محراب و منبرکے وارث
محراب لفظ ’’حرب ‘‘ سے نکلا ہے جس کا معنی جنگ کے ہیں ۔ عربوں میں جنگوں کے دوران ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی جہاں سالار کھڑے ہو کر سپاہیوں کو ہدایات دیتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے ۔ جب طلوع اسلام ہوا تو اسلام نے اس لفظ کو جنگ سے اٹھا کر مسجد میں لا رکھا اور مسجد میں محراب کو مستقل جگہ دے دی گئی ۔پھر اس مقام پر سالار جنگ کی جگہ خطیب مسجد یا امام مسجد کو کھڑا کر دیا گیا تا کہ وہ باطل قوتوں اور شیطانی حملوں کے خلاف اپنے سننے والوں کو آگاہ کرتا رہے ۔ اسلام میں اس مقام کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ اسی مقام پر کھڑے ہو کر اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا درس دیتے رہے ۔ سیدنا صدیق اکبر اسی مقام پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کے اذہان کو سنوارتے رہے ۔اسی مقام کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سیدنا فاروق اعظم ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہم نے جا م شہادت نوش فرمایا ۔محراب کی اہمیت قرون اولی سے لیکر آج تک مستحکم ہے ۔ ہر جمعہ کو محراب ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں ہمارے خطیب کھڑے ہو کر نفس و شیطان کی فریب کاریوں سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہمارے ائمہ مساجد کھڑے ہوکر ہر روز اہل ایمان کو اللہ کے سامنے سر جھکانے کی تلقین کرتے ہیں اور اس فریضہ کو ادا کرنے کی امامت کرتے ہیں ۔
ائمہ مساجد اور خطیب حضور نبی کریم ﷺ کے مقرر کردہ وارثان محراب و منبر ہیں ۔یہ اتنا بڑا مقام ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
آج ہم پاکستان اور دنیا بھر میں لاکھوں مساجد میں کھڑے ائمہ کرام کے فرائض اور ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ آج یہ لوگ بے سرو سامانی کے با وجود امت کے ان افراد کی راہنمائی اور امامت کرتے ہیں جو مادی طور خود توخوشحال ہیں مگر ان کا سپہ سالار تنگ دست ہے ۔ آج کا یہ سپہ سالار سپاہیوں اور نمازیوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ وہ اپنے مقتدیوں کے چندوں کے سہارے زندہ ہے ۔ وہ اپنی معیشت کے لحاظ سے ان نمازیوں کے دست کرم کا محتاج ہے جو اس کے حکم پر برائیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود ائمہ کرام کے حوصلہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو محراب و منبر کی شان کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ہم اپنے خطبائے مساجد کو سلام پیش کرتے ہیں جو آج اس پُر فتن دور میں مساجد کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ان ائمہ مساجدکی ہمت کو داد دیتے ہیں جو کم آمدنی میں قوت حیدری کا مظاہر ہ کرتے ہیں ۔ ہم ان بے سرو سامان علماء کرام کی قدر کرتے ہیں جو ان طوفانوں میں بھی اللہ کے گھروں کو روشن رکھے ہوئے ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں