جمعہ، 14 جنوری، 2022

فضائلِ ذکر(۵)

 

فضائلِ ذکر(۵)

٭ذکر کے درخت کا ثمرہ معارف اوراحوال میں ہے جس کے حصول کیلئے سالکین کو شاں رہتے ہیں۔ ان ثمرات کے حصول کا واحد ذریعہ ذکر کا درخت ہے اور یہ درخت جتنا بڑا، اور اس کی جڑیں جتنی گہری ہوں گی اتنا ہی اس کا ثمرہ عظیم ہوگا۔ ابتداسے لے کر مقام توحید تک تمام مقامات ذکر کا ثمر ہین اورذکر تمام مقامات کی اصل بنیاد ہے ۔جس طرح دیوار بنیادوں پر اورچھت اس دیوار پر تعمیر ہوتی ہے۔ بندہ جب خواب غفلت سے بیدار نہ ہوتو منازل سلوک طے کرنا اس کیلئے ممکن نہیں ہے۔ اوربندہ ذکر سے ہی بیدار ہوسکتا ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیاجاچکا ہے ۔اور غفلت دل کی نیند اورموت کا سبب ہوتی ہے۔ ٭ذاکر مذکور کے قریب ہوتا ہے اورمذکور اسکے ساتھ ہوتا ہے اوریہ معیت خاص ہوتی ہے اور یہ معیت قرب،ولایت ،محبت ، نصرت اورتوفیق کی معیت ہے جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے۔ 

’’یقینا اللہ تعالیٰ انکے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اورجو نیک کاموں میں سرگرم رہتے ہیں‘‘۔ (نحل :۱۲۸)’’اوراللہ صبر کرنیوالوں کیساتھ ہے‘‘۔ (انفال:۸۶)

’’مت غمگین ہو۔یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔(توبہـ:۴۰)ذاکر کو اس معیت سے وافر حصہ ملتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔ ’’میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور جب اسکے ہونٹ میرے ذکر کیلئے حرکت کرتے ہیں ‘‘۔

دوسری حدیث میں ہے: ’’اہل ذکر میرے ہم نشین ہیں اورمیرا شکر کرنے والے میرے فضل واحسان کے اہل ہیں اورمیری اطاعت کرنیوالے میری جو دوسخاکے قابل ہیں اوراپنی نافرمانی کرنے والوں کو مایوس نہیں کرتا۔اگر وہ توبہ کریں تو میں ان کا حبیب ہوں۔کیونکہ میں توبہ کرنیوالوں اورپاکیزہ بندوں کو پسند کرتا ہوں۔ اگروہ توبہ نہ کریں تو میں ہی ان کا طبیب ہوں۔ ان کو مصائب وآلام میں مبتلا کرتا ہوں تاکہ ان کو گناہوں سے پاک کردوں۔‘‘ذاکر کو حاصل ہونے والی معیت کسی دوسری چیز کے مشابہ نہیں ہوسکتی اوریہ محسن اورمتقی سے حاصل ہونیوالی معیت سے خاص ہے۔ یہ وہ معیت ہے جس کو الفاظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا ۔اس کو سمجھنا ذوق پر ہی منحصر ہے۔ 

٭اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ متقی ہے جس کی زبان ہمیشہ ذکر سے تررہے۔ کیونکہ وہ اس کے اوامرونواہی سے ڈرتا ہے اوراس کے ذکر کواپنا شعار بنالیتا ہے تو یہ تقویٰ اس کو جنت میں داخل کردیتا ہے اور جہنم سے نجات دیتا ہے ۔یہ اجر وثواب توا سے ملے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذکر قرب الہٰی کا باعث بھی ہے اور مومن کایہی مقصود ہے۔ 

(علامہ ابن القیم الجوزیہ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں