ملازمین کے ساتھ حسن سلوک
انسان جب اپنے ہم مرتبہ لوگوں سے بات چیت کرتا ہے تو اخلاقی قدروں کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور جب اپنے ماتحت لوگوں سے معاملہ کرتا ہے تو ان کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے اور تمام اخلاقی قدروں کو پامال کر دیتا ہے۔ اور اس کی عزتِ نفس کا بھی خیال نہیں رکھتا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا۔اور اپنے سے بڑے اور چھوٹے سب کے ساتھ ایک جیسے معاملات رکھنے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے غلام سے کسی بات پر ناراض ہو گیا اور اسے درے سے مارنے لگا۔ اتنے میں میرے پیچھے سے آواز آئی۔ اے ابو مسعود جان لو ! مگر میں شدید غصے کی وجہ سے آواز پہچان نہ سکا جب آواز دینے والا میرے قریب آ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ فرما رہے تھے۔ اے ابو مسعود ! جان لو تمہیں اس غلام پر قابو حاصل ہے اس سے زیادہ قابو اللہ تعالی کو تمہارے اوپر حاصل ہے۔
یہ سن کر میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا اور میں نے کہا کہ میں کبھی بھی اس غلام کو نہیں ماروں گا۔ میں اس غلام کو اللہ کے لیے آزاد کر تا ہوں۔ یہ سن کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمہیں آگ چھو لیتی۔ ( جامع الاصول)۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہم ملازم کو ایک دن میں کتنی بار معاف کر دیا کریں۔ آپ خاموش رہے اس نے دوسری مرتبہ پوچھا آپ خامو ش رہے۔ اس نے پھر یہ ہی سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا اسے ہر روز ستر مرتبہ معاف کر دیا کرو۔ ( ابی داﺅ د )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے متعلق ارشاد فرمایا : وہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے۔ تو جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو اسے چاہیے کہ جو خود کھاتا ہے اسے بھی وہ ہی کھلائے جو خود پہنتا ہے اس کو بھی پہنائے۔ اور اس سے اس کی طاقت سے زیادہ کوئی کام نہ کروائے۔ اگر اسے کوئی ایسا کام کہہ دے تو خود بھی اس کی مدد کرے۔ آخری ایام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے ساتھ ماتحت لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت آپ کا وصال ہوا تو آپ آخری دم تک یہی فرما رہے تھے اے لوگو ! نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا ( ابن ماجہ )۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں