جمعہ، 19 نومبر، 2021

تمدن آفریں

 

تمدن آفریں

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی سرگرمیوں کا محور یہ تھا کہ ان کے حلقہ تربیت میں آنے والے افراد ایک مکمل اسلامی کردار کے حامل بن جائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اس زمانے کا ماحول اورمعاشرت بھی اسلامی رنگ میں رنگ جائے ۔  برصغیر کا معاشرہ ہندو مذہب کے رسوم رواج میں رنگا ہوا تھا۔ برہمن کا اقتدار اس معاشرے پر بڑا مضبوط تھا۔ اسکے علاوہ بے شمار توہمات وروایات کو یہاں بڑا تقدس حاصل تھا، ہندوفلسفہ ، ادب اورثقافت کی بنیادیں معاشرے میں بہت گہری تھیں۔

ایسے میں مسلم تہذیب وثقافت اورمسلم تمدن کی آبیاری کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کیلئے اصول پر مضبوطی سے قائم رہنا بھی بہت ضروری تھا اور ایک بھر پور تمدنی شعور کے ساتھ بڑے لچک دار حکیمانہ رویے کی بھی ازحد ضرورت تھی۔ اصول پراس طرح مستحکم رہنا کہ انسان کاخُلْق اورفراخ دلی بھی قائم رہے اوررویے میں ایسی لچک کہ مستحکم اصولوں پر ہی لرزش نہ آئے بڑا مشکل کام ہے۔ اس پیچیدہ اوردشوار مرحلے سے گزرنے کیلئے ایک ایسے وجود کی ضرورت تھی جو علم، عشق اوربصیرت کاجامع ہو۔ اوربرصغیر کی مسلم تاریخ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ تاریخ کے اس معنی خیز مرحلے پر خواجہ نظام الدین اولیاء کی شخصیت اپنی پوری ،علمی ،روحانی اورفکری توانائی کے ساتھ موجود تھی۔ آپ قرآن وحدیث سے گہر اشغف رکھتے تھے۔ امام غزالی ؒ جیسے حکیم کی تفسیر کا بلاناغہ مطالعہ فرماتے، دیگر متداول تفسیر یں بھی پیشِ نظر رکھتے، زیرکفالت تمام افراد کو قرآن حفظ کروایا، اوراپنی مجلس میں لطیف قرآنی نکات بیان کرتے، حدیث کے نادر نکات کی نشان دہی کرتے۔ قرآنی اسلوب کی پیروی کرتے ہوئے بڑی ایمان افروز  حکایات کے ذریعے مخاطب کو اپنی بات سمجھاتے ،سنت کا گہر اشعور رکھتے اورمعاشرتی آداب کی بڑے حکیمانہ انداز میں ترویج وتبلیغ فرماتے۔ اسلامی اخلاقیات کا شعور آپکے پورے حلقے میں بہت اچھی طرح راسخ ہوگیا۔ اس طرح آپکی توجہ سے جہاں بڑے جلیل القدر لوگوں کی ایک جماعت نظر آتی ہے جنہوں نے پورے خطے کو اپنے علم اور روحانیت سے معمور کردیا ان میں حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلی، مولانا شمش الدین محمد ،شیخ قطب الدین  منور، مولانا فخرالدین زرادی، مولانا حسام الدین ملتانی، مولانا شہاب الدین امام، خواجہ ابوبکر مندہ،مولانا برھان الدین غریب،مولانا علاء الدین نیلی، مولانا عثمان المعروف اخی سراج وغیر ہ جیسے عظیم المرتبت لوگ شامل ہیں۔ وہیں علم ودانش اورتہذیب ثقافت میں امیر خسرو جیسے منتخب روزگار،حسن سنجری جیسے شاعر اورادیب امیر خوردکرمانی اورضیاء الدین جیسے صاحب اسلوب مؤرخ بھی اپنی تابانیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں