پیر، 26 اپریل، 2021

روحِ صیام(۱)

 

روحِ صیام(۱)

امام محمد غزالی تحریر فرماتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے روزے کی روح یہ ہے کہ وہ اپنے اعضاء کو صرف کھانے پینے اور عمل زوجیت سے بھی مجتنب نہیں کرتے بلکہ اس کے علاوہ بھی تمام ناشائستہ امور سے محفوظ رکھتے ہیں (وہ روزہ جو اللہ رب العز ت کی بارگاہ   میں تقرب کا سبب بنتا ہے)اس روزے کی تکمیل چھ چیزوں سے ہوتی ہے۔٭آنکھ کو ہر اس چیز سے بچائے ،جو غیر اللہ کی طرف رغبت دلانے والی ہو،بالخصوص ایسی چیزیں جو شہوت انگیز ہوں۔ 

نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے ’’نظر شیطان ،اس پر اللہ کی لعنت ہو ،کہ زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے اور جو کوئی خوف الٰہی سے اس سے دور رہتا ہے اسے وہ ایمان عطا کیا جاتا ہے جس کی حلاوت وہ اپنے دل محسوس کرتا ہے‘‘ ۔(مستدرک)

٭زبان کو بہودہ گوئی سے محفوظ رکھے اورایسی باتوں میں لگائے ، جو اسے مبتذل باتوں بچاسکیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ذکر الٰہی اورتلاوت قرآن میں مشغول رہے یا پھر خاموش ہی رہے کہ یہ یا وہ گوئی سے تو کہیں بہتر ہے۔ بے کار قسم کے مناظروں میں الجھنا اور بحث وتکرار میں پڑنا بجائے خود نقصان دہ امر ہے ۔حضرت بشر بن حارث نقل کرتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ غیبت روزے کو توڑ دیتی ہے ۔حضرت لیث، حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ دوباتیں روزے کو توڑ دیتی ہیں ،غیبت اور چغلی۔نبی کریم ﷺکا ارشادہے ’’بے شک روزہ ڈھال ہے ،پس جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو نہ وہ بے حیائی کی بات کرے اور نہ جہالت کی ،اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالی گلوچ کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں ،میں روزہ دار ہوں ۔(بخاری)ایک حدیث شریف میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں دو عورتوں نے روزہ رکھا لیکن ایسا ہوا کہ انہیں اس قدر بھوک اورپیاس لگی کہ جان کا خطرہ پیدا ہوگیا ،قریب تھا کہ وہ اپنے روزے کو ضائع کر بیٹھتیں۔ انھوں نے کسی کو رسول کریم ﷺکی خدمت میں بھیج کر روزہ توڑنے کی اجازت طلب کی ،حضور نے ایک پیالہ ان کے پاس بھجوایا کہ اس میں قے کردیں ،دونوں کے حلق سے جمے ہوئے خون کے ٹکڑے برآمد ہوئے لوگوں کو اس پر بے حد تعجب ہوا تو آپ نے فرمایاکہ ان دونوں عورتوں نے اس چیز سے روزہ رکھا جسے اللہ نے حلال کہا تھا اور پھر اس چیز سے توڑ ڈالا جسے اس نے حرام قرار دیا تھا یعنی غیبت میں مشغول ہوگئیں اور جو کچھ انکے حلق سے باہر نکلا ہے دراصل ان لوگوں کا گوشت ہے جسے انھوں نے (روزے کی حالت میں) کھایا ہے یعنی دوسروں کی غیبت کی ہے۔(احیاء العلوم )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں