آفتاب وماہتاب
اے آتشِ فراقت دل ہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جاں ہا خراب کردہ
خواجہ نظام وفورِ اشتیاق ،پاسِ ادب اور شیخ کبیر کی بزرگی کی وجہ سے کلام نہیں کرپارہے تھے۔ باباصاحب نے بڑی لطافت اور خوش طبعی سے فرمایا ’’لکل داخلٍ دھشۃ ‘‘(ہر نیا آنے والا کچھ مرعوب ضرور ہوتا ہے)
باباصاحب زہد ،تقویٰ ،توکل ،استغناء ، فقر ودرویشی اور تزکیہ وتربیت میں فرد تھے۔ لیکن اس وبستانِ فکر سے تعلق رکھتے تھے جو علم کو ازحد ضروری گردانتے تھے ،لہذا آپ نے سب سے پہلے خواجہ نظام سے انکی علمی استعداد کے بارے میں استفسار فرمایا۔ابتداء قرآن سے ہوئی اور پوچھا کہ کچھ قرآن بھی پڑھا ہے،تو سنائو آپ نے قرآن سنایا اگر چہ آپ نے بڑے اچھے قراء سے تحصیل فرمائی تھی لیکن باباصاحب مطمئن نہیں ہوئے فرمایا قرآن پاک ہم تمہیں خود پڑھائیں گے۔آپ نے خواجہ نظام کو چھ سپارے قرآت وتجوید کے اصولوں کے مطابق پڑھائے۔ آپ فرماتے ہیں لفظ ضاؔد کا مخرج جس خوبصورتی سے باباصاحب ادافرماتے تھے میں نے اپنی زندگی میں کسی اور سے اس طرح نہیں سنا۔قرآن پاک کیساتھ آپ نے باباصاحب سے مشہور کتاب عوارف المعارف کے پانچ ابواب پڑھے۔ اور عقائد میں ابوشکور شالمی کی کتاب’’تمہید المبتدی‘‘پڑھی ۔شیخ کبیر کے پڑھانے کا انداز انتہائی دلکش تھا۔آپ فرماتے ہیں کہ وہ ایسے عمدہ اور دلکش انداز سے پڑھاتے تھے کہ آدمی انکے لطف بیان میں کھو جاتا تھا اور اتنا محوہوجاتا کہ جی چاہنے لگتا کہ کاش اس سماعت میں دم ہی نکل جائے۔ علم کے ساتھ باباصاحب نے آپکی روحانی تربیت فرمائی۔ اذکار واوراد تلقین فرمائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں