فرامین مصطفی ﷺ اور شان صدیقؓ
امیر المومنین افضل البشر بعد الانبیاء حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ بہت زیادہ شان و عظمت کے مالک ہیں۔حضور نبی کریم ﷺنے خود آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے شان بیان فرمائی۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر میری امت کے ایمان کو ابو بکر صدیقﷺ کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو ابو بکر صدیقؓ ا ایمان بھاری ہو گا۔(بہیقی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت میں سے سب سے پہلے ابو بکر صدیق ؓجنت میں داخل ہوں گے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسا کوئی نبی نہیں ہوا ہے جس کے دو وزیر آسمانوں اور دو وزیر زمین پر نہ ہو ں۔ لہٰذا آسمانوں پر میرے دو وزیر حضرت جبرائیل علیہ السلام اور حضرت میکائیل علیہ السلام ہیں اور زمین پر ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ مسجد میں داخل ہوئے آپ ؐ کے دائیں اور بائیں جانب حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہما تھے۔ آپ ؐ نے ان دونو ں کا ہاتھ پکڑے ہوئے ارشاد فرمایا ہم قیامت کے دن بھی اسی طرح اٹھیں گے۔ ( ترمذی )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : میرے اوپر کسی کا احسان باقی نہیں ہے میں نے سب کا بدلہ چکا دیا ہے۔ البتہ ابو بکر صدیق ؓ کا احسان اب بھی میرے ذمہ باقی ہے جس کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالی عطا فرمائے گا۔ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابو بکر صدیق ؓکے مال نے نفع دیا ہے۔(ترمذی)
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے حضور ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی وہ ابو بکر صدیقؓ ہیں۔
محمد بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ میں نے جسے بھی اسلام کی دعوت دی ا س نے کوئی نہ کوئی تردد ضرور پیش کیا ایک ابو بکر ہیں جنہوں نے بغیر تعامل و تردد کے اسلام قبول کیا۔ ( بخاری )۔
حضرت سیدنا عمرفاروقؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے لشکر کی تیاری کے لیے اپنا آدھا سامان بطور صدقہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ جبکہ ابو بکر صدیق ؓ نے اپنا سارا مال حضور نبی کریم ﷺکے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ آپؐ نے پوچھا اے ابو بکر ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کے آئے ہو ابو بکر صدیق ؓنے عرض کیا ان کے لیے اللہ تعالی اور اس کا رسول کافی ہے۔ (ترمذی)۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں