جمعہ، 28 جنوری، 2022

خلیفہ الرسول کا طرز عمل

 

خلیفہ الرسول کا طرز عمل

 حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہء رسول منتخب ہوئے۔اس وقت آپ محلہ سخ میں مقیم تھے۔ بیعت کے بعد آپ چھ ماہ تک وہیں قیام پذیر رہے۔ اکثر صبح پیدل مدینہ منورہ جاتے،کبھی گھوڑے پر بھی سوار ہوجاتے ۔انکے جسم پر ایک لنگی اور گیروے رنگ سے رنگی ہوئی ایک چادر ہوتی ۔عشاء کی نماز کے بعد آپ اپنے اہل خانہ کے پاس واپس آجاتے۔ان کا معمول تھا کہ شام کو اپنی بکریوں کا دودھ نکالتے تواہل محلہ کی بکر یوں کا دودھ بھی دوھ دیتے ۔جب آپکو خلافت تفویض ہوئی۔تو ایک بچی نے کہا اب ہماری بکریوں کا دودھ کون نکال کردیا کریگا۔یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’میری عمر کی قسم یہ کام میں ہی سرانجام دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ خلافت کی ذمہ داری مجھے ان اخلاقِ کریمانہ سے نہیں روکے گی،جو پہلے سے مجھ میں ہیں۔‘‘کبھی کبھی ازرہِ خوش طبعی ،اس بچی سے پوچھتے :اے لڑکی ! تم کیسا دودھ چاہتی ہو جھاگ والا یا بغیر جھاگ کے ،کبھی وہ کہہ دیتی جھاگ والا کبھی کہہ دیتی بغیر جھاگ کے۔آپ خوش دلی سے اس کا مطالبہ پورا کردیتے۔ایک دن وہ تجارت کی غرض سے بازار کی طرف نکلے،توحضرت عمر نے کہا کہ اگر آپ تجارت میں مشغول ہوجائیں گے تو سلطنت کے امور کون انجام دے گا۔ اس پر آپ نے استفسار فرمایا:کہ پھر میری گزر اوقات کیسے ہوگی؟یہ معاملہ شوریٰ کے سامنے پیش ہوا۔شوریٰ نے ان کیلئے اتنا وظیفہ مقرر کردیا جس سے ان کااور انکے اہل خانہ کاایک دن کاگزارہ ہوجائے اوروہ اس وظیفہ سے حج وعمرہ بھی کرسکیں ۔اوریہ روزینہء اتنا ہی تھا جتنا کہ ایک عام مہاجر خاندان کو بیت المال سے میسر آتا۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے اپنے دورانیہ خلافت میں بیت المال سے کل آٹھ ہزار درھم وصول کیے۔جب آپکی رحلت کا وقت قریب آیاتو آپ نے ارشادفرمایا ،ہمارے پاس مسلمانوں کے بیت المال میں سے جو کچھ ہے وہ واپس کردو کیونکہ میں اس وقت اس مال سے کوئی فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔ اور میں آج تک بیت المال سے جتنا مال استعمال کرچکا ہوں۔ اسکے بدلے میں میں نے اپنی فلاں زمین بیت المال کے نام کردی ہے۔چنانچہ آپ کے وصال کے بعد وہ زمین ،ایک دودھ والی اونٹنی ،تلواروں کو تیز کرنے والا غلام اورایک چادر جسکی قیمت پانچ درھم تھی حضرت عمر کی خدمت میں پیش کی گئیں ۔آپ نے یہ دیکھا تو رونے لگے اورفرمایا :ابوبکر اپنے بعد میں آنے والوں کو بڑی مشکل میں ڈال گئے ہیں۔یعنی یہ طرز عمل کہ بغیر شدید ضرورت کے بیت المال سے کچھ وصول نہیں کیا اورجو کچھ حاصل کیا وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے واپس لوٹاگئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں