ہفتہ، 3 اپریل، 2021

قوم ثمود اور اس کا انجام(۲)

 

قوم ثمود اور اس کا انجام(۲)

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثمود توحید کے پیغام کو اور اس پیغام کی نافرمانی کی وجہ سے قوم عاد کے انجام کو بھولتے چلے گئے، نعمتوں کی فراوانی نے ان کے قلوب و اذہان پر غفلت کے قفل اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، خدائے احد ویکتا کی جگہ بت پرستی نے لے لی اور یہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو پوجنے لگے۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف مبعوث فرمایا۔حافظ حدیث حضرت امام بغویؒ نے آپ کا شجرہ نسب اس طرح بیان کیا ہے:۔صالح بن عبید بن آسف بن ماشح بن عبید بن عاد بن ثمود،انکے زمانے کا حتمی تعین تونہیں ہو سکالیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت سے بہت پہلے کے پیغمبر ہیں ۔قرآن پاک میں آٹھ مقامات پر ان کا ذکر خیر کیا گیا ہے۔جبکہ قوم ثمود اور اسکے احوال کا تذکرہ ۹ مختلف سورتوں میں موجود ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کے ایک بر گزیدہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ،اور اپنی صلا حیتوں کے اعتبار سے معاشرے میں نمایاں مقام کے حامل تھے ، حضرت صالح علیہ السلام نے نہایت خلوص اورجانفشانی سے اپنی قوم کو درس ہدایت دینا شروع کر دیا،اور انھیں یہ احساس دلایا کہ نعمتوں کی فراوانی نے تمہیں کج رو بنا دیا ہے اور تمہاری آنکھوں پرغفلت کے پردے پڑ گئے ہیں،تمہا رے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے یہ پتھرکے بت تمہارے کارساز نہیں بلکہ اللہ وحدہٗ لا شریک ہی تمہاری تمام ضرورتوں کا کفیل ہے،ایک مختصرسی جماعت نے آپکی اس دعوت پر کا ن دھرا،اُسکی معنویت پر دھیان دیااور اسے سمجھنے کے بعد اس پر ایمان لے آئے۔لیکن قوم کے سردار ان کے بڑے بڑے سرمایا دار اور تونگر اپنی باطل پرستی پر اڑے رہے ۔انھوں نے اللہ کریم کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی بجائے کفران نعمت کو اپنا شعار بنا لیا ، دعوت توحیدپر ایمان لانے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے اورکٹ حجتی کرتے ہوئے کہتے،اے صالح !اگرہم باطل پرست ہوتے ، اورمذہب کے صحیح راستے پر نہ ہوتے تو آج ہمیں یہ دہن دولت ،سیم وزرکی یہ بہتات ،کھیتوں کی یہ ہریالی ،سر سبزوشاداب خوش منظر باغوں کی فراوانی ،پھلوں اور میوہ جات کی یہ کثرت شیریں اور خنک نہریں ،یہ پھلوں سے بھرے مرغزار اور بلند و بالا اور عالی شان محلات کی سکونت نصیب نہ ہوتی،تم ذرااپنی جماعت کی حالت زار کو دیکھوجو تنگ حال اور غربت زدہ ہیں ،بتائو کہ ہم اپنے دیوتائوں کو پیارے ہیں یاتم اپنے خدا کو عزیز ہو۔وہ یہ بھی کہتے ، اے صالح! ہمیں تو تم سے بڑی توقعات تھیں کہ تم اپنی قوم کی روایات کی پاسداری کرو گے اوراُسے مزید ترقی اور کامرانی سے ہمکنار کرو گے لیکن تم نے تو کوئی اورہی راستہ اختیار کرلیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں