اتوار، 28 نومبر، 2021

قرآن میں شفاء ہے!

 

قرآن میں شفاء ہے

اللہ سبحانہ وتعالیٰ قرآن حکیم کے متعلق فرماتا ہے کہ قرآن شفاء ہے۔ چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: ’’اوراگر ہم اسے عجمی (عربی زبان کے علاوہ کسی) زبان کا قرآن بناتے تو وہ کافر لوگ کہتے کہ اسکی آیتیں کیوں واضح کی گئیں ،یہ کیا کہ عجمی کتاب اورآپ عربی رسول؟ اے نبی! ان سے کہہ دو: وہ تو مومنوں کیلئے شفاء اور ہدایت ہے۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: اور یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کیلئے تو سراسر شفاء اور رحمت ہے‘‘۔

اس آیت میں لفظ ’’مِنْ ‘‘ آیا ہے یہ ’’مِنْ‘‘ بیانِ جنس کیلئے ہے یعنی جنسِ قرآن شفاء اور رحمت ہے۔ یہ ’’من‘‘ تبعیضیہ نہیں ہے کیونکہ قرآن حکیم سب کا سب شفاء اور رحمت ہے جیسا کہ ماسبق آیت سے معلوم ہوتا ہے۔ یقینا قرآنِ حکیم ہر حالت‘ ہر شک وشبہ اور ہر زیب وتردد سے قلوب کو شفاء دیتا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے ازالہ امراض کیلئے قرآن حکیم سے زیادہ عام‘ نفع بخش اورعظیم ترین اورزیادہ بہتر کوئی دوا نہیں پیدا کی۔

سورۂ فاتحہ ایک ایسی آسان اورسہل ترین دوا ہے کہ اسکے مثل سہل وآسان اور بہترین دوا ممکن نہیں اگر کوئی اللہ کا بندہ اچھے طریقہ سے سورۂ فاتحہ کے ذریعہ علاج معالجہ کرے تو شفاء امراض کیلئے سورۂ فاتحہ کے اندر عجیب وغریب تاثیر پائے گا۔ چنانچہ ایک مدت مدید تک میں ’’مکہ معظمہ‘‘ میں رہا اور اس اثنا میں بہت سی بیماریاں مجھ پر مسلط ہوتی ہیں مجھے یہاں نہ کوئی طبیب میسر آیا نہ دوا، میں صرف سورۂ فاتحہ سے اپنا علاج کرتا رہا اور اسکے اندر میں نے عجیب وغریب تاثیر دیکھی۔ میں اکثر مریضوں کو سورۂ فاتحہ سے علاج کرنے کی ترغیب دیتا تھا اور لوگ اکثر اس سے صحت یاب ہوجاتے تھے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ جو اذکار‘ آیات‘ دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور جن سے شفاء مطلوب ہوتی ہے یقینا نافع اور شفاء بخش ہوتی ہیں لیکن اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ محل اسکی قبولیت کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور فاعل وعامل کی قوت وہمت اور اسکی تاثیر بھی قبولیت محل کی مقتضی ہو۔ جو تم دیکھو کہ اذکا ‘ آیات اور دعائوں میں شفاء نہیں ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ پڑھنے اور دعاء کرنیوالے کی تاثیر وتوجہ کمزور ہے یااثر قبول کرنیوالے میں قبولِ تاثیر کی صلاحیت نہیں ہے یا کوئی اور ایسی شدید وسخت رکاوٹ موجود ہے جو دوا کی تاثیر کو روک رہی ہے‘ جس طرح کہ عموما ظاہری اور حسی امراض میں دوائوں کا حال ہوا کرتا ہے اور کبھی ایسا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ دوا کے اقتضا اور تاثیر کے درمیان کوئی قوی رکاوٹ مزاحم ہوجاتی ہے ۔جب طبیعت کسی دوا کو کامل طور پر قبول کرلیتی ہے تو جس درجہ طبیعت دواء کو قبول کریگی اسی درجہ بدن اور جسم کو نفع پہنچے گا۔ (دوائے شافی، ترجمہ الجواب الکافی: محمد ابن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں