منگل، 6 اپریل، 2021

قوم ثمود اور اس کا انجام(۶)

 

قوم ثمود اور اس کا انجام(۶)

آلِ ثمود جب واضع معجزات اورعذاب کے آثار وعلامات دیکھ کربھی تائب نہ ہوئے، توپھر آخر کار اللہ رب العزت کے عذاب نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا، آسمان سے ایک ہولناک چنگھاڑ سنائی دی، زمین پر خوفناک زلزلہ برپا ہوگیا، اس آواز سے انکے جگر پھٹ گئے اورپتے پانی ہوگئے، زلزلے نے انکے فلک بوس اورسنگلاخ محلات کو ایک پل میں ملیا میٹ کرکے رکھ دیا۔ اس عذاب کے دوران بھی اللہ قادروقیوم نے حضرت صالح  ؑاورانکے پیروکار وں کو محفوظ رکھا، جب ثمود تباہ وبرباد ہوگئے تو حضرت صالح اورانکے پیروکاروں نے سکونت کا کیا راستہ اختیار کیا اسکے بارے میں مؤرخین کی آراء میں اختلاف ہے، عام مؤرخین کی رائے یہ ہے کہ وہ انہی بستیوں میں آباد رہے، خازن کہتے ہیں ، وہ فلسطین کے علاقہ رملہ کے قریب آباد ہوئے، یہ جگہ سرسبزوشاداب بھی تھی اورحجر کے قریب بھی، دوسری رائے یہ ہے کہ وہ اپنے اصلی وطن حضر موت کی طرف لوٹ گئے، یہاں ایک مرقد کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قبر ہے، سید آلوسی کا کہنا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں تشریف لے آئے، وہاں مقیم رہے اوروہیں مدفون ہوئے ، ممکن ہے کہ ان کی قوم کے افراد مختلف اطراف وجوانب میں چلے گئے ہوں۔ 
غزوہ تبوک کے موقع حضور اکرم ﷺکا گزر آل ثمود کے علاقے سے ہوا، صحابہ کرام نے وہاں کے کنویں سے پانی بھرااورآٹاگوندکر روٹیاں تیار کرنے لگے، آپ کو اطلاع ہوئی توآپ نے پانی بہا دینے ، ہانڈیاں اوندھی کردینے اورآٹا پھینک دینے کا حکم دیا، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکی معیت میں حجر سے گزرے تو آپ نے فرمایا ’’جن لوگوں نے اپنی جان پر ظلم کیا، انکے گھروں کے پاس سے روئے بغیر نہ گزرنا ، کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آجائے۔پھر آپ نے اپنی اونٹنی کو تیزی سے ڈورایا اوراس مقام کو پیچھے چھوڑدیا۔(بخاری ، مسلم)
جابر بن عبداللہ ؓسے بیان ہے کہ آپ نے فرمایا نشانیوں کا سوال نہ کرنا کیونکہ صالح علیہ السلام کی قوم نے نشانیوں کا سوال کیا تھا، وہ اس راستہ سے آتے تھے اوراس راستہ سے لوٹتے تھے، انہوںنے اپنے رب کی حکم عدولی کی، انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں، وہ ایک دن پانی پیتی اورقوم ایک دن اس کا دودھ پیتی ، انہوں نے اسکی کونچیں کاٹ دیں تو ایک ہولناک آواز نے انھیں اپنی گرفت میں لے لیا، ایک شخص کے علاوہ سب ہلاک ہوگئے، وہ شخص ابورغال اس وقت حدود حرم میں تھا، جب حرم سے باہر آیا تو وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ (احمد ، مجمع الزوائد)
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم سفر طائف میں ایک قبر کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا یہ ابورغال کی قبر ہے، اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے ساتھ سونے کی ایک شاخ دفن ہے،تم اسے کھودو گے تو اسے پالوگے، لوگوں نے قبر کھود کر وہ شاخ نکال لی۔ (سنن ابودائود)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں