فضائلِ ذکر (۴)
٭بندہ دائمی ذکر سے اپنے رب کو بھولنے سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اپنے پروردگار کو بھولنا، اس کے لئے دنیا وآخرت میں بدبختی کا سبب ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اپنے رب کو بھول جائے تو وہ اپنی ذات اوراس کے متعلقہ تمام مصلحتوں کو بھول جاتا ہے ۔ ارشاد بار ی تعالیٰ ہے:۔
’’ان (نادانوں )کی مانند نہ ہوجانا جنہوں نے بھلادیا اللہ تعالیٰ کو پس اللہ نے انہیں خودفراموش بنادیا ۔یہی نافرمان لوگ ہیں۔‘‘(الحشر۔ ۱۹)٭ذکر بندے کے عمل کو جاری رکھتا ہے خواہ اپنے بستر میں یا سفر میں، حالت صحت میں ہو یا بیماری میں ۔کوئی عبادت ذکر کی مثل نہیں جو تمام اوقات اوراحوال کو شامل ہو۔حتیٰ کہ وہ بندے کی رفتار عمل کو جاری رکھتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے بستر پر سویا ہوتا ہے۔ لیکن غافل جاگنے والے سے سبقت لے جاتا ہے ۔ حکایت ہے کہ ایک عبادت گزار بندہ کسی کے پاس بطور مہمان ٹھہرا ۔بندئہ خدا ساری رات عبادت میں مصروف رہا۔ اورمیزبان اپنے بستر پر لیٹارہا۔صبح ہوئی تو عابدنے اسے کہا:’’قافلہ تجھ سے آگے نکل گیا‘‘اس نے جواب دیا:’’یہ توکوئی بڑی بات نہیں کہ انسان ساری رات سفر میں رہے اور علی الصبح قافلے کے ساتھ مل جائے مزہ توتب ہے کہ ساری رات بستر پر سویا رہے اورصبح قافلہ سے آگے ہو۔‘‘ اس قسم کے واقعات کی صحیح توجیہ بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ،جس نے یہ گمان کیا کہ آرام سے سونے ولا، شب بھر عبادت کرنیوالے سبقت لے جاتا ہے ۔اس کا یہ گمان باطل ہے ا وراسکی یہ بات اسی وقت صحیح ہوسکتی ہے۔ جس بستر پر سونے والے نے اپنے دل کاتعلق اپنے رب سے ملالیا ہو۔ اور اپنے سویدئہ قلب کو عرش الٰہی سے ملادیا ہو۔اور اس کا دل ساری رات فرشتوں کے ساتھ طواف عرش الٰہی میں مصروف رہا ہو۔ اور دنیا و مافیھا سے بے خبر ہوگیا ہو۔ اوروہ کسی شرعی عذر کی وجہ سے قیام لیل سے محروم ہوگیا ہو اور بستر پر لیٹے لیٹے یاد الٰہی میں مشغول ہوگیا۔ لیکن اسکے مقابلہ میں ایک اور شخص ہے جو شب بھر تونماز اورتلاوت میں مشغول رہا۔ اور اسکے دل میں ریا تکبر ،طلب جاہ اوردیگر آفات تھیں یا اس کا بدن عبادت میں مصروف تھا لیکن اس کا دل غافل تھا تو اسکی عبادت کرنیوالے سے اپنے بستر پر لیٹ کر عبادت کرنے والا کئی درجے بہتر ہے۔ ٭ذکر اصول طریقت کی بنیاد، طریقہ صوفیاء اور جسے ذکر کی توفیق میسر آجائے اس کیلئے بارگاہ خداوندی میں حضوری کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔پاک صاف ہوکر اسے رب کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہیے تاکہ اس کو ہر مراد مل جائے ۔کیونکہ جس نے اپنے رب کو پالیا۔ اس نے ہر چیز کو پالیا۔اور جو اپنے پروردگار تک رسائی حاصل نہ کرسکا وہ ہر چیز سے محروم ہے۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں