منگل، 31 مئی، 2022

شکر کی حقیقت

 

شکر کی حقیقت

سید سلمان ندوی تحریر فرماتے ہیں؛شکر ایمان کی جڑ ‘ دین کی اصل اوراطاعت الٰہی کی بنیاد ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی بنا پر بندہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی قدروعظمت اورمحبت پیدا ہونی چاہیے اوراسی قدروعظمت اورمحبت کے قولی وعملی اظہار کا نام شکر ہے‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اگر تم شکر کرو‘ اورایمان لائو تو خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اوراللہ تو قدرپہچاننے والا اورعلم رکھنے والا ہے‘‘۔(النسائ)

یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے صرف دوباتیں چاہتا ہے‘ شکر اورایمان ‘ ایمان کی حقیقت تو معلوم ہے اب رہا شکر تو شریعت مین جو کچھ ہے وہ شکر کے دائر ے میں داخل ہے‘ ساری عبادتیں شکر ہیں‘بندوں کے ساتھ حسن وسلوک اورنیک برتائو کی حقیقت بھی شکر ہی ہے‘ دولت مند اگر اپنی دولت کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں دیتا ہے تو یہ دولت کا شکر ہے ‘ صاحب علم اپنے علم سے بندگان الٰہی کو فائدہ پہنچاتا ہے تو علم کی نعمت کا شکر ہے ‘ طاقتور کمزوروں کی امداد اوراعانت کرتا ہے تو یہ بھی قوت وطاقت کی نعمت کا شکرانہ ہے‘ الغرض شریعت کی اکثر باتیں اسی ایک شکر کی تفصیلیں ہیں ‘ اسی لیے شیطان نے جب خدا سے یہ کہنا چاہا کہ تیرے اکثر بندے تیرے حکموں کے نافرمان ہوں گے تو یہ کہا :’’تو ان میں سے اکثر کو شکرکرنے والا نہ پائے گا‘‘۔(اعراف)

خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو جزادیتے ہوئے اسی لفظ سے یاد فرمایا:

’’اورہم شکر کرنے والے کو جزادیں گے‘‘۔(آل عمران)

پوری شریعت کا حکم اللہ تعالیٰ ان لفظوں میں دیتا ہے :

’’بلکہ اللہ کی بندگی کر‘ اورشکر گزاروں میں سے ہو‘‘۔(زمر)

شکر کے اس جذبہ کو ہم کبھی زبان سے اداکرتے ہیں کبھی اپنے ہاتھ پائوں سے پورا کرتے ہیں کبھی اس کا بدلہ دے کر اس قرض کو اتارتے ہیں‘ زبان سے اس فرض کے اداکرنے کا نام اللہ تعالیٰ کے تعلق سے قرآن کی اصطلاح میں حمد ہے جس کے مطالبہ سے پورا قرآن بھراہوا ہے اوریہی سبب ہے کہ حمد الٰہی میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ملہ کا ذکر ہوتا ہے جو ان احسانوں اورنعمتوں کی پہلی اوراصلی محرک ہیں‘ اوراسی لیے یہ کہنا چاہیے کہ جس طرح سارے قرآن کا نچوڑ سورئہ فاتحہ ہے ‘ سورئہ فاتحہ کا نچوڑ خدا کی حمد ہے ‘ اسی بناپر قرآن پاک کا آغاز سورئہ فاتحہ سے ‘ اورسورئہ فاتحہ کا آغاز الحمد سے ہے:’’سارے جہاں کے پروردگار کی حمد ہے‘‘۔(فاتحہ :۱)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں