فضائلِ ذکر(۲)
٭اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ ذاکر کو اللہ تعالیٰ یاد کرتاہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘اور اگر ذکر کا یہی ایک فائدہ ہوتا تو یہ عظمت وشرف کے اعتبار سے خالی نہ ہوتا۔
حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے :’’جو میرا ذکر مجلس میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر افضل گروہ (ملائکہ) میں کرتا ہوں‘‘۔
٭اور یہ حیات قلب کا باعث ہے ۔میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دل کے لئے ذکر ایسے ہے جیسے مچھلی کے لئے پانی اور مچھلی جب پانی سے جدا ہوتو اس کی کیا حالت ہوگی ۔
٭ دل کے زنگ کو دور کرتا ہے ۔ہر چیز کو زنگ لگتا ہے اور دل کا زنگ غفلت اور خواہشات نفسانیہ ہیں۔ ذکر ،توبہ اوراستغفار سے زنگ دور ہوجاتا ہے۔ ٭خطا کو ختم کردیتا ہے کیونکہ نیکیاں خطائوں کو ختم کردیتی ہیں اورذکر بہت بڑی نیکی ہے۔ ٭یہ ذکر بندہ ورب کے درمیان اجنبیت کو زائل کردیتا ہے کیونکہ بندہ اوررب کے درمیان اجنبیت صرف ذکر سے ہی دور ہوسکتی ہے۔٭جب بندہ خوشحالی کے دنوں میں رب قدوس کو یادرکھتا ہے تو تنگی کے ایام میں اللہ تعالیٰ اس کی خبر گیری کرتا ہے۔ایک اثر روایت کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اورذکر کرنے والے بندے کو جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے یا بارگاہ الہٰی میں کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو فرشتے کہتے ہیں:’’اے پروردگار!یہ تو معروف بندے کی جانی پہچانی آواز ہے‘‘ جب غافل اورذکر اللہ سے اعراض کرنے والا دعاکرتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں :’’یہ کسی اجنبی بندے کی نامانوس آواز ہے ‘‘۔٭اللہ کے عذاب سے نجات دلاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے’’ ذکر اللہ سے بڑھ کر عذاب الہٰی سے نجات دلانے والا کوئی عمل نہیں‘‘۔ ٭یہ ذکر نزول رحمت اورسکون واطمینان کا سبب ہے ذاکر کو اللہ کے فرشتے گھیر لیتے ہیں جیسا کہ اس مفہوم کی حدیث گزرچکی ہے ٭زبان کو غیبت، چغل خوری ، جھوٹ ،فحش ااورباطل کلام سے محفوظ کرنے کا سبب ہے۔کیونکہ بندہ کلام اور گفتگو کے بغیر نہیں رہ سکتا اگر اللہ کا ذکر نہیں کریگا تو ا سکی زبان ان لغویات میں مشغول ہوجائے گی۔زبان کو ان سے محفوظ کرنے کا طریقہ صرف اللہ کاذکر ہے ۔یہ آزمودہ چیز ہے کہ جس نے اپنی زبان کو اللہ کے ذکر کا عادی کرلیا اس نے اس کو باطل اورلغو کلام سے محفوظ کرلیا اورجس کی زبان اللہ کے ذکر میں مشغول نہ ہوئی وہ باطل اورلغو کلام میں واقع ہوگئی۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ (علامہ ابن القیم الجوزیہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں