منگل، 22 مارچ، 2022

کامل متقی

 

کامل متقی

وہ چیزیں جن سے دین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے دوطرح کی ہیں۔(۱)حرام اورمعصیت (۲)حلال مگر ضرورت سے زائد،کیونکہ ضرورت سے زیادہ حلال اشیاء میں مشغولیت اور انہماک بھی رفتہ رفتہ گناہ اور حرام میں مبتلا ہونے کا باعث بن جاتا ہے۔وہ اس طرح کہ ضرورت سے زیادہ حلال اشیاء کے استعمال سے اوران کی عادت ڈالنے سے نفس کی حرص ،اسکی سرکشی اور شہوات زور پکڑتی ہے اور بندہ (بالآخر)گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے جو شخص اپنے دین کو مکمل طور پر محفوظ رکھنا چاہتا ہواس کیلئے ضروری ہے کہ وہ حرام سے بھی اجتناب کرے اورحلال کے اسراف سے بھی پرہیز کرے تاکہ وہ اس اسراف کے ذریعے سے حرام تک نہ پہنچ جائے ۔ اس امر کو جناب رسالت مآب ﷺ نے اس ارشادمبارک میں بیان فرمایا ہے:’’(متقی)فضول حلال سے بھی پرہیز کرتے ہیں تاکہ حرام میں نہ پڑجائیں‘‘۔ گویا کہ تقویٰ کی جامع ترین تعریف یہ ہوئی کہ ’’دین میں ہر نقصان دہ چیز سے اجتناب اور پرہیز کرنا ‘‘۔ علمِ سرّ کے اعتبار سے تقویٰ کی ژ حقیقت یہ ہے کہ ہر اس برائی سے دل کو دور رکھنا جس کی مثل بندے نے پہلے برائی نہ کی ہوتاکہ گناہوں سے دور رہنے کا عزم ،ان سے حفاظت کا ذریعہ بن جائے ۔

یاد رکھو شر دوقسم کا ہے : (۱)شرِ اصلی،اور یہ وہ ہے جس سے شریعت نے صراحتہً منع کیا ہو،جیسے گناہ اور معاصی۔ (۲)شرِ غیر اصلی ،اس شر سے مراد وہ ہے جس سے شریعت نے تادیباً روکا ہواو روہ فضول اور زاہد از ضرورت حلال ہے۔ جیسے وہ عام مباح چیزیں جن کے استعمال سے نفسانی خواہشات کو تقویت ملتی ہے۔

شرِ اصلی سے بچنا فرض ہے نہ بچنے کی صورت میں انسان مستحق عذاب ہوجاتا ہے۔شرِ غیراصلی سے پرہیز  کرنا بہتر اور مستحب ہے۔اجتناب نہ کرنے پر بندے کو میدانِ محشر میں حساب کیلئے روکا جائیگااور اس سے ہر شے کا حساب لیا جائیگااور دنیا میں بلاضرورت امور کے ارتکاب پر اسے ندامت اور عار دلائی جائیگی۔شرِ اصلی سے بچنے والے کا تقویٰ کم درجے کا ہے۔اور یہ طاعت پر استقامت کا درجہ ہے اورشرِ غیر اصلی سے بچنے والوں کا درجہ زیادہ بلند ہے کیونکہ یہ زائد از ضرورت اورمباح کا ترک ہے اور جو شخص دونوں قسم کا تقویٰ اپنے اند ر پیدا کرلے وہ کامل متقی ہے اوریہی وہ شخص ہے جس نے تقویٰ کے پورے حقو ق ملحوظ خاطر رکھے۔ایسا شخص ہی تقویٰ کے پورے فوائد حاصل کرتا ہے اسی کانام کامل ورع ہے جس پر دین کے کمال کا درومدار ہے۔بارگاہِ الہٰی میں حاضری کیلئے جن آداب کی ضرورت ہے ،وہ اسی تقویٰ سے حاصل ہوتے ہیں۔(منہاج العابدین: امام محمد غزالیؒ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں