پیر، 19 فروری، 2024

نیت کی اصلاح

 

نیت کی اصلاح

امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ہی کے لیے ہے اورجس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہو تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ ( صحیح بخاری شریف ) 
نیت کی درستگی سے مراد یہ ہے کہ نیک کام محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے ، کسی کے خوف سے یا کسی کی خوشنودی کے لیے نہ ہو اور اس میں لوگوں میں شہرت ، نیک نامی یا دنیاوی لالچ بھی نہ ہو۔ اور اگر کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کی بجائے کسی شخص کی خوشنودی یا لوگوں میں شہرت اور نام کمانے کے لیے کیا جائے یا پھر دنیاوی مقصد کے لیے کیا جائے تو اس میں خرابی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ اسے تو تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔(سورۃالحج)
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشا د فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ تمھاری شکل و صورت اور ما ل و دولت کو نہیں دیکھتابلکہ وہ تو تمھارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے ۔ ( مسلم شریف) 
 کسی بھی عمل کے لیے نیت کا خالص ہونا بہت ضروری ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی نیک عمل کرنے کاارادہ کرے تو اسے ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے ۔ اور اگر نیت کے بعد اس عمل کو کر بھی لے تو اسے کم از کم دس گناثواب ملتا ہے اور بعض صورتوں میں سات گنا تک ثواب ملتا ہے ۔ (بخاری )
اوس بن حذیفہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشا د فرمایا : جو شخص رات کو سوتے وقت تہجد کی نیت کر لے لیکن وہ بیدار نہ ہو سکے تو اسے اس عمل کا ثواب مل جاتا ہے جس کی اس نے نیت کی اور نیند اس پر اس کے رب کی طرف سے صدقہ ہے ۔ (سنن  نسائی ) 
اگر کوئی عمل اللہ تعالی کی رضا کے لیے نہ کیا جائے بلکہ دکھلاوے کے لیے جا ئے تو وہ اللہ تعالی کے نزدیک شرک قرار پاتا ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص لوگوں کے دکھلاوے کی خاطر نماز پڑھے،روزے رکھے یا صدقہ کرے تو وہ شرک کا مرتکب ہے ۔ ( مسند احمد ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں