عظیم شخصیات (2)
وادیٔ کربلا آج اس لیے سر بلند نہیں کہ اس کے دامن میں یزیدی لشکر اترا تھا بلکہ اسے یہ عظمت اس لیے ملی کہ اس کے سینے پر نواسہ رسولﷺ کا خون گرا تھا۔ خاکِ نجف اس لیے سرمہ اہل نظرنہیں کہ وہ کسی شہنشاہ معلی القاب اور عالی جان کی جنم کی جگہ ہے بلکہ اس کا سارا شرف سیدنا علی المرتضی کا مدفن ہونے کی وجہ سے ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خلیفہ وقت نے اختلافات کی وجہ سے کوڑے مارے۔ آپ کو بازاروں میں رسوا کیا گیا۔ کئی سو سال گزرنے کے باوجود امام مالک کا نام آج بھی زندہ ہے مگر خلیفہ وقت کا بخت ساون کی بدلی کی طرح کچھ ہی دیر میں تحلیل ہو گیا۔ خلیفہ کی قبر کا نشان بھی موجود نہیں مگر امام جنت البقیع میں دفن ہیں۔
امام اعظم کا جنازہ جیل سے اٹھایا گیا جیل کے چند لوگوں کے علاوہ کوئی بھی جنازے میں شریک نہیں تھا خلیفہ نے سمجھا کہ اس سے زیادہ بے بسی کی موت کیا ہو سکتی ہے لیکن آج حکمران بھولی بسری داستان بن گیا ہے اور امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ماننے والے کروڑوں انسان آج بھی دنیا میں موجود ہیں اور ان کی فقہ دنیا میں مانی اور پڑھائی جاتی ہے۔
امام احمد بن حنبل بھی رعونیت اقتدار کا نشانہ بنے۔ چوک میں کھڑے کر کے کوڑے مارے گئے یہاں تک کہ ان کا ایک بازو اتر گیا لیکن جیسے ہی خلیفہ مسند سے اترا کچھ ہی عرصے میں لوگوں کے دلوں سے نکل گیا جبکہ امام احمد بن حنبل آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
سید احمد سرہندی کے دور کے شہنشاہ نے کہا کہ مجھے آپ جھک کر سلام کریں لیکن شہنشاہ کا رعب دبدبہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوا اور سر ہند کا فقیرمجدد الف ثانی بن گیا۔
لاہور میں داتا صاحب کا مزار ہے جہاں ہر وقت رونق لگی رہتی ہے۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ درود سلام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت ہر وقت ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس وہاں موجود اپنے دور کے بڑے بڑے لوگوں کے مزار ہیں جہاں سار ا دن رش ہونے کے باوجود کوئی بھی نہیں آتا۔ علامہ محمد اقبال کو بھی اتنی عزت کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے یا پھر پی ایچ ڈی کرنے سے نہیں ملی بلکہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کی عشق مصطفی ﷺ کو اپنے دلوں میں سمائے رکھا اور آج تک پوری دنیا ان کے گن گاتی ہے۔ جو دنیا کی رنگینیوں میں گم تھے ان کا نام بھی کوئی نہیں لیتا۔
امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خلیفہ وقت نے اختلافات کی وجہ سے کوڑے مارے۔ آپ کو بازاروں میں رسوا کیا گیا۔ کئی سو سال گزرنے کے باوجود امام مالک کا نام آج بھی زندہ ہے مگر خلیفہ وقت کا بخت ساون کی بدلی کی طرح کچھ ہی دیر میں تحلیل ہو گیا۔ خلیفہ کی قبر کا نشان بھی موجود نہیں مگر امام جنت البقیع میں دفن ہیں۔
امام اعظم کا جنازہ جیل سے اٹھایا گیا جیل کے چند لوگوں کے علاوہ کوئی بھی جنازے میں شریک نہیں تھا خلیفہ نے سمجھا کہ اس سے زیادہ بے بسی کی موت کیا ہو سکتی ہے لیکن آج حکمران بھولی بسری داستان بن گیا ہے اور امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ماننے والے کروڑوں انسان آج بھی دنیا میں موجود ہیں اور ان کی فقہ دنیا میں مانی اور پڑھائی جاتی ہے۔
امام احمد بن حنبل بھی رعونیت اقتدار کا نشانہ بنے۔ چوک میں کھڑے کر کے کوڑے مارے گئے یہاں تک کہ ان کا ایک بازو اتر گیا لیکن جیسے ہی خلیفہ مسند سے اترا کچھ ہی عرصے میں لوگوں کے دلوں سے نکل گیا جبکہ امام احمد بن حنبل آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
سید احمد سرہندی کے دور کے شہنشاہ نے کہا کہ مجھے آپ جھک کر سلام کریں لیکن شہنشاہ کا رعب دبدبہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوا اور سر ہند کا فقیرمجدد الف ثانی بن گیا۔
لاہور میں داتا صاحب کا مزار ہے جہاں ہر وقت رونق لگی رہتی ہے۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ درود سلام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت ہر وقت ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس وہاں موجود اپنے دور کے بڑے بڑے لوگوں کے مزار ہیں جہاں سار ا دن رش ہونے کے باوجود کوئی بھی نہیں آتا۔ علامہ محمد اقبال کو بھی اتنی عزت کسی بڑے عہدے پر فائز ہونے یا پھر پی ایچ ڈی کرنے سے نہیں ملی بلکہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کی عشق مصطفی ﷺ کو اپنے دلوں میں سمائے رکھا اور آج تک پوری دنیا ان کے گن گاتی ہے۔ جو دنیا کی رنگینیوں میں گم تھے ان کا نام بھی کوئی نہیں لیتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں