پیر، 16 جنوری، 2023

کثرتِ دنیا سے اندیشہ(۴)

 

کثرتِ دنیا سے اندیشہ(۴)

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک دن امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے طلب فرمایا، میں ان کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، جب میں دروازے کے قریب پہنچا تو میں نے اندر سے زارو قطار رونے کی آواز سنی ، میں نے گھبراکے کہا :انا للہ وانا الیہ راجعون ، واللہ ! امیرالمومنین کو کوئی بڑا حادثہ پیش آگیاہے ، میں نے گھر میں داخل ہوکر ان کا کندھا پکڑ لیا اورکہا :اے امیر المومنین! پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ، انھوں نے فرمایا:نہیں ! پریشان ہونے کی بہت بڑی بات ہے، وہ میرا ہاتھ پکڑکر مجھے دروازے کے اندر لے گئے ، میں نے دیکھا کہ اوپر نیچے بہت سے تھیلے رکھے ہوئے ہیں، انھوں نے فرمایا:اب خطاب کی اولاد کی اللہ کے ہاں کوئی قدروقیمت نہیں رہی ۔اگر اللہ تبارک وتعالیٰ چاہتے ، میرے دونوں رفقاءیعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کو بھی یہ مال اسی طرح فراوانی سے عطافرماتے اوروہ دونوں اسے جس طریقے سے صرف کرتے میں بھی وہی طریقہ اختیار کرتا ۔میں نے کہا :اے امیر المومنین !آئیے بیٹھ کے سوچتے ہیں کہ اسے کیسے خرچ کریں ، چنانچہ ہم لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے لیے چار چار ہزار ، مہاجرین کے لیے چار چار ہزار اور باقی لوگوں کے لیے دو ہزار دوہزار درہم تجویز کیے اوریوں سارا مال فوری طور پر تقسیم کردیا ۔(کنزالعمال)
ابوسنان دوئلی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں امیر المومنین حضرت سیدنا عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ، آپ کے پاس مہاجرین اولین کی ایک جماعت بھی تشریف فرما تھی ، آپ نے ایک شخص کو بھیجا کہ وہ اندر پڑا ہوا تھیلہ اٹھا لائے ، وہ تھیلہ ٹوکری کی طرح تھا ۔یہ عراق کے ایک مفتوحہ قلعہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا گیا تھا ، اس تھیلے میں ایک انگوٹھی بھی تھی جسے آپ کے ایک بچے نے لے کر اپنے منہ میں ڈال لیا۔ آپ نے اس سے وہ انگوٹھی واپس لی اور پھر رونے لگ گئے ، حاضرین نے آپ سے استفسار کیا:آپ کیوںرو رہے ہیں؟اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اتنی فتوحات عطاکردی ہیں ،آپ کو دشمن پر غالب کردیا اورآپ کی آنکھیں ٹھنڈی کردی ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا:میں نے حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا ہے :”جن لوگوں پر دنیا کی فتوحات ہونے لگتی ہیں اورانھیں دنیا بہت مل جاتی ہے تو ان کے درمیان ایسی بغض وعداوت پیدا ہوجاتی ہے جو قیامت تک چلتی رہتی ہے“۔مال و اسباب کی اس فراوانی نے مجھے اسی خدشے میں مبتلا کردیا ہے۔(بزار ، ابویعلی، الترغیب والترہیب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں