنے کے بعد آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں تم لوگوں کو ایسی بات کی طرف دعوت دیتا ہوں جو دینا و آخرت کی فلاح کی ضامن ہے اور میں نہیں جانتا کہ عرب میں کوئی بھی شخص ایسا بے بہا تحفہ لایا ہو ۔ آپ میں سے کون میری دعوت کو قبول کرتا ہے اور میرا معاون و مدد گار بنتا ہے ۔مگر تمام لوگ خاموش رہے تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اگرچہ میں کم عمر اور کمزور ہوں مگر میں آپ کا دست و بازو بنو گا ۔ حضور ﷺ نے آپ کو بٹھا دیا ۔ دوبارہ حاضرین سے خطاب کیا لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا اس پر حضرت علی دوبارہ کھڑے ہوئے آپ ﷺ نے آپ کو بٹھا دیا پھر آپ ﷺ نے تیسری بار لوگوںسے خطاب کیا تو کوئی جواب نہیں ملا پھر حضرت علی کھڑے ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
” اے علی تو ہی میرا بھائی اور معاون مدد گار ہے “۔
حضرت علی کو بستر رسول پر آرام فرمانے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ جب حضور نبی کریم ﷺ کو مکہ چھوڑ جانے کی اجازت ملی تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اے علی مجھے مکہ چھوڑ کر جانے کا حکم ہوا ہے آج میرے بستر پر میری سبز چادر اوڑھ کر سونا ہو گا اور ذرا اندیشہ نہ کرنا تمہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا“۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ تین روز تک مکہ مکرمہ رہے اور روز کھلی وادی میں جا کر اعلان فرماتے ” لوگو! سن لو جس کسی کی امانت رسول پاک ﷺ کے پاس رکھی تھی وہ آئے اور اپنی امانت لے جائے “۔ چوتھے روز آپ اکیلے مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور قبا پہنچ کر حضور ﷺ سے ملاقات کی تو آپ ﷺنے آپ کو گلے لگایا اور فرمایا” اے علی دنیااور آخرت میں تم میرے بھائی ہو“۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں