اتوار، 20 مارچ، 2022

تقویٰ کا مفہوم

 

تقویٰ کا مفہوم

قرآن مقدس کی رو سے عبادات کی غرض وغایت تقویٰ کا حصول ہے۔امام غزالی رقم طراز ہیں ،تقویٰ ایک نہایت ہی عظیم شے ہے اس کا حصول بہت ضروری ہے اوراس کی معرفت حاصل کیے بغیر چارہ کار نہیں،لیکن ہم جانتے ہیں کہ جس قدر کوئی کام اعلیٰ وارفع ہوتا ہے اور افادیت کا حامل ہوتا ہے اسی قدر اس کی تحصیل دشوار ہوتی ہے ، اتنی ہی زیادہ مشقت اور کوشش کا تقاضا کرتی ہے اور اتنی ہی زیادہ بلند ہمتی چاہتی ہے۔لہٰذا جس طرح یہ تقویٰ ایک اعلیٰ و نفیس چیز ہے اسی طرح اس کو حاصل کرنے کیلئے عظیم مجاہدے اور شدید جدوجہد کی ضرورت ہے ۔نیز اسکے حقوق وآداب کی نگہداشت کی بھی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ درجات مجاہدے کیمطابق عطا ہوتے  ہیں جس درجے کی کوشش کی جاتی ہے اسی درجے کا انعام اورثمرہ ملتا ہے۔اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں :۔’’جن لوگوں نے ہم تک پہنچنے کیلئے پوری کوشش کی ہم انہیں ضرور باضرور اپنی طرف آنیوالے راستوں کی رہنمائی کریں گے اور بیشک اللہ نیک لوگوں کیساتھ ہے ‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ رئوف ورحیم ہے ۔ہر مشکل کوآسان کرنا اس کی دست قدرت میں ہے ۔تقویٰ کی اہمیت اور حقیقت کو نہایت غور وفکر سے سنو تاکہ اس کی حقیقت سے واقف ہونے کے بعد اس کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوسکواور اس کی حقیقت کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے رب قدیر سے مدد طلب کروکیونکہ اصل چیز اللہ ہی کی مدد ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہر ایک کو اپنے فضل وکرم سے ہدایت کی توفیق عطا کرتا ہے۔
کسی نے تقویٰ کا یہ معنی کیا ہے’’تنزیہ القلب عن ذنب لم یسبق عنک مثلہ‘‘۔’’یعنی اس گناہ کو دل سے بچانا جس کی مثل تجھ سے پہلے صادر نہیں ہوا‘‘۔تاکہ تمہارے اندر ترک معاصی کے عزم سے ہر قسم کے گناہ سے حفاظت پیدا ہوجائے ۔تقویٰ’’ وقایۃ‘‘سے ہے۔جس کا معنی ہے بچائو اور حفاظت کا ذریعہ ۔جب بندہ ترک معاصی کا پختہ عزم کرلیتا ہے اوردل کو گناہوں کے ترک پر مضبوط کرلیتا ہے تو ایسے عزم اور ارادے والے شخص کو متقی کہتے ہیں اور اس عزم ومضبوطی کو تقویٰ کہتے ہیں۔قرآن کریم میں تقویٰ کا اطلاق تین معنی میں ہوا ہے ۔۱:۔خوف وہیبت وخداوندی ۔ ۲:۔طاعت وعبادت ۔۳:۔ تنزیہ القلب من الذنوب یعنی دل کو گناہوں سے دور رکھنا ۔
تقویٰ کاحقیقی معنی یہی تیسر ا معنی ہے ۔پہلے دونوں مجازی ہیں۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اوراسکے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اوراللہ سے ڈرتے ہیں اور دل کو گناہوں سے دور رکھتے ہیں ایسے لوگ ہی کامیاب و فائز المرام ہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں