جمعہ، 23 جولائی، 2021

ذبحِ عظیم

 

ذبحِ عظیم

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے خلیل (دوست) ہیں۔ انکی ساری زندگی تسلیم و رضا اور اللہ رب العزت کی ذات پر اعتماد و توکل سے عبادت ہے‘ انھیں بہت سی آزمائشوں سے گزرنا پڑا، لیکن وہ ہر دفعہ ہر امتحان سے سرخرو اور کامیاب ہوکر نکلے۔ آپ نے جس ماحول اور معاشرے میں آنکھ کھولی وہ کفر اور شرک کی آلودگیوں سے بھرا ہوا تھا لیکن آپ نے بڑی جرأت اور استقامت سے آوازِ حق بلند کی۔ اس مملکت کا بادشاہ نمرود تھا، جسے خود بھی خدائی کا دعویٰ تھا لیکن حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اظہار حق فرمایا‘ آپ کو آگ میں ڈال کر زندہ جلا دینے کا حکم ہوا، لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ اللہ نے اس آگ کو گلزار بنادیا اور آپ سرخرو ہوئے۔ اللہ کی خاطر آپ نے اپنے وطن کو خیرآباد کہہ دیا۔ مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے شام میں آباد ہوئے، یہاں اللہ نے آپ کو بڑھاپے کے عالم میں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد حکم ہوا کہ اپنی اہلیہ (حضرت) ہاجرہ اور اپنے شیرخوار فرزند (حضرت اسمٰعیل علیہ السلام) کو عرب کے لق ودق اور بے آباد صحرا میں چھوڑ آئو۔ آپ نے اور آپ کے مقدس گھرانے نے اس حکم پر عمل کرکے تسلیم ورضا کی ایک عظیم مثال قائم کردی۔ ان دونوں امتحانوں سے گزرے توایک بہت ہی بڑے امتحان کا مرحلہ درپیش تھا۔ حکم ہوتا ہے کہ اپنی اس متاع عزیز (فرزند) کو اللہ کے راستے میں قربان کردو۔ حضرت ابر اہیم علیہ السلام نے اس حکم کے سامنے بھی سر تسلیم خم کیا۔ آپ کے عظیم المرتبت فرزند نے جب یہ حکم سنا تو آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے میرے والدِ گرامی، آپ کو جو حکم ہوا ہے، اس پر عمل کر گزریے‘ ان شاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ اور یہ صرف زبانی کلامی دعویٰ نہیں تھا بلکہ باپ نے اپنے بیٹے کی مشکیں کس دیں۔ اسے پیشانی کے بل زمین پرلٹا دیا اور ایک نہایت ہی تیز دھار چھری کو اسکی گردن پر پھیر دیا لیکن اللہ کی قدرت کا ایک عظیم الشان کر شمہ ظہور پذیر ہوا ، باوجود پوری طاقت صرف کرنے کے چھری کام نہیں کررہی۔ اللہ کے خلیل حیران ہیں کہ ایسے میں اللہ کی طرف سے بشارت آگئی۔ ’’اے ابراہیم (بس اپنا ہاتھ روک لے) تو نے خواب کو سچ کردکھایا۔ ہم محسینین کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں‘‘۔ (القرآن)۔ قریب ہی اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک مینڈھا کھڑا تھا حکم ہوا کہ اس کو اللہ کے راستے میں ذبح کردو۔ یہ عظیم قربانی اللہ کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوئی کہ اس نے اسے قیامت تک کیلئے ملّت ابر اہیمی کا ایک شعار قرار دیدیا۔ ہر سال ذی الحجہ کی دس تاریخ کو دنیائے اسلام اسکی یاد کو ازسرنو تازہ کرتی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں