ہفتہ، 15 جنوری، 2022

فضائلِ ذکر (۶)

 

فضائلِ ذکر (۶)

٭ذکر قساوت قلبی کا خاتمہ کردیتا ہے ۔ بندے کو چاہئے کہ ذکر الہٰی سے اپنے دل کی سختی کاعلاج کرے ۔ایک آدمی نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے دل کی سختی کاشکوہ کیا۔آپ نے فرمایا:’’ذکرالہٰی سے اسے نرم کرو۔ کیونکہ قساوت قلبی کا سبب غفلت ہے۔ جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو قساوت اس طرح پگھل جاتی ہے جس طرح سیسہ۔‘‘

٭ذکر دل کیلئے شفاء اورعلاج ہے اورغفلت اس کی بیماری ۔پس بیماردلوں کی شفاء اللہ کا ذکر ہے۔

 شیخ مکحول رحمۃ اللہ علی فرماتے ہیں :’’اللہ کے ذکرمیں شفاء ہے اورلوگوں کا ذکر بیماری کا باعث ہے۔‘‘

’’جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو تمہارے ذکر کے ساتھ علاج کرتے ہیں اورجب کبھی ذکر کو ترک کردیں توپھر بیمار ہوجاتے ہیں۔‘‘ ذکر،محبت الٰہی کی بنیاد ہے اورغفلت عداوت پر وردگار کی اصل ہے بندہ اپنے رب کا ذکر کرتے ہوئے اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے کہ رب کریم اسے محبت عطاکرکے اپنا دوست بنالیتا ہے۔ اسی طرح جب بندہ اپنے رب سے غافل ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر اسے اپنا دشمن قرار دے دیتا ہے ۔بندے کی اپنے رب سے سخت ترین دشمنی کی علامت یہ ہے کہ وہ اسکے ذکر کو ناپسند اوراسکے ذاکر کو برا جانتا ہے ۔اوراس کا سبب غفلت ہے اور بندہ اسی غفلت کی وجہ سے ذکر اورذاکرین کو ناپسند کرتا ہے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ اسے اپنا دشمن بنالیتا ہے ۔جس طرح کہ ذکر کرنیوالے کو اپنا ولی بنالیتا ہے۔ ٭دائمی ذکر کرنے والا مسکراتا ہواجنت میں داخل ہوگا۔ جس طرح ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’وہ لوگ جن کی زبانیں اللہ عزوجل کے ذکر سے تررہیں گی وہ جنت میں مسکراتے ہوئے داخل ہوں گے۔‘‘ ٭ذکر بندے اورجہنم کے درمیان رکاوٹ ہے۔ جب بندہ اپنے کسی عمل کی وجہ سے جہنم کے راستے کی طرف جائیگا۔ تو ذکر اسکے راستے میں رکاوٹ بن جائیگا۔ ذکر جس قدردائمی اورکامل ہوگا اسی قدر رکاوٹ مضبوط اور محکم ہوگی کہ اس میں سے کوئی چیز گزرنہ سکے گی۔ ٭تمام احوال کاحکم ذکر الٰہی کو قائم کرنے کیلئے ہی دیا گیا ہے کیونکہ اصل مقصود ذکر الٰہی ہے جیسا کہ ارشاد رب العلیٰ ہے:۔’’میرے ذکر کیلئے نماز قائم کرو‘‘۔ (طہ: ۱۴)صوفیائے کرام نے اپنے تمام احوال میں ذکر الٰہی پر مواظبت اختیار فرمائی اور ذکر کے فوائد کو محسوس کیا۔ اورپھر یقینی تجربہ کی بنیاد پر اسکے بارے میں گفتگو فرمائی۔ اور دوسرے لوگوںکوبکثرت ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کسی کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہ چیزپسند کرے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(بخاری،مسلم)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں