جمعرات، 13 جولائی، 2023

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۲)

 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۲) 

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خا ص اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو مرتبہ ہجرت فرمائی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کہ طرف۔اور یہ بھی اعزاز اور مرتبہ بڑے کمال اور عظمت والا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کو دو مرتبہ بیعت کے شرف سے نوازا ایک مرتبہ بیعت اسلام جو سب کو نصیب ہوئی اوردوسری بیعت رضوان جب حدیبیہ کے مقام پر نبی کریم ﷺ نے آپ کو سفیر بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا تو یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفیر بن کر کفار مکہ مکرمہ سے بات چیت کرنے پہنچے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے مکہ مکرمہ ہے، خانہ کعبہ سامنے ہے ، مطاف بھی۔ حجر اسود بھی ، مقام ابراہیم بھی اور صفا مروہ کی بھی قربت ہے۔ آپ سے کہا جاتا ہے کہ رسول پاک ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ طواف کرنا چاہیں ، نوافل ادا کرنا چاہیں تو آپ کو بیت اللہ میں داخلے کی اجازت ہے۔ آپ نے بڑا ایمان افروز جواب دیا کہ بے شک یہ عمل بڑا عالیشان ہے مگر جب تک میرے آقا محمد عربی ﷺ زیارت کعبہ نہ کریں میں ہر گز طواف کعبہ نہیں کروں گا۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے قصاص کے لیے بیعت لی جب سب سے بیعت لے چکے تو آپﷺ نے اپنے دست مبارک کو بلند کیا کہ میرا ایک ہاتھ میرا اور میرا دوسرا ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ ہے۔ میں اپنے ہاتھ کو عثمان کے ہاتھ کی بیعت کرتا ہوں۔ارشاد باری تعالی ہے : محبوب جو تیرا ہاتھ ہے وہ میرا ہاتھ ہے۔دور شباب سے ہی تجارت اور کاروبار میں دلچسپی لی۔ اپنی فطری صداقت ، دیانت اور نیک سیرت کے اعتبار سے متمول تاجر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مال کا زیادہ تر حصہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور دیگر ضروریات دین پر صرف کرتے تھے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی جامع القرآن بھی ہیں اور شہید قرآن بھی۔ جب باغیوں نے حملہ کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے اور آپ کے خون کے قطرے سورة البقرہ کی آیت مبارکہ پر گرے۔ گویا کہ آپ کی شہادت کی گواہی قرآن مجید بھی دے گا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم شہادت 18ذوالحج ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ سالہ دور خلافت میں اہل اسلام نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ آپ کے دور ہی میں کسریٰ کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور آرمینہ فتح ہوا ور اندلس پر حملوں کا آغاز ہوا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں